اساں خالی کھوکھے ذات دے
سانوں چنجاں مارن کاں
اسی کچّے کوٹھے عشق دے
ساڈی دُھپ بنے نہ چھاں
(ہماری ذات خالی کھوکھے جیسی ہے
اور ہمیں کوّے چونچ مارتے رہتے ہیں
ہمارا پیار بھی کچے کوٹھے جیسا ہے
جہاں نہ دھوپ آتی ہے نہ چھاؤں)
تاجور نے زندگی میں ویسی رات کبھی نہیں گزاری تھی۔ رات بھاری ہونا اُس نے صرف سُنا تھا پر وہ ہوتی کیا تھی، وہ اُس نے اب جانا تھا۔ ایک ہی دن میں وہ لکھ سے ککھ ہوگئی تھی۔ بغاوت پہلے بیٹا کررہا تھا، اب شوہر بھی کرنے لگا تھا۔تاجور کے سر کا تاج، اُس کی اکلوتی اولاد کی زندگی کا فیصلہ، اُس کی مرضی کے بغیر کرنے جارہا تھا اور کیا بے حیثیتی سی بے حیثیتی تھی کہ تاجور سے اُس نے پوچھا تک نہ تھا۔ چوہدری شجاع اُس رات تاجور کے دل سے اُتر گیا تھا۔ و ہ اب بس اُس کا شوہر تھا جس کے ساتھ اُس نے مقابلہ کر کے جینا تھا۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
موتیا اُس کے لئے پہلے چڑیل تھی، اب بھوت بن گئی تھی۔ اُس کا اپنا باپ، شوہر، بیٹا تینوں اُس بھوت کی انگلیوں پر ناچ رہے تھے یا کم از کم اُس کو اُس رات یہی لگ رہا تھا۔ وہ اُس پر جادو ٹونے کرواسکتی تو جی بھر کے جادو ٹونے کرواتی! پر اُس کے پاس جادو ٹونوں کابھی وقت نہیں رہا تھا۔ وہ چند دنوں میں اُس کی حویلی میں، اُس کے تخت و تاج کو جیسے چھین لینے کے لئے آنا چاہتی تھی۔ کوئی تاجور کو اُس ذہنی کیفیت کے ساتھ کچھ بھی نہیں سمجھا سکتا تھا اور شاید سارا مسئلہ ہی یہیں سے پیدا ہورہا تھا۔
حویلی میں اُس رات ہر ایک سورہا تھا اور جاگ رہی تھی تو صرف تاجور، جو ننگے پاؤں ایک برآمدے سے دوسرے برآمدے، ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں پھر رہی تھی، یوں جیسے جلے پاؤں کی بلّی ہو یا کوئی غضب ناک شیر،جو بھوکا ہو اور آخری لمحے میں کوئی اُس کے منہ سے شکار چھین کر غائب ہوگیا ہو۔
باہر گاؤں کی گلیوں میں کُتّے بھونک رہے تھے اور بھونکتے ہی جارہے تھے۔ اُن کا بھونکنا تاجور کو اُس وقت اور مشتعل کررہا تھا۔ اُسے یوں لگ رہا تھا جیسے وہ اُس پر ہنس رہے ہوں ، جیسے پورے گاؤں کی عورتیںہنستیں جب حویلی میں موتیا اُس کی بہو بن کر آتی۔ اُسے کچھ کرنا تھا۔ کوئی توڑ، کوئی اُپائے، اور جو بھی کرنا تھا، فوری طور پر کرنا تھا۔
تاجور چلتے چلتے مراد کے کمرے میں پہنچ گئی تھی جس کا دروازہ کُھلا تھا اور بستر پر اُس کابیٹا گہری نیند سورہا تھا۔ وہ کمرے کے دروازے میں کھڑے کھڑے مراد کو دیکھ رہی تھی جس کے چہرے پر کُھلی کھڑکی سے چاندنی جیسے اپنا فسانہ لکھ رہی تھی۔ تاجور کی نظر اُس کے چہرے سے ہٹ ہی نہیں رہی تھی۔ جو غصّہ اُسے چوہدری شجاع پر آیا تھا، وہ مراد پر آتا ہی نہیں تھا۔ مراد کا سارا غصّہ موتیا لے جاتی تھی۔ اُس کا بیٹا بھولا تھا جسے ایک کمّی کمین نے پھنسا لیا تھا۔ ہر ماں کی طرح اُس نے بھی خود کو یہی تسلّی دی تھی۔ وہ اُس کا نافرمان ہوگیا تھا۔ یہ ماننے کے لئے تاجور میں جگرا نہیں تھا۔ اولاد کا بھٹک جانا تو گوارا ہوتا ہے، نافرمان ہوجانا برداشت نہیں ہوتا۔ وہاں کھڑے کھڑے تاجور نے اُس پر قُل پڑھ کر پھونکے تھے، آیت الکرسی پڑھ کر پھونکی تھی ۔جو جو وہ پڑھ کر پھونک سکتی تھی اُس نے پھونکا تھا۔
اُسے یقین تھا وہ ہر چیز کے شر سے محفوظ رہے گاسوائے موتیا کے اور اُس کے لئے تاجور کو کچھ اور کرنا تھا۔
…٭…
نیند اُس رات موتیا کو بھی نہیں آئی تھی۔ خوشی کیا خوشی تھی۔ اُس نے جو خواب دیکھا تھا، وہ معجزوں کی طرح سچّا ثابت ہونے لگا تھا۔
