”چوہدری صاحب! یہ پھولوں کا ہار موتیا نے بھیجا ہے۔ صبح آئی تھی میری طرف، میں حویلی کے لئے نکل رہی تھی تو اس نے کہا کہ آپ کو یہ دے دوں۔” شکوراں نے ایک رومال میں لپیٹے ہوئے موتیے کے پھولوں کے اُس ہار کو دینے کے لئے چوہدری مراد کو اپنے کمرے کی طرف جاتا دیکھ کر روکا تھا۔اس کا خیال تھا کہ مراد کا چہرہ کھل اُٹھے گاپر ایسا نہیں ہوا تھا۔
”اسے باہر پھینک دو! مجھے موتیا اچھا نہیں لگتا اب۔” وہ کہہ کر رُکے بغیر اندر چلا گیا تھا اور شکوراں کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا تھا۔ چوہدری مراد کو موتیا پسند تھا یہ سب کو پتہ تھا اور اب موتیا کے ہاتھوں سے گندھا ہوا موتیا کا ہار پھینکنے کو کہہ رہے تھے وہ بھی جب ان کی شادی کی تیاریاں ہورہی تھیں۔ شکوراں کی کچھ سمجھ نہیں آیاتھا۔
”سن شکوراں! سعید کا باپ آئے گا آج تیری طرف بتول کا رشتہ مانگنے۔ ہاں کردینا اور داج کی کوئی بات نہ کرنا ۔ وہ سعید کا باپ میرے اور چوہدری صاحب کے ساتھ کرے گا۔” تاجور کی آواز پر وہ یک دم پلٹی تھی جو باہر جانے کے لئے نکل رہی تھی پر تاجور کی بات پر جیسے اُسے شادیٔ مرگ ہوگیا تھا۔ وہ موتیا اور اس کے پھولوں کو بھی بھولی تھی اور مراد کے ردِعمل کو بھی ۔
”چوہدرائن جی!” فرطِ جذبات سے اس کے منہ سے کوئی جملہ ہی نہیں نکل رہا تھا۔ وہ بس رونے لگی تھی۔
”اچھا… اچھا بس کر! اور یہ دے موتیے کا ہار مجھے، میں کلائی میں ڈال لوں۔” تاجور نے کہتے ہوئے اس کے ہاتھوں سے وہ ہار لیا تھا اور اسے اپنی کلائی میں سوچے سمجھے بغیر ڈال لیا تھا اور باہر نکل گئی تھی۔ اس کے پاؤں خوشی کے مارے آج جیسے زمین پر پڑہی نہیں رہے تھے۔ نوکروں نے بھی بڑے دنوں بعد تاجور کو اتنا خوش دیکھا تھا۔
”سہ پہر تک آجاؤں گی میں واپس اور ان شاء اللہ آکر اچھی خبر سناؤں گی سب کو۔” اس نے جاتے جاتے شکوراں سے کہا تھا اور شکوراں نے کوئی سوال جواب نہیں کیا تھا۔ وہ بس لپکتے ہوئے اس کے پیچھے اس کو بگھی تک چھوڑنے گئی تھی جس میں چوہدری شجاع پہلے ہی بیٹھا ہوا تھا۔
…٭…
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
”بابا جان! آپ کو مجھ پر نہیں اپنے داماد پر تو بھروسہ ہے نا۔ ان سے پوچھ لیں مراد نے خود انکار کیا ہے یا میرے کہنے پر۔”
تاجور نے پیر ابراہیم کے پاس آکر ماہ نور کے رشتے کی بات کا آغاز کیا تھا اور پیر ابراہیم یہ ماننے پر تیار نہیں ہورہے تھے کہ موتیا کے کردار میں کوئی مسئلہ تھا جس کی وجہ سے مراد نے انکار کیا ہوگا۔ وہ خود گامو سے بات کرنا چاہتے تھے مگر تاجور اور ان کا بیٹا یحییٰ جیسے ان کی اس ضد پر جھلا گئے تھے اور بالا خر چوہدری شجاع نے مداخلت کی تھی۔
