دانہ پانی — قسط نمبر ۷

گامو نے جیسے ہار کر خالی گلی کو دیکھا تھا پھر موتیا کو جو اب بھی کھڑی گلی میں اُس طرف دیکھ رہی تھی جہاں سے بارات گئی تھی۔
گامو کو پہلی بار اُس کے ننگے سر کا خیال آیا۔
اُس نے اُس دوپٹے کو ڈھونڈا تھا جو چھت کے ساتھ ٹکی سیڑھی پر اٹکا ہوا تھا۔ اُس نے دوپٹہ لاکر موتیا کے سر پر ڈالا تھا۔ پھر بیٹی کا چہرہ دیکھا تھا۔ وہ اب بھی روئی نہیں تھی۔ بس گلی کے بجائے باپ کو دیکھنے لگی تھی۔اُس کی آنکھوں میں پانی نہیں تھا، مگر اُس کی آنکھوں میں اب اور کچھ بھی نہیں تھا۔ غم،درد، شکوہ، کچھ بھی نہیں۔اُس کی آنکھیں خالی آنکھیں تھیں۔
گامو اُس کا ہاتھ پکڑے اُسے نیچے لے آیا ۔ وہاں صحن میں اللہ وسائی نڈھا ل بیٹھی تھی۔ وہ شادی کا گھر نہیں میّت والا گھر لگ رہا تھا۔
”دیکھ اللہ وسائی تیری بیٹی کتنی دلیر ہے، ایک آنسو نہیں بہایا اِس نے۔”
گامو نے صحن میں آتے ہی اپنی بیوی سے کہا تھا۔ اُسے اب جیسے گھر کی ان دونوں عورتوں کو تسلّی دینے کے لئے مرد بننا تھا۔ ہمّت اور حوصلے والا مرد۔
اللہ وسائی نے موتیا کا چہرہ دیکھا تھا اورو ہ اُٹھ کر کھڑی ہوگئی تھی۔ وہ ماں تھی، ایک نظر میں اُس کے دل تک پہنچ گئی تھی۔ موتیا کے سامنے کھڑے ہوکر اُس نے بیٹی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا تھا۔ وہ آنکھیں جیسے کنویں کی آنکھیں تھیں۔ سوکھے کنویں کی آنکھیں۔ اللہ وسائی نے سینے پر ہاتھ مارا تھا پھر موتیا سے کہا:
” تو نے رونا ہے نا موتیا، تُو رولے۔ میری دھی دلیرنہ بن، غم نہ پی، سب کچھ اُگل دے، سب کچھ بہا دے۔”
وہ اُسے کندھوں سے پکڑے جھنجھوڑتی رہی۔ موتیا گم صم اسی طرح کھڑی اُسے دیکھتی رہی۔ نہ وہ روئی تھی، نہ اُس نے کوئی آواز نکالی تھی۔ گامو اور اللہ وسائی اپنے گھر کے صحن کا دروازہ بند کئے بکھرے سکّوں کے بیچوں بیچ موتیا کی زبان کھولنے کی کوشش کرتے رہے، پتا نہیں اُسے کیا کیا سُناتے اور بتاتے رہے کبھی اُسے سینے سے لگاتے، کبھی اُس کے ہاتھ پاؤں رگڑتے رہے۔ موتیا نے نہیں بولنا تھا وہ نہیں بولی۔اُس نے رونا نہیں تھا، وہ نہیں روئی۔ اُس کے ماں باپ روتے رہے اور وہ بت بنی انہیں دیکھتی رہی۔
غم کچھ لوگوں کو سمندر کردیتا ہے، کچھ کو بنجر اور کچھ کو غم ،ہوش و خرد سے پرے لے جاکر بٹھادیتاہے۔
موتیا نے زندگی میں بس ایک نافرمانی کی تھی اپنی مرضی کی محبت کر کے اور وہ نافرمانی اُس کے ساتھ ساتھ اُس کے ماں باپ کو بھی لے ڈوبی تھی۔
