دانہ پانی — قسط نمبر ۳

وہ اس کا ہاتھ پکڑے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے اس کے لئے وہ گنگنا رہا تھا جو اس نے کبھی کسی لڑکی کے لئے نہیں گنگنایا تھا۔ اور وہ اسے مسکراتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔ اس نے اپنے حسن کی تعریفیں پتا نہیں کس کس سے سنی تھیں پر اس دن، اس لمحے جو اس نے مراد سے سنا تھا، وہ بس امر ہوگیا تھا۔
وہ دونوں ویسے ہی کھڑے ایک دوسرے کو دیکھتے جارہے تھے اور پتا نہیں کب تک ایک دوسرے کو دیکھتے ہی چلے جاتے اگر آسمان پر بادل ان کے ساتھ شرارت کا نہ سوچتا۔ وہ بارش کی بوندیں تھیں جنہوں نے ان پر ٹپکنا شروع کیا تھا مگر ان کا انہماک توڑنے میں ناکام رہی تھیں اور پھر وہ موسلا دھار بار ش تھی جو ان دونوں پر محبت کی طرح برسنے کے لئے اتری تھی اور یہ بتول تھی جو ایک درخت کی اوٹ سے بھیگتے اور بھاگتے ہوئے موتیا کی طرف آئی تھی اور اس نے موتیا کا ہاتھ پکڑکر کھینچتے ہوئے جیسے اسے ہوش میں لانے کی کوشش کی تھی۔
”بارش ہو رہی ہے موتیا! بھیگ رہی ہو تم، بس چلو اب چلتے ہیں۔ گاؤں کے لوگ آرہے ہیں اب اسی طرف۔”
وہ برستی بارش میں اسے کھینچتے ہوئے وہاں سے لے گئی تھی پر مراد وہیں کھڑا رہ گیا تھا۔ اس نے کچی زمین پر اس کی چپل کے نشان دیکھے تھے جو گیلی زمین پر یوں نقش تھے جیسے مراد کے دل پر موتیا کا چہرہ۔ وہ برستی بارش میں بتول کے ساتھ دور جاتے ہوئے بھی مڑ مڑ کر اس کو دیکھ رہی تھی اور وہ مڑا ہی نہیں تھا۔ وہ تب تک وہیں کھڑا اسے جاتا دیکھتا رہا جب تک وہ نظرآتی رہی تھی۔ پھر جب وہ نظر آنا بند ہوگئی تو مراد کو پہلی دفعہ اس برستی بارش کا احساس ہوا جس میں اب اس کے کپڑے نچڑ رہے تھے ۔ اسے اب وہاں سے جانا تھا پر سمجھ نہیں پارہا تھا کہ اب وہ جائے تو کہاں جائے۔ دل جہاں جانا چاہتا تھا وہاں کا راستہ ابھی مسدود تھا اور دماغ وہ اب کچھ کہہ نہیں پا رہا تھا۔ اس نے دل کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے تھے ۔ وہ مراد کا دل تھا جو موتیا کے سامنے ہارا تھا تو اس کا دماغ کیسے غلط کہہ دیتا، اسے کیا تاویل دیتا۔
…٭…

