دانہ پانی — قسط نمبر ۵

بتول آخری چوڑی پھینک کر کھڑی ہوگئی تھی۔ وہ اور موتیاHansel اورGretel تھے پر اُن کی کہانی Hansel اورGretel والی نہیں تھی۔HanselاورGretel نے جنگل میں گم ہوجانے ، راستہ یاد رکھنے کے لئے اپنے پاس موجود روٹی کے ٹکڑے اُس راستے پر پھینکنے شروع کئے تھے جہاں سے وہ گزررہے تھے تاکہ انہیں راستہ نہ بھولیں اور وہ واپس آسکیں۔ پر اُن کے پھینکے ہوئے روٹی کے ٹکڑے پرندے کھاگئے اور وہ راستہ بھٹک گئے تھے۔
وہ چوڑیا ں بھی اُن ہی روٹی کے ٹکڑوں کی طرح راستے کی نشان دہی کے لئے پھینکی گئیں تھیں اور وہ کسی کی زندگی اور راستے کی حفاظت کے لئے نہیں تھیں۔
بتول نے آخری بار اُن چوڑیوں کو دیکھا۔ وہ اُس ہی نے موتیا کو تحفے میں دیں تھیں۔ پچھلے بیساکھی کے میلے سے خریدی تھیں اور موتیا اب تک پہن رہی تھی۔ اُس کی ایک بھی چوڑی نہیں ٹوٹی تھی۔ وہ اُس کے دیئے ہوئے تحفوں کو اُسی طرح رکھتی تھی سنبھال سنبھال کر، بلکہ وہ تو ہر ایک چیز کو ہی سنبھال کر رکھتی تھی۔ بتول کے دل کی کیفیت ایک بار پھر عجیب ہونے لگی تھی۔ شکر ہے ضمیر مرا پڑا تھا، ورنہ پھر سے مشکل پڑجاتی اُسے۔
وہ گھڑسوار اب قریب آتا جارہا تھا اور اُس کے گھوڑے کے قدموں کی دھمک بھی بڑھنے لگی تھی۔ بتول کو اب چھپنا تھا۔ ایک آخری نظر اُس نے برگد کے جھنڈ اور آنے والے سوار پر ڈالی اور پھر وہاں سے قدم بڑھادیئے تھے۔
اُس کی آنکھوں کے سامنے اُس کے جہیز کے سامان سے بھرا ہوا گھرآنے لگا تھا اور دانوں سے بھرے ہوئے بھڑولے، دلہن بنا زیورات سے لدا ہوا اُس کا اپنا وجود اور نوٹوں کے ہاروں سے لدا اور سہرے کی تاروں کے پیچھے چھپا سعید کا چہرہ، ہوائی جہاز کی سیٹیں اور کویت کی سڑکیں اور پھر وہاں اُس کا عربی شیخوں والا ایک بڑا ساگھر جو اُس کے جہیز کے سامان سے سجا ہوا تھا۔ وہ جیسے کسی ٹرانس میں چلتے ہوئے کنویں کے پاس سے ہٹی تھی اور کسی سحر زدہ معمول کی طرح چلتے ہوئے غائب ہوگئی تھی۔
…٭…

