دانہ پانی — قسط نمبر ۷

گامو نے پیر ابراہیم کے ڈیرے پر جاکر صرف شکایت کا سوچا تھا۔ پر اُسے یہ اندازہ نہیں تھا کہ وہاں جاکر وہ رو پڑے گا۔ پیر ابراہیم موتیا کی حالت دیکھ کر چپ کے چپ ہی رہ گئے تھے۔
”کمی کمین ہیں ہم پر انسان ہیں پیر صاحب !آپ کی بیٹی اور نواسے نے یہ حال کیا ہے میری بیٹی کا۔” گامو نے روتے ہوئے اُن سے سارا قصّہ کھول کے رکھ دیا تھا۔
پیر ابراہیم کا دل لرز کررہ گیا تھا۔ آج تک ان کے ڈیرے پر کوئی اُن سے اُن کے خاندان کے کسی فرد کی شکایت لے کرنہیں آیا تھا ۔ اور اب آیا بھی تھا تو ان کی اکلوتی بیٹی تاجور کی شکایت کرنے ۔ اس کے بیٹے کے خلاف مقدمہ لے کر اور ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ جواب میں کیا کہیں۔ تاجور نے ان سے غلط بیانی کی تھی۔ لیکن اس غلط بیانی کے ساتھ اس نے جو کچھ گامو کے ساتھ کیا تھا وہ انہیں ہولا رہا تھا۔ یہ ایسا بدلہ، ایسا انتقام، ایسا غصّہ کہاں سے لے لیا تھا اُس سید زادی کی بیٹی نے جس کی ماں سے بڑا نرم دل کوئی تھا ہی نہیں۔
”آپ دُعا کریں ہمارے لئے کہ جنہوں نے ہم پر ظلم کیا وہ تباہ و برباد ہوں، اُن کی اگلی نسلیں ختم ہوجائیں۔ ہم بدلہ نہیں لے سکتے اُن سے، اللہ بدلہ لے!”
اللہ وسائی نے پیر ابراہیم سے کہا تھا اور پیر ابراہیم ایک لفظ بھی نہیں کہہ سکے تھے۔ وہ ظالموں کو پہچانتے تھے۔ وہ اُن کا خون تھا، اُن کی نسل سے تھے۔ اپنی نسل کو خود ختم ہوجانے کی بددُعا وہ کیسے دیتے؟ گامو جانتا تھا پھر بھی اصرار کررہا تھا وہ جیسے اُن کی ولائیت کو چیلنج کررہا ہو۔ اُن کے ڈیرے پر بیٹھے لوگوں کے سامنے اُس نے پیر ابراہیم کو عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کردیا تھا۔ اُنہیں کٹہرے میں کھڑا ہوکر انصاف کرنا تھا۔
ایک لمبی خاموشی کے بعد پیر ابراہیم اپنی جگہ سے اُٹھے تھے اور وہ موتیا کے سامنے گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھ گئے تھے۔ اپنے ہاتھ جوڑتے ہوئے انہوں نے موتیا سے کہا:
”میری بیٹی اور اُس کے خاندان کو بددعا نہ دینا موتیا۔” وہ موتیا کے سامنے گڑگڑائے تھے۔
وہاں بیٹھے اُن کے مرید ساکت تھے ۔ پیر ابراہیم کو اس حالت میں انہوں نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ سرجھکائے بیٹھی موتیا نے سر اُٹھا کر پیر ابراہیم کو دیکھا تھا اور دیکھتی ہی رہی تھی۔
پیر ابراہیم کے پاس ولایت عبادت اور ریاضت سے آئی تھی۔ سامنے بیٹھی ہوئی موتیا کے پاس وہ نہیں تھی۔ پیر ابراہیم پھر بھی اُس سے خوفزدہ تھے۔ وہ ٹوٹا ہوا دل تھا جسے سنبھالنے رب جاتا تھا اور پیر ابراہیم مظلوم کی آہ سے کیسے نہ ڈرتے۔
لوگ اُن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنے سے ڈرتے تھے۔ اور پیر ابراہیم کے لئے اس وقت موتیا کی آنکھوں میں دیکھنا مشکل ہوگیا تھا۔
گامو اور اللہ وسائی پیر ابراہیم کے بندھے ہوئے ہاتھ اور جھکاہوا سر دیکھتے رہے اور پھر بے حد شکست خوردہ انداز میں وہ موتیا کا ہاتھ پکڑ کر کھڑے ہوگئے تھے۔ اُن کے پاس مزید کہنے کوکچھ بھی نہیں تھا۔ یہ بھی نہیں کہ انہوں نے چوہدریوں کو معاف کیا۔ یہ بھی نہیں کہ اُنہیں پیر ابراہیم سے اب کوئی گلہ نہیں۔
پیر ابراہیم کے ڈیرے کے باہر اُس دن پہلی بار ماہ نور نے موتیا کو دیکھا تھا۔ وہ نئی دُلہن کی طرح سجی سنوری ملازمہ کے ساتھ ڈیرے کے برآمدے کی سیڑھیاں چڑھ رہی تھی اور موتیا اپنے ماں باپ کے ہاتھ پکڑے سیڑھیاں اُتر رہی تھی۔ سیڑھیاں اُترتے ہوئے اُس نے سراُٹھا کر ماہ نور کو دیکھا تھا اور جیسے اُس کی نظریں ماہ نور پر جم ہی گئی تھیں۔ ماہ نور کی نظریں بھی اُس سے اُلجھی تھیں۔ گامو اور اللہ وسائی نے ماہ نور کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھا تھا۔ وہ بس اپنی بیٹی کے ہاتھ تھامے احتیاط سے اُسے سیڑھیاں اُتارتے رہے۔ ماہ نور نے سیڑھیاں چڑھنے سے پہلے ایک نظر پلٹ کر دور جاتی موتیا کو دیکھا تھا اور پھر ملازمہ سے پوچھا :
”یہ کون تھی؟”

