دانہ پانی — قسط نمبر ۳

اللہ وسائی نے موتیا کے ہاتھ پر بندھا رومال دیکھا اور پھر موتیا کا چہرہ۔
” تو کیا کہہ رہی ہے موتیا! میری سمجھ میں نہیں آرہا۔ چوہدری مراد نے سارے گاؤں کی عورتوں کے سامنے تیرے ہاتھ پر رومال باندھ دیا۔ پھر تو بڑی بدنامی ہوگئی ہماری۔ ” اللہ وسائی بے قرار ہوئی تھی۔
”کیا بدنامی ہوئی ہے ہماری امّاں؟ میرا ہاتھ زخمی ہوا، اس نے رومال باندھ دیا۔ اس میں بدنامی کہاں سے آگئی؟”
اللہ وسائی نے اُس کا ہاتھ پکڑ ا اور کہا:
”رومال باندھنے کے لئے ہاتھ پکڑا ہوگا سب کے سامنے۔ یہ ہے بدنامی۔” اُس نے موتیا سے کہا تھا۔
”امّاں! اسے محبت کہتے ہیں۔” موتیا نے ماں سے کہا تھا، ایک لمحہ کے لئے اللہ وسائی اسے کوئی جواب نہیں دے سکی۔
”تیرا اور اس کا کوئی رشتہ نہیں ہے موتیا۔ بغیر رشتے کے ہاتھ پکڑنے والا بدنامی ہی لاتا ہے۔”اس نے ماں بن کر موتیا کو سمجھایا تھا۔ وہ ماں کا چہرہ دیکھتی رہی پھر اس نے کہا:
”رشتہ بھی بن جائے گاا مّاں! وہ بغیر رشتہ کے دوبارہ ہاتھ نہیں پکڑے گا میرا۔”
اللہ وسائی کو خود پر عجیب ترس آیا تھا۔ وہ اس کو کیا سمجھاتی، چوہدریوں اور ماشکیوں کے درمیان جوڑ نہیں بنتے، رشتے تو بہت دور کی بات ہے۔
”وہ چوہدریوں اور سیدوں کی نسل سے ہیں، زمین والے ہیں۔ ہم کمی کمین ہیں، ان کی زمین کے دانے پر پلتے ہیں۔ ہماری اور ان کی کوئی برابری نہیں موتیا اور نہ ہی کبھی ہوگی ۔” اللہ وسائی نے اسے صاف لفظوں میں سمجھایا تھا۔
”وہ بھی انسان ہیں امّاں اور ہم بھی انسان۔ محبت کے لئے اتنا کافی نہیں ہوتا کیا؟”
اس نے اللہ وسائی سے پوچھا تھا اور اللہ وسائی بول نہیں سکی تھی۔ موتیا اونچ نیچ کیا سمجھ پاتی، موتیا کو تو اونچ نیچ کے ساتھ پالا ہی نہیں پڑا تھا۔ اس نے اور گامو نے تو اُسے ہتھیلی کے چھالے کی طرح رکھا تھا اور پلکوں پر اٹھایا، سر پر بٹھایا تھا اور یہ سب صرف اس نے نہیں کیا تھا۔ ہر جگہ جہاں وہ جاتی تھی ایسی ہی عزت اور محبت پاتی تھی۔
”مراد رشتہ بھیجے گا امّاں۔” موتیا نے دونوں ہاتھوں سے اللہ وسائی کا ہاتھ پکڑ کر کہا تھا۔
” کون لے کر آئے گا اس کا رشتہ ؟” اللہ وسائی نے پوچھا تھا۔
”اُس کی ماں!” موتیا نے بڑے اعتماد سے کہا تھا اور اللہ وسائی نے اس لمحہ اللہ سے دعا کی تھی کہ موتیا کا یقین کبھی جھوٹا نہ پڑے۔ وہ واقعی حویلی کی بہو بن کر جائے۔ پانی والوں کے گھر سے نکل کر دانے والوں کے خاندان کا حصّہ بن جائے۔ وہ ماں تھی، اولادکے لئے تاج اور تخت بھی مانگ سکتی تھی۔
…٭…

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

