کپڑا پھٹے تے لگے تروپا
دل پھٹے کیہہ سینا
سجناں باج محمد بخشا
کیہہ مرنا کیہہ جینا
”چل موتیا! بس دیکھ لی ہے تُو نے بارات ، اب نیچے اتر۔ یہ نہ ہو کسی کی نظر لگ جائے۔”
اللہ وسائی نے ڈھول تاشوں کے شور میں اُسے بازو سے پکڑ کر منڈیر سے پیچھے ہٹایا تھا۔ موتیا نے ایک لمحہ کے لئے پلٹ کر مراد کو دیکھنا چاہا پر وہ دیکھ نہیں سکی۔ اللہ وسائی کے ہاتھ کی گرفت ایسی ہی سخت تھی۔ سکّوں کی برسات میں وہ کھلکھلاتی ہوئی اللہ وسائی کے ساتھ لکڑی کی سیڑھی سے نیچے اُترنے لگی تھی اور اُس نے اُترتے ہوئے اپنے صحن کو دیکھا تھا جس میں ہر طرف سکّے بکھرے ہوئے تھے۔ کچھ گھومتے، ناچتے گررہے تھے اور کچھ گرچکے تھے۔وہ واقعی بارش کی بوندوں کی طرح برس رہے تھے۔
موتیا نے ایسا منظر پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا اور ایسا منظر تو اُس گاؤں نے بھی پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا کہ بوریوں کی بوریاں سکّوں کی یوں لُٹائی جارہی تھیں اور سکّے گلی کے ساتھ ساتھ دائیں بائیں لوگوں کے گھروں میں بھی اچھالے جارہے تھے۔ مگر ایک گھر میںوہ خاص طور پر اُچھالے جارہے تھے۔
وہ گھر گامو کا تھا، اور گامو گلی میں بارا ت کا یہ طمطراق دیکھ رہا تھا۔ اُچھالے ہوئے سکّے پکڑنے کی چھینا جھپٹی نے بارات کو جیسے ایک ہی جگہ کھڑا کردیا تھا۔ بارات آگے جا ہی نہیں پارہی تھی۔ اور تب ہی گامو کو خیال آیا کہ اُسے خود چوہدری شجاع کو سلام کرنا چاہیے۔ اُسے بگّھی سے اُتارنا چاہیے۔ وہ آگے گیا تھا اور اُس نے کُھلی بگّھی میں بیٹھے چوہدری شجاع اور تاجور کو دیکھا پھر عاجزی کے ساتھ اُس نے چوہدری شجاع کی طرف کا دروازہ کھول کر اُنہیں سلام کیا۔چوہدری شجاع نے سلام کا جواب دیا۔
”ملنی یہیں کرلیں چوہدری جی یا بارات کو آگے جانے دیں؟” اُس نے اپنے کندھے پر پڑی چادر سیدھی کرتے ہوئے شور شرابے میں آواز بلند کرتے ہوئے چوہدری شجاع سے کہا۔ وہ اُلجھا۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
”کیسی ملنی گامو؟”گامو نے اُس کا چہرہ دیکھا پھر نہ سمجھنے والے اندازمیں ہنستے ہوئے کہا:
”ہماری طرف بڑا میں ہی ہوں چوہدری جی! اور آپ کی طرف آپ۔”
شجاع کو کرنٹ لگا تھا۔ اُس نے بے اختیار برابر میں بیٹھی تاجور کو دیکھا جس نے بڑے اطمینان سے گامو سے کہا:
”تمہارے گھر بھی دانوں کی بوری اور کپڑے آئیں گے گامو۔ گاؤں کے ہر گھر میں چوہدریوں کی طرف سے جائے گا یہ تحفہ۔ یہ میرے بیٹے کی جان کا صدقہ ہے۔ اُس کی شادی کا تحفہ۔ آگے سے رستہ صاف کرواؤ۔ بارات نے آگے گزر کر جانا ہے۔ ہمیں دیر ہورہی ہے ،اگلے گاؤں میں پہنچتے پہنچتے اور بھی دیر ہوجائے گی۔”
تاجور نے بے حد تنفر سے بڑے تحکمانہ اندازمیں اُس سے کہا تھا اورگامو کو یوں لگا جیسے اُس کے کانوں میں کسی نے پگھلا ہوا سیسہ اُنڈیلا ہو۔
