دانہ پانی — قسط نمبر ۶

”اب کیسی طبیعت ہے اُس کی؟”
اللہ وسائی نے موتیا کے انتظار میں دہلیز کے چکر کاٹتے کاٹتے رات گزاری تھی اور موتیا کو دیکھتے ہی اُس نے پوچھا تھا۔
”ہاں! اب ٹھیک ہے۔”
موتیا نے ماں سے نظریں ملائے بغیر گھر کے صحن میں آکر وہاں پڑے گھڑے سے پیالے میں پانی ڈال کر پیا تھا۔
” اللہ تیرا شکر ہے۔” اللہ وسائی نے بے اختیار کہا۔
”میں صبح جاتی ہوں، جاکر پتا کرتی ہوں اُس کا۔”
موتیا نے ماں کی بات پر پانی پیتے پیتے چھوڑا۔
”نہیں امّاں! اب صبح ہی نہ چل پڑیں۔ایسے ہی بتول پریشان ہورہی تھی۔ وہ ٹھیک تھیں بس وہم کرتی ہیں۔”
اُس نے ماں کو روکا ۔ اللہ وسائی نے بغور اُس کا چہرہ دیکھا۔
”تجھے کیا ہوا ہے؟ کیوں اتنا پانی پی رہی ہے؟” اُس نے موتیا کو غٹا غٹ ایک پیالہ پیتے ہی دوسرا پیالہ بھرتے دیکھ کر کہا۔
” پتا نہیں گرمی زیادہ ہے، اس لئے۔” موتیا نے پیالے سے ہی ایک اوک میں پانی لے کر چہرے پر چھینٹے مارتے ہوئے کہا۔
”تیری چوڑیاں کہاں ہیں موتیا؟”
اللہ وسائی کو اُس کی خالی کلائیاں نظر آئی تھیں پھر اُس کے کندھوں پر بتول کا دوپٹہ ۔ پانی پیتے ہوئے موتیا ٹھٹکی تھی۔
”بتول کے گھر اُتار کر رکھی تھیں امّاں آتے ہوئے یاد ہی نہیںرہا۔”
اللہ وسائی نے عجیب حیران ہوکر موتیا کا چہرہ دیکھا۔ وہ جھوٹ بول ہی نہیں سکتی تھی اور یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ گامو اور اللہ وسائی اُس کے کہے پر بھروسہ نہ کرتے، پر اللہ وسائی حیران ہوئی تھی۔ وہ چوڑیاں کیوں اُتارنے بیٹھ گئی تھی اور دوپٹہ… اللہ وسائی نے کوئی او ر سوال نہیں کیا تھا۔ اُس نے خود ہی سوچ لیا تھا کہ غلطی سے بتول کادوپٹہ بھی اوڑھ کے آگئی ہوگی وہ۔
” چل موتیا سوجا اب تیرے لئے میں بھی بیٹھی رہی ہوں اب تک۔”