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

”موتیا تھی باجی! گامو اور اللہ وسائی کے ساتھ۔ لوگ کہتے ہیں یہ شیدائن ہوگئی ہے۔”
اُس کے ساتھ حویلی سے آئی ملازمہ نے بڑے افسوس والے انداز میں اُسے بتایا تھا اور ماہ نور جیسے سکتے میں آگئی تھی۔ اُس نے بے یقینی کے عالم میں پلٹ کر دور جاتی ہوئی اپنی اُس رقیب کو دیکھا تھا جس کے پاس اُس کے سر کے تاج کا دل تھا۔
”اسے کیا ہوا ہے؟” اُس نے ملازمہ سے پوچھا۔ ملازمہ کی آنکھوں اور چہرے پر عجیب سا تاثر آیا پھر اُس نے نظریں چُرا کرکہا:
”مجھے نہیں پتا باجی جی!” ماہ نور نے وہاں کھڑے آتے جاتے لوگوں کے درمیان اُس سے مزید کچھ نہیں پوچھا۔
اُس نے آج وہ موتیا دیکھ لی تھی جس کے حسن کے قصّے اُس نے لوگوں سے سنے تھے اور عشق کی داستانیں اُس نے مراد کی شکل میں دیکھ لی تھیں۔ اُسے اس لٹی پٹی موتیا سے حسد نہیں ہوا تھا لیکن اُسے اس پر ترس بھی نہیں آیاتھا۔ ملازمہ کے گونگا ہوجانے پر بھی اُسے اندازہ تھا موتیا کے ساتھ کیا ہوا تھا۔ اُس سے مراد چھن گیا تھا اور وہ دنیا و مافیہا سے بے خبر ہوگئی تھی اور وہ، اُسے مراد مل گیا تھا اور وہ تب بھی ویسی ہی کنگال تھی۔
…٭…
”ابّا جی مجھے اس طرح کیوں دیکھ رہے ہیں آپ؟” تاجور نے باپ سے بالآخر پوچھا تھا جس نے پہلی بار اُس کے آنے پر اُٹھ کر اُس کا استقبال کیا تھا نہ اُس کا سرماتھا چوما تھا۔
انہوں نے صرف بیٹھے بیٹھے اُس کے سلام کا جواب دیا تھا اور پھر تسبیح کے دانے گراتے ہوئے بس اُسے دیکھنے لگ گئے تھے اور اُن کے دیکھنے کے انداز نے تاجو رکو پریشان کردیا تھا۔ وہ بیٹے اور بہو کے ساتھ اُن سے ملنے آئی تھی مگر مراد اُنہیں چھوڑ کر واپس چلا گیا تھا اورتاجور کے اصرار پر بھی رُکا نہیں اور اب تاجور اکیلے کمرے میں بیٹھی اپنے باپ کی کاٹ دار نظروں کا سامنا کررہی تھی۔
”تونے تاجور آج میرا سر اُن کے سامنے نیچا کردیا جو ہمارے پاس دُعائیں کروانے آتے ہیں۔ تونے آج مجھے اُن کے سامنے ہاتھ جوڑنے پر مجبور کردیا۔” پیر ابراہیم بالآخر لمبی خاموشی کے بعد بولے تھے۔
تاجور کا ماتھا ٹھنک گیا تھا۔ نام نہ لینے کے باوجود جیسے اُسے اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ کس کی بات کررہے تھے اور وہ بے چین ہوئی تھی۔ اُس کے باپ نے آخر ان کے سامنے کیوں ہاتھ باندھے تھے کس لئے۔ اُس کا خون کھولنے لگا تھا۔ اُن کی جرأت کیسے ہوئی کہ وہ اُس کے باپ کے پاس اُس کی شکایت لے کر پہنچے تھے۔
