دانہ پانی — قسط نمبر ۶

”تو اتنی صبح کیسے آگئی موتیا؟” بتول نے پیڑا بناتے ہوئے اپنی ماں کو دروازے پر کہتے سنا اور پیڑا بناتے ہوئے اس کے ہاتھ کپکپائے تھے۔
”وہ بتول سے کچھ ضروری کام تھا ۔ وہ گھر پر ہے نا؟” اُس نے موتیا کااگلا جملہ بھی سنا تھا اور اس کا دل چاہا تھا اس کی ماں کوئی بہانہ بنادے، کہہ دے کہ وہ گھر پر نہیں ہے۔
”ہاں ہاں اندر ہی ہے۔ تو دروازہ بند کرلے میں حویلی کے لئے نکل رہی ہوں۔” شکوراں نے موتیا سے کہا تھا۔
”خالہ! یہ مراد کو دے دینا۔” شکوراں نے حیران ہوکر موتیے کے پھولوں کا وہ ہار دیکھا جو موتیا اُسے پکڑا رہی تھی۔ پھر اس نے پہلی بار موتیا کا چہرہ اور اس کی سرخ آنکھیں دیکھیں۔
”دے تو دوں گی پر یہ تیری آنکھیں کیوں سرخ اور سوجی ہوئی ہیں۔” شکوراں نے اُس سے کہا۔
”ہاں! بس وہ میں اور بتول کل رات گئے کنویں پر بیٹھی رہیں تو پھر گھر آکر بھی نیند نہیں آئی۔” موتیا نے شکوراں سے نظریں چرائی تھیں اور شکوراں کا دل جیسے اُس نے کسی بوجھ سے ہلکا کیا تھا۔
”لے بھلا تیرے ساتھ کنویں پر جانا تھا تو بتادیتی، یوں چھپاتی کیوں رہی مجھ سے۔” شکوراں کہتے ہوئے چلی گئی ۔
اسے اپنی بیٹی کی ”معصومیت” پر یک دم ہی جیسے پیار آیا تھا۔ پر اسے دیر ہورہی تھی اور وہ واپس اندر جاکر بتول سے بات نہیں کرسکتی تھی۔
بتول نے اندر توے پر روٹی ڈالتے ہوئے دروازے پر ان دونوں کے درمیان ہونے والی یہ ساری گفتگو سنی تھی۔ وہ ذہنی طور پر اپنے آپ کو موتیا کے سوالوں کے لئے تیار کررہی تھی۔ کنویں سے رات کو بغیر بتائے غائب ہوجانے کا جواز ڈھونڈھ رہی تھی اور چوہدری مراد کے یوں اچانک وہاں آجانے کی تاویلیں اور اس سب کے درمیان موتیا کب آکر پیڑھی کھینچ کر اُس کے پاس بیٹھ گئی تھی ، اُسے احساس ہی نہیں ہوا ۔
احساس تب ہوا جب اس کے بجائے توے پر روٹی کو موتیا نے پلٹا تھا۔ بتول دوسرا پیڑا بنارہی تھی۔ بتول نے اُس کا چہرہ دیکھا۔ اُس نے موتیا کو اس حال میں پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اُس کی آنکھیں سرخ اور سوجی ہوئی تھیں، یوں جیسے وہ ساری رات روتی اور جاگتی رہی تھی۔
بتول کے دل کو کچھ ہونے لگا۔ وہ اپنے آپ کو اس کے پہلے سوال کے لئے تیار کرنے لگی پر سوال وہ نہیں آیا تھا جو اس نے سوچا تھا۔
”سن بتول! مجھے مراد سے ملنا ہے۔ اُسے کہہ کہ وہ مجھ سے ملے۔ کہیں آجائے ورنہ میں حویلی آجاوؑں گی ۔” نہ کوئی سوال ، نہ شکایت، نہ طعنہ، موتیا نے سیدھا آتے ہی اس سے مطالبہ کیا تھا۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

