دانہ پانی — قسط نمبر ۷

بتول کو ماں کے کچھ کہے بغیر بھی اندازہ ہوگیا تھا کہ ماں کیوں اس سے یہ سوال جواب کرنے بیٹھی تھی۔
”ہاں! ٹھیک کہتی ہے تو۔ ابھی تو جانا بھی مت اس کے پاس۔ اللہ خیر سے تجھے کل اپنے گھر کا کرے پھر آکر مل لینا موتیا سے۔”
شکوراں نے فوراً کہا۔ اُسے بتول کی باتوں پر فوراً ہی بدشگونی کا خیال آنے لگا تھا۔ بتول کپڑوں کے اُس ڈھیر کو دیکھنے لگی جو چوہدرائن نے اُسے دیئے تھے۔ پورے اکیاون جوڑے اور ایک سے بڑھ کر ایک۔
”تیرا داج ایسا ہوگا کہ تیرا سسرال سالوں باتیں کرے گا اس کی۔” چوہدرائن نے اس سے کہا تھا۔ بتول کمرے میں پڑی چیزیں دیکھنے لگی۔ سامان کا ڈھیر سعید کے گھر چلا بھی گیا تھا۔ تاجور نے پھر بھی اور بہت کچھ بھیج دیا تھا۔ پتا نہیں سامان کے اس ڈھیر کو دیکھ کر بتول کو خوشی کیوں نہیں ہورہی تھی۔
کچھ تھا جو اُسے پریشان کررہا تھا، تنگ کررہا تھا۔ اس کی ماں رات گئے لالٹین کی روشنی میں جوڑے ٹانکتے ہوئے ایک ٹَپہ گانے لگی تھی اور بتول کی آنکھوں کے سامنے صرف موتیا کا چہرہ آرہا تھا۔ پتا نہیں وہ کس حال میں تھی اور اگر کبھی اُسے یہ پتا چل گیا کہ یہ سب کچھ میں نے کیا ہے تو وہ کیا کرے گی؟ اُس نے جیسے موتیا کے ممکنہ ردِعمل کے بارے میں سوچنے کی کوشش کی تھی۔
اُس کے ذہن میں کوئی جواب نہیں آیا تھا۔ وہ جانتی تھی موتیا کچھ نہیں کرسکتی تھی۔ وہ بے بس تھی۔ بتول پھر بھی بیٹھے سوچی جارہی تھی۔ اس نے سعید کو پانے کے لئے بہت بڑی قیمت ادا کی تھی۔ اس نے موتیا نہیں کھوئی تھی اپنے ایمان کا بھی سودا کیا تھا۔ بتول نے سوچا تھا وہ سعید سے شادی کے بعد فوراً حج یا عمرے پر جائے گی اور اللہ سے توبہ کرے گی۔ پھر سب ٹھیک ہوجائے گا۔
بستر پر لیٹتے ہوئے اس نے جیسے اپنے آپ کو تسلی دی ۔ اس کے کانوں میں اب بھی شکوراں کے ٹپے کی آواز گونج رہی تھی۔
مکھڑے دا تل ماہیا
اساں تیرے نال جانا
چاہے ویچاں دل ماہیا
…٭…

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

تاجور پانی کا ایک گھونٹ بھی نہیں لے سکی تھی۔
”یہ کہاں کا پانی لاکر رکھ دیا ہے ؟ ” اس نے ناراض ہوکر اس ملازمہ سے کہا تھا جو ناشتے کا سامان لالا کر میز پر رکھ رہی تھی۔
”آج گامو پانی دے کر نہیں گیا تو گھر کے کنویں کا پانی ہی لاکر رکھا ہے۔” ملازمہ نے ڈرتے ڈرتے اُسے بتایا۔
ایک لمحہ کے لئے تاجور خاموش رہی تھی پھر اُس نے تحکمانہ انداز میں ملازمہ سے کہا:
