دانہ پانی — قسط نمبر ۵

بتول نے ساتھ چلتے ہوئے اُس سے کہا۔ موتیا نے اُس کے کندھے پر ہاتھ مارا۔
”ایسے کیسے تیار ہوسکتاہے وہ؟ تجھے پتا توہے انکار کردیاہے میرے ابّا اور میں نے اور خود چاچا بھی تو کتنی باتیں سنا کر گیا ہے مجھے، پھر کیوں کریں گے مجھ سے شادی؟”
موتیا جیسے حیران ہوئی تھی۔
”ہاں پر چاچا اور اُس کی اولاد کا کوئی دین ایمان نہیں۔ پر دیکھ موتیا! سعید سے میٹھی بات کرنا، کڑوا مت بولنا، یہ نہ ہو کہ وہ مجھ سے شادی سے ہی مُکر جائے کہ میں نے سہیلی کے ہاتھوں بے عزت کروایاہے۔” بتول نے ایک ہی سانس میں پینترا بدلتے ہوئے کہا۔
” میں کیوں کڑوابولوں گی اُس سے؟ میٹھا بولنے ہی جارہی ہوں اُس سے تیرے لئے منانا ہے اُسے یاد ہے مجھے۔ اور تو بھی بھروسہ کر اُس پر، اتنا کھوٹا نہیںہے وہ جتنا تو سمجھتی ہے۔”
اُس نے بتول کو تسلی دی تھی۔
”ہاں! پر اتنا سچا بھی تو نہیں ہے جتنا مراد ہے!”
بتول نے عجیب سے اندازمیں کہا تھا۔ موتیا ہنسی۔
”نظر لگائے گی اب کیا تو؟”
اس بار بتول نے یہ نہیں کہا تھا کہ نظرلگے تیرے دشمنوں کو۔ وہ چُپ رہی تھی۔
وہ آدھی رات کا وقت تھا اور وہ کنویں کی طرف بڑ ھ رہی تھیں جس کے پیچھے درختوں میں سعید نے آنا تھا اور یہ صرف بتول جانتی تھی کہ وہاں صرف سعید نے نہیں آنا تھا، اُس رات کسی اور نے بھی وہاں پر آنا تھا۔
” سُن بتول! اگر آدھی رات کو رستے میں کوئی بھوت مل گیا تو؟ کہتے ہیں رات کو درختوں کے بھوت پریت نیچے اُتر آتے ہیں۔”
موتیا نے ساتھ چلتے ہوئے یک دم اُس سے کہا ۔ وہ خوفزدہ نہیں تھی، متجسس تھی۔
” تو کیا ہوا؟ تجھ پر عاشق ہوجائے گا فوراً جیسے انسان ہوجاتے ہیں۔” بتول نے یک دم کہا تھا۔
”اب ایسی بھی کوئی بات نہیں! کیا پتا مجھ پر نہیں تجھ پر عاشق ہوجائے، پھر کیا ہوگا؟”
موتیا نے اُسے جواباً چھیڑا تھا۔
”مجھ پر تو سعید عاشق نہیں، بھوت کیسے ہوگا؟”
بتول نے عجیب سی تلخی کے ساتھ ہنس کر کہا تھا۔
” اچھا چل مان لے ہوگیا عاشق پھر؟”
موتیا نے اصرار کیا۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

”تو بس پھر میں اُسے کہوں گی چوہدری مراد بن کر آکر مجھے بیاہ کر لے جائے۔”
بتول نے بے ساختہ کہا تھا اور موتیا نے بے ساختہ قہقہہ لگایا۔
” یہ تو واقعی چڑیلوں والی بات کردی تو نے، میرا ہے مراد، کسی اور کا نہیں ہوسکتا۔ کوئی جن بھوت چاہے تو بھی نہیں۔”
موتیا نے عجیب گمان سے کہا تھا۔
” قسمت کا کچھ پتا نہیں ہوتا۔”
بتول نے عجیب سے اندازمیں کہا تھا۔ موتیا نے حیران ہوکر ساتھ چلتے ہوئے اُس کا چہرہ دیکھا تھا۔
” ایسے کیوں کہہ رہی ہے تو بتول ؟ تجھے شک ہے کہ مراد میرا نہیں ہوگا؟”
بتول نے ہنس کر اُس کا ہاتھ پکڑا۔
