وہ سانپ وہیں کھڑا تھا، اسی طرح تن کر اپنا پھن پھیلائے اور اس کی آنکھیں اسی خوف ناک انداز میں اس پر جمی ہوئی تھیں اور اس کی دوشاخہ زبان اسی طرح لپلپاتی ہوئی اندر باہر جارہی تھی۔ وہ گھاس میں ایک ہی جگہ کنڈلی مارے بیٹھا تھا اور اپنے وجود کو سمیٹتا، کھولتا پھر سمیٹتا جارہا تھا۔ پر وہ موتیا کے سامنے ہی موجود تھا اور موتیا اس پر نظر یں جمائے ہوئے تھی۔ خوف اور دہشت کی کیفیت میں اس نے سراٹھا کر سانپ کے پار دیکھا تھا۔ وہاں مراد کھڑا تھا اس کی طرف ہاتھ بڑھائے، یوں جیسے سانپ کے وجود سے بے خبر ہو۔
موتیا نے ہاتھ اس کی طرف بڑھایا تھا۔ سانپ پھنکارا تھا اور اپنی کنڈلی کھولتے ہوئے جیسے ہوا میں اڑکر موتیا کی کلائی پر آن گرا اوراس نے موتیا کی کلائی پر ڈنک مارا۔ وہ چیخی تھی۔
موتیا اٹھ کر اپنی چارپائی پر بیٹھ گئی تھی۔ گامو اور اللہ وسائی بھی ہڑبڑا کر نیند اور سے جاگے تھے اور لپکتے ہوئے اس کی طرف آئے تھے۔ موتیا عجیب سی کیفیت میں اپنی چارپائی پر پسینے سے شرابور بیٹھی ہوئی تھی۔
”میں صدقے جاؤں، کیا ہوا میری دھی سوہنی کو۔” اللہ وسائی نے اس کی چارپائی پر آتے ہی اسے خود سے لپٹالیا تھا۔
”امّاں! آپ نے رات کو سونے سے پہلے دم نہیں کیا مجھ پر، اس لئے ڈر گئی میں۔” موتیا نے اللہ وسائی کی گود میں منہ چھپاتے ہوئے کہا تھا۔
”کتنی لاپروا ہے تو اللہ وسائی! تجھے اتنا سا کام بھی یاد نہیں رہتا۔”گامو بے اختیار اللہ وسائی پر ناراض ہوا تھا اور اس نے برا مانے بغیر اُس کی ڈانٹ سنی تھی۔ وہ اب منہ ہی منہ میں کچھ پڑھ کر موتیا پر پھونک رہی تھی۔
موتیا نے ماں باپ کو خواب نہیں سنایا تھا پر اس نے چاند کی روشنی میں جیسے اپنی کلائی دیکھنے کی کوشش کی تھی۔ یوں جیسے وہ وہاں سانپ کے کاٹے کا کوئی نشان ڈھونڈھ رہی ہو۔ چاند کی روشنی میں اس کی دودھیا کلائی بے داغ تھی۔
…٭…
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
”تجھے کیا ہوگیا بتول؟ تو سوتی کیوں نہیں ہے؟ کیوں بیٹھی ہوئی ہے اب تک؟” شکوراں نے اپنی چارپائی پر کروٹ لیتے ہوئے بتول کو گھٹنے سکیڑے چارپائی کے بیچوں بیچ بیٹھے دیکھ کر گھر کا تھا۔
”نیند نہیں آرہی امّاں!” بتول نے جواباً ماں سے کہا تھا۔
”کیوں نیند کو کیا ہوا ؟”
”گھن لگ گیا نیند کو۔” بتول نے عجیب سے انداز میں ماں سے کہا تھا۔ اس نے حیران ہوکر بیٹی کا چہرہ غور سے دیکھا۔
”گھن تو دانوں کو لگتا ہے۔ تیری نیند کو کیسے لگ گیا؟”
بتول نے ماں کی بات کا جواب نہیں دیا۔ وہ کچھ دیر اسی طرح چپ بیٹھی رہی پھر اس نے گردن موڑ کر ماں کو دیکھتے ہوئے کہا۔
”امّاں! چوہدری مراد موتیا سے ملا ہے۔”
”چل بکواس نہ کربتول!” شکوراں نے اس کی طرف کروٹ لیتے ہوئے کہا۔
”میں بکواس کیوں کروں گی امّاں! میں تو سچ بتا رہی ہوں تجھے۔ چوہدری مراد مل کر آیا ہے موتیا سے اور اس سے کہا ہے کہ وہ اس سے رشتہ کے لئے اپنے ماں پیو کو بھیجے گا۔”