”اسلم سے کہو گاؤں کے کنویں سے لے کر آیا کرے ہر روز پانی۔ اب بھی لے کر آئے۔” ملازمہ اُس کے حکم پر بھاگی ہوئی چلی گئی تھی۔
”اور یہ گھر کے کنویں کی بھی صفائی ہونے والی ہے۔ اتنا بد ذائقہ پانی تو کبھی بھی نہیں رہا اس کا۔” اس نے دوسری ملازمہ کو گھر کے کنویں کی صفائی کی ہدایات دیں تھیں۔ وہ بھی گھر کے مرد ملازموں کو یہ ہدایات پہنچانے چلی گئی تھی۔ اور تب ہی ماہ نور سجی سنوری ہوئی سلام کرتی کمرے میں داخل ہوئی۔ تاجور جیسے فدا ہونے والے انداز میں اس کے لئے اُٹھی اور اُسے سینے سے لگا کر پیار کرتے ہوئے اس نے ناشتے کی میز پر بٹھایا تھا۔ وہ ولیمے کی صبح تھی اور تاجور نے گہری نظروں سے ماہ نور کو دیکھا تھا۔ یوں جیسے یہ کھوجنا چاہتی تھی کہ ماہ نور کے چہرے پر دلہناپے کی خوشی اور چمک تو تھی۔ وہ سیدھا سیدھا ماہ نور سے یہ سوال نہیں کرسکتی تھی کہ مراد کو موتیا یاد تو نہیں آئی تھی نا۔ ماہ نور کا چہرہ اُسے کسی گہری سوچ میں لگا ۔
وہ سر سے پیروں تک زیورات میں لدی پھندی تھی پر پھر بھی تاجور کو لگا جیسے وہ ذہنی طور پر کہیں اور تھی۔ تاجور نے اپنی رائے کو جیسے خود ہی جھٹلاتے ہوئے اس سے کہا تھا:
”بیٹا مراد کہاں ہے؟ وہ تیار نہیں ہوا ابھی تک؟”
ماہ نور نے جواباً ساس کو دیکھتے ہوئے مدھم آواز میں کہا تھا:
”وہ تو صبح سویرے ہی کہیں چلے گئے تھے ۔ اس کے بعد کمرے میں نہیں آئے۔ میں سمجھ رہی تھی وہ آپ کے پاس ہیں۔” تاجور ایک لمحہ ٹھٹکنے کے بعد بولی۔
”ہاں! آیا تھا صبح میرے پاس لیکن میں نے سوچا پھر تمہارے پاس چلا گیا ہے۔ شاید حویلی میں چہل قدمی کررہا ہوگا۔ گوروں کی طرح اُسے بھی عادت ہوگئی ہے ہر صبح سویرے اٹھ کر سیر کرنے کی۔” تاجور نے ہنستے ہوئے جیسے بیٹے پر پردہ ڈالا تھا۔ تب ہی ملازمہ کمرے میں داخل ہوئی تھی۔
”چھوٹے چوہدری کو دیکھو حویلی میں کہاں ہیں؟” تاجور نے اسے ہدایت دی تھی۔
”وہ تو جی صبح ہی گھوڑے پر بیٹھ کر کہیں چلے گئے تھے۔ میں جب حویلی آرہی تھی تو میں نے اُنہیں جاتا دیکھا تھا۔” ملازمہ نے اطلاع دی اور پراٹھوں کی چنگیر رکھ کر چلی گئی۔
”ہاں! وہ گیا ہوگا صبح صبح نہر کنارے جایا کرتا ہے اکثر۔” تاجور نے اس بار بہو سے نظریں چراتے ہوئے کہا تھا اور موضوع بدلنے کی کوشش کرتے ہوئے اس کے سامنے پلیٹ رکھتے ہوئے اس سے کہا:
”بیٹا تم تو ناشتہ کرو، آجائے گا وہ تھوڑی دیر میں۔” ماہ نور نے مراد کا انتظار کرنے کا اصرار نہیں کیا تھا۔ اُسے پتا تھا اس کی پھوپھی پردہ ڈالنے کی کوشش کررہی تھی اور اس نے پھوپھی کا ساتھ دیا تھا۔