اُس نے تو مراد کو صرف چاہا تھا، مانگنے کی جرأت تو وہ کبھی کر ہی نہیں سکی۔ وہ لکیر جو اُس کے اور مراد کے خاندان کے درمیان کھنچی ہوئی تھی،اُسے پھلانگنے کا سوچنا بھی جیسے کُفر تھا موتیا کے لئے۔
ماں باپ نے چیزوں کی چاہ کرنا تو سکھایا تھا اُسے پر کسی چیز کو چھیننا اور چوری کرنا نہیں۔ باقی رہ گیا پیار تو وہ کوئی ویزہ اور لائسنس نہیں ہوتا، نہ اُس کے لئے پاسپورٹ بنتاہے، نہ شناختی کارڈ، نہ انگوٹھا لگتا ہے، نہ دستخط ہوتے ہیں۔ وہ بس ہوجاتاہے اور موتیا کو بھی مراد سے ہوگیا تھا اور اُس پیارمیں نہ کوئی حرص تھی نہ ہوس۔ وہ موتیا کے پھول جیسا سُچا پیار تھا ویساہی دودھیا، ویسا ہی پاک ۔ مزاروں پر لوگ گلاب ڈالتے ہیں، موتیا ہمیشہ ہاتھوں اور گلے میں ہی ڈالا جاتاہے۔ گلاب حُسن کے لئے ہوتا ہے اور موتیا خوشبو میں اُس پر بازی لے جاتاہے۔
پر گامو اور اللہ وسائی کی موتیا حُسن میں گلاب پر بھی سبقت لے گئی تھی۔ وہ نام کی موتیا تھی اور حُسن میں گلاب اور اُس رات بھی گلاب کے حُسن والی موتیا، زمین پر گھٹنے ٹیکے ہی بیٹھی ہوئی تھی۔ اُسے اپنی خوشی سے ڈر لگ رہا تھا اور اپنی قسمت پر یقین نہیں آرہا تھا۔
نعمتوں پر ساری عمر اُس نے اپنے ماں باپ کی طرح شکر ہی کیا تھا پر جو نعمت اب اُسے ملنے والی تھی، وہ تو اُس کی اوقات، حیثیت، اُس کی جھولی، اُس کے دعا کے لئے اُٹھے ہاتھوں سے بہت اوپر اور آگے کی شے تھی۔ یہ اُسے کیسے مل سکتی تھی اور کیوں مل سکتی تھی؟ اُس نے ایسا کیا ہی کیا تھا کہ وہ ”مراد” پاتی۔ موتیا کو رتی برابر بھی شائبہ نہیں تھا کہ وہ اُس کے ماں باپ کی نیکیوں کا اجر تھا پر وہ اپنے آپ کو اس اجر کے قابل بھی نہیں سمجھتی تھی۔
وہ اُس کے کوٹھے کی کچی چھت تھی جس پر وہ دو زانو بیٹھی اُس چاند کو دیکھ رہی تھی جو اُس کے اور چوہدری مراد کے چہرے کو ایک ہی چاندنی سے دیکھ رہا تھا اور وہ نور جیسی چاندنی، موتیا کے چہرے پر ویسا ہی فسانہ لکھ رہی تھی جیسا اُس وقت سوئے ہوئے مراد کے چہرے پر لکھ رہی تھی۔ بالکل اسی وقت اللہ وسائی لکڑی کی سیڑھی پر چڑھتی، موتیا کو ڈھونڈتی کوٹھے پر آئی تھی اورآخری سیڑھی پر کھڑی، وہ سیڑھی کا سرا پکڑے بس اپنی اُس نور والی بیٹی کے چہرے کو دیکھتی ہی رہ گئی۔
وہ اُس وقت سے اپنی اس اولاد کا چہرہ دیکھ کر سحر زدہ ہوتی آئی تھی جب اُس نے پہلی بار اُسے پیدا ہونے کے بعد دیکھا تھا اور اُس نے پہلی نظر اُس پر ڈالتے ہی اُسے اللہ کی امان میں دیا تھا۔
”میری دھی کا کبھی بال بھی بیکا نہ ہو۔ کبھی کوئی دُکھ درد اُس کے دروازے کیا اُس کی گلی سے بھی نہ گزرے۔ اُس کا دل مومن کادل ہو، اُس کی زبان مرہم کی تاثیر رکھتی ہو۔ اُس کا دل دکُھانے والا غارت، اُس کو رُلانے والا مٹّی ہوجائے۔”
اللہ وسائی نے تتلاتے ہوئے اُس کا ماتھا چوم کر اُسے دعا نہیں دی تھی،جیسے اُس کے گرد اپنی کالی زبان سے حصار کھینچ دیا تھا۔ چاند کی چاندنی میں اپنی بیٹی موتیا کا چہرہ دیکھتے ہوئے اللہ وسائی نے ایک بارپھر وہی دہرانا شروع کیا تھا جو وہ ہر بار اُس کا چہرہ دیکھنے پر دُہراتی تھی۔ وہی دعائیں، وہی اللہ کی امان اور وہی حصار۔
وہ کمّی کمین اللہ وسائی اپنی نسل بچانے کے لئے جو کرسکتی تھی، کررہی تھی۔ کاش تاجور اُس کے لفظ سُن لیتی تو جھوک جیون کی تاریخ اور مستقبل دونوں اور ہوتے۔
…٭…
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});