”چوہدرائن جی نے کیا کہا تھا بارات کس گاؤں جارہی تھی اور کیوں جارہی تھی؟ اُس کا گھر تو یہیں تھا۔”
اُس نے عجیب سکتے کی سی کیفیت میں سوچا تھا۔ چوہدریوں کے ایک ملازم نے بگّھی کے لئے راستہ صاف کروالیا تھا اور اب بگّھی گامو کو پیچھے چھوڑ کر آگے سر ک گئی تھی۔ چوہدری شجاع نے بُت بنے کھڑے گامو کے پاس سے بگّھی پر بیٹھے گزرتے ہوئے تاجور سے پوچھا۔
”تم نے گامو کو بتایا نہیں تھا کہ بارات اُس کے گھر نہیں آرہی؟” اُنہوں نے جیسے اپنے کسی خدشے کی تصدیق کرنا چاہی تھی۔ تاجور نے عجیب سے اندازمیں مسکراتے ہوئے شوہر سے کہا۔
”نہیں! اُس نے سوچ کیسے لیا کہ چوہدر ی کی بارات کمّی کمینوں کے گھر آئے گی۔”
چوہدری شجاع نے جواباً اُسے جن نظروں سے دیکھا تھا، تاجور اُن سے نظریں چراگئی۔ اُس نے اطمینان سے منہ موڑ لیا تھا۔
” تُو نے ظلم کیا تاجور!” اُس نے شوہر کو ملامت بھری آوازمیں بڑبڑاتے سُنا تھا مگر اُس نے پھر بھی شوہر کو دیکھا نہیں تھا۔ وہ صرف چوہدری تھا اور تاجور کو یقین تھا کہ وہ سیّد بھی تھی اِس لئے اُسے سب معاف تھا، سات خون بھی۔ یہ تو بس گامو کی عزت تھی اور موتیا کا دل، یہ بھلا کس کھاتے میں آتے تھے۔
بگّھی گامو کے پاس سے گزرگئی تھی اور گامو کے ہاتھ سے ملنی کی وہ سفید چادر گرگئی تھی جو اُس نے قرض لئے ہوئے پیسوں کے ساتھ لی تھی۔ موتیا کی شادی کے لئے اُس نے بہت سارے لوگوں سے پیسے پکڑے تھے۔ جتنے بھی ہوسکتے تھے۔ وہ چوہدریوں کی حیثیت کے مطابق شادی نہیں کرسکتا تھا مگر وہ اپنی حیثیت سے بڑھ کر تو شادی کرسکتا تھا اور اب وہ سفید کھدّر کی چادر گاؤں کی دھول مٹّی میں اٹی پڑی تھی اور گامو کو لگ رہا تھا اُس کے اردگردسکّے پکڑتے گاؤں کے لوگ سکّے نہیں اُس کی عزت کی دھجیاں نوچ رہے تھے۔
وہ ساری سرگوشیاں جنہیں وہ اتنی دیر سے کانوں سے دماغ تک جانے ہی نہیں دے رہا تھا، اب ایک بار پھر اُس کے کانوں میں سرسرانے لگیں۔
”چوہدری شجاع نے اپنے سالے کی بیٹی کے ساتھ کیا ہے رشتہ۔”
”بارات وہیں جارہی ہے اور چوہدری مراد کی مرضی سے ہوا ہے یہ سب کچھ”
”تجھے کسی نے بتایا نہیں گامو؟”
وہ سرگوشیاں ڈھول تاشوں پر حاوی ہوگئی تھیں۔ وہ چوہدری مراد کی بارات نہیں تھی، وہ گامو کی عزت کا جنازہ تھا جو چوہدریوں نے نکالا تھا۔ گامو کو کبھی زندگی میں غصّہ نہیں آیا تھا۔ وہ حق باہو کا کلام پڑھ پڑھ کر ڈرنے اور رونے والا انسان تھا۔ پر اُس کی زندگی میں غصّہ کا پہلا لمحہ وہاں آیا تھااور غصّہ بھی نہیں، وہ طیش تھا ۔
وہ جیسے اس وقت وہاں سب کو ماردینا چاہتاتھا۔اُس کے ہاتھ میں کوئی ہتھیار ہوتا تو وہ یہی کرتا۔