”خیر تو ہے بیٹھے بٹھائے چوہدری مراد سے کیوں ملنا ہے؟ اب تو شادی کی تیاریاں ہورہی ہیں تو ایک بار ہی ملنا اب تو۔” بتول نے انجان بننے کا فیصلہ کرتے ہوئے چمٹا اُٹھا کر روٹی کو توے سے اتار کر لکڑیوں پر سینکنا شروع کیا تھا۔
”وہ رات کو وہاں آگیا تھا۔ اس نے مجھے سعید کے ساتھ دیکھا اور وہ غصّے میں آگیا ۔ مجھے قتل کرنا چاہتا تھا وہ بندوق سے پر پھر مجھے یہ کہہ کر چھوڑ گیا کہ اس نے اپنے دل سے مجھے نکال دیا۔ ”
وہ بہتے آنسووؑں کے ساتھ بتول کو وہ سب کچھ بتارہی تھی اور بتول دیکھتی ہی جارہی تھی۔
”بس اس سے کہہ وہ مجھ سے ایک بار ملے اور اس کی غلط فہمی دور کر دو، اسے بتاوؑ کہ تم بھی وہاں تھی اور سعید کو میں تمہارے کہنے پر ملنے گئی تھی کچھ اور بات نہیں تھی۔”
”ہاں ہاں! میں ابھی جاتی ہوں تھوڑی دیر میں۔ مجھے تو پتا ہی نہیں تھا کہ کیا ہوا وہاں۔ نہ میں نے مراد کو آتے دیکھا نہ تمہیں جاتے ۔ میں تو بس تمہارا انتظار کرکے پھر آگئی وہاں سے۔” بتول نے گڑبڑا کر اس سے کہا تھا اور ساتھ ہی اپنی وضاحت بھی دے دی تھی۔
”اور مجھے تو ابھی تک سعید نے بھی آکے کچھ نہیں بتایا۔ پر تم فکر نہ کرو، میں جاتی ہوں ابھی حویلی۔ سب ٹھیک ہوجائے گا۔” بتول نے گڑبڑائے ہوئے نظریں ملائے بغیر جیسے اُسے تسلی دینے کی کوشش کی تھی۔
”میں نے مرجانا ہے بتول اگر وہ اسی طرح روٹھا رہا تو۔” بتول کے ہاتھ پکڑتے ہوئے وہ بلک بلک کر روتے ہوئے کہہ رہی تھی۔
”کیسی باتیں کررہی ہے موتیا! کچھ نہیں ہوگا۔ بس میں جارہی ہوں حویلی۔ سہ پہر کو آتی ہوں تو خوش خبری لاوؑں گی تیرے لئے۔” بتول نے اس کے آنسو پونچھے تھے اور پھر روٹی کا ایک لقمہ توڑ کر اس کے منہ میں ڈالتے ہوئے کہا:
”چل روٹی، مکھن اور ساگ کھاتے ہیں۔ امّاں گھوٹ کے گئی ہے اور تجھے پسند بھی ہے امّاں کے ہاتھ کا ساگ۔” اس نے جیسے موتیا کا ذہن بٹانے کی کوشش کی تھی پر موتیا نے لقمہ منہ سے نکال کر رکھ دیا تھا۔
”بھوک مرگئی ہے میری بتول! جب تک مراد ناراض رہے گا، میں ایک لقمہ بھی نہیں کھاسکتی۔”
اس نے اپنا سر پیڑھی پر بیٹھے ہوئے اپنے دونوں گھٹنوں میں گھسالیا تھا۔ بتول کو روٹی پر پگھلتے مکھن کی طرح اپنا آپ بھی پگھلتا لگا۔ بھوک صرف موتیا کی ہی نہیں اس کی بھی اڑ گئی تھی۔ وہ حویلی جاتی اور واپس آکر موتیا سے کیا کہتی۔ مگر حویلی جانے سے پہلے اسے گاوؑں میں کسی پیر کے مزار پر لگے درخت کی شاخ سے وہ دھاگہ کھولنا تھا جو اس نے منت کے طور پر باندھا تھا کہ سعید کو کچھ نہ ہو، وہ چوہدری مراد کے ہاتھ سے بچ جائے۔ اور وہ بچ گیا تھا۔ بتول کو ساری عمر اپنی دعاوؑں پر یقین نہیں آیا تھا اور اب یک دم ہی اس کی دعائیں قبول ہونے لگی تھیں۔ وہ پہلا دھاگہ تھا جو اس نے کھولنا تھا اور آخری دھاگہ بھی جو اس نے باندھا تھا۔
…٭…