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

وہ گھوڑادوڑاتا عجیب جنون کے عالم میں کنویں کی طرف جارہا تھا اور گھوڑا دوڑاتے ہوئے پہلی بار دور سے کنواں نظر آنے پر مراد نے سوچا تھا وہ وہاںکیا دیکھنے جارہا تھا اور کیوں جارہا تھا؟اُسے اپنے آپ پر شرم آنے لگی۔ اُس کا پیار واقعی سوہنی کے گھڑے سے بھی کچّا نکلا تھا۔ بس ماں کے ایک جملے، ایک الزام کی مار نکلا۔
گھوڑا دوڑاتے دوڑاتے اُس نے گھوڑے کی رفتار کنویں سے بہت دور ہی آہستہ کرلی اور اُس کا دل چاہا کہ وہیں سے واپس مُڑ جائے۔ جو وہ کرنے جارہا تھا ،وہ پیار کی توہین تھی۔ پیار کی لاج پر لکیر جیسا تھا۔پیار تفتیش اور تحقیق کہاں کرتا پھرتاہے۔ تکڑی( ترازو) میں کہاں تولتاہے محبوب کے کردار کو۔ چھلنی میں کہاں چھاننے بیٹھتا ہے اُس کو۔ پر وہ یہ سب کرنے چل پڑا تھا۔نہ ایچیسن کی تعلیم اُسے روک پائی تھی ، نہ کنگز کالج اُس کے پاؤں کی زنجیر بنا تھا۔ نہ ہی اُس کے اپنے دل نے اُس کے سامنے ہاتھ جوڑے تھے کہ دیکھ مراد یہ نہ کر، یوں نہیں ہوتا پیار میں۔ اور اب کنویں کے راستے کی پگڈنڈی پر گھوڑا کھڑا کئے اور اپنے کندھے پر بندوق رکھے مراد اُلجھا ہوا تھا۔
واپس جائے تو ماں کے سوالوں کا کیا جواب دے گا؟ آگے جائے تو اپنے آپ کو دوبارہ شیشے میں کیسے دیکھے گا؟ اُس کی موتیا پاک تھی ، یہ وہ آنکھیں بند کر کے بھی کہہ سکتا تھا تو پھر کیوں آگیا تھا وہ کسی کے بہکاوے میں؟ کیوں اُس نے سوچ لیا تھا کہ موتیا کو کوئی اُس سے بڑھ کر بھی اچھا لگ سکتا ہے کہ و ہ اس طرح آدھی رات کو اُس سے ملنے چل پڑے اور آدھی رات کو تو کبھی اُس نے موتیا کوکہیں نہیں بلایا پھر کوئی دوسرا کیسے؟ وہ بھی وہ سعید؟
مراد کو پہلی بار احساس ہوا کہ بات یہی تھی۔ وہ اپنا حریف کھوجنے آیا تھا یا اپنا رقیب، موتیا کے کردار کی شہادت ڈھونڈنے نہیں آیا تھا، پر پھر بھی آگیا تھا اور آگیا تھا تو شرم سے پانی پانی ہورہا تھا۔ اُس نے گھوڑے کی لگام کھینچ کراُس کا منہ موڑا اور اس سے پہلے کہ وہ واپسی کے لئے ایڑلگاتا،اُس نے کسی کی ہنسی کی گونج فضا میں سُنی تھی اور وہ بُت کی طرح ساکت ہوا تھا۔ وہ اندھا ہوتا تب بھی موتیا کی ہنسی کی بازگشت پہچان لیتا۔ برف کی طرح سرد وجود کے ساتھ اُس نے گردن موڑ کر اُس سمت دیکھا جہاں سے وہ ہنسی کی آواز آئی تھی۔
کنویں کے پار برگد کا اک جھنڈ اور وہ اُس جھنڈسے جیسے اُس ہنسی کے دوبارہ نہ اُبھرنے کی دعا کررہا تھا۔ دُعا قبول نہیں ہوئی تھی۔ وہ ہنسی پھر گونجی تھی اور اِس بار کھلکھلاہٹ کی طرح آئی تھی۔ ماؤف ذہن کے ساتھ مراد نے گھوڑا واپس موڑا تھا۔
اُس کی ہنسی ہے جھانجھر جیسی
موتی اُس کے دانت
اُس کا بدن ہے رات کی رانی
چمپااُس کا ساتھ
وہ گزرے تو سورج دیکھے
بیٹھے تو پھر چندا
وہ بھول بھلیّوں جیسی دلبر
میں ہوں بھولا بھٹکا
…٭…

