دانہ پانی — قسط نمبر ۶

سجناں ولوں خط آیا کیویں کھولاں دس
کدھرے ایہہ نہ لکھیا ہووے تیری میری بس
مراد نے بندوق چلانے کے لئے گھوڑا دبانے کی کوشش کی تھی۔ وہ نہیں دبا۔ اُس کی نظر موتیا کی گردن پر رُک گئی تھیجہاں اُس کی بندوق کی نالی تھی۔ اُس کی دودھیا حسین صراحی دارگردن کے اس گڑھے میں وہ چند دن پہلے تک پانی بھی حلق سے گزرتے دیکھ لیتا تھا۔ اب اُسے گولی ماردیتا تو اُس کا اُسی حلق سے ابلتا خون کیسے دیکھتا اور خون دیکھنے کی ہمت کر بھی لیتا تو اُسے تڑپتا کیسے دیکھتا۔ اور تڑپتا دیکھنے کے لئے دل پتھر کر بھی لیتا تو موتیا کو مرتا کیسے دیکھ لیتا۔
اُس کا دل چاہا کہ وہ بھی بھاگ جاتی، بالکل سعید بزدل کی طرح۔ پر وہ تو بھاگی بھی نہیں تھی، وہیں کھڑی تھی، اُس کے سامنے۔ وہ بے وفا تھی اور ڈھیٹ بھی تھی یا پھر اُس کو یہ گھمنڈ تھا کہ وہ اُسے مار نہیں سکتا۔ اگر وہ گھمنڈ تھا تو ٹھیک تھا۔
اُس نے گولی نہیں چلائی تھی،بندوق کی نالی نیچے کرلی تھی۔ وہ نہ بھی کرتا تو بھی موتیا کو پتا تھا وہ اُسے مار نہیں سکتا تھا۔ پر اُس نے شک بھی کیسے کرلیااُس پر۔ موتیا کو موت سے کہاں خوف آیا تھا،اُس ”شک” نے لرزہ طاری کیا تھا اُس پر جو پیار کرنے والوں کے درمیان تو کبھی آتا ہی نہیں تھا۔
” جا موتیا! تجھے دل سے اُتار دیا میں نے۔”
مراد نے بندوق کی نال ہٹاتے ہوئے اُس سے کہا تھا اور کسی نے جیسے موتیا کے دل میں گولی ماری تھی۔
” ایک بار تو نے جان بچائی تھی میری، آج اسی کے طفیل جان بخش دی میں نے تیری۔ بس اب تو میری نہیں رہی۔ جا جس کے ساتھ چاہے جا۔ زندہ رہ کے مر جا میرے لئے۔” مراد رُکا نہیں تھا، نہ اُس کا چہرہ دیکھنے کے لئے نہ اُس کا رونا اور بلکنا دیکھنے کے لئے۔ وہ بس پلٹا تھا اور تیز قدموں سے درختوں کے اُس جھنڈ سے نکل گیا تھا اور اپنے گھوڑے پر بیٹھ کر وہ رُکے بغیر سرپٹ گھوڑا بھگاتے حویلی کی طرف چلا گیا تھا اور موتیا وہیں گڑی رہ گئی تھی۔