وہ اب اُس نافرمانی کو لے کر رب کے سامنے کھڑی ہوگئی تھی۔ رب کے سامنے ہر کوئی کبھی بھی جاکر کھڑا ہوسکتاہے۔ رب ماں کی طرح مرہم رکھتاہے۔ بندے کے کرچی کرچی وجود کو اس طرح جوڑدیتاہے کہ لکیر بھی ڈھونڈنے سے نہیں ملتی اور رب بعض دفعہ کرچی کرچی وجود کی وجہ بننے والوں کو بھی اس ہی طرح کرچیوں میں توڑدیتا ہے۔
چوہدری شجاع نے ٹھیک کہا تھا ۔ تاجور نے ظلم کیا تھا۔ غلط دل کو توڑ بیٹھی تھی۔ وہ گامو اور اللہ وسائی کی موتیا کا دل تھا،اُس تحفے اور نعمت کا دل تھا جو رب نے اُن دونوں کی نیکیوں کے عوض عطا کیا تھا۔
…٭…

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

چوہدری شجاع نے مراد کی بارات کے پورے راستے دوبارہ تاجور سے بات نہیں کی تھی اور تاجور نے اُسے مخاطب کرنے کی کوشش بھی نہیں کی۔ اُسے یقین تھا چوہدری شجاع کا غصّہ ٹھنڈا ہوجائے گا جیسے ہمیشہ ہوجاتا تھا۔
چُپ صرف چوہدری شجاع کو نہیں لگی تھی بلکہ مراد کو بھی لگ گئی تھی۔ تاجور نے شوہر کو نظر انداز کردیا تھا پر بیٹے کا بُجھا ہوا چہرہ اور خاموشی اُس سے برداشت نہیں ہوپارہی تھی۔ وہ ساری رسموں میں خاموش رہا تھا۔ جو وہ کہتی رہی وہ کرتا رہا۔
تاجور کو لمحہ بھر کے لئے موتیا کی گلی میں یہ خدشہ ہوا تھا کہ وہ آخری لمحہ میں اُس سے بغاوت نہ کربیٹھے مگر مراد نے ایسا کچھ بھی نہ کرکے جیسے اُس کی گردن کی اکڑ کو اور بڑھادیا تھا۔ کس کا بیٹاتھا جو یوں پردیس سے آکر بھی ماں باپ کے کہنے پر وہاں شادی کرے جہاں وہ چاہتے تھے۔ تاجور نے یہ جملہ وہاں کئی لوگوں سے سُنا اور ساتھ اپنے لئے تعریفی جملے بھی۔
ماہ نور کو وہ بڑی شان وشوکت سے بیاہ کر لے آئی تھی اور اُسے یقین تھا ماہ نور کا حسین چہر ہ دیکھتے ہی مراد موتیا کو بھول جائے گا۔ وہ موتیا جیسی حسین نہ سہی، مگر بہرحال حسین تھی اور سولہ سنگھار کے ساتھ وہ کم از کم اُس رات موتیا سے کم بھی نہیں لگ رہی تھی۔
وہ رات گئے اپنے کمرے کی کھڑکی بند کرنے کے لئے اُٹھی تھی جب اُس نے رات کے پچھلے پہر مراد کو صحن میں لگے ہوئے موتیے کے پودوں کے درمیان چکّر کاٹتے دیکھا۔ تاجور کو لگا کسی نے اُس کا دل لمحہ بھر کے لئے پکڑ کر کھینچا ہو۔ وہ یہاں کیسے تھا، اُسے تو ماہ نور کے پاس ہونا چاہیے تھا۔ تاجور جیسے لپکتے ہوئے باہر آئی تھی۔
”مراد! خیریت تو ہے نا؟” اُس کی آواز پر مراد چکّر کاٹتے کاٹتے رکا تھا اور اُس نے ماں کو دیکھا۔
”جی!”