پیر ابراہیم نے تاجور کو بے حد حیرانی سے دیکھاتھا۔ وہ دن دیہاڑے بغیر اطلاع کئے ان کے گھر آئی تھی اور وہ بھی ان کے پاس ڈیرے پر۔
”خیریت تو ہے تاجور؟” انہوں نے اُس سے پوچھا تھا۔
”ابّا جان! میں مراد اور ماہ نور کا نکاح کرنا چاہتی ہوں ۔ یہ شگن کا سامان لائی ہوں۔ آج ہی بات پکی ہونے کے لئے پھر باقی سب کچھ بعد میں طے کرلیں گے ۔”
تاجور کے چہرے پر عجیب سی سنجیدگی تھی۔ پیر ابراہیم تسبیح پھیرتے اس کا چہرہ دیکھتے رہے پھر انہوں نے کہا:
”مراد سے پوچھا ہے تم نے؟” تاجور ان کے سوال پر ایک لمحہ کے لئے ٹھٹکی پھر اس نے بڑے اعتماد سے کہا:
” اس کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ میرا بیٹا ہے۔ ماں جہاں چاہے اس کی زندگی کا فیصلہ کرسکتی ہے۔” پیر ابراہیم نے نفی میں سرہلاتے ہوئے اس سے کہا:
”کچھ فیصلوں کا حق رب نے ماں باپ کو بھی نہیں دیا۔ اس کا نکاح ہونا ہے، اس کی مرضی سے ہونا چاہیے۔”
تاجور کے ماتھے پر بل آئے پھر اُس نے کہا:
”وہ میری فرماں بردار اولاد ہے یہ جو کچھ ہورہا ہے اس کی مرضی سے ہورہا ہے۔”
پیر ابراہیم اس کا چہرہ دیکھتے رہے پھر انہوں نے کہا:
”وہ کل آیا تھا میرے پاس۔ موتیا سے شادی کرنا چاہتا ہے وہ۔ اس نے مجھ سے کہا ہے کہ میں تم سے بات کروں اور میں نے اسے زبان دے دی ہے۔” پیر ابراہیم نے اسی ٹھنڈے اور پرسکون لہجے میں بیٹی سے کہا تھا اور تاجور کے سر پر جیسے بجلی گری تھی۔
”آپ نے کیسے اسے زبان دے دی مجھ سے پوچھے بغیر بابا جان؟” وہ تڑپی تھی۔
”تم بندباندھ سکتی ہو تاجور، تو باندھ لو میں نہیں باندھ سکتا۔ جو چیزیں مقدر میں ہوں، اس کے سامنے ضد کرکے کھڑے رہنے سے بڑا نقصان ہوجاتا ہے۔”
”مقدر کیا شے ہے بابا جان؟ کیا شے ہے؟ یہ ہے مقدر کہ ایک کمی کمین سے میری نسل چلے؟ اس مقدر میں نہیں مانتی۔ میں نے مراد کو بڑی منتوں مرادوں سے لیا ہے۔ اب اسے موتیا کی جھولی میں خیرات کی طرح نہیں ڈال سکتی ۔ ”
تاجور نے باپ سے کبھی اس طرح تن کر بات نہیں کی تھی جس طرح اس دن کی تھی۔ وہ اسی طرح تسبیح کے دانے گراتے اسے دیکھتے رہے۔
”پھر کیا کروگی تم تاجور؟ کیسے روکوگی اسے؟”
”آپ ایک ماں سے پوچھ رہے ہیں کہ اولاد کو وہ کیسے روکے گی۔”تاجور طنزیہ ہنسی تھی۔
”کوئی نقصان نہ کر بیٹھنا تاجور! کوئی نقصان نہ کر بیٹھنا!” پیر ابراہیم نے اسے بڑے تحمل سے سمجھانے کی کوشش کی تھی۔
”اپنا نہیں کروں گی بابا جان، اور کسی دوسرے کا ہوجائے تو تاجور کو اس کی پروا نہیں۔” تاجور نے دوٹوک انداز میں باپ کے سامنے جیسے اعلان کیا تھا۔
…٭…