” لے بھلا! میں کیوں کروں گی کسی پر شک،تیرا ہی ہے مراد اور تیرا ہی رہے گا۔”
موتیا نے سہیلی کی آواز میں خلوص کو کھوجنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ وہ بتول پر اندھا اعتماد کرتی تھی اور انسان دوستوں پر بھی اندھا اعتبار نہ کرے تو کیا دشمنوں پر کرے۔
…٭…
نیند میں مراد کو اپنی پشت پر کسی کے نرم ہاتھ کا لمس محسوس ہوا تھا اور گہری نیند میں وہ اس لمس کو شناخت نہیں کرپایا تھا۔ پھر یک دم کسی نے اُسے جھنجھوڑا تھا اور وہ ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھا تھا۔ وہ تاجور تھی جو اُس کے پاس بستر پر بیٹھی ہوئی تھی۔
”کیا ہوا امّی، سب ٹھیک تو ہے؟” اُس نے نیند میں بھی بڑی تشویش سے ماں سے پوچھا تھا۔
”آدھی رات کو کیوں جگایا ہے اس طرح آپ نے مجھے؟”
”تجھے اس لئے جگایا ہے تاکہ تو وہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھے جس پر تو یقین نہیں کرتا۔”
تاجور نے عجیب سے لہجے میں اس سے کہا تھا۔
”کیا دیکھوں؟ کس کے بارے میں بات کررہی ہیں آپ؟” مراد بستر سے اُتر آیا تھا پر ماں کی بات اب بھی سمجھ نہیں پارہا تھا۔
”موتیا سعید سے ملنے کے لئے گئی ہوئی ہے کنویں پر۔ جا اور جاکے دیکھ لے اُس ستی ساوتری کو جس کی پاک بازی کی قسمیں کھا سکتا ہے تو۔” وہ جملہ نہیں سیسہ تھا جو مراد کے کانوں میں تاجور نے اُنڈیلا تھا۔ کئی لمحوں تک تو اُس کی سمجھ میں ہی نہیں آیا کہ ماں موتیا کے بارے میں جو کہہ رہی تھی وہ کیسے کہہ رہی تھی اور کیسے کہہ سکتی تھی۔
”آپ ایسی بات مت کریں امّی کہ میں ماں کا احترام بھول کر آپ سے بات کرنے لگوں۔” وہ بے حد خفاہوا تھا۔
”وہ کیوں جائے گی آدھی رات کو کنویں پر کسی سے ملنے؟”
”کیوں کا جواب تو اُس سے لینا، میرے پاس نہیں ہے۔ میں تو تجھے بس اُس گڑھے کی غلاظت دکھانا چاہ رہی ہوں جس میں تو کودنے کی ضد کررہا ہے۔” تاجور نے اُس کی بات کے جواب میں ترکی بہ ترکی کہا تھا۔
وہ ماں کا چہرہ دیکھتا رہا، اُس کی آنکھوں میں جیسے خون اُترنے لگا تھا۔
”ٹھیک ہے، جارہا ہوں میں وہاں۔ اگر وہ وہاں کسی کے ساتھ ہوئی تو اُسے مار آؤں گا اور اگر وہ وہاں نہ ملی تو پھر آج کے بعد آپ کا اور میرا رشتہ ختم۔”
اُس نے دیوار پر لٹکی ہوئی دو نالی بندوق اُتارلی تھی اور تاجور اُس کی بات پر ساکت ہوگئی تھی۔ وہ مرنے مارنے کی بات کررہا تھا اور وہ اُسے وہاں کسی کو مارنے کے لئے تو نہیں بھیجنا چاہتی تھی۔
”تو نہیں مارے گا موتیا کو، سنا تو نے ۔” تاجور نے باہر جاتے ہوئے مراد کے ہاتھوں سے بندوق چھیننے کی کوشش کی تھی۔
”اس کا فیصلہ میں کروں گا آپ نہیں۔ آپ نے جو کرنا تھا کرلیا۔ اب جو میں نے کرنا ہے وہ میں کروں گا۔”