” جا موتیا! تجھے دل سے اُتار دیا میں نے۔”
اُس کا جملہ کسی گولی کی طرح بار بار اُس کے وجود کو آکر لگ رہا تھا اور اُن لفظوں نے اُ س کے پورے وجود کو چھلنی کردیا تھا۔ جو پیار اُس نے مراد سے کیا تھا، ویسا تو کسی کے ساتھ نہیں کیا تھا۔ دنوں اور ہفتوں میں اندھا پیار۔ ایسا پیار تو رب کے لئے ہوتا ہے۔ ہر کوئی بندہ رب کی تسبیح کرتے کرتے پیار کا کلمہ پڑھنے لگتاہے اور جب بندے کا کلمہ پڑھا جانے لگے تو پھر ٹھوکر تو لگتی ہے۔موتیا کو بھی لگی تھی پر وہ سمجھ نہیں پائی تھی کہ کیوں لگی تھی۔
”جو مجھے مار نہیں سکتا وہ مجھے چھوڑ کیسے سکتاہے؟”
پتا نہیں کتنی دیر وہاں بُت بنے کھڑے رہنے کے بعد موتیا نے سانس لینے کی جیسے پہلی کوشش کی تھی اور سانس لینے کی اُس کوشش میں اُس کا پورا وجود بے حال ہوا تھا۔ پتا نہیں وہ سانپ کہا ں تھا جس نے خواب میں اُس کو کاٹنا تھااور اُس نے مرجانا تھا۔ وہاں کھڑے کھڑے اُسے اپنا خواب یادآیا اور وہ سانپ بھی۔ وہاں درختوں کے جھنڈ میں نیم تاریکی میں اُس نے زمین پر کسی چیز کو ڈھونڈنے کی کوشش کی تھی۔ وہ آجاتا اُسے ڈس لیتا وہ مرجاتی اور بس اُس کی تکلیف تو ختم ہوجاتی جو مراد کے ایک جملے نے اُسے دی تھی۔
چاند کی چاندنی بھی وہیں تھی، مہکتی، سرسراتی، ہوا میں بسی آم کے بور کی خوشبو بھی پر اب موتیا کو وہاں کچھ بھی نظر نہیں آرہا تھا۔ وہ جھنڈ سے اندھوں کی طرح چلتے ہوئے باہر آئی تھی۔ نہ اُس نے پگڈنڈی پر بکھری اُن چوڑیوں کو دیکھا تھا، نہ ہوا کی وجہ سے زمین پر ادھر سے اُدھر جاتے اپنے دوپٹے کو جس کو اگلا کوئی جھونکا کھیتوں میں اُڑ ا کر پتا نہیں کہاں سے کہاں پہنچادینے والا تھا۔
اُس نے سعید کو تلاش نہیں کیا تھا، اُس نے بتول کو بھی نہیں ڈھونڈا تھا۔ مراد کے علاوہ اس وقت اُسے کچھ بھی نہیں سوجھ رہا تھا اور مراد وہاں نہیں تھا۔
…٭…