”میں نے رات بڑا بُرا خواب دیکھا ہے اللہ وسائی! یہ موتیا کہاں ہے۔” گامو نے صبح سویرے کنویں سے واپس آتے ہی بڑی فکر مندی سے بیوی سے کہا تھا جو روز کی طرح اس کے لئے ناشتہ بنانے بیٹھی ہوئی تھی اور اب اس کی بات سنتے ہی فکر مند لگنے لگی تھی۔
”تو نے آج کل میری طرح الٹے سیدھے خواب دیکھنا شروع کردیئے ہیں۔” اللہ وسائی نے پاس بیٹھتے ہوئے گامو سے کہا اور اس کے جملے پر وہ چونکا تھا۔
”تو نے بھی کوئی خواب دیکھ لیا؟”
”دفع کر میرے خوابوں کو، تو بتا تو نے کیا دیکھا۔” اللہ وسائی نے اسے کریدا تھا۔
”کچھ یاد نہیں۔ بس یہ یاد ہے کہ جو بھی تھا موتیا کے بارے میں تھا اور موتیا پریشان تھی۔” گامو نے بات جیسے گول کرتے ہوئے کہا اور پھر ساتھ ہی اس نے موتیا کو آواز دی۔
”بتول کی طرف گئی ہے۔ اس کا دوپٹہ رہ گیا تھا ادھر۔” اللہ وسائی نے بتایا اور ساتھ ہی فکر مند ہوگئی۔
”اب گھر سے کہیں جانے نہ دیا کر اُسے۔ دن ہی کتنے رہ گئے ہیں شادی میں۔” گامو نے چنگیراپنی طرف کھسکاتے ہوئے کہا۔
”ہاں! میں نے بھی سوچا ہے بس آج مایوں بٹھا دینا ہے اُسے ۔ ورنہ اس کو تو گھر بٹھانا مشکل ہوگیا ہے اس بار ۔ ہر وقت بتول بتول کرتی رہتی ہے۔ ” اللہ وسائی نے کہا۔
”آج صدقہ بھی دیتا ہوں اس کا ، نظر بھی تو لگ جاتی ہے اسے، یاد ہے جب ڈاکٹری میں داخلہ ہوا تھا تب بھی بیمار ہوگئی تھی۔” گامو کو یاد آرہا تھا ۔ وہ باپ تھا۔ بیٹی کے بارے میں آنے والے کسی برے خواب پر یقین نہیں کرنا چاہتا تھا۔
”ہاں ہاں مجھے کیوں یاد نہیں ہوگا گامو! کہاں کہاں لے کر پھرے تھے اُسے، پھر پیر صاحب نے دعا کی تھی تب ہی آرام آیا اور اب دیکھو، کیسا نصیب ہے میری دھی کا کہ ان ہی پیر صاحب کے خاندان کا حصّہ بن جائے گی۔” اللہ وسائی کی بات کرتے کرتے آواز بھر آئی۔
”جھلی ہوگئی ہے۔کیوں صبح صبح بدشگونی کرنے بیٹھ گئی ہے۔” گامو نے اسے ڈانٹا۔
”تیرا دل بڑاسخت ہوگیا ہے گامو! تو سوچتا نہیں کہ وہ چلی جائے گی تو گھر کتنا سونا ہوجائے گا ہمارا۔” اللہ وسائی نے جیسے اس کو طعنہ دیا۔
”میں نہیں سوچتا کچھ بھی اللہ وسائی! سوچنے بیٹھوں گا تو کھانا پینا ہی چھوٹ جائے گا میرا تو۔ دھی ہوتی ہی پرایا دھن ہے بس جتنے سال ہمارا آنگن مہکایا۔ مہکایا اب اگلوں کے گھر کی بہار بنے گی۔” گامو کی آنکھیں بھی نم ہوگئی تھیں۔
” میں تو بس ہنستا بستا دیکھ لوں اُسے پھر تو چاہے بلاوا آجائے۔ ” اللہ وسائی نے دوپٹے سے آنکھیں رگڑیں ۔ گامو جیسے تڑپ اُٹھا۔
”بس بیٹی کی پروا ہے تجھے اور میرا دھیان نہیں ۔ مجھے کون دیکھے گا۔” اللہ وسائی روتے روتے ہنسی۔
”ارے! تم کرلینا دوسری شادی بلکہ موتیا کو کہہ کے جاوؑں گی میں کہ… ”وہ اپنا جملہ مکمل نہ کرسکی۔ گامو نے چنگیر پیچھے کردی تھی۔