”ارے! یہ تو پوچھا ہی نہیں میں نے کہ اس نے تمہیں منہ دکھائی میں کیا دیا۔” تاجور نے اس کی کلائیوں میں کنگن دیکھنے کے باوجود بے نیاز نظر آنے کی اداکاری کرتے ہوئے پوچھا۔ پراٹھا اپنی پلیٹ میں رکھتے ہوئے ماہ نور سے تاجور کو دیکھا اور پھر کہا:
”انہوں نے مجھے منہ دکھائی میں موتیا کا نام دیا تھا۔ میرا نام وہ بھول گئے تھے، کہہ رہے تھے کسی نے انہیں بتایا ہی نہیں۔” اس نے اتنے سادہ لہجے میں یہ بات کہی تھی تاجور پھر بھی کٹ کر رہ گئی تھی۔
وہ ماہ نور سے کچھ بھی کہنے اور پوچھنے کے قابل نہیں رہی تھی۔ ماہ نور ایک بار پھر اپنی پلیٹ کی طرف متوجہ ہوگئی تھی اور تاجور کی بھوک اُڑ گئی تھی۔ دونوں کے درمیان ایک لمبی خاموشی آئی تھی پھر تاجور نے اس سے کہا:
”تمہارا نام اس کے نکاح نامے میں لکھا ہے تین بار قبول کیا ہے اُس نے تمہیں ۔ بھول بھی جائے تو بھی تم یاد رہوگی اُسے۔ مردوں کے ان چھوٹے چھوٹے معاشقوں کو دل پر نہیں لیتے۔” تاجور نے بظاہر بڑے بے فکرانہ اور بے پروا انداز میں اُسے تسلی دینے کی کوشش کی تھی۔
ماہ نور چاہنے کے باوجود اُسے کہہ نہیں سکی کہ موتیا کا نام مراد کے دل پر لکھا ہے اور اس دل کو نکاح نامے کا کوئی پاس ہی نہیں تھا۔ پر وہ اس گھر میں دوسرے ہی دن تاجور سے بحث کیا کرتی۔ وہ فرمانبرداری کی صفت پر چنی گئی تھی اور اُسے یہاں فرمانبرداری ہی دکھانی تھی۔
ملازمہ پانی کا ایک نیا جگ لے کر آگئی تھی۔ اُس نے گلاس میں پانی ڈال کر تاجور کو اطلاع دیتے ہوئے پانی کا نیا گلاس پیش کیا ۔ تاجور نے وہ گلاس ماہ نور کی طرف بڑھاتے ہوئے اپنے لئے ایک نئے گلاس میں پانی ڈالا اور پانی کا پہلا گھونٹ لیتے ہی وہ بلبلائی تھی۔
”کہاں سے آیا ہے یہ پانی ؟ یہ بھی کڑوا ہے۔” اس نے ملازمہ پر چڑھائی کرتے ہوئے کہا تھا۔
”جی یہ تو گاؤں کے کنویں سے آیا ہے۔”ملازمہ نے ڈر کر کہا تھا۔
”گاؤں کے کنویں کا پانی تو ہمیشہ میٹھا تھا کڑوا کیسے ہوگیا؟” تاجور کو یقین نہیں آیا تھا کہ وہ گاؤں کے کنویں کا پانی ہے۔ تب ہی ماہ نور نے بھی گلاس اُٹھاکر پانی کا ایک گھونٹ پیااور اُس نے جیسے حیران ہوکر تاجور کو دیکھا تھا۔
”تجھے بھی کڑوا لگا ہے نا؟ دیکھا میں کہہ رہی تھی نا جھوٹ بول رہے ہیں یہ نوکر یہیں کہیں سے لے آئے ہیں پانی۔”تاجور نے اس کے کچھ کہنے سے پہلے ہی اندازہ لگایا تھا اور بولنا شروع کردیا تھا۔