اُس نے ماں کو دھکیل کر پیچھے ہٹایا تھا اور کمرے سے نکل گیا تھا۔ تاجور بھاگتی ہوئی باہر نکلی اور صحن میں سوئے ہوئے ملازموں کو آوازیں دینا شروع کردیں۔ مراد اُس کے اس سارے شور شرابے کے درمیان تیز قدموں سے حویلی کے صحن کو پار کر گیا تھا۔
”چھوٹے چوہدری کے پیچھے جاؤ۔ اُنہیں کسی کو مارنے نہ دینا۔ بندوق چھین لینا اُن سے۔”
تاجور نے چلاتے ہوئے اپنے ملازموں کو کہا تھا جو نیند سے اُٹھ کر اُس کے اس شوروغل کو نہ سمجھنے کے باوجود اپنے جوتے پہنتے حویلی کے بیرونی دروازے کی طرف بھاگتے گئے تھے جہاں سے اب مراد اپنے گھوڑے کو دوڑاتا ہوا نکل گیا تھا۔
”سن طیفے! گھوڑا بھگاتا کنویں پر جا۔چوہدری نے کسی کو مار بھی دیا تو الزام تو نے لینا ہے اپنے سر سمجھا۔” تاجور نے چوہدری شجاع کے ایک انتہائی وفادار ملازم کو کہا تھا اور اُس نے چوں چراں کئے بغیر اُس کی بات پر سرجھکایا تھا۔ گھوڑے دوڑاتے وہ چار پانچ ملازم بھی چوہدری مراد کے پیچھے کنویں کی طرف چلے گئے تھے۔
…٭…
”سن موتیا! اپنا دوپٹہ مجھے دے جا۔ میرا لے جا۔ یہ نہ ہو کہ سعید سمجھے کوئی اور آیا ہے اور بھاگ جائے۔” کنویں پر پہنچتے ہی بتول نے موتیا سے کہا تھا۔
”اس چاندنی میں تمہارا دوپٹہ کیسے پہچانے گا وہ؟ تو اور میں تو دور سے ایک جیسی لگتی ہیں۔ قد کاٹھ میں بھی اور چال ڈھال میں بھی۔” موتیا نے کہا تھا۔
”میں کہہ رہی ہوں نا، وہ بڑا ڈرپوک ہے بھاگ جائے گا اگر اُسے شک ہوا کہ میں نہیں کوئی اور ہے۔”
بتول نے اپنا دوپٹہ اُتار کر اُسے تھماتے ہوئے اُس کا دوپٹہ اُتارنا شروع کردیا تھا۔
”چل پھر یہ چوڑیاں بھی پکڑ، ان کی آواز پر بھی بھاگ سکتا ہے تیرا سعید کیونکہ تو تو چوڑیاں پہنتی نہیں۔ وہ کہے گا آدھی رات کو کنویں پر کون سی چڑیل آگئی جو یوں چوڑیاں چھنکاتی اُس کی طرف آرہی ہے۔”
موتیا کو چوڑیاں اُتارتے ہوئے اپنی بات پر خود ہی ہنسی آئی اور اُس کا قہقہہ فضا میں عجیب بازگشت کے ساتھ گونجا تھا۔ بتول ہنس نہیں سکی ۔ پتا نہیں اُس کے ضمیر کو کیا ہونے لگا تھا۔ اُس نے سوئے سوئے گہری نیند سے انگڑائیاں لینی شروع کردیں تھیں۔ چاند کی روشنی میں چوڑیاں اتارتی، ہنستی ”سہیلی ” کو دیکھتے ہوئے اُس نے اپنے ”ضمیر ” کے منہ پر ایک بار پھر تکیہ رکھ کر اُس کا سانس گھونٹنے کی کوشش کی۔ اُس نے زیادہ مزاحمت نہیں کی، وہ پہلے ہی آخری سانسوں پر تھا۔
”یہ لے اور اب بتا، کن درختوں میں بلوایا ہے تو نے اُسے؟” موتیا نے اُسے چوڑیاں پکڑائیں اور پھر کنویں کے اطراف میں فاصلے پر لگے ہوئے درختوں کے جھنڈ کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”وہاں اُس برگد والے جھنڈ میں۔” بتول نے ہلکی آواز میں سرگوشی کی۔