”بہت بڑا فیصلہ ہے یہ مراد۔ ہمارے اور ان کے درمیان بہت فرق ہے۔” چوہدری شجاع بھی مراد کے مطالبے پر اسی طرح گنگ ہوئے تھے جیسے تاجور، پیر ابراہیم کی زبان سے سن کر ہوئی تھی اور انہوں نے مراد کو سمجھانے کی کوشش کی تھی۔
”جو فرق ہے نا، وہ یہاں ہے۔” وہ اپنی کنپٹی پر ہاتھ رکھے باپ کو جواباً سمجھانے بیٹھ گیا تھا۔
”میں کوئی فیصلہ نہیں کرسکتا مراد! تیری شادی کا فیصلہ تیری ماں نے کرنا ہے، وہی اقرار یا انکار کرے گی۔”
چوہدری شجاع نے یک دم جیسے اپنا فیصلہ سنادیا تھا۔ تاجور گھر پر نہیں تھی اور مراد اس کی عدم موجودگی کا فائدہ اٹھا رہا تھا۔
”یہ فیصلہ امّی نے نہیں کرنا ابّو، یہ میری زندگی ہے۔ یہ فیصلہ مجھے کرنا ہے۔” اس نے باپ سے دو ٹوک انداز میں کہا تھا اور اندر آتی تاجور کے سینے پر جیسے آری چلا دی تھی۔
”شکوراں! شکوراں مٹھائی لے کر آ، چوہدری صاحب اور مراد کا منہ میٹھا کرا۔”
تاجور نے اندر آتے ہوئے یوں ظاہر کیا تھا جیسے اس نے کچھ سنا ہی نہیں تھا۔ وہ ہنستی کھلکھلاتی اندر آئی تھی اور اس کے اندر آنے پر مراد اور چوہدری شجاع دونوں یک دم چپ ہوگئے تھے۔ شکوراں لپکتی ہوئی مٹھائی تھالی میں رکھ کر لے آئی تھی۔
”لاؤ! میں خود ہی منہ میٹھا کرواتی ہوں دونوں کا۔” تاجور نے اسے دیکھتے ہی کہا تھا اور پھر تھالی سے ایک لڈو اٹھا کر اس نے مراد کو کھلانے کی کوشش کی تھی۔ اس نے ماں کا ہاتھ پکڑلیا تھا۔
”کس چیز کا لڈو ہے یہ؟”
تاجور نے بڑے اطمینان سے مسکراتے ہوئے کہا۔
”تیری بات طے کر آئی ہوں ماہ نور کے ساتھ۔ بس اسی کی مٹھائی ہے۔ چل منہ میٹھا کر۔”
اس نے اس طرح مراد کو بتایا تھا جیسے وہ کوئی بے حد غیر اہم اور روزمرہ کا معاملہ تھا۔
”یہ نہ کریں امّی!” مراد ایک قدم پیچھے ہٹ گیا تھا۔
”کر آئی اب تو۔” تاجور نے اسی انداز میں بے حد اطمینان سے کہا تھا۔
”تم جاؤ یہاں سے۔” چوہدری شجاع نے یک دم شکوراں کو وہاں سے بھیج دیا تھا۔ وہ نوکروں کے سامنے کوئی تماشا نہیں چاہتے تھے ۔
تاجور اب موتی چور کا وہ لڈو خود کھانے لگی تھی۔ شکوراں سرجھکائے ادھر ادھر دیکھے بغیر وہ تھالی وہیں رکھ کے وہاںسے نکل گئی تھی۔
”امّی! موتیا کے علاوہ کسی دوسری کو بیاہ کر نہیں لاؤں گا میں۔” مراد نے بے حد اکھڑے ہوئے لہجے میں ماں سے کہا تھا۔
”مجھے نانا ابّا نے اجازت دی ہے موتیا سے شادی کی۔”
تاجور اسے خاموشی سے دیکھتی رہی، جب وہ چپ ہوا تو اس نے کہا:
”ماہ نور کے علاوہ اس حویلی میں کوئی آئے گی تو اس بار تیری ماں نے لڈو کھایا ہے ۔ اگلی بار زہر کھائے گی۔” تاجور کا چہرہ بے تاثر تھا پر آواز اور آنکھوں میں آگ تھی۔ مراد اور شجاع دونوں میں سے کوئی بھی کچھ بھی بول نہیں سکا تھا۔ مراد صرف بے یقینی کے عالم میں اس ماں کو دیکھتا رہا جو اس پر ہر وقت صدقے اور قربان جاتی تھی اور اب اس بات پر اسے مرنے کی دھمکی دے رہی تھی۔ اس کی خاموشی پر تاجور نے فاتحانہ انداز میں اسے دیکھا تھا اور پھر کمرے سے نکل گئی تھی۔ مراد بت کی طرح وہاں کھڑا کا کھڑا رہ گیا تھا۔