”تاجور ٹھیک کہہ رہی ہے ابّا جان! مراد اب موتیا سے شادی نہیں کرنا چاہتا۔ یہاں آنے سے پہلے میں نے اکیلے میں ایک بار پھر اس سے بات کی ہے۔ لیکن وہ نہ ٹھیک سے وجہ بتا رہا ہے نہ ہی موتیا سے شادی پر تیار ہے۔ اب ایسی صورت حال میں گامو سے بات کرنا بے کار ہے۔” چوہدری شجاع کی بات پر پیر ابراہیم کچھ نرم پڑے تھے مگر ان کی بے یقینی اب بھی کم نہیں ہوئی تھی۔
”یہی تو ابّا جان! اگر مراد نہیں مان رہا تو ہم کیوں زبردستی کریں؟اس نے خود مجھے کہا ہے کہ آپ ماہ نور کے لئے رشتہ لے کر جائیں، یہ صرف میری خواہش نہیں ہے۔” تاجور نے باپ کو کمزور پڑتے دیکھ کر کہا۔
”اور موتیا بھی ڈاکٹربن رہی ہے، وہ بھی کسی اونچے خاندان پر ہی ہاتھ مارے گی جیسے اس نے پہلے مارنے کی کوشش کی ہے ابّا جان ۔ کوئی میرے مراد کے لئے جوگ تھوڑی لے لینا ہے اس نے ۔” تاجور نہ چاہتے ہوئے بھی طنز کئے بغیر نہیں رہ سکی۔
”آپا ٹھیک کہہ رہی ہیں ابّا جان! میری اپنی بھی یہی مرضی ہے کہ ماہ نور اور مراد کی شادی ہو ۔ خود ماہ نور بھی بہت پسند کرتی ہے مراد کو۔ اگر موتیا والا مسئلہ نہ ہوتا تو میں تو آپ سے بات کرتا کہ میری بیٹی کی یہ خواہش ہے کہ آپ آپا سے بات کریں۔ ”یحییٰ نے اب جیسے محاذ خود سنبھال لیا تھا۔ تسبیح کے دانے گراتے پیر ابراہیم ان سب کی باتیں سنتے رہے۔ انہوں نے کچھ بھی نہیں کہا تھا اور جب سب اپنی اپنی باتیں کرکے تھک کر خاموش ہوگئے تو انہوں نے کہا:
”بڑی مشقت ہے ماہ نور کے نصیب میں یہاں شادی ہوئی تو…” اس سے پہلے کہ کوئی اور کچھ کہتا، تاجور بولی تھی۔
”دُعا دیجئے ابّا جان !بددُعانہیں۔”
پیر ابراہیم نے تاجور کا چہرہ دیکھا اور پھر سرہلادیا تھا۔ تاجور کا چہرہ کھل اُٹھا۔
”جو رب کی مرضی، جو اس کے فیصلے۔” انہوں نے مدھم آواز میں انگلی آسمان کی طرف اُٹھا کر کہا تھا۔ باہر برآمدے میں دروازے کے ساتھ لگی ماہ نور کا چہرہ کھل اٹھا تھا۔ اس نے اپنے ہاتھ کی کلائی میں مہکتا وہ موتیا کے پھولوں کا ہار سونگھا تھا جو تاجور نے وہاں آتے ہی اپنی کلائی سے اُتار کر اُس کی کلائی میں پہنا دیا تھا۔
…٭…
بتول نے اپنی ہتھیلی پر رکھے ہوئے ان نوٹوں کو بے یقینی کے عالم میں دیکھا تھا جو سعید کا باپ شگن کے طور پر اس کے ہاتھ پر رکھ رہا تھا۔ وہ تھوڑی دیر پہلے ہی آئے تھے اور مٹھائی کے ساتھ وہ سعید کے لئے اس کا رشتہ طے کرکے چلے گئے تھے اور ساتھ ہی شادی کی تاریخ بھی۔ وہ اُسی دن بیاہی جانے والی تھی جس دن موتیا کی بارات آنی تھی۔
”پتا نہیں بتول کیا معجزہ ہوا ہے صبح سویرے کہ چوہدرائن نے سعید کے باپ کو اس طرح تاریخ طے کرنے بھیج دیا۔” شکوراں جو کچھ دیر پہلے ہی حویلی سے آئی تھی، خوشی سے نہال ہورہی تھی ۔
”میں تو اب جلیبیاں بنوانے جارہی ہوں پورے گاوؑں میں بانٹوں گی اور دیکھ تو بھی اب ادھر ادھر جانا چھوڑ دے بس، چار دن ہی تو رہ گئے ہیں تیری بارات میں۔”