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

اللہ وسائی کہتے ہوئے اندر چلی گئی تھی اور موتیا وہیں گھڑے کے پاس پانی کا خالی پیالہ لئے بیٹھی رہی۔ پیالے کو تیسری بار پانی سے بھرتے ہوئے اُ س نے پانی میں چاند لہراتے دیکھا تھا۔ وہ جیسے اُس کے پانی کے پیالے میں اُتر آیا تھا۔ موتیا پانی پی نہیں سکی، وہ بس ہلتے ہوئے پانی میں اُس چاند کو دیکھتی رہی۔
وہ بچپن سے اسی طرح چاند کو اپنے پیالے میں اُتار لیا کرتی تھی۔ وہ تتلیوں اور جگنوؤں کے ساتھ ساتھ چاند بھی پکڑا کرتی تھی اور اب چاند اُس ہلتے ہوئے پانی میں ہلکورے لیتے ہوئے اُسے دیکھ رہا تھا اور اُس کی چاندنی جیسے مرہم بن کر اُس کے وجود کو لپٹ گئی تھی ،پر موتیا ویسے ہی درد سے بے سدھ تھی۔
وہ کیسے ایک پل میں یہ کہہ گیا تھا کہ اُس نے دل سے اُتاردیا، کوئی ایک بار دل کے تخت پر بٹھا کر اُتار کیسے سکتاہے اور وہ بھی ”میرا مراد”۔ اُس نے بہتے آنسوؤں کے ساتھ جیسے چاند سے پوچھا تھا، اور چاند گونگا ہوگیا تھا۔ بول سکتا تو اُسے دشمنوں کا بتاتا، پیٹھ میں چھرا گھونپنے والوں کا۔ پر چاند کو تو بس گواہ بننا آتا تھا، اُس سے زیادہ کچھ نہیں۔ موتیا کے بہتے آنسو اب پانی کے اُس پیالے میں گررہے تھے۔ میٹھے پانی کو نمکین کررہے تھے اور چاند کو غمگین۔
”میں اُسے منالوں گی، دیکھنا میں اُسے منالوں گی۔” اُس نے چاند سے کہا تھا۔
” میری غلطی تھی میں آدھی رات کو چل پڑی سعید کو سمجھانے۔ مراد نہیں کوئی بھی ہوتا تو شک کرتا۔ یہ سب دن میں ہوتا نا تو مراد کبھی شک نہ کرتا، پر آدھی رات کو کنویں پر اکیلے کوئی بھی جاتا، دنیا کو شک میں ڈال دیتا۔”
وہ چاند کو تاویلیں اور وضاحتیں دے رہی تھی۔مراد کی شکایت کرکے پھر خود ہی اس کا دفاع کرنے لگی تھی۔چاند چپ سنتا رہا۔ ایسے قصّے، ایسی کہانیاں، ایسی باتیں، ایسے فسانے اُس نے صدیوں سے سُنے اور دیکھے تھے اور صدیوں تک دیکھنے تھے۔ پھر بھی وہ جیسے موتیا کی ہم جولی بن بیٹھا تھا۔ یہ پوچھنے کے بجائے کہ مراد دنیا کیسے بن بیٹھا تھا، وہ اُس کے آنسو پی رہا تھا۔
اتنے سالوں میں اُس نے حسن کو بس روتے ہی دیکھا تھا اور عشق کو ہمیشہ خالی ہاتھ،یہ تو بس موتیا تھی جو اُس کو اپنے ہاتھوں میں اُتار لیتی تھی اور وہ اُتر آتا تھا۔ وہ اُس کے ہاتھوں میں چاند نہیں اُس کا چکور بن جاتا تھا۔
…٭…
چاند نے رات کے اُس پہر مراد کی حویلی میں تاجور اور مراد کو بھی دیکھا تھا۔ وہ دونوں اپنے اپنے کمروں میں تھے۔ تاجور کی کھلی کھڑکی سے چاندنی نے جھانک کر اُسے اپنے بستر پر پر سکون گہری نیند میں دیکھا۔ غرور دل توڑ کر ہمیشہ گہری نیند سوتاہے۔
مراد اپنے بستر پر ٹانگیں لٹکائے سر جھکائے بیٹھا تھا۔ چاندنی کھلی کھڑکی کی سلاخوں سے اُس کے کمرے میں بھی اُتر آئی تھی۔ وہ غمزدہ عاشق تھا۔ شک کر بیٹھا تھا اور اب اپنے دل کی کرچیاں لئے بیٹھا تھا جو جڑنے پر تیار ہی نہیں تھا۔ چاند حُسن کا حال دیکھ آیا تھا، اب عشق کا عالم دیکھنے آیا تھا۔