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

برگد کے اُس جھنڈ میں سعید اُس جگہ کھڑا تھا جہاں چاند کی روشنی آرہی تھی اور موتیا نے اندر داخل ہوتے ہی اُسے دیکھ لیا تھا اور سعید نے بھی اُسے دیکھ لیا تھا اور وہ حیران ہوا تھا۔
”میں موتیا ہوں سعید!” موتیا نے اُسے دیکھتے ہی کہا۔
”میں پہچان گیا ہوں،پر بتول کہاں ہے؟” سعید نے جواباً اُس کے کچھ پاس آتے ہوئے کہا تھا۔
”میں نے ہی ملنا تھا تم سے،اُس نے نہیں۔” موتیا نے کہا ۔ سعید حیران ہوا تھا۔
”کیوں؟”
”میرے لئے رشتہ بھیجتے تجھے شرم نہیں آئی یا یہ یاد نہیں رہا کہ میں بتول کی سہیلی ہوں؟’ موتیا نے اُس سے کہا تھا۔ سعید ایک لمحہ کے لئے کچھ بول نہیں پایا پھر اُس نے کہا:
” ابّا لے کر گیا تھا۔”
”اور تجھ سے پوچھ کر لے کر گیا تھا، جھوٹ مت بولنا۔” موتیا نے اُس کی بات کاٹ دی تھی۔ سعیدجیسے کچھ اور شرمندہ ہوا پھر اُس نے کہا:
” تو کیا کہنے آئی ہے مجھ سے؟”
” میں یہ کہنے آئی ہوں کہ تو چاچا کے سامنے بتول کے لئے کھڑا کیوں نہیں ہوتا؟ تو کیا پیار نہیںکرتا اُس سے؟”
”کرتا ہوں اور اُسے پتا ہے۔… اور مجھے یہ بھی پتا ہے کہ تیرے ساتھ یہیں کہیں چھپی سُن بھی رہی ہوگی یہ سب کچھ۔”
سعید کی بات پر موتیا ہنسی تھی اور پھر اُس نے کہا:
”ہاں ہے تو یہیں کہیں اور تجھ پر مرتی ہے وہ سعید۔ تجھے قدر نہیں ہے کیا پیار کی؟ کسی ایسی ویسی سے کر بیٹھا نا جہیز کے لالچ میں تو روتا پھرے گا پھر ساری عمر اور بتول کا کیا ہے؟ اُس کو تو مل ہی جانا ہے کوئی چوہدری مراد جیسا گھبرو جوان انگلینڈ والا۔”
سعید اُس کی بات پر جیسے تڑپ اُٹھا تھااور اُس نے کہا تھا:
”خبردار! بتول کے ساتھ تو نے چوہدری مراد کا یا کسی کا بھی نام لیا۔” موتیا بے اختیار ہنسی تھی اور ہنستی ہی چلی گئی تھی۔
”دیکھا کیسے تڑپا ہے تُو اور وہ بھی اسی طرح تڑپتی ہے جب چاچا تیرے لئے لڑکیاں دیکھتا پھرتاہے۔ مت کرایسے، ہیرا ہے وہ اور تو کوئلے ڈھونڈتا پھررہاہے۔” موتیا نے اُس سے کہا تھا۔
” چاچا نہیں مانتا نا تو میں کرتی ہوں اب چاچا سے بات۔ مراد سے کہوں گی وہ کرے گا، پھر کیسے انکار کرے گا چاچا؟”
”تو چوہدری مراد سے کچھ مت کہنا، خوامخواہ کوئی نئی مصیبت نہ کھڑی ہوجائے، میں منالوں گا ابّا کو۔”
”وعدہ کر سعید! زبان دے مجھے۔”
”وعدہ کرتا ہوں، زبان دیتا ہوں تجھے پر چوہدریوں کو کچھ پتا نہیں چلنا چاہیے،تو بھی وعدہ کر۔”
سعید نے جواباً اُس سے کہا تھا اور بالکل اُسی وقت سعید نے جیسے گھوڑے کی ہنہناہٹ سنی تھی اور اُس نے یکدم ہونٹوں پر انگلی رکھ کر موتیا کو خاموش رہنے کا اشارہ کرتے ہوئے اُسے درخت کے پیچھے جانے کا کہا تھا۔
…٭…
مراد گھوڑے پر بیٹھے بیٹھے کنویں کے گرد گھومتا ہوا دوسری طرف گیا تھا اور وہاں پڑا موتیا کا دوپٹہ اُس نے دیکھا تھا۔ وہ اُس دوپٹے کو نہیں پہچانتا تھا جو ہوا سے زمین پر سرکتابل کھاتا جارہا تھا مگر اُس نے اُس چوڑی کو پہلی نظر میں ہی پہچان لیا تھا جو چاند کی روشنی میں سونے کی طرح چمک رہی تھی اور پھر اُس نے چوڑیوں کی وہ قطار دیکھی تھی جو کچی پگڈنڈی پر برگد کے اُس جھنڈ کی طرف جارہی تھی۔ گھوڑے پر بیٹھا مراد بُت کی طرح ساکت تھا۔ اُس کا ذہن اُس گرے ہوئے دوپٹے اور بکھری ہوئی چوڑیوں کی جو منظر کشی کررہا تھا، وہ اُسے دیکھنے کے بجائے اندھا ہونا چاہتاتھا۔