” تو یہاں کیا کررہے ہو؟ اندر دُلہن کے پاس جاؤ۔ وہ تمہارا انتظار کررہی ہوگی۔” تاجور نے اُس کی پشت کو تھپکا۔
و ہ ماں کو دیکھتا رہا، پوچھنا چاہتا تھا وہ اُس کی بارات کو موتیا کے دروازے کے سامنے سے کیوں لے کر گئی تھیں؟ یہ بھی پوچھنا چاہتا تھا کہ موتیا دُلہن بنی چھت پر کیوں کھڑی تھی؟ کیا وہ اُس کے انتظار میں تھی؟ کیا کسی نے اُسے مراد کی ماہ نور سے شادی کے بارے میں نہیں بتایا تھا؟ وہ پتا نہیں ماں سے وہاں کھڑے کھڑے کیا کیا پوچھنا چاہتا تھا پر کچھ بھی پوچھنے کی چاہ ہی نہیں رہی تھی اُسے۔ کسی سوال کا صحیح جواب موتیا کو اُس کا نہیں کرسکتا تھا۔ کسی سوال کا غلط جواب ماہ نور کو اُس کی زندگی سے نہیں نکال سکتا تھا۔ وہ ماں کا چہرہ دیکھتا رہا اور پھر اندر چلا گیا۔ تاجور کا دل جیسے ہلکا ہوا۔
”کچھ دنوں میں ٹھیک ہوجائے گا، چند دنوں میں بھول جاتے ہیں سب محبت کو بھی اور محبوب کو بھی۔ جو نظر نہیں آتا ، وہ یاد بھی نہیں رہتا۔”
تاجور کو یہ فلسفہ پتہ نہیں کس نے سمجھایاتھا۔
…٭…
مراد اپنے کمرے میں گیا تھا جو موتیے اور گلابوں سے بھرا ہوا اور سجا ہوا تھا۔ اُس وسیع وعریض کمرے کی فضا اُن ہی دونوں پھولوں کی خوشبو سے مہک رہی تھی اور مراد صرف موتیا کی خوشبو ہی محسوس کررہا تھا۔ وہ اُس کے دل و دماغ پر نہیں حواس پر سوار تھی۔ وہ موتیا کو دیکھتا یا موتیا کے پھول کو، اُس کی آنکھوں کے سامنے بس ایک ہی چہرہ آتا تھا جو اب اُس وقت بھی آگیا تھا جب وہ اپنے حجلۂ عروسی میں داخل ہوا تھا، اور اُس نے سُرخ لباس میں ملبوس ماہ نور کو اپنے بستر پر براجمان دیکھا تھا۔
کسی چھت پر کھڑی سُرخ دوپٹہ اوڑھے موتیا کا ٹیکہ سجایا چہرہ اُس کی آنکھوں کے سامنے جھلملایا تھا اور بس جھلملاتا ہی گیا تھا۔
پتا نہیں کہاں سے درد اُٹھا تھا اور کہاں سے ہوک۔ مراد کا دل چاہا تھا وہ اُلٹے قدموں اُس کمرے سے بھاگ جائے۔ وہ جوکر بیٹھا تھا اُس کا بھیانک پن اُس کے سامنے آکر کھڑا ہوگیا تھا۔
اُس نے آنکھیں بند کر کے اُس کے چہرے کو جھٹکا تھا۔ سانس روک کر جیسے اپنے آپ کو اُس کے تصور سے آزاد کیا تھا۔ پھر دوبارہ بستر پر بیٹھی اُس دُلہن کو دیکھا تھا جس کا کوئی قصور نہیں تھا۔ اچھا یا بُرا جو بھی فیصلہ تھا، مراد کا تھا۔ اُس کا اپنا۔ پھر اب ماتم کرنے کا کیا فائدہ۔ اُس نے جیسے خود کو خود ہی پھٹکاراتھا۔
”وہ بے وفا تھی، وہ بدکردار تھی، و ہ تیرے لائق نہیں تھی مراد تو کیوں پچھتاووں میں پڑرہا ہے۔”
اُس نے جیسے خود کو سب کچھ یاد دلایا۔ کنویں پر اُس رات کا وہ منظر، موتیا کے ساتھ کھڑا سعید۔ وہ بکھری چوڑیاں، وہ اُڑتا دوپٹہ۔ دل ایک لمحہ کے لئے گونگا ہوا تھا۔ دماغ نے ایک بار پھر مراد کی پیٹھ تھپکی تھی۔
