دانہ پانی — قسط نمبر ۵

رات وہ بتول پر بھی بھاری تھی۔ مراد کو وہ سب کچھ کہہ تو آئی تھی پر اب اُسے تاجور سے ڈر لگ رہا تھا۔ وہ اُن کے ساتھ کیاکرتی، وہ بیٹھی اندازے لگارہی تھی، یہاں تک کہ صبح ہوگئی تھی اور خلافِ معمول صبح سویرے ہی حویلی کا ایک ملازم شکوراں کے بجائے بتول کو بلانے آگیا تھا۔ اُس بلاوے پر شکورا ں کھٹکی تھی۔
”میں آتی ہوں بس تھوڑی دیر میں۔ نہا لوں۔”
شکورا ں نے کچھ فکرمند ہوتے ہوئے اُس ملازم سے کہا تھا:
”تُو نے جب آنا ہے، آتی رہناچاچی! پر بتول کو فوراً بھیج دے، چوہدرائن جی انتظار میں بیٹھی ہیں۔”
اُس ملازم نے اُس کی بات کے جواب میں کہا اور سلام کر کے چلا گیا۔شکوراں نے پلٹ کر بتول کو دیکھا اور پھر بڑبڑاتے ہوئے کہا:
”پتا نہیں تجھے کیوں بُلا رہی ہیں؟خیر تو ہے نا سب؟ کوئی اور پیغام رسانی تو نہیں کی تُونے موتیا اور مراد کے بیچ میں؟” شکوراں نے کچھ اضطراب سے پوچھا تھا۔
”نہیں امّاں!” بتول بمشکل کہہ کر چپ ہوگئی۔ وہ ماں کو پوری بات بتانے کی جرأت نہیں رکھتی تھی، ا س کی ماں گھبرا جاتی۔
”ٹھیک ہے پھر تو جا میں بس پیچھے پیچھے ہی آتی ہوں تیرے۔ ہوسکتاہے چوہدرائن نے کسی اور کام کے لئے بلایا ہو، میں خوامخواہ وہم کرنے بیٹھ گئی۔”
شکوراں نے جیسے خود کو تسلی دی تھی۔
بتول حویلی پہنچی تھی تو اُس کا رنگ اُڑا ہوا تھا۔ تاجور اُسے وہاں نہیں ملی تھی جہاں ہمیشہ ملا کرتی تھی۔ وہ حویلی کے پچھواڑے میں تھی جہاں پانی کے کنویں کے گرد موتیے اور گلاب کے پھول لگے ہوئے تھے اور وہ تسبیح لئے وہاں چکر کاٹ رہی تھی۔
” سلام چوہدرائن جی!”
بتول نے بے حد ڈرتے ڈرتے اُس کو مخاطب کیا تھا۔ تاجور اُس کی آواز پر پلٹی تھی اور اُس نے کاٹ دار نظروں سے بتول کو دیکھا تھا۔ بتول اُ س کی نظروں کی تاب نہیں لاسکی۔ اُس نے نظریں جھکالیں۔
”تُو نے مراد کو کہا ہے کہ موتیا کے گھر سعید کا رشتہ میں نے بھیجا ہے؟”
اُس نے کاٹ کھانے والی آوازمیں بتول سے کہا تھا اور بتول کا سانس حلق میں اٹک گیا تھا۔ وہ نظریں نہیں اُٹھا سکی۔
”چوہدرائن جی! میں سعید سے پیار کرتی ہوں ،میں نہیں رہ سکتی اُس کے بغیر۔”
پتہ نہیں بتول اپنے اندر یہ کہنے کی ہمت کہاں سے لے آئی تھی۔ اُس کا خیال تھا اُس کا یہ جملہ سنتے ہی تاجور اُس پر چلّائے گی، لیکن وہ چلّائی نہیں تھی۔ وہ چپ چاپ اُس کا چہرہ دیکھتی رہی تھی۔ پھر اُس نے کہا تھا:
”کس سے زیادہ پیار ہے؟سعید سے یا موتیا سے؟”