شکوراں ایک دم اٹھ کر بیٹھ گئی اور بڑبڑاتے ہوئے ہاتھ ملنے لگی۔
”ہائے میں مرجاواں! یہ کیا خبر سنا دی ہے مجھے رات کے اس پہر۔ چوہدرائن جی کو پتا چلا تو وہ تو کھڑے کھڑے مرجائیں یہ سن کر۔ وہ اور گامو ماشکی کے گھر رشتہ لینے جائیں۔ تو نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا کہ چوہدریوں کے گھر میں سیندھ لگنے لگی ہے کمی کمینوں کے ہاتھوں اور بھلا شکوراں ایسے ہونے دے گی۔”
شکوراں جیسے اپنی چارپائی پر بیٹھی ہاتھ ملتے ہوئے تڑپ رہی تھی اور بتول اسے ٹک ٹک دیکھ رہی تھی۔
”امّاں! چوہدرائن کو کہہ مراد کو بچاسکتی ہے تو بچا لے ۔” بتول نے ماں سے عجیب سے لہجے میں کہا تھا اور خود اس کو اس وقت سمجھ میں نہیں آیاتھا کہ اس نے ٹھیک کیا تھا یا غلط۔ وہ نمک حلالی کرتی یا دوستی نبھاتی۔ پر بات نہ نمک حلالی کی تھی نہ دوستی کی، دل کا ڈونگا کھوہ بھی اسے آوازیں لگا لگا کر بتارہا تھا۔
”تُو جلتی ہے بتول تُو جلتی ہے۔ اور جو آگ تجھے لگی ہے ناں، اسے کسی کنویں کا پانی ٹھنڈا نہیں کرسکتا۔”
بتول نے اپنے کان بند کرلئے تھے۔ آوازوں کا کیا ہے، وہ تو آتی رہتی ہیں۔ انہیں بھلا کون سنتا ہے۔
…٭…
چوہدری شجاع کی حویلی کے صحن میں صبح سویرے ملازم دانوں کی بوریاں لالاکر رکھ رہے تھے اور تاجور برآمدے میں کھڑی ملازموں کو ہدایات دے رہی تھی جب شکوراں آئی تھی۔
”السلام علیکم چوہدرائن جی!” اس نے آتے ہی کہا تھا۔
”وعلیکم السلام!” تاجور نے اس کے چہرے پر زیادہ غور کیا تھا نہ ہی اس کی بدلی ہوئی آواز پر۔
”چوہدرائن جی! میں نے آپ کو ایک بری خبر دینی ہے۔” تاجور نے شکوراں کا چہرہ دیکھا پھر بڑے ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہا۔
”صبح سویرے بری خبر؟نہ شکوراں! صبح ہوتے ہی بری خبر نہیں سننی میں نے۔ دن کو کچھ ڈھلنے دے۔” تاجور اس سے کہہ کر اندر چلی گئی تھی اور شکوراں اسی فکر مند اندا زمیں وہاں کھڑی رہی تھی۔
کچھ دیر بعد تاجور پھر باہر آئی تھی اور اس نے شکوراں کو وہیں کھڑے دیکھ کر کہا تھا۔
”تو ابھی تک ایسے ہی کھڑی ہے شکوراں! جاجا کے کوئی کام کر۔”
شکوراں نے اس سے کوئی بحث نہیں کی تھی۔ وہ چپ چاپ وہاں سے چلی گئی تھی، تاجور ایک بار پھر اندر چلی گئی تھی ۔ گاؤں کی عورتیں دانے صاف کرنے آنے لگیں تھیں۔
موتیا ابھی تک نہیں آئی تھی اور تاجور کو اندر کہیں موتیا کا ہی انتظار تھا۔
وہ نہادھوکے سنگھار میز کے سامنے بیٹھی اپنے بال سنوار رہی تھی جب شکوراں لپک کر آئی تھی اور اس نے تاجور کو موتیا کے آنے کی اطلاع دی تھی۔
تاجور کے ہاتھ میں ہاتھی دانت کا کنگھا کچھ دیر کے لئے ایسے ہی رک گیا تھا، پھر اس نے بڑے فاتحانہ انداز میں شکوراں سے کہا تھا۔
”دیکھا! آگئی نا وہ ۔ تو خوامخواہ کہہ رہی تھی کہ کسی صوررت نہیں بھیجے گی موتیا کو۔”
وہ کہتے ہوئے بال سلجھاتی گئی۔ اس کی انا کی بڑے عجیب انداز میں تسکین ہوئی تھی یہ تصور کرتے ہوئے کہ حویلی کے صحن میں موتیا دوسری عورتوں کے ساتھ اس کے کھیتوں کے دانے صاف کررہی ہے۔