خیر اُس کے ہاتھ تو کیا گھر تک میں کوئی ہتھیار نہیں تھا۔ کچھ بھی نہیں جس سے گامو اپنے غصّے کا اظہار کرتا۔ چوہدریوں کی تذلیل کرتا،حساب برابر کرنے کی کوشش کرتا۔ اللہ نے اُسے چیونٹی بنایا تھا اور چوہدریوں کو ہاتھی، اور یہ احساس گامو کو زندگی میں پہلی بار ہوا تھا۔
اُس کی موتیا کا دل ٹوٹنے والا تھا اور گامو کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرگزرے۔
بارات اُسی طرح آہستہ آہستہ چل رہی تھی۔ لوگ اُسی طرح اچھالے ہوئے سکّوں کو لوٹنے میں مگن تھے۔ وہاں کسی کو اس وقت گامو سے ہمدردی کرنے اور افسوس کرنے کے لئے بھی وقت نہیں مل رہا تھا۔ دانوں پر پلنے والے لوگ سکّے دیکھ کر آپے سے باہر ہورہے تھے۔ گامو بھاگتا ہوا اپنے گھر کا دروازہ کھول کر اندر آگیاتھا۔ صحن میں صرف اللہ وسائی تھی جو اُسے دیکھ کر ہنستے ہوئے زمین پر پڑے سکّے دکھاتے ہوئے کہنے لگی:
”دیکھ گامو! سکّوں کی بارش کردی ہے چوہدریوں نے۔ میں تو یہ سارے وار کے پھینکوں گی موتیا سے۔”
”چوہدری مراد کی بارات ہمار ے گھر نہیں آئی۔ وہ پیر صاحب کے گھر جارہی ہے دوسرے گاؤں۔” گامو نے اُس کی بات سُنے بغیر غضبناک اندازمیں کہا تھا۔
”دے میرا کلہاڑا اللہ وسائی! میں نے کسی کو نہیں چھوڑنا آج۔ میں چوہدری مراد کے ہی ٹوٹے کردوں گا آج پھر دیکھوں گا کس کی بارات لے کر جاتے ہیں پیر صاحب کے گھر۔” وہ صحن میں اپنا کلہاڑا ڈھونڈتے ہوئے چلّایا تھا اور اندر کمرے میں موتیا نے باپ کا ہر جملہ سُنا تھا اور ہر جملے نے اُس کے دل کو کاٹا تھا۔
‘ ‘تجھے غلط فہمی ہورہی ہے گامو! ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔ میں آپ جاکے پوچھتی ہوں باہر، بارات تو گلی میں ہے۔”حواس باختہ اللہ وسائی کی سمجھ میں نہیں آیا، وہ گامو کو روکے کہ بارات کو۔
” کوئی فائدہ نہیں اللہ وسائی انہوں نے مذاق اُڑایا ہے ہمارا۔ میری دھی کی عزت رول دی۔ میں بھی اُن کی نسل ختم کردوں گا آج۔”
گامو کو کلہاڑی مل گئی تھی۔ وہ لکڑیوں کے اُس ڈھیر پر تھی جو گھر کا ایندھن تھا۔ کلہاڑی کو برق رفتاری سے ٹھوکتے ہوئے وہ پلٹا تھا جب موتیا کمرے سے نکل کر باپ کے رستے میں آگئی تھی۔ گامو نے بیٹی کو دلہن کے رو پ میں دیکھا اور اُس کے وجود کی آگ جیسے بھانبڑ بن گئی تھی۔
”نہ ابّا نہ! مراد کو نہ مارنا۔” وہ سامنے آئی تھی اور اُس نے باپ کے ہاتھ سے کلہاڑی پکڑ کر کھینچ لی تھی اور گامو مزاحمت ہی نہیں کرسکا تھا۔
” وہ بارات لے کر چوہدرائن کی بھتیجی بیاہنے جارہاہے موتیا۔” گامو نے جیسے موتیا کو خبر دی تھی۔
” جانے دے ابّا۔ ہم اُنہیں نہیں روک سکتے۔” گامو نے بیٹی کا چہرہ دیکھا۔
وہ حُسن سات گاؤں میں نہیں تھا اور اُس حُسن پر وہ روپ گامو کو تو پوری دُنیا میں نظر نہیں آیا تھا۔ اُس نے بڑوں سے سُنا تھا روپ روتاہے، آج اُس نے دیکھ لیا تھا۔
”چل موتیا پھر اُس کو مارتے نہیں ، اُس پر تھوک کر آتے ہیں۔” گامو نے بیٹی کا ہاتھ پکڑا تھا۔