”پھوپھو! پانی میٹھا ہے۔ ” ماہ نور کے جملے پر تاجور ٹھٹکی تھی۔ اس نے حیران ہوکر اس کی شکل دیکھی پھر ملازمہ کی ، جس نے ماہ نور کے جملے پر جیسے ہمت باندھتے ہوئے کہا تھا:
”جی چوہدرائن جی! پانی میٹھا ہے میں بھی پی کر آئی ہوں ابھی۔” تاجور نے عجیب سے انداز میں گلاس اُٹھا کر ایک گھونٹ اور لیا۔ پانی کی کڑواہٹ ویسی ہی تھی۔
”آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے نا چوہدرائن جی کہیں چھوٹے چوہدری کی بارات کی تھکن کی وجہ سے طبیعت نہ خراب ہوگئی ہو۔ زبان کا ذائقہ اسی لئے خراب نہ ہوگیا ہو۔” ملازمہ نے تشویش سے کہا تھا۔ تاجور نے کچھ بھی جواب نہیں دیا، وہ پانی کے گھونٹ اسی طرح لینے لگی۔ پانی کڑوا تھا وہ قسم اٹھا کے کہہ سکتی تھی پر اب سب کو میٹھا لگ رہا تھا تو وہ یہ کیسے کہتی رہتی۔
”ہاں! شاید تھکن ہی کی وجہ سے ہے۔ کام بھی تو اتنا کیا ہے۔ اتنی جلدی شادی کی تیاری کرنا کوئی آسان کام تھوڑی تھا۔ ” تاجور نے ملازمہ کی بات پر یقین کرلیا تھا ۔ پر کچھ تھا جو اُس کے ذہن میں کہیں اٹکا تھا۔
اس کا باپ ہمیشہ اُسے کہا کرتا تھا۔
”کسی پر کیا جانے والا ظلم جب اللہ کو بہت نا پسند آئے تو وہ کوئی نہ کوئی نعمت واپس لے لیتا ہے۔”
پتا نہیں اُسے اپنے باپ کی یہ بات اس وقت کیوں یاد آئی تھی۔ تاجور نے جیسے خود کو ہی ڈانٹا۔ نہ وہ ظالم تھی نہ اُس سے کوئی نعمت چھینی گئی تھی۔ ایک کنویں کا پانی کڑوا ہوگیا تو ہزار کنویں کھودے جاسکتے تھے۔ پانی میں گڑ ملا کر میٹھا کیا جاسکتا تھا۔ اس نے جیسے خود کو تسلی دی تھی۔ اور اس پانی سے اپنا دھیان ہٹانے کی کوشش کی تھی جو اب بھی آدھے گلاس میں اس کے سامنے پڑا تھا۔
…٭…
پورے گاؤں نے اگلے کئی دن گامو اور اللہ وسائی کو گھر سے باہر نہیں دیکھا اور نہ ہی ان کے گھر کا دروازہ کھلا تھا۔ آس پڑوس والے ہمدردی اور حال احوال پوچھنے کے لئے دروازہ بجاتے رہتے پر وہ دونوں اندر سے ہی نہ ملنے کا کہہ دیتے تھے۔ ان گاؤں والوں سے وہ کیا ملتے جو اس بارات میں لٹائے جانے والے سکے لوٹتے رہے تھے جس میں ان کی عزت کا جنازہ نکلا تھا۔
گامو اور اللہ وسائی نے ساری زندگی ان لوگوں کی خدمت کی تھی۔ ان کی غمی خوشی میں آگے بڑھ بڑھ کر حصّہ ڈالا تھا پر ان میں سے کوئی اس وقت ان کی مدد کے لئے نہیں آیا تھا۔ ان میں سے بہتوں کو اندر خانے پتہ تھا کہ وہ بارات گامو کے گھر نہیں آنی تھی۔پرپھر بھی انہوں نے گامو کو پہلے کچھ بھی نہیں بتایا تھا۔ گامو اور اللہ وسائی کا غصّہ بجا تھا پر انہیں یہ پتا نہیں تھا کہ وہ گاؤں والے نہیں تھے۔ ”دنیا ” تھی اور ”دنیا” تماشا دیکھتی ہے، تماشا روکتی نہیں ۔