شکوراں بات کرتے کرتے کئی بار بے دم ہوئی۔ اسے ابھی سے کاموں کا سوچ سوچ کر فکر لاحق ہونے لگی تھی۔ یہ تو شکر ہے کہ داج کی ساری ذمہ داری تاجور نے اٹھالی تھی اور شکوراں کو اس کی فکر نہیں رہی تھی۔
”ارے تجھ سے ایک بات کرنا تو بھول ہی گئی۔ چوہدری مراد نے مجھے کہا کہ موتیا نے جو ہار بھیجا ہے وہ پھینک دو۔” شکوراں کو یک دم جیسے وہ بات یاد آئی جو وہ صبح سے بتول کو بتانے کا سوچ رہی تھی۔ بتول کے چہرے پر ایک رنگ آکر گزرا۔
”اور بتول! آج چوہدرائن جی جب اپنے میکے سے ہوکر آئی ہیں تو بڑا کچھ ساتھ لے کر آئی ہیں۔ پتا نہیں مجھے کیوں لگا کہ وہ کہیں چوہدری مراد کا رشتہ نہ طے کر آئی ہوں حالانکہ انہوں نے بتایا نہیں اور یہاں گاوؑں میں ہر طرف چوہدری مراد اور موتیا کی شادی کی بات ہے سب کی زبان پر۔ لیکن اتنے دنوں میں کوئی تیاری نہیں شروع ہوئی حویلی میں۔ آج چوہدرائن جی اپنے میکے سے آئی ہیں تو آتے ہی انہوں نے تیاریاں شروع کردی ہیں ۔ تو ذرا موتیا کو کرید تو یہ چکر کیا ہے۔” شکوراں نے اس سے کہا تھا۔
”امّاں! چوہدری شجاع نے اگر چاچا گامو کو زبان دی ہے تو وہ نہیں پھریں گے۔ اور میں کیا پوچھوں موتیا سے، تیاری ہورہی ہے اس کے گھر بھی۔ اور یہ پھول پھینکنے والی بات موتیاسے نہ کرنا۔ سولڑائیاں ہوجاتی ہیں دو پیار کرنے والوں میں۔ میری اور سعید کی بھی تو ہوتی رہتی ہے لڑائی۔ ” بتول نے بڑے اطمینان سے ماں کو سمجھایا تھا اور شکوراں کو جیسے اس کی بات سمجھ میں آگئی تھی۔
”بالکل ٹھیک کہہ رہی ہے تو،میں توخوامخواہ ہی وہم اور شک کرنے بیٹھ جاتی ہوں۔ چوہدری صاحب نے زبان دی ہے تو کہاں پھرنا ہے انہوں نے اپنی زبان سے۔”
اس سے پہلے کہ ان دونوں میں کوئی اور بات ہوتی، موتیا دروازے پر دستک دے کر اندر آگئی تھی۔ بتول کو اس کا پہلے ہی انتظار تھا ۔ سہ پہر ہورہی تھی اور وہ سہ پہر کے انتظار میں ہی بیٹھی رہی ہوگی کب بتول حویلی سے لوٹتی اور مراد کا جواب لے کر آتی۔
”ارے خالہ! یہ مٹھائی وغیرہ کہاں سے آگئی۔” موتیا پھل اور مٹھائی دیکھ کر جیسے کچھ حیران ہوئی تھی۔
”لے تو کھا! تیری سہیلی کی بھی تاریخ طے ہوگئی سعید کے ساتھ۔ ” شکوراں نے خوشی سے بے حال خود ہی ایک لڈو نکال کر اس کے منہ میں ڈالنے کی کوشش کی تھی اور موتیا بھونچکا رہ گئی تھی۔ بتول شرمانے لگی تھی۔
”خالہ! آپ سچ کہہ رہی ہیں؟ مذاق تو نہیں کر رہیں میرے ساتھ۔” وہ یک دم بہت ہی خوش ہوگئی تھی۔
”اپنی سہیلی سے پوچھ سچ ہے کہ جھوٹ، میں تو ذرا حلوائی کی طرف جارہی ہوں جلیبیاں بانٹنی ہیں گاؤں میں۔” شکوراں اٹھ کر ہنستے ہوئے کھڑی ہوئی تھی اور موتیا بتول سے لپٹ گئی تھی۔
”میں نے کہا تھا نا تجھ سے بتول کہ تیری شادی سعید سے ہی ہونی ہے۔ میں نے خود دیکھا تھا خواب میں۔” بتول اس کے ساتھ ہنستی رہی مگر وہ اب بھی اس سے نظریں نہیں ملارہی تھی۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});