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

وہ جس وقت حویلی واپس پہنچا تھا اُس وقت تاجور برآمدے میں جلے پاؤں کی بلّی کی طرح ٹہل رہی تھی۔ مراد کو آتا دیکھ کرجیسے اُ س کی جان میں جان آئی تھی۔ وہ گھوڑے کو باہر چھوڑ کر نہیں آیا تھا، اندر صحن میں لے آیا تھا۔ بندوق ہاتھ میں لئے وہ گھوڑے سے اُترا تھا۔ ماں سے نظریں ملائے بغیر وہ برآمدے میں کھڑی ماں کی طرف گیا تھا اور بندوق سمیت گھٹنوں کے بل اُس کے قدموں میں گرگیا تھا۔ تاجور کا دل ایک لمحہ کے لئے پتّے کی طرح لرزا تھا۔ وہ کسی کو واقعی قتل نہ کر آیا ہو۔اُس کو اندیشہ ہوا۔
”آپ جیت گئیں، میں ہارگیا امّی۔ موتیا بے وفا نکلی۔ آپ ماہ نور کے ساتھ شادی کرنا چاہتی ہیں میری، جب چاہیں کردیں۔ موتیا مرگئی میرے لئے۔”
اُس نے تاجور کے پیر پکڑ کر کہا تھا اور تاجور کے جلتے وجود پر اتنے ہفتوں بعد جیسے ٹھنڈا پھاہا رکھا تھا۔ ارے یہ تو وہی مراد تھا۔ اُس کا پیارا، جان قربان کرنے والا نورِ نظر۔ بھٹک گیا تھا اور اب سیدھے راستے پر بھی آگیا ہے۔ تاجور نے اُسے اُٹھا کر سینے سے لگایا تھا۔ اُس کا منہ اور ماتھا چوما تھا۔ چند گھنٹے پہلے جانے والے اور واپس آنے والے مراد کا چہرہ ایک جیسا نہیں تھا۔ اُس کی آنکھوں اور چہرے سے چمک اور خوشی غائب ہوئی تھی۔ پر کیا ہوا؟ وقت گزرے گا دل بہلے گا سب ٹھیک ہوجائے گا۔ چار دن کے پیار کا خمار گہرا ہوتاہے پر ابدی نہیں۔
بندہ بھولنے پر آئے تو رب کو بھول جاتا ہے، یہ تو بس موتیا تھی۔ تاجور اُسے سینے سے لگائے اُسے تھپکتے اور خود کو تسلیاں دیتی رہی۔
اُس نے مراد سے اُس لمحے کچھ بھی نہیں پوچھا تھا۔ وہ کچھ بتانے کے قابل نہیں تھا اور وہ اُسے یہ تکلیف دینا بھی نہیں چاہتی تھی۔وہ اُس سے الگ ہوا، کچھ بھی کہے بغیر اندر چلا گیا۔ وہ بندوق تاجور کے پیروں میں پڑی ہوئی تھی جسے وہ چند گھنٹے پہلے غیض و غضب میں لے کر گیا تھا۔ وہ صرف پیار نہیں ہار کر آیا تھا، اپنی عزت، غیرت سب ہار آیا تھا۔ تاجور نے اُسے اُٹھا لیا۔
اُس نے اپنا بیٹا،اپنا غرور، گھر، فخر سب بچالیا تھا پر پتا نہیں کیا بات تھی، موتیاکے لئے اُس کے دل میں بھڑکنے والی آگ اب بھی ٹھنڈی نہیں ہوئی تھی وہ اب بھی کچھ مانگ رہی تھی۔ کچھ اور زہر، کچھ اور حسد، نفرت،انتقام، کچھ تو!
…٭…
”بتول! کیا تو باہر ہے؟”
صحن میں پڑی چارپائی پر بیٹھی بتول ماں کی آواز پر ہڑبڑا کر چونکی تھی۔ وہ کنویں سے واپس آکر اندر کمرے میں نہیں گئی تھی، وہیں صحن میں چارپائی بچھا کر بیٹھ گئی تھی۔ اور اب شاید شکوراں نیند میں جاگی تھی۔ اس سے پہلے کہ بتول وہیں سے اُسے آواز دیتی، شکوراں باہر نکل آئی تھی۔
”تجھے آوازیں دے دے کے پاگل ہوگئی ہوں میں۔ کہاں تھی تو؟” شکوراں نے جمائی لیتے ہوئے اپنی بیٹی کو دیکھا جو صحن کے بیچوں بیچ چارپائی پر آلتی پالتی مارے بیٹھی تھی اور اُس کے گلے میں اُس کا دوپٹہ تک نہیں تھا۔
” کچھ نہیں امّاں، یہاں باہر سونے کے لئے لیٹ گئی تھی۔ اندر دم گھٹ رہا تھا میرا۔”
بتول نے ماں سے کہا تھا اور چارپائی سے اُترنے لگی تھی۔
” یہ باہر کا دروازہ کیوں کھلا ہے؟”