گامو نے اپنے گھر اور صحن میں گرنے والا ایک ایک سکہ اُٹھا کر کسی نجس چیز کی طرح باہر گلی میں اُچھالا تھا ۔ وہ چوہدریوں کے گھر سے آنے والی چیز تھی اور گامو کو اب چوہدریوں کے گھر کا دانہ تک نہیں چاہیے تھا سکہ تو الگ چیز تھی۔
گھر کے اندر دونوں میاں بیوی موتیا کے پاس بیٹھے رہتے جو اُسی حالت میں اب بھی تھی جس حالت میں اس بارات کے جانے کے بعد ہو گئی تھی۔ ماں باپ روتے اُس کے منہ میں لقمے ڈالتے پانی پلاتے۔ وہ چند لقمے لیتی، پانی پیتی، پھر لیٹ جاتی پر چپ کا روزہ اس نے اب بھی نہیں توڑا تھا اور گامو اور اللہ وسائی تڑپ رہے تھے۔ وہ اُسے پکارتے، اُس سے باتیں کرتے رہتے۔ وہ چپ بیٹھی اُنہیں روتا بلکتا دیکھتی رہتی یوں جیسے وہ اس کے ماں باپ نہیں تھے یوں جیسے ان کے رونے سے اُس کو غرض ہی نہیں تھی۔
”میں نے پیر صاحب کے پاس لے کر جانا ہے موتیا کو! میں نے اُنہیں دکھانا ہے کہ ان کے خاندان نے میری بیٹی کا کیا حال کیا ہے۔” گامو نے ایک رات اللہ وسائی سے کہا تھا اور اس نے جواباً گامو سے کہا:
”کوئی فائدہ نہیں گامو! کچھ نہیں ہوگا۔ انہوں نے اپنی پوتی بیاہ دی ہے چوہدریوں کے گھر۔ اُنہیں کیا پتا نہیں تھا کہ وہ میری موتیا کا نصیب تھا۔ میری موتیا کا نصیب چھیننے والوں سے میں موتیا کے حال کے لئے کیا دُعا کرواؤں ۔” اللہ وسائی غصّے میں بولتے بولتے رونے لگی تھی۔
”دُعانہیں کروانی اب میں نے اُن سے۔ کبھی کسی چیز کے لئے دُعانہیں کروانی۔ پر شکایت تو کر کے آنی ہے میں نے اللہ وسائی۔ اپنی بیٹی کی حالت تو دکھانی ہے میں نے اُنہیں۔” گامو اپنی بات پر مُصر رہا تھا اور اللہ وسائی کو اس کے سامنے ہتھیار ڈالنے پڑے تھے۔
اگلے دن گاؤں والوں نے بڑے دنوں کے بعد گامو کے گھر کا دروازہ کھلتے اور اُن تینوں کو گھر سے نکلتے دیکھا۔ گامو اور اللہ وسائی کے درمیان اُن کا ہاتھ پکڑے چلتی موتیا کو کسی نے پہچانا ہی نہیں تھا۔ وہ دنوں میں جیسے سوکھ کر کانٹا ہوگئی تھی۔ گاؤں والوں نے راستہ روک کر گامو اور اللہ وسائی سے افسوس کا اظہار کرنے کی کوشش کی تھی پر اُن دونوں میں سے کسی نے اُن کا ”پرُسہ” نہیں لیا تھا ۔ تماش بینوں کی کیا ہمدردی اور کیا افسوس۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

تحفۂ محبت — لعل خان

Read Next

مستانی — منظر امام

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!