”اُن کو دکھاتے ہیں کہ تجھے کوئی فرق نہیں پڑا تیرے لئے مراد بڑے۔” کلہاڑی موتیا کے ہاتھ سے چھوٹ گئی تھی۔ گامو اُس کا ہاتھ کھینچتا ہوا اُسے لکڑی کی سیڑھی کی طرف لے گیااور وہ میکانکی اندازمیں سیڑھی چڑھتی گئی۔
”تُو نے رونا نہیں موتیا،ایک آنسو نہ آئے تیری آنکھ میں۔تُو نے بارات پر تھوکنا ہے۔”
گامو اُس کا ہاتھ پکڑے اُسے منڈیر کی طرف لے جاتے کہتا گیا۔ وہ خالی آنکھوں کے ساتھ باپ کے حکم کی تعمیل میں منڈیر پر جاکر کھڑی دُلہن بنی اپنے محبوب کی بارات دیکھنے لگی تھی جو اُس کے بجائے کسی دوسرے کے گھر جارہی تھی۔
سکّے ہوامیں اب بھی اُچھل رہے تھے اور اُن کے گھر کی چھت اور صحن میں گررہے تھے۔ ڈھول اور تاشوں کی آوازیں بھی اُس ہی طرح آرہی تھیں۔ نیچے صحن میں اللہ وسائی دھاڑیں مار مار کر روتے ہوئے چوہدریوں کو بددعائیں دے رہی تھی اوپر چھت پر گامو پاگلوں کی طرح بارات پر منہ بھر بھر کے تھوک رہا تھا اور اس سب کے بیچوں بیچ ایک موتیا تھی جو اب بغیر دوپٹے کے چھت پر کھڑی تھی۔ ماتھے پر ٹیکا لگائے، مراد کی پشت دیکھ رہی تھی جو گھوڑے پر بیٹھا تھا اور اُس کے دروازے کے سامنے سے گزرچکا تھا۔
وہ اُسے دیکھتی ہی رہ گئی تھی۔ گامو کی آواز اس کے کانوں میں آرہی تھی جو اُسے اُس پر تھوکنے کا کہہ رہا تھا۔ وہ اُس پر کیسے تھوک سکتی تھی؟ وہ اُس کا مراد نہیں تھا، اُس کی مراد تھا۔
تاجور نے گامو اور موتیا دونوں کو چھت پر کھڑے دیکھا تھا۔ اُس نے گامو کو بارات پر تھوکتے بھی دیکھا تھا ۔ اُس کی بگّھی اُس وقت اُس کے دروازے کے سامنے سے گزررہی تھی۔
”یہ کمّی کمین میرے بیٹے کی بارات پر تھوکے گا؟ اس کی اتنی جرأت۔”
تاجور تڑپی تھی اور اُس نے چوہدری شجاع سے کہا تھا جس نے سر اُٹھا کر گامو کو دیکھا پھر اُس کے برابر کھڑی موتیا کو۔ ننگے سر والی اُس دلہن کو دیکھ کر چوہدری شجاع کا سر جھک گیا تھا۔
”ہم اسی قابل ہیں تاجور، تھوکنے دے۔ شاید اُس کا غصّہ ٹھنڈا ہوجائے اور وہ بددعا نہ دے۔” چوہدری شجاع نے بیوی سے کہا تھا اور تاجور کو مشتعل کردیا تھا۔
”ہم کوئی بیٹیوں والے ہیں کہ اُس کی بددعاؤں سے ڈریں گے، ہم بیٹے والے ہیں۔”
اُس نے تن کے شوہر سے کہا تھا اور پھر موتیا کو دیکھا تھا جو اُسے نہیں دیکھ رہی تھی۔ وہ اب بھی اُس کے بیٹے کو دیکھ رہی تھی جو دور جارہا تھا۔ تاجور کو اُس کی نظر، اُس کے انداز سے خوف آیا۔ اُ س نے آج واپسی پربھی بیٹے کا صدقہ اُتارنا تھا۔ گیارہ بکرے ذبح کرنے تھے۔ اب بائیس کا طے کرلیا تھا اُس نے۔
بارات موتیا کی گلی سے گزرگئی تھی۔ گلی کے سارے لوگ بارات کے ساتھ ہی آگے چلے گئے تھے۔ اُنہیں آج وہاں تک سکّے پکڑنے تھے جہاں تک بارات سکّے لٹاتی۔ ڈھول تاشوں کی آوازیں اب دور ہوگئی تھیں۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});