…٭…
مراد کا رومال اب موتیا کی کلائی میں لپٹا ہوا تھا اور وہ اس کی گرہوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے وہی بول گنگنا رہی تھی جو مراد نے اسے سنائے تھے۔
اُسے دھوپ چھوئے
تو ہیرا
اُسے مے چھوئے
تو پانی
اُس کے نین غزالی دلبر
اوہ میرے
دلبر جانی
بتول کی نظریں اس رومال پر جمی ہوئی تھیں۔اس نے ایک گہرا سانس لے کر موتیا سے کہا:
”سب کے سامنے تیرا ہاتھ پکڑ کر رومال باندھ دیا۔ مجھے یقین ہے، تیرے لئے رشتہ بھی لے آئے گا۔” موتیا مسکرادی تھی۔
”رشتہ لانا نہ ہوتا تو ہاتھ بھی نہ پکڑتا۔ یہ بھی نہ باندھتا۔ ” اس نے رومال چھوا تھا۔ بتول کے اندر سے غبار اٹھا تھا۔
”تو بڑی خوش نصیب ہے موتیا! محبوب ملا ہے تو مراد جیسا۔ اور ایک مجھے دیکھو میں جسے پانے کے لئے بے حال ہورہی ہوں، اسے پروا ہی نہیں ہے میری۔”
اس نے موتیا سے بڑی اداسی کے ساتھ کہا تھا اور موتیا موم ہوئی تھی ۔
” تو چاہے تو میں سعید سے بات کروں؟” اس نے فوراً ہی بتول سے کہا۔
”چھوڑ موتیا! تیرے بات کرنے سے کیا ہوگا۔ پیار کرنے والے اور محبو ب کے بیچ اگر دنیا ڈالنی پڑجائے نا ایک دوسرے کو جیتنے کے لئے تو پھر ساری عمر دنیا ہی ڈالنی پڑتی ہے۔ ” بتول نے عجیب سے انداز میں کہا تھا۔
”تو اداس نہ ہو بتول! تجھے سعید ضرور ملے گا تو موتیا کی بات لکھ کر رکھ لے۔”موتیا نے اس کاہاتھ پکر کر اسے دلاسا دیا۔
”کیا کوئی خواب دیکھ لیا ہے تو نے؟” بتول کو عجیب امید لگی۔
”نہیں! تیرے بارے میں نہیں دیکھا۔ اپنے بارے میں دیکھا ہے۔” موتیا نے جواباً ہنس کے کہا۔ بتول کو تجسس ہوا۔
”کیا دیکھا اس بار؟”
چند لمحوں کے لئے موتیا اُس کا چہرہ دیکھتی رہی پھر کہا:
”وہ جو سانپ خواب میں دیکھتی تھی ناں میں جو مراد کو ڈسنے آیا تھا، اس نے مراد کو نہیں کاٹا تھا۔ مجھے کاٹا خواب میں۔ وہ میں تھی بتول جو سانپ کے ڈسنے پر چیخی تھی۔”
اس نے عجیب سے انداز میں بتول سے کہا اور بتول ساکت اسے دیکھتی رہ گئی تھی۔ موتیا کا خواب کبھی جھوٹ نہیں ہوتا تھا۔ موتیا اپنی کلائی دیکھ رہی تھی جس میں مراد کا رومال بندھا ہوا تھا، بالکل اسی جگہ پر جہاں خواب میں سانپ لپٹاتھا۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

میری ڈائریاں میرے خواب —- محسن علی شامی

Read Next

عداوت — ہما شہزاد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!