شکوراں نے پتا نہیں کیا وہم ہونے پر صحن کا دروازہ دیکھا تھا جو بھڑا ہوا تھا پر اُس کی زنجیر اُتری ہوئی تھی جو بتول لگانا بھول گئی تھی۔ اندر جاتی بتول ٹھٹکی تھی،پھر اُس نے وہیں کھڑے کھڑے ماں سے کہا۔
” تو چڑھانا بھول گئی ہوگی امّاں، دروازہ تو تو ہی بند کرتی ہے۔”
اُس نے سفید جھوٹ بولا تھا۔
”کوئی آیا تو نہیں تھا۔۔۔سعید؟” شکوراں نے ایک لمحہ کے توقف کے بغیر اُس سے پوچھا۔
”وہ دن کو آنے سے پہلے دس بار سوچتاہے، تو رات کا کہہ رہی ہے۔” بتول نے اُس ہی لہجہ میں ماں سے کہا۔
”تُو تو کہیں نہیں گئی؟”
شکوراں کو اب بھی تسلّی نہیں ہوئی تھی۔ پتا نہیں اس بار ماں کے سوال پر بتول کو کیا ہوا تھا ۔ ایک لمحہ کے لئے اُس نے سوچا وہ ماں کو سب بتادے اور پھر اُس ہی لمحہ میں اس نے یہ ارادہ بھی چھوڑدیا۔
”امّاں توکیوں شک کرنے بیٹھ گئی ہے مجھ پر رات کے اس پہر۔ کہیں گئی ہوتی تو تجھے گھر ملتی؟ کہیں سے آئی ہوتی تو بھی آکے صحن میں بیٹھی ہوتی؟ عجیب ہے تو بھی۔”
اُس نے جھلّا کر شکوراں سے کہا تھا اور پھر جیسے اُس کی نظروں سے بچنے کے لئے وہاں سے چلی گئی تھی۔ شکوراں عجیب سی کیفیت میں وہاں کھڑی رہی تھی۔ چاند کی چاندنی اُس کے صحن میں دروازے سے چارپائی اور چارپائی سے اندر کمرے تک جاتے بتول کی چپل کے نشان دکھارہی تھی۔
اُس کی چپل کنویں کے آس پاس کی نم زمین سے گزرنے کے بعد گاؤں کی گلیوں سے ہوتے ہوئے بھی خشک نہیں ہوئی تھی۔ لیپے ہوئے صاف ستھرے صحن میں وہ ہلکے نشان جیسے چاند کو چشمِ دید گواہ بنا بیٹھے تھے اور اب وہ گواہ سارے بھید کھول رہا تھا۔
شکوراں پلکیں جھپکائے بغیر اُن نشانوں کو دیکھتی رہی، اُس نے سینے پر ہاتھ رکھ دیا تھا۔ اُس کی جوان بیٹی بغیر دوپٹے کے رات کے پچھلے پہر کس سے مل کر آئی تھی کہ ماں سے جھوٹ بولنا پڑگیا تھا اُسے۔ شکوراں کی نیند اُڑگئی تھی۔ جوان بیٹیوں کی ماؤں کی نیندیں بڑی کچّی ہوتی ہیں۔ پتا نہیں وہ آج کیسے گہر ی نیندسوگئی تھی۔ اُس نے اپنے آپ کو کوسا پھر وہ چلتی ہوئی اندر کمرے میں آگئی تھی۔
اندر لالٹین کی روشنی میں اُس نے بتول کو اپنی چارپائی پر دوسری طرف منہ کئے لیٹا دیکھا تھا۔ وہ جیسے ماں کا سامنا نہیں کرنا چاہتی تھی۔ شکوراں اپنی چارپائی پر بیٹھ کر اُسے دیکھتی رہی۔
”امّاں! لالٹین بجھادے، مجھے روشنی میں نیند نہیں آرہی۔”
اُس نے شکوراں سے اُس ہی طرح منہ پھیرے ہوئے کہا تھا۔
”تیرا دوپٹہ کہاں ہے بتول؟”
بتول نے جواب میں شکوراں کو کہتے سنا اوروہ لیٹے لیٹے ساکت ہوئی تھی۔
”پتا نہیں ہوگا ادھر ہی کہیں ، اب رات کے اس وقت دوپٹے ڈھونڈنے بیٹھوں میں؟”
بتول نے چند لمحوں کے بعد جھنجھلا کر سیدھا ہوتے ہوئے اُس سے کہا اور پھر اُٹھ کر لالٹین بجھا کر دوبار ہ آکر لیٹ گئی تھی۔
شکوراں اسی طرح چارپائی پر بیٹھی رہی تھی۔ اُس کا دل ریل گاڑی بن گیا تھا، پتہ نہیں کیا کیا ہونے لگا تھا اُسے۔
…٭…

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

دانہ پانی — قسط نمبر ۵

Read Next

آخری لفظ — فارس مغل

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!