نئیں لنگدا وقت وچھوڑے دا
بن یار گزارا کون کرے
دُنیا توں کنارہ ہوسکدا
یاراں تو کنارہ کون کرے
اِک دن ہووے
تے لنگ جاوے بلھیا
ساری عمرگزارا کون کرے
وہاں بیٹھے بیٹھے مراد نے موتیا کو اپنی زندگی کے ہر صفحہ سے مٹانا شروع کررکھا تھا اور صفحے تھے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔ کھڑکی سے آتی چاندنی میں ڈوبا وہ غم کے مہیب اندھیروں سے چھٹکارا پانے کی کوشش کررہا تھا۔ موتیا بے وفا تھی اور اُس نے اُسے چھوڑ کر جینا تھا اور بس۔ یہ آخر کے دو لفظوں نے سارا مسئلہ کھڑا کردیا تھا،جینا تھا، پر کیسے؟ مرنا ہوتا تو آسان تھا۔ وہ اُسی بندوق سے اپنی جان لے لیتاجس کی نالی اُس کی شہ رگ پر رکھ کر وہ گولی نہیں چلا سکا تھا۔ یااسی کنویں میں کود کر مرجاتا جہاں وہ پہلی بار موتیا سے ملا تھا۔ یا اُس ریل گاڑی کے آگے کود جاتا جس سے اُترتے ہوئے اُس نے موتیا کو پہلی بار دیکھا تھا۔
مرنے کے سو طریقے تھے پر اُس کے بغیر جینے کا کوئی ایک بھی طریقہ نہیں تھا۔ اور زندگی لمبی تھی، کم از کم وہاں بیٹھے اُسے لگ رہی تھی۔ وہ اب بس اُسے بھولنا چاہتا تھا۔ بس بھولنا چاہتا تھا اور بس بھولنا چاہتا تھا۔ اور بھولنے کے ایک ایک حرف پر وہ اُس کے دل میں کھبی جاتی تھی،جونک کی طرح۔ وہ بے رحمی سے کھینچتا، وہ اُس کے وجود کو لہولہان کرتی الگ ہوتی پھر کسی اور جگہ چپک جاتی۔ وہ کوئی بے بس کمزور مرد ہوتا تو بلک بلک کر روتا پھر اُسے معاف کرکے دوبارہ اُس کے سنگ ہولیتا۔ پر وہ اناپرست مردتھا جس کی رگوں میں تاجورکا خون دوڑتا تھا۔ وہ موتیا کے لئے ماں سے جنگ کرسکتا تھا تو موتیا کے لئے دل بھی مارسکتا تھا۔ پر وہ مرا ہوا دل پھر بھی اُس کے وجود میں آہیں بھر بھر کے کُرلا رہا تھا۔
اُسے بتارہا تھا کہ پیار ایسے نہیں مرتا خود اپنے ہاتھوں۔ یہ کبھی خودکشی نہیں کرتا۔اُسے مارنے کے لئے ہمیشہ ”قاتل” چاہیے جو کبھی ”وقت” ہوتاہے کبھی ”رقیب”۔
مراد بے حال بیٹھا تھا اور چاند کو اُس پر بھی ترس آیا تھا۔حسن اور عشق کو فنا ہے، پر اُن کی کہانی لافانی ہو جاتی ہے۔ حسن عشق کی بے نیازی اور کج ادائی نہیں سہہ سکتا، عشق حُسن کی بے وفائی برداشت نہیں کرسکتا۔ پر پھر بھی جب جب دونوں سامنے آتے بے اختیار ہوتے۔ دور ہوتے تو بھی ایک دوسرے کی یادوں کا طواف کرتے۔ بچھڑجاتے تو قصے ،کہانیاں، داستانیں چھوڑجاتے۔
پر یہ کبھی نہیں ہوا کہ حسن اور عشق ایک دوسرے کو بھول جاتے۔ اور اب یہ بیڑہ مراد نے اُٹھایا تھا۔ ناممکن کو ممکن کرنے کا۔ چاند کو اُس پر ترس آیا۔ وہ گونگا نہ ہوتا تو اُس سے کہتا کہ موتیا کو دل کے تخت سے اُتارے گا تو پھر تخت ہی نہیں رہے گا کسی دوسرے کو بٹھانے کے لئے، پر چاند تو گونگا تھا۔ موتیا کے لئے وہ چکور بن جاتا تھا، مراد کے لئے چور۔
…٭…

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

دانہ پانی — قسط نمبر ۵

Read Next

آخری لفظ — فارس مغل

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!