شکوراں نے ایک بار پھر کچھ کہنا چاہا اور تاجور نے اسے ٹوک دیا۔
”نہ شکوراں! صبح صبح میرا دن خراب نہ کر۔ تیری بری خبر ہوتی کیا ہے، سعید کے باپ نے پھر کوئی مطالبہ کردیا ہوگا، بتول پھر ضد کررہی ہوگی، تجھے پھر شریکوں نے طعنے مارے ہوں گے بیٹی کو ابھی تک گھر بٹھانے پر۔اور میرے لئے بری خبر کیا ہوگی، یہ میں جاننا ہی نہیں چاہتی ابھی۔”
تاجور سنگھار میز کے آئینے میں اپنے عکس پر جیسے خود ہی فدا ہوتے ہوئے شکوراں سے کہتی گئی تھی۔
…٭…
صحن میں عورتوں کے ساتھ بیٹھی دانے صاف کرتی موتیا نے سی کر کے بے اختیار اپنی ایک انگلی پکڑلی تھی۔اسے بھوسے کا کوئی تنکا دانے صاف کرتے ہوئے انگلی کی پور میں سوئی کی طرح چبھا تھا اور پلک جھپکتے میں اس کی انگلی لہولہان ہوگئی تھی۔
”ہاہ! تیری انگلیاں تو اتنی نازک ہیں کہ بھوسے کے تیلوں سے بھی زخمی ہورہی ہیں۔”
وہاں بیٹھی عورتوں میں سے کسی نے مذاق کرنے والے انداز میں موتیا سے کہا تھا جواب دوپٹے کے پلوسے اپنی انگلی کی پور سے نکلتا خون بند کرنے کی کوشش کررہی تھی اور اس میں ناکام ہورہی تھی۔ پھر کوئی چلتا ہوا وہاں آیا تھا۔ اس کے پاس زمین پر بیٹھ کر اس کا ہاتھ پکڑ اتھا اور ایک رومال اس کی انگلی کے گرد لپیٹ دیا تھا۔ دانے چنتی عورتیں جیسے لمحہ بھر کے لئے دانے چننا بھول گئیں۔
”تم سے کس نے کہا تھا کہ دانے صاف کرنے کے لئے حویلی آؤ؟ آئندہ نہیں آؤگی تم یہاں۔”
مراد نے بآواز بلند موتیا سے کہا تھا۔
برآمدے سے صحن میں آتی تاجور نے کسی برف کے بت کی طرح یہ منظر دیکھا تھا ۔ پورے گاؤں کی عورتوں کے درمیان مراد موتیا کے ہاتھ پر اپنا رومال لپیٹ کر اسے اس حویلی میں دانے صاف کرنے کے لئے آنے سے منع کررہا تھا اور وہ بھی ببانگِ دہل۔ تاجور برف کا بت نہ بنتی تو کیا آگ کا انگارہ بنتی۔
”چوہدرائن جی! آپ کو یہی بتانا چاہ رہی تھی صبح سے، چوہدری مراد موتیا کو کنویں پر بلا کر ملے ہیں ان سے۔ قول و قرار ہوئے ہیں دونوں کے بیچ۔ چوہدری مراد نے موتیا سے کہا ہے کہ وہ رشتہ لے کر آئیں گے اگلی بار موتیا کے گھر۔” تاجور کے عقب میں کھڑی شکوراں نے سرگوشی میں تاجور کے کانوں میں جیسے پگھلا ہوا سیسہ انڈیلا تھا۔ صحن کے بیچوں بیچ مراد موتیا سے کہہ رہا تھا۔
”تم جاؤ یہاں سے۔”
موتیا نے مراد کو دیکھا، ایک نظر برآمدے میں کھڑی تاجور پر ڈالی، پھر گاؤں کی عورتوں کو دیکھتی وہ اٹھ کر کھڑی ہوگئی تھی۔ وہیں کھڑے کھڑے اس نے دور سے ہی تاجور کو ہاتھ کے اشارے سے سلام کیا تھا اور پلٹ گئی تھی۔
تاجور نے سلام کا جواب نہیں دیا تھا۔ اس نے مراد کو دیکھا تھا جو موتیا کو تب تک جاتا دیکھتا رہا جب تک اس نے حویلی کی چوکھٹ پار نہیں کرلی تھی۔
تاجور کو لگا دن دیہاڑے کسی نے اس کا تختہ الٹ دیا ہو۔ کسی نے نہیں، موتیا نے۔ وہ اس کا کوہِ نور لے اڑی تھی۔ اس کا مراد!
…٭…
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});