”گامو کے گھر کے آگے سے گزر کر جائے گی بارات۔”
چوہدری مراد کی بارات جانے کے لئے تیار کھڑی تھی جب تاجور نے چوہدری مراد کے گھوڑے کی باگ پکڑ کر سب سے آگے چلنے والے ملازم سے کہا۔ طیفا اس کی بات پر حیران ہوا تھا۔
”گامو کے گھر نہیں جائے گی بارات؟”
”نہیں!” تاجور نے دوٹوک انداز میں کہا اور طیفے کا رنگ اڑ گیا تھا۔ تاجور ٹھہرے بغیر اندر کی طرف چلی گئی جہاں مراد سہرا بندھوانے کے لئے آرہاتھا۔
”گاؤں کا چکر لگوانے کی کیا ضرورت ہے؟ بارات سیدھی سیدھی گاؤں سے نکل جائے۔”
چوہدری شجاع نے تاجور سے کہا تھا جس نے اُنہیں گامو کے گھر کا بتانے کی بجائے صرف یہ کہا تھا کہ بارات گاؤں کا چکر لگا کر پھر دوسرے گاؤں کے لئے نکلے گی۔
”چوہدری صاحب اکلوتے بیٹے کی بارات ہے اس طرح چوری چھپے نہیں لے جاسکتے۔ اللہ بخشے ابّا جی نے بتایا تھا مجھے کہ جب آپ میری بارات لارہے تھے تو پہلے پورے گاؤں کا چکر لگایا تھا۔ تب تو سو پچاس گھر بھی نہیں تھے گاؤں میں اب تو اتنی گلیاں ہوگئی ہیں۔” تاجور نے بڑے انداز سے بات لپیٹی تھی اور چوہدری شجاع قائل ہوگیا تھا۔
تاجور اب مراد کے سرپر کلاہ رکھ رہی تھی اور بیٹے پر قربان جارہی تھی جس پر انوکھا ہی روپ چڑھا تھا پر اس کے لبوں پر مسکراہٹ نہیں تھی۔ وہ بس کرسی پر بیٹھا ساری رسومات ادا کروا رہا تھا جو تاجور اور خاندان کی دوسری عورتیں اور مرد ادا کررہے تھے۔
باہر ڈھول اور باجوں کا شور تھا پر مراد کے اندر ایک گہرا سکوت تھا۔ یوں جیسے وہ کسی اور کی شادی میں شریک ہورہا تھا یا یوں جیسے وہ ایک بُت تھا جس کے ماتھے پر سہرا باندھ دیا گیا تھا ۔ گلے میں ہار ڈال دیے گئے تھے۔ قربانی کے ایک جانور کی طرح ۔ پر قربان تو نہیں ہورہا تھا۔ وہ تو یہ سب کچھ اپنی مرضی اور خواہش سے کررہا تھا۔ اس نے جیسے اپنے آپ کو خود ہی جھٹلایا تھا۔ موتیا ایک بار پھر ذہن کے پردوں پر لہرائی تھی۔ اس نے اس تصّور کو بھی جھٹک دیا تھا۔ اس کی گردن میں آج صرف گلاب کے ہار تھے اور گلابوں کی پتیاں ہی نچھاور ہورہی تھیں ہر طرف۔ پر پتہ نہیں دل موتیا موتیا کیوں کررہا تھا؟
…٭…
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
موتیا نے اپنے کمرے کے اس پرانے شیشے میں تیار ہوکر دوپٹہ سر پر اوڑھنے سے پہلے ایک بار خود کو دیکھا تھا۔ وہ سارے نقلی زیور تھے جو وہ پہنے ہوئے تھی۔ ماتھے کاٹیکا ،کان کے بندے ، ناک کی نتھنی ، گلے کا ہار، چوڑیاں، کنگن۔ پر اس میں اگر کوئی کندن تھا تو وہ اس کا اپنا وجود تھا جو اس زیور سے بھی زیادہ حسین اور قیمتی لگ رہا تھا یا کم سے کم اندر آتی اللہ وسائی کو جسے دیکھ کر موتیا ہنستے ہوئے شرمائی تھی۔ اللہ وسائی نے بیٹی کے سرپر وہ دوپٹہ سوئیوں کے ساتھ سجایا تھا اور آخری پن لگاتے بہت دور ڈھول تاشوں کی آوازیں آنے لگی تھیں۔