”جا! جاکے دیکھ لے اپنی موتیا اور اُس کے کرتوتوں کو تاکہ تیری آنکھیں ہمیشہ کے لئے کھل جائیں!”
تاجور نے اُس سے کہا تھا۔ مراد گھوڑا روک کر اُس سے اُتر آیا تھا۔ اُس نے کندھے پر لٹکی بندوق بھی اُتار لی تھی۔ موتیا کی چوڑی اُس کے پیر کے نیچے آکر ٹوٹی تھی۔ وہ کوئی اور وقت ہوتا تو وہ اُس کانچ کا ایک ایک ذرّہ اپنے پوروں پر اُٹھا لیتا پروہ کوئی اور وقت نہیں تھا۔ وہ بُرا وقت تھا اور بُرے وقت میں کانچ کاٹتا ہے ،چومتا نہیں۔ ایک…دو…تین… پتا نہیں کتنی چوڑیا ں اُس کے پیروں کے نیچے آکر ٹوٹی تھیں پر مراد کو ہوش ہی نہیں تھا۔ موتیا چوڑی ہوتی تو وہ آج یہاں اُسے بھی اِس ہی طرح کچل کر گزرجاتا۔ وہ جس غیض و غضب میں تھااُس میں لوگ صرف قتل و غارت کرتے ہیں اور وہ بھی وہاں وہی کرنے آیا تھا۔ اُس کا محبوب بے وفا اور بے حیا نکلا تھا اور دغاباز بھی۔
مراد کا گھوڑا پگڈنڈی پر اُس کے پیچھے لٹکتی ہوئی رکابوں کے ساتھ چل پڑا تھا۔ یوں جیسے اُس کو روکنا چاہتا ہو۔ جانور کی بھی ایک چھٹی حس ہوتی ہے، پر مراد نے پلٹ کر نہیں دیکھا تھا۔ وہ بندوق لئے جھنڈ میں گھسا تھا اور اُس نے وہاں کسی کو نہیں دیکھا۔ بندوق تانے وہ برگد کے درخت کی طرف گیا تھا اور اُس نے درخت کے پھیلے ہوئے تنے کے ساتھ چپکے مرد اور عورت کو دیکھ لیا تھا جو دونوں اندھیرے میں تھے۔
”باہر نکلو!”
مراد نے دھاڑ کربندوق سیدھی کرتے ہوئے کہا تھا اور اُس کی آواز سنتے ہی موتیانے بے اختیار کہا۔
”مراد! یہ تو مراد ہے!”
اور اُس کی آواز نے مراد کو چھلنی کیا تھا یا خنجر سے کاٹا تھا۔اُسے اندازہ نہیں ہوا تھا۔ بس وہ ایک اور لفظ نہیں بول سکا تھا۔
موتیا اور سعید دونوں چلتے ہوئے اُس کھلی جگہ آکر کھڑے ہوگئے تھے جہاں چاند کی روشنی آرہی تھی اور جہاں مراد بھی تھا پر سعید نے کچھ بھی کہے بغیر یک دم وہاں سے دوڑ لگا دی تھی۔ اُس نے مراد کو خود پر بندوق تانے ہوئے دیکھ لیا تھا۔ اِس سے پہلے کہ مراد فائر کرتا، سعید درختوں کی آڑ میں غائب ہوچکا تھا۔
وہاں اب بس وہی دونوں تھے، موتیا اور مراد، عاشق اور محبوب۔ اور چاند کی چاندنی تھی جس میں ملنے کی لوگ دعائیں کرتے تھے۔
مراد نے بندوق سیدھی کی تھی اور موتیا کی گردن پر شہ رگ کی جگہ پر رکھ دی۔ موتیا کا سانس رُک گیا۔ اُس نے بے یقینی سے مراد کو دیکھا۔ وہ دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑے تھے اور ایک دوسرے کی آنکھیں پڑ ھ رہے تھے۔پھر موتیا نے مراد کو بندوق کا لبلبہ دباتے ہوئے دیکھا، پھر اُس نے مراد کی آواز سُنی، وہ موت دینے سے پہلے اُس کے حُسن کے قصیدے پڑھ رہا تھا۔
اُس کے نین غزالی دلبر
اُس کے گال گلابی
اُس کے روپ پہ ساون برسے
بہہ جائے مر مر کے
اُس کا حسن کہانی جیسا
کاغذ کتنے بھردے
اُس کی مُشک بہاروں جیسی
اُس کی چپ میں چھاؤں
وہ حُسن پری
وہ روپ متی
وہ میرے جل کی ناؤ
اُسے دھوپ چھوئے تو ہیرا
اُسے مے چھوئے تو پانی
اُس کے نین غزالی دلبر
او میرے دلبر جانی
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

اگر صنم خدا ہوتا — فہیم اسلم

Read Next

دانہ پانی — قسط نمبر ۶

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!