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

وہ کیا سوال تھا جو وہ اُس سے پوچھ رہی تھی۔ بتول کو واقعی سمجھ نہیں آرہا تھا۔
”چُپ کیوں ہے؟جواب دے۔” تاجور نے اُس سے دوبارہ کہا تھا۔
”سعید!”بتول نے بے اختیارکہا۔ تاجور کے چہرے پر عجیب سی مسکراہٹ آئی۔
”چل پھر ثابت کر!”
بتول کو اُس کا جملہ بھی سمجھ میں نہیں آیا۔
”اپنی جان دے دوں کیا؟”
بتول نے بے اختیار کہا، تاجور نے اُسے تھپکا۔
”نہیں! کسی کی جان لے لے تو بس سعید تیرا۔ اپنے ہاتھ سے بناؤں گی تیرا داج (جہیز)۔ جو مانگے گا سعید کا باپ میرے گھر سے جائے گا۔ صرف پیسہ نہیں دوں گی زمین بھی نام لکھواؤں گی تیرے چوہدری صاحب سے کہہ کر تُو بس ”اتنا” سا کام کردے۔”
تاجور نے اپنے ہاتھ کی انگلی اور انگوٹھے کو آپس میں جوڑ کر اُس ”اتنے” سے کام کی تصویر کشی کی۔ بتول کا وجود تھرتھر کانپنے لگا تھا۔ جان دینا آسان ہوتاہے یا جان لینا… وہ آگے سوچ ہی نہیں پارہی تھی۔
”کس۔۔۔ کس کی جان لینی ہے؟”
اُس سوال کا جواب جانتے ہوئے بھی وہ تاجور سے پوچھنے لگی تھی۔
پیار واقعی اندھا ہوتا ہے اور اندھا کر بھی دیتاہے۔ خودغرض ہوتاہے، اپنا سوچتاہے یا پھر اپنے محبوب کا۔دُنیا اور دوسروں کا نہیں سوچتا۔ بتول بھی نہیں سوچ رہی تھی اور سوچ رہی بھی تھی تو سوچنا نہیں چاہتی تھی۔ پیار سوداگر بھی بن جاتاہے اور خریدار بھی، گرگٹ کی طرح سو رنگ، سو روپ اور سو سو بار نیّت اور ارادہ بدلتاہے۔
بتول نماز پڑھ کر آئی تھی۔ تاجور بھی نماز پڑھ کر تسبیح کررہی تھی۔بُرے کا م کا ارادہ نیک کام سے کررہی تھی۔
”اور دیکھ بتول! یہ تیرا میرا رازہے، سمجھ میں نے کاغذ پر لکھ کر اُس کنویں میں پھینک دیا۔”
تاجور نے اُس سے جیسے وعدہ لیا تھا۔ بتول نے ماتھے پر بہتے پسینے کو پونچھتے ہوئے سر ہلایا تھا۔تاجور کے چہرے پر ایک مطمئن مسکراہٹ اُبھری۔
اپنے ہاتھ کی ایک چوڑی اُتار کر اُ س نے بتول کا ہاتھ پکڑ کر اُس میں پہنا دی۔
”یہ بوہنی(ایڈوانس) ہے ۔ باقی سب کچھ کام ہوجانے کے بعد۔”
وہ اُس کا ہاتھ چھوڑتے ہوئے اندر چلی گئی۔ بتول اپنی کلائی میں چمکتی سونے کی اُس دو تولے کی چوڑی کو دیکھتی رہی اور دیکھتی گئی۔ ہر چمکنے والی چیز سونا نہیں ہوتی،اُس نے سب سے سنا تھا اور اُسے آج پتا چلا تھا کہ ہر چمکنے والی چیز”ضرورت” ہوتی ہے اور پیار کے علاوہ انسان کو دوسری کتّا کردینے والی چیز ضرورت ہوتی ہے۔
…٭…
”تُو مجھے اُس طرح کیوں دیکھ رہی ہے بتول؟”