”بارات آگئی!” اللہ وسائی کے جسم میں یک دم ہی پھرتی آگئی تھی۔
”میں ذرا دیکھ کے آوؑں چھت پر چڑھ کے کہ کہاں تک آگئی ہے بارات۔” اس نے موتیا سے کہا تھا۔
”امّاں میں نے بھی دیکھنی ہے بارات۔” موتیا نے ماں کا ہاتھ پکڑ لیا۔ اللہ وسائی کھلکھلائی ۔
”تو دُلہن ہے، تو کیوں بارات دیکھنے کھڑی ہوگی بھلا؟” اللہ وسائی نے جیسے اُسے یاد دلایا تھا۔
”کہتے ہیں دُلہن اگر اپنی بارات آتے دیکھے اور دُلہا دیکھے تو دونوں کا پیار کبھی نہیں مٹتا۔” موتیا نے ماں سے کہا تھا۔ وہ اور بھی کھکھلا کر ہنسی۔
”چل آ موتیا! اگر ایسا ہے تو چھت پر لے جاتی ہوں تجھے ۔”
اللہ وسائی اُس کا ہاتھ تھامے اسے کمرے سے باہر لے آئی تھی۔ باہر کوئی بھی نہیں تھا۔ ڈھول تاشوں کا شوراب اور بھی قریب آگیا تھا۔ یقینا ساری عورتیں اور بچے بارات دیکھنے ہی گلی میں نکل گئے تھے۔
لکڑی کی سیڑھی سے اپنی اوٹ میں اسے لئے اللہ وسائی اسے اوپر چھت پر لے آئی تھی۔ ڈھول تاشوں کا شور اب اتنا بڑھ گیا تھا کہ ان دونوں کو ایک دوسرے کے کانوں میں بات کرنی پڑرہی تھی۔ اللہ وسائی نے گلی میں نیچے جھانک کر دیکھا اس لمبی گلی میں لوگ ہی لوگ تھے اور بارات اس گلی میں اب داخل ہونے والی تھی۔
اور یہی وہ لمحہ تھا جب مراد بے قرار ہوا تھا۔ اُسے موتیا کے گھر کے سامنے نہیں جانا تھا پر اس کے اردگرد اور آگے ناچتا ہجوم اُچھالے جانے والے سکّے لوٹتا اسے اسی طرف لے جارہا تھا ۔ وہ بے بس تھا۔
اور یہی وہ لمحہ تھا جب مراد کے گھوڑے کو گلی کا موڑ مڑتے دیکھ کر چوہدری شجاع نے بگھی میں اپنے ساتھ بیٹھی تاجور سے خفگی سے کہا تھا:
”ہمیں گامو کے گھر کے سامنے سے بارات نہیں گزارنی تھی۔” تاجور نے عجیب سی ہنسی میں اس کی بات اڑائی۔
”کیوں؟ گامو گاؤں کا چوہدری بن گیا ہے یا یہاں رہتا نہیں؟”پھر ساتھ ہی اس نے بگھی کی کھڑکی سے ملازم کو آواز لگا کر کہا تھا:
”اتنے سکّے اُچھالو اس گلی میں کہ گامو کا گھر سکّوں سے بھر جائے ۔ اس نے بڑی خدمت کی ہے ہماری۔” اس نے کہہ کر شوہر کو دیکھا تھا جو بس خاموش اسے دیکھ رہا تھا اور بارات گلی میں داخل ہوگئی تھی۔
اور یہی وہ لمحہ تھا جب گامو کے کانوں میں پہلی دفعہ اتنے شور میں بھی کسی نے سرگوشی کی ۔
”بارات چوہدرائن کے بھائی کے گھر جارہی ہے اس کی بیٹی بیاہنے تیری بیٹی بیاہنے نہیں آئے۔ یہاں سے بس گزر کر جائیں گے۔”