”آپ کس کی بات کررہے ہیں بابا جان؟” اُس نے بظاہر انجان بننے کی کوشش کی تھی۔
”میں موتیا کی بات کررہا ہوں۔ اُس کے ماں باپ لائے تھے اُسے میرے پاس اور جو کچھ تم نے کیا ہے، وہ دہرایا تھا انہوں نے میرے سامنے۔ یہ اتنا سخت دل تو نے کہاں سے لے لیا تاجور؟” پیر ابراہیم نے دل گرفتگی سے کہا۔
”اُن کی جرأت کیسے ہوئی کہ وہ آپ کے پاس آکر میری شکایت کریں۔” تاجور غضب ناک ہوئی تھی اور پیر ابراہیم نے کہا تھا:
”یہ گھمنڈ، تکبر تجھے تباہ کردے گا تاجور! تیرے خاندان کو تباہ کردے گا۔”
”بابا جان آپ اُن لوگوں کی حمایت نہ کریں۔ آپ ہمیشہ میرے خلاف اُن کی حمایت کرتے ہیں۔” اُس نے اُسی بدتمیزی سے کہا تھا۔
”تیرے خلاف نہیں کھڑا ،ظالم کے خلاف کھڑا ہوں ۔” تاجور ایک لمحہ کے لئے بول نہیں سکی پھر جیسے شعلہ جوالہ بن کر بولی ۔
”بابا جان میں ظالم ہوں؟ ظلم اُس کی بیٹی نے کیا میرے بیٹے کو ورغلایا، باغی بنایا ، مجھ سے چھیننے کی کوشش کی اور ظالم میں ہوں؟”
”تم کیوں بارات لے کر اُن کو ذلیل کرنے اُن کی گلی سے گزری تھیں؟ مجھے اگر اُس دن پتا چل جاتا کہ تم بارات اُن کے گھر کے سامنے سے گزار کر لائی ہوتو میں ماہ نور کے بجائے موتیا کا نکاح ہی پڑھاتا مراد کے ساتھ۔”
تاجور یک دم اُٹھ کر کھڑی ہوگئی۔
”آپ کیا چاہتے ہیں مجھ سے اب؟”
”تو جاکر موتیا کے سامنے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگ۔ میرے جڑے ہوئے ہاتھوں پر انہوں نے مجھے معاف نہیں کیا۔” تاجور کا دماغ گھوم گیا۔
”بابا جان! میں اور کمی کمینوں کے سامنے جاکر ہاتھ جوڑوں۔ یہ کبھی نہیں ہوسکتا۔”
”تیرا غرور میرے خاندان کی گدّی لے جائے گا تاجور!” تاجور نے باپ کا چہرہ بے یقینی سے دیکھا ۔ وہ بہت بڑا جملہ بول رہے تھے۔
”گدّی ہمارے خاندان سے نکلے گی تو کہاں جائے گی ولایت؟ اُس ماشکی کی بیٹی کے پاس؟” تاجور نے باپ کا مذاق اُڑایا تھا۔
”آپ کا مطلب ہے آپ کی بجائے لوگ اُس کے آستانے پر آکر دُعائیں مانگیں گے؟ ایسا نہیں ہوسکتا بابا جان۔ آپ ولایت ہوتے ہوئے بھی ایسی بات کررہے ہیں۔ آپ سے زیادہ تو میں جانتی ہوں روحانیت کو۔” تاجور نے کہا تھا۔
”تو روحانیت کو جانتی ہے، رب کو نہیں جانتی۔ تیرا غرور تیرے خاندان کو کھا جائے گا۔” وہ کہتے ہوئے وہاں سے بے حد ناراضی کے عالم میں نکل گئے تھے اور وہ صدمے کی حالت میں وہاں کھڑی رہ گئی تھی۔