”اچھااچھا ناراض نہ ہو صبح سویرے، چل سوسال زندہ رہنے کی دعا کروں گی۔ موتیا کے بچوں کی شادی دیکھ کے جاوؑں گی وہ بھی تیرے جانے کے بعد۔” گامو کو ناراض ہوتے ہوتے ہنسی آگئی۔
”چل کھاکھانا۔ عورتوں کی طرح روٹھ روٹھ کے بیٹھتاہے صبح سویرے۔” اللہ وسائی نے اُسے ڈانٹتے ہوئے لسی کا گلاس اُس کے سامنے رکھا۔
…٭…
”تم کہیں جارہی ہو؟”
چوہدری شجاع نے حویلی کے صحن میں لگی بگھی کو دیکھ کر اندر آتے ہوئے کچھ حیرانی سے تاجور سے پوچھا تھا جو سنگھار میز کے سامنے تیار ہورہی تھی۔
تاجور نے ایک بے حد معنی خیز گہری مسکراہٹ کے ساتھ شوہر کو دیکھا اور کہا:
”ہاں! بابا جان کے پاس۔ ماہ نور کا رشتہ مانگنے۔ آپ کے کپڑے بھی نکال دیے ہیں ملازم نے۔ آپ بھی تیار ہوجائیں ۔”
چوہدری شجاع کو لگا تاجور کا دماغ خراب ہوگیا ہے۔
”تم ہوش میں تو ہو۔ تمہیں بتا نہیں دیا میں نے کہ گامو کو زبان اور تاریخ دے آیا ہوں میں اور یہی تمہارے بیٹے کی بھی مرضی ہے۔”
اس نے بڑی ناراضی سے جیسے بیوی کو یاد دلایا۔ تاجور نے بڑے اطمینان سے جھمکے پہنتے ہوئے کہا۔
”چوہدری صاحب! مرضی بدل گئی ہے آپ کے بیٹے کی۔ وہ اب نہیں کرے گا موتیا سے شادی چاہے آپ نے زبان دی ہو یا نہیں۔”
چوہدری شجاع ہکا بکا بیوی کا چہرہ دیکھتا رہا۔ اور اس سے پہلے کہ وہ اس سے کوئی اور سوال کرتا، مراد اندر آیا تھا۔
”امّی ٹھیک کہہ رہی ہیں ابّو۔ موتیا سے شادی نہیں کرنی میں نے۔”
”کیوں؟ تم نے مذاق بنارکھا ہے ایک دن ایک بات کرتے ہو اگلے دن دوسری۔ میں کیا کہوں گا گامو کو۔” چوہدری شجاع اس پر غضبناک ہوا تھا۔
”آپ کو کہنے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔ میں نے خود موتیا کو بتادیا ہے کہ میں اس سے شادی نہیں کروں گا۔ آپ کو اب گامو کے سامنے سر نیچا نہیں کرنا پڑے گا۔ ” مراد کہہ کر کمرے سے چلا گیا تھا۔
”چلیں چوہدری صاحب! اب لمبی سوچوں میں نہ پڑیں۔ بیٹے کی طرح فیصلے کیا کریں فٹافٹ۔ اسی تاریخ کو ماہ نور کو بیاہ کر لے آؤں گی اپنے مراد کی دلہن بنا کر جس تاریخ کو موتیا کو بیاہنے جانا تھا۔ ”
تاجور نے عجیب انداز میں جیسے مذاق اڑاتے ہوئے شوہر سے کہا تھا جو صرف اس کا چہرہ دیکھ کر رہ گیا تھا۔
”اور اگر گامو میرے پاس آگیا تو۔” اس نے جیسے اپنا خدشہ ظاہر کیا۔
”وہ نہیں آئے گا چوہدری صاحب! بیٹی بتادے گی باپ کو کہ اس کے کن کرتوتوں کا پتا چل گیا ہے ہمیں اور گامو تو پھر منہ چھپاتا پھرے گا آپ سے ۔اب تفصیل سننے نہ بیٹھ جائیں آپ، واپسی پر بیٹے سے پوچھ لیں سب کچھ جس نے رنگے ہاتھوں پکڑا ہے اسے۔ مجھے تو کچھ بتایا ہی نہیں اس نے۔”
تاجور نے بڑی بے نیازی سے کہا اور کمرے سے نکل گئی اور چوہدری شجاع کچھ اور پریشان ہوگیا۔
…٭…

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

دانہ پانی — قسط نمبر ۵

Read Next

آخری لفظ — فارس مغل

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!