”اچھا کیا جو بھی کیا۔ اچھا کیا جو بھی کیا۔”
وہ تکرار اُس کے کانوں میں ہونے لگی تھی۔ موتیا کا چہرہ اُس تکرار میں غائب ہوگیا تھا۔ مراد نے کمرے میں جگ میں پڑا پانی گلاس میں ڈال کر پیا، اپنی قمیص کی جیب سے وہ کنگن نکالے جو اُس کی ماں نے ماہ نور کے لئے دیئے تھے اور وہ ماہ نور کے پاس آکر بستر پر بیٹھ گیا تھا جو گھونگھٹ کاڑھے دھڑکتے دل کے ساتھ اپنے جیون ساتھی سے اپنی پہلی مدح سرائی کی منتظر تھی۔ اُسے بھی یقین تھا ، اُس کا حسن اس طرح سج دھج کر مراد کے سامنے آئے گا تو اُس کی نظروں کو تو باندھ ہی لے گا۔ دل کا کیا ہے، وہ تو آہستہ آہستہ بدل ہی جاتاہے۔
اُس نے موتیا کے بارے میں سُنا تھا۔ اُس نے یہ بھی سُنا تھا کہ مراد نے اپنی مرضی سے اُسے چھوڑا تھا۔ ماہ نور کو مراد پسند تھا۔ اُسے کسی موتیا، چمپا، چنبیلی میں دلچسپی تھی نہ پروا۔ وہ تو پورے خاندان کی مرضی سے اُس مرد کے ” نکاح” میں آئی تھی جس کو اُس نے چاہا تھا۔ پھر اس سے کیا فرق پڑتا تھا کہ اُس کی زندگی میں پہلے کوئی موتیا تھی یا نہیں۔ وہ تو صرف اُس کا ہوا تھا اور اپنی مرضی سے ہوا تھا۔ ماہ نور کے لئے اتنا کافی تھا۔
مراد نے اُس کا گھونگھٹ اُٹھائے بغیر اُس کی کلائیوں میں وہ کنگن ڈالے تھے اور کوئی لفظ ڈھونڈنے کی کوشش کی تھی جن کی مدد سے وہ اُس سے بات شروع کرتا۔ وہ موتیا ہوتی تو اُسے لفظ ڈھونڈنے نہیں پڑتے۔ وہ ماہ نور تھی اور ماہ نور سے مراد کیا بات کرتا۔ وہ چُپ اُس کے سامنے بیٹھا رہا اور ماہ نور گھونگھٹ میں منہ چھپائے سر جُھکائے اُس کے بولنے کا انتظار کرتی رہی۔
بہت دیر کے بعد مراد نے بالآخر اُس کا گھونگھٹ اُٹھایا تھا اور اُس کے چہرے پر پہلی نظر ڈالتے ہی اُس کے منہ سے بے اختیار ” موتیا!” نکلا تھا۔چھت پر کھڑی سرخ دوپٹے والا وہ چہرہ ایک بار پھر وہاں آگیا تھا اور اس بار وہ ماہ نور اور اُس کے بیچ آگیا تھا۔مراد مبہوت اُس چہرے کو دیکھتا رہا اور ماہ نور نے پلکیں اُٹھا کر بھی مراد کو دیکھنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ موتیا کے لفظ نے اُسے بُت بنادیا تھا۔ مراد اب اپنی انگلیوں سے اُس کا چہرہ چھورہا تھا جیسے کوئی بت تراش اپنے سب سے دل پسند شاہکار کو چھوتاہے۔ وہ اُس کے ماتھے کے ٹیکے کے چاند کو اپنی انگلی سے ہلکورے دے رہا تھا۔ اُس کی ناک کی بالی کے سُرخ موتی کو اُس کے سرخ ہونٹوں کو چھونے سے ہٹا رہا تھا۔ اس کے کانوں کے جھمکوں کو جھلا رہا تھا اور ماہ نور نے تب پہلی بار مراد کا چہرہ دیکھا تھا اور اس کی آنکھوں میں اُسے موتیا نظر آئی تھی، اپنا وجود نہیں ۔ مراد کی آنکھوں کا والہانہ پن اس کے لئے نہیں تھا۔ وہ ایک بار پھر اس کے کانوں میں سرگوشی کررہا تھا۔ ”موتیا!” اور وہ لمحہ تھا جب ماہ نور نے چاہا تھا کاش وہ موتیا ہی ہوتی یا وہ مراد نہ ہوتا۔