اُس کا باپ اُسے کیا کہہ کر گیا تھا اور اتنی بڑی بات، تاجور کا دل کسی نے مٹھی میں مسلا تھا۔ ایک لمحہ کے لئے اُسے بہت ہیبت آئی تھی مگر پھر اُس کی ضداور غرور نے اُسے آکٹوپس کی طرح اپنے شکنجے میں لے لیا۔
”کسی کمی کمین کے سامنے تاجور نہیں جھکے گی بابا جان۔” اُس نے جیسے دل میں فیصلہ کرلیا تھا۔
…٭…
”آج میں نے موتیا کو دیکھا ۔” اپنے کمرے میں جوتے اُتارتے مراد کو جیسے کرنٹ لگا تھا۔
اُس نے برق رفتاری سے پلٹ کر ماہ نور کو دیکھا تھا جو سنگھار میز کے سامنے بیٹھی اپنے زیورات اُتارتی ہوئی آئینے میں مراد کو دیکھ رہی تھی۔ اُس کا خیال تھا مراد اب اُس سے پوچھے گا کہ کہاں یا ناراض ہوکر کہے گا کہ کیوں ۔ مراد نے دونوں میں سے کچھ بھی نہیں کہا تھا۔ اُس نے لحظہ بھر کے لئے ماہ نور کو دیکھ کر دوبارہ اپنے جوتے اتارنے شروع کردیئے تھے۔
”وہ بیمار لگ رہی تھی، دادا جان کے پاس دُعا کروانے آئی تھی۔” ماہ نور پھر بھی کہے بغیر نہیں رہ سکی تھی۔
مراد پھر ٹھٹکا تھا پر اس بار اس نے ماہ نور کو پلٹ کر نہیں دیکھا تھا۔ ماہ نور کو حیرت ہوئی، محبوبہ کا ذکر ہو اور عاشق اتنا بے نیاز۔ اس کی سمجھ میں نہیں آیا وہ مزید کیا کہے۔ اس کی مشکل مراد نے آسان کردی تھی۔
”آج پہلی اور آخری بار موتیا کا نام تمہاری زبان پر آیا ہے۔ دوبارہ کبھی میرے سامنے موتیا کا نام بھی مت لینا۔”
جوتے اُتارنے کے بعد وہ اُٹھ کر کھڑا ہوا تھا اور سرد مہری کے ساتھ اُسے کہتے ہوئے کمرے کے ساتھ ملحقہ باتھ روم میں چلا گیا تھا۔
”میں نام نہ لوں اور تم نام کا کلمہ پڑھتے رہو!” ماہ نور مدھم آواز میں بڑبڑائی تھی۔
اُسے لگا تھا مراد نے کسی مکھی کی طرح اُسے اپنے اور موتیا کے بیچ سے نکال دیا تھا۔ پر وہ کیڑا مکوڑا نہیں تھی۔ وہ انسان تھی، جلنے بجھے والا، غم کرنے والا، یاد رکھنے والا، کھوجنے والا۔ کیا ہواتھا مراد اور موتیا کے بیچ کہ مراد نے اُسے اپنی زندگی سے نکال پھینکا تھا اور صرف نکالا نہیں تھا کسی اور کو اُس کی جگہ بھی دے دی تھی ۔ ماہ نور کو اب یہ کھوجنا تھا اور ہر قیمت پر کھوجنا تھا۔
…٭…

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

تحفۂ محبت — لعل خان

Read Next

مستانی — منظر امام

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!