”ہائے! تجھے پتا ہے مجھے برگد سے ڈرلگتا ہے پھر بھی وہیں بلالیا تو نے اُسے۔” موتیا نے بے اختیار سینے پر ہاتھ رکھ کے کہا۔ اُس برگد کے آس پاس کیلے کے کچھ درخت تھے اور کھلے کھیتوں کے بیچوں بیچ وہ جھنڈ عجیب خوفناک منظر پیش کررہا تھا۔ چاند کی چاندنی سے روشن اس رات میں بھی۔
”پر تیرے لئے سب کرسکتی ہوں میں بتول! بس جارہی ہوں، اب جب تک واپس نہ آجاؤں قُل پڑھتی رہنا میرے لئے۔” موتیا نے اُس سے کہا تھا اور کنویں سے آگے کچی پگڈنڈی پر برگد کی طرف جانے لگی تھی جو کھیتوں کے بیچوں بیچ تھا۔ بتول اُسے جاتا ہوا دیکھنے لگی۔ وہ سفید کپڑوں میں چاند کی اس چاندنی میں کسی پری کی طرح کھیتوں میں لگی فصلوں کے بیچوں بیچ سے گزرتی ہوئی اُس جھنڈ کی طرف جارہی تھی۔ میلوں تک دور دور کسی چر ند پرند کا نام و نشان نہیں تھا۔ بس تھی تو موتیا تھی، سبز فصلوں پر بکھری چاندنی، سرسراتی ہوا اور موتیا۔ بتول کنویں کے پاس کھڑی اُسے دیکھ رہی تھی۔
”موتیا کو رات کو بلا کسی جگہ اور سعید سے ملوا، میں مراد کو بھیجوں گی۔ وہ دونوں کو ساتھ دیکھ لے گا تو دل براہو جائے گا اُس کا موتیا سے۔ یہ بلا جو میرے گھر آنے پر تلی ہوئی ہے، یہ نہیں آئے گی۔ اور بدلے میں، میں کرواؤں گی تیری شادی سعید سے۔ جو مانگے گی، تجھے دوں گی، جہیز میں اتنا دوں گی تجھے بتول کہ تیری نسلیں رج رج کھائیں گی۔ بتاکر سکتی ہے میرے لئے یہ؟”
اس کے کانوں میں تاجور کی آواز گونج رہی تھی جس نے اُس کے سامنے یہ منصوبہ رکھا تھا۔ وہ جال بچھانے کو کہا تھا جس میں موتیا کسی معصوم چڑیا کی طرح پھنس رہی تھی۔ زمین پر پھدکتے ، دانہ چگتے چند اور دانوں کی تلاش اور پھر شکاری کا وہ جال۔
”یہ تو گناہ ہوگا چوہدرائن جی۔” بتول نے تاجور کے سامنے کمزور مزاحمت کی تھی لیکن کی ضرور تھی۔ اور تاجور غضبناک ہوئی تھی۔
”سیّدوں کی دھی ہوں، پیروں کی بیٹی ہوں، مجھے گناہ ثواب کا نہ بتا بتول، تو صرف یہ بتا یہ کرے گی یا نہیں؟ اللہ کو کیا منہ دکھائے گی، وہ میں دیکھ لوں گی۔” تاجور نے عجیب گھمنڈ اور گمان کے ساتھ کہا تھا اور بتول نے سرجھکادیا تھا۔
”پر چوہدرائن جی! میرے سعید کو کچھ نہ ہو۔” اُسے اچانک ہی اک وہم پڑا تھا اور اُس نے بے اختیار تڑپ کر تاجور سے کہا تھا۔
”لے پاگل ہے تو! تیرے سعید کو کیاہوگا۔” تاجور ہنسی تھی اُس کی بات پر۔
”چھوٹے چوہدری! نے اگر غصّے میں آکر کچھ کردیا تو؟” بتول غیرت اور غیرت کے نتیجے سے بخوبی واقف تھی۔