…٭…
”چوہدرائن جی! نے اچھا نہیں کیا میرے دل کو تو بڑا صدمہ ہواہے اس طرح موتیا کی بے عزتی کا۔ بیٹیاں تو سب کی سانجھی ہوتی ہیں۔ نہیں شادی کرنی تھی نہ کرتیں پر اس طرح کسی کو آس لگا کر ذلیل کرنا، توبہ توبہ! مجھے پتا ہوتا نا کہ ابھی تک گامو اور اللہ وسائی کو پتا ہی نہیں ہے کہ چوہدری اپنا بیٹا کہیں اور بیاہ رہا ہے تو میں خود جاکر اطلاع کردیتی اُن کو۔ پر میں بھی بس تیرے ہی کاموں میں لگی رہی۔ اب صبح خیر سے بارات ہے تیری۔ اللہ خیر سے وقت نبٹائے۔”
شکوراں رات گئے بتول کو لئے بیٹھی داج کے جوڑے بکسے میں رکھ رہی تھی اور ساتھ چوہدری مراد کی بارات کے بارے میں باتیں کررہی تھی اور اپنے افسوس کا اظہار کررہی تھی۔
مایوں کے کپڑوں میں ملبوس بتول کو یک دم پیا س لگی تھی۔
باہر صحن میں گھڑے سے پانی کا پیالہ بھرکر پیتے ہوئے اس کے کانوں میں ماں کی آواز گونجنے لگی تھی۔ اُس کا دل عجیب سے انداز میں گھبرایا تھا۔ شکوراں نے ٹھیک کہا تھا۔ چوہدرائن کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ بتول بھی ماں سے متفق تھی اور احساسِ جرم کا شکار بھی اور اُسے رہ رہ کر موتیا کا خیال آرہا تھا۔ پتا نہیں اس پر کیا گزر رہی تھی۔
اگر اس طرح سعید کی بارات اس کے دروازے کے سامنے سے گزر کر چلی جاتی تو ؟وہ جیسے ہول کر رہ گئی اور اس نے آگے کچھ سوچنا بھی نہیں چاہا تھا ۔ اندر بیٹھی شکوراں کچھ عجیب سی سوچ میں پڑی تھی۔ اُس کی بیٹی پچھلے کچھ دنوں سے کچھ عجیب سی ہوگئی تھی۔ اس نے موتیا کے ساتھ ہونے والے ظلم پر ایک لفظ نہیں کہا تھا نہ ہی وہ سن کر موتیا کے گھر کی طرف بھاگی تھی۔
”تیری اور موتیا کی تو صلح ہے نا؟” بتول کے پانی پی کر اندر آنے پر اُس کی ماں نے بغیر اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے پوچھا تھا اور بتول ماں کی نظروں، سوال اور انداز پر گڑبڑائی تھی۔
”ہاں امّاں! میرے اور اس کے بیچ کیوں کوئی جھگڑا ہوگا؟ میرا تو دل دُکھ سے پھٹ رہا ہے۔ میں مایوں نہ بیٹھی ہوتی تو موتیا کے پاس جاتی، اُس کا غم بانٹتی۔ پر اب اپنے مایوں کے جوڑے میں اُس کے سامنے جاؤں گی تو اس کا دل اور دُکھے گا۔”

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

تحفۂ محبت — لعل خان

Read Next

مستانی — منظر امام

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!