موتیا کو اُس دن بتول کی آنکھوں کے کسی تاثر نے حیران کیا تھا۔ وہ اگلی ہی صبح اُس سے ملنے اور اُسے سب کچھ بتانے اُس کے گھر پہنچ گئی تھی اور بتول گم صم بیٹھی پلکیں جھپکائے بغیر اُس کا چہرہ تکتے ہوئے اُس کی باتیں سنتی گئی۔ وہ اُسے بتارہی تھی کہ چوہدری صاحب نے گامو کو زبان دے دی تھی۔ وہ اُس کی بارات لارہے تھے اور بتول بس اُس کا چہرہ دیکھتی جارہی تھی۔
” تجھے لگتا ہے میں جھوٹ بول رہی ہوں؟”
موتیا نے اُس سے کہا تھا۔ اُس کی خاموشی کو کھوج کے اُس نے جیسے بڑی وجہ نکالی تھی۔ بتول نے نفی میں سر ہلایا۔
”توپھر کیا تُو مجھ سے ناراض ہے سعید کا رشتہ میرے گھر آنے پر؟”
موتیا نے جیسے کوئی اور وجہ ڈھونڈی ۔ بتول نے ایک بارپھر نفی میں سر ہلایا۔ موتیا مسکرائی اور جیسے اُس نے سُکھ کا سانس لیا۔
”مجھے پتا تھا تُو میری سکھی ہے، تُو کہاں شک کرسکتی ہے میری نیّت پر اور میں تو کبھی مر کر بھی اُس سے شادی نہ کرتی جو تیری محبت ہے۔” موتیا نے اُس سے کہا تھا۔
وہ اب بتول کا ہاتھ پکڑکر اُس چکّی کے پاس ہی بیٹھ گئی تھی، جس میں بتول آٹا پیس رہی تھی۔ وہ مٹھی بھر بھر دانے چکّی میںڈالنے لگی تھی جسے بتول سر جھکائے ہاتھ سے گھمارہی تھی۔
”مجھے لگتاہے تیری اور میری بارات ایک دن ہی جائے گی۔ تو سعید کے گھر جائے گی اور میں مراد کے۔” موتیا نے کھلکھلا کر اُس سے کہا تھا۔
”یاد ہے نا! تو اور میں ہمیشہ سوچتے تھے کہ اکٹھے شادی کریں گے۔”
موتیا نے جیسے اُسے یاد دلایا تھا۔
”موتیا ! سعید ابھی تک مجھ سے شادی پر تیار نہیں ہے۔” بتول نے یک دم چکّی روکتے ہوئے اُس سے کہا۔
”تو ایک دفعہ اُس سے مل لے۔اُس کو سمجھا دے۔ شاید تیری بات مان لے۔”
بتول نے اُس سے کہا تھا۔
”ایک دفعہ کیا سو بار مل لوں گی اُس سے۔ بتا کب ملنا ہے اور دیکھوں گی، کیسے تجھ سے شادی پر ماں باپ کو تیار نہیں کرتا۔” موتیا نے ہامی بھرنے میں ایک لمحہ بھی نہیں لگایا تھا۔
”اور میں نے خواب میں تیری اور سعید کی شادی دیکھی ہے بلکہ ایک پیاری سی بچی بھی دیکھی ہے جسے میں جھولا جُھلارہی ہوں۔ اور تجھے پتا ہے میرے خواب جھوٹے نہیںہوتے۔ تیری ڈولی سعید ہی کے گھر جائے گی۔”
موتیا نے ہنستے ہوئے اُسے تسلی دی۔ بتول ایک بار پھر اُس کا چہرہ دیکھنے لگی ۔
”تُو خوش نہیں ہوئی میراخواب سن کر، مجھے تو لگا تھا تُو ناچے گی۔”
اُس کے ردِ عمل نے موتیا کو حیران کیا تھا۔ بتول نے ایک بار پھر نظریں چُرالیں۔ اُس کے دل میں چور نہیں ڈاکو تھا اور ڈاکو بھی وہ جو سب کچھ لوٹنے آیا تھاموتیا کا۔