”میں اپنے بیرسٹر بیٹے کو قاتل بناؤں گی کسی کے خون سے ہاتھ رنگواکے؟ پاگل ہے تو بتول ۔ وہ بس آئے گا اور دیکھے گا۔ اُس کے ہاتھ میں کچھ نہیں ہوگا اور پھر سعید نے تو ویسے ہی بھاگ جانا ہے چوہدری مراد کو دیکھ کر۔ اُس نے کوئی لڑنے بھڑنے تھوڑی کھڑا ہونا ہے۔ میں پھر بھی ملازم ساتھ بھیجوں گی اُس کے اور ملازموں کو کہہ کر بھیجوں گی کہ سعید کو کچھ نہ ہو۔”
تاجور نے اُسے ایک کے بعد ایک تسلّی دی تھی اور بتول کے سارے اندیشوں، خدشات اور وہموں کو جیسے سُلا دیا تھا۔
موتیا کو دیکھتے ہوئے بتول کی آنکھوں میں پانی بھرنے لگا تھا۔اُس نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ وہ موتیا اور مراد کی کہانی میں کیدو کا کردار ادا کرے گی۔پر وہ کیا کرتی، مجبوری تھی اور پتا نہیں ہیر رانجھا کی کہانی میں کیدو کی کیا مجبوری تھی۔ اُس نے آنکھیں موتیا کے دوپٹے کے پلّو سے رگڑی تھیں ، اُس کے دوپٹے سے اُس کی خوشبو آئی تھی۔ پھر اُس نے گلے میں لیا ہوا اُس کا دوپٹہ اُتار کر کنویں کے پاس اُس پگڈنڈی پر رکھ دیا جو برگد کے پیڑ کی طرف جارہی تھی۔
بہت دور کہیں سے اُس کے کانوں نے گھوڑے کے ٹاپوں کی ہلکی بازگشت سُنی تھی۔ بتول نے سیدھا کھڑا ہوکر حویلی کی سمت دیکھا تھا اور چاند کی اُس پھیلی ہوئی روشنی میں اُسے کوئی گھڑ سوار بہت دور گھوڑا بھگاتا نظر آیا۔ میلوں پھیلے ہوئے کھیتوں میں وہ ابھی بہت دور تھا۔ اور بتول صحیح طور پر نظر نہ آنے کے باوجود بھی یہ جانتی تھی کہ وہ مراد تھا۔
اُس نے گردن موڑ کر موتیا کو دیکھا تھا۔ وہ برگد کے جھنڈ کے پاس تھی۔ اندر جانے سے پہلے اُس نے وہیں کھڑے کھڑے ہاتھ ہلایا تھا دور بتول کو دیکھ کر۔ یہ اشارہ تھا کہ سعید وہاں تھا اور بتول نے بھی دور سے اُسے ہاتھ ہلایا تھا۔ یہ اشارہ تھا کہ وہ اُس کا انتظار کرے گی۔
ہاتھ میں پکڑی اُس کی کانچ کی سنہری چوڑیوں کو اُس نے آگے بڑھ کر اُس پگڈنڈی میں پھینکنا شروع کیا تھا جو برگد کی طرف جارہی تھی۔ ایک … پھر دوسری…پھر تیسری… چوتھی… پانچویں… کچی پگڈنڈی پر گرتی چوڑیاں ٹیڑھی میڑھی گھومتی چکر کاٹ کرزمین پر لیٹ رہیں تھیں۔ کوئی یہاں، کوئی وہاں،کوئی دائیں، کوئی بائیں، کوئی بیچ میں۔ پر وہ ایک ہی سمت میں ایک ٹیڑھی میڑھی لکیر کھینچ رہی تھیں، برگد کی طرف۔ جو بھی وہاں آتا وہ اُن چوڑیوں کو نظر انداز نہیں کرپاتا۔ وہ چاند کی روشنی میں جگنوؤں کی طرح چمک رہی تھیں اورانہوں نے کنویں کے پاس پڑے موتیا کے دوپٹے سے لے کر اُس پگڈنڈی تک جیسے ایک نشانی کھینچ دی تھی جو پکار پکار کر کہہ رہی تھی کہ موتیا اس راستے سے گزری ہے اور گزر کر وہاں گئی ہے۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

اگر صنم خدا ہوتا — فہیم اسلم

Read Next

دانہ پانی — قسط نمبر ۶

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!