وہ جو بھی تھا، بارات کے ساتھ تھا اور گامو نے اس سرگوشی پر کان نہیں دھرا تھا۔ گاؤں والے اس کی بیٹی کے نصیب سے جلتے تھے ورنہ اس طرح کی خبریں کیوں پھیلاتے ۔ سکّوں کی برستی بارش میں ملنی کے لئے لی ہوئی چادر کندھے پر ڈالے گامو نے گھوڑے پر بیٹھے سہرا باندھے مراد کو دیکھا تھا اور پھر گلی میں اندر آتی ہوئی بگھی کو بھی جس میں چوہدری شجاع اور تاجور بیٹھے تھے۔
اسے اپنی بیٹی کے نصیب پر رشک ہوا تھا۔ اس پورے گاؤں میں کسی کی ایسی بارات نہیں آئی تھی۔ کسی نے اتنے سکّے نہیں لٹائے تھے جو لوگوں کے گھروں کے آنگنوں اور چھتوں پر دانوں اور بارش کی طرح برس رہے تھے۔ پورا گاؤں ناچ رہا تھا۔ وقتی طو رپر سب بھول ہی گئے تھے کہ وہ بارات کہاں سے گزر کر کہاں جارہی تھی۔ سکّے انسانوں کی بینائی اسی طرح لے جاتے ہیں۔
اور وہی لمحہ تھا جب اپنے چہرے کے سامنے سے سہرا ہٹا کر گھوڑے کے اوپر بیٹھے ہوئے مراد نے اوپر دیکھا تھا اور چھت کی منڈیر کے پیچھے اللہ وسائی کی اوٹ میں سرخ جوڑے میں کھڑی جس حور کو اس نے دیکھا تھا، وہ شاید اُسے دنیا میں نہیں جنت میں ملنی تھی۔
وہ سرخ گھونگھٹ تھا جو اس کے سر سے سرک گیا تھا اور گوٹے سے سجا دوپٹہ اور اس کی بالشت بھر لمبی کرن اب موتیا کے چہرے کو اپنے گھیرے میں لئے روپہلا کئے ہوئے تھی ۔
وہ بھی اسے ہی دیکھ رہی تھی۔ دھوپ میں چمکتی سیاہ کاجل سے آنکھیں سجائے ماتھے پر ٹیکا لگائے وہ بھی اُسے ہی دیکھ رہی تھی۔ پل بھر کو مراد سب بھول گیا تھا۔
اپنا غصّہ، اس کی بے وفائی، وہ بارات، ڈھول تاشے، برستے سکّے، اس کا سہرا اور وہ گھوڑا جس پر وہ بیٹھا تھا۔ یاد تھی تو بس وہ جو اس چھت پر سرخ گوٹے کناری اور کرن لگے دوپٹے میں بس اسے دیکھ رہی تھی اور بس اس کی تھی۔ یہ جو بیچ میں ساری دنیا تھی یہ تو بس فریب تھا۔ وہاں اگر تھے تو بس وہ دونوں تھے۔ تیسرا کوئی نہیں ۔ سارا میل، سارا شکوہ، سارا غصّہ پتا نہیں ہوا بن کر غائب ہوا تھا یا دھواں بن کر۔
پر اس لمحے، اس ایک لمحے مراد کو موتیا سے کوئی بھی گلہ نہیں رہا تھا اور موتیا بھی ویسے ہی پلکیں جھپکائے بغیر اُسے دیکھ رہی تھی۔ دیکھتی ہی جارہی تھی۔
مراد نے گھوڑے کی باگیں کھینچنی چاہیں اور اُسے احساس ہوا گھوڑا اس کی مرضی سے نہیں چل رہا تھا۔
اور اُسی ایک لمحہ میں تاجور نے بگھی میں بیٹھے چھت پر کھڑی دُلہن بنی موتیا کو دیکھا تھا اور وہ بھی مراد کی طرح دیکھتی ہی رہ گئی تھی اور اُسے اپنی غلطی کا احساس ہوا تھا۔
اُسے مراد کی بارات اس گلی میں نہیں لانی چاہیے تھی۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});