وہ نظریں ملاتی تو کیسے ملاتی اُس سے، کوئی شرم و حیا اگر رہ گئی تھی اُس میں تو بس اتنی ہی رہ گئی تھی کہ بچپن کی اُس سہیلی سے وہ نظر نہ ملائے جس کے ساتھ وہ بارش کے پانی میں کاغذ کی کشتی بنا کر چھوڑکر دوڑتی تھی اور جس کے ساتھ وہ کانچ کی چوڑیاں توڑ توڑ کر ایک دوسرے کے لئے پیار نکالا کرتی تھی اور جس کے ساتھ وہ آم کے درخت پر کیریاں توڑنے کے چکر میں کئی بار چڑھی اور گری تھی اور جس کے ساتھ گرنے پر اُسے کبھی چوٹ محسوس نہیں ہوئی تھی۔
”تُو میری بار ات پر کیا پہنے گی بتول؟”
موتیا کو یک دم پتا نہیں کیا خیال آیا تھا۔
”تیری بارات پر کیسے آؤں گی؟ تو خود ہی تو کہہ رہی ہے کہ اُس دن خود میری بھی بارات ہوگی۔”
پتا نہیں کس دل سے بتول نے اُسے یہ جملہ کہا تھااور موتیا نے ایک لمحہ کے لئے بھی اُس کے لہجہ پر غور کئے بغیر ہنس کر اُس سے کہا تھا۔
”ہاں! یہ تو سوچا ہی نہیں میں نے۔ دیکھنا کیسے مناتی ہوں میں سعید کو۔ تو ہمیشہ کے لئے غلام ہوجائے گی میری کہ موتیا تو نہ ہوتی تو کبھی شادی نہیں ہونی تھی میری سعید سے۔”
موتیا کہے جارہی تھی اور آئینے میں نظر آنے والا اپنا عکس، بتول کے چہرے کو سیاہ سے سیاہ کرتا جارہا تھا۔ وہ اس جیسی سہیلی کے ساتھ یہ سب کیسے کرسکتی تھی۔ چکّی کے پٹ چلاتے ہوئے بتول نے اپنے آپ سے پوچھا تھا یا شاید خود کو ہمّت دلائی تھی اپنے کمزور پڑنے پر۔
”بالکل ایسے ہی کرسکتی ہے جیسے یہ چکّی اس دانے کے ساتھ کررہی ہے۔ دانہ مٹّی نہیں ہوا، آٹا بن کر کسی کی زندگی کا سامان بن گیا۔ بالکل اسی طرح تیرا فیصلہ بھی تجھے اور سعید کو نئی زندگی دے گا۔ تو بس کچھ نہ سوچ بتول، سوچی پیا تے بندہ گیا۔”
اُس کے اندر کسی آواز نے اُسے یوں قائل کیاتھا کہ بتول کی رُکتی ہوئی سانسیں بحال ہونے لگی تھیں۔ موتیا گنگنا رہی تھی اور اُس کی آواز کسی مکھن کی چھری کی طرح بتول کو کاٹنے لگی تھی۔
عاشق، چور، فقیر، خداتوں منگدے گُھپ ہنیرا
اک لٹاوے، اِ ک لُٹےّ، اِ ک کہہ دے سب کجھ تیرا
بتول اُس کی دانوں بھری مٹھی کو تکتی وہ کلام سنتی رہی۔ مٹھی اب کھل رہی تھی اور دانے اس کی چکّی کے پاٹوں میں جارہے تھے۔ بتول کو لگ رہا تھا اُن دانوں کے ساتھ اُس کی اپنی روح بھی پس پس کر مٹی ہورہی تھی۔
…٭…

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

اگر صنم خدا ہوتا — فہیم اسلم

Read Next

دانہ پانی — قسط نمبر ۶

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!