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

”آپ کا بہت بہت شکریہ چوہدری صاحب! آپ نے میرے گھر پھلوں کے اتنے ٹوکرے موتیا کے لئے بھیج دیئے۔ ہم تینوں نے خوب رج رج کے پھل کھایا ہے اور آس پڑوس والوں کو بھی بانٹا ہے پھر بھی ایسی برکت پڑی ہے ان پھلوں میں کہ ختم ہی نہیں ہورہے۔”
گامو نے اگلے دن چوہدری شجاع کے گھر جاکر اس کا شکریہ ادا کیا تھا اور چوہدری شجاع کچھ الجھ گیا تھا۔
”میں نے توپھل نہیں بھیجا۔ چوہدرائن نے بھیجا ہوگا۔ تم نے اور تمہاری بیٹی نے کام بھی تو ایسا بڑا کیا ہے گامو!”
چوہدری شجاع نے اس سے کہا تھا اور ساتھ ہی ایک بار پھر اس کے ممنون ہوئے تھے۔ گامو سر جھکا کر رہ گیا تھا۔
اس دن گھر آکر خوش گوار حیرت میں چوہدری شجاع تاجور سے ان پھلوں کے بارے میں پوچھے بغیر نہیں رہ سکے۔ وہ گامو اور اللہ وسائی کے لئے تاجور کی ناپسندیدگی سے واقف تھے اور ان کے لئے یہ حیرانی کی بات تھی کہ تاجور ان کے گھر پھل بھیجتی اور وہ بھی ٹوکروں کے ٹوکرے۔
”میں کیوں بھیجوں گی پھلوں کے ٹوکرے گامو کے گھر؟” تاجور بھی چوہدری شجاع کے استفسار پر حیران ہوئی تھی۔
”تو ہوسکتا ہے تمہارے والد صاحب نے بھجوائے ہوں۔” شجاع کو اس کے جواب نے حیران کیا تھا اور پھر انہیں پیر ابراہیم کا خیال آیا تھا۔
”ابّا جان نے کچھ بھیجنا ہوتا تو مجھے بھیجتے اور ساتھ پیغام دے دیتے کہ یہ ان کے جاننے والوں کو دے دوں۔ یہ تھوڑی کرتے کہ میرے گاوؑں کے کسی بھی شخص کو مجھے بنابتائے پھلوں کے ٹوکرے بھیج دیتے۔” تاجور الجھی ہوئی تھی مگر اس الجھن میں بھی وہ جیسے پھل بھیجنے والے کو ڈھونڈ نے لگی ہوئی تھی اور پھر جیسے ایک جھماکے کے ساتھ اس کے ذہن کی سکرین پرمراد کاچہرہ چمکا تھا۔
”مجھے پتا ہے کس نے بھیجا ہے پھل۔” تاجور بے اختیار بڑبڑائی تھی۔ اسے مراد پر شبہ نہیں تھا، یقین تھا کہ موتیا کو پھل بھیجنے والا وہی ہوسکتا تھا اور اس کا دل ڈوبا تھا۔ وہ مراد کی ماں سے پہلی چوری تھی اور تاجور جیسے بل کھا کر رہ گئی تھی۔ وہ وہاں سے لپکتی ہوئی حویلی کے باورچی خانے میں گئی تھی جہاں شکوراں کام کررہی تھی۔
”شکوراں! تھتھی سے کہنا، موتیا کو بھیجے دانے صاف کرنے۔” اس نے اندر داخل ہوتے ہی بڑی درشتی سے شکوراں سے کہا تھا جو لسی بلوتے ہوئے تاجور کے اس طرح وہاں آنے پر کچھ ٹھٹک کررکی تھی۔
” موتیا کو تو کبھی نہیں بھیجتی تھتھی، آپ کو پتا تو ہے۔” تاجور نے اس کی بات بیچ میں ہی کاٹی تھی۔
”صبح موتیا ہی آئے گی ہر صورت۔ کہہ دینا تھتھی کو ورنہ دوبارہ مجھے شکل نہ دکھائے وہ۔”
تاجور نے دوٹوک انداز میں کہا تھا اور پھر وہاں سے چلی گئی تھی۔ شکوراں کی سمجھ میں نہیں آیا کہ تاجور کو بیٹھے بٹھائے ہوا کیا تھا۔ ابھی تو پورا گاؤں گامو اور اس کی بیٹی کی دلیری کے لئے مدح سرا تھا جس نے چوہدری شجاع کی نسل بچائی تھی۔ وہ بڑبڑاتے ہوئے دوبارہ لسّی بلونے لگی تھی۔ اتنے سال کے ساتھ کے بعد بھی وہ تاجور کو سمجھ نہیں پائی تھی۔ تاجور یوں آسانی سے سمجھ میں آجاتی تو پھر تو کوئی مسئلہ ہی نہ رہتا۔
…٭…
شکوراں گھنٹے بعد ہی اللہ وسائی کے گھر تاجور کا پیغام لے کر پہنچ گئی تھی اور اس کے پیغام پر اللہ وسائی تڑپ اٹھی تھی۔
”موتیا نے کبھی یہ کام کیا ہی نہیں شکوراں، تو ہاتھ تو دیکھ اس کے۔ لکھنے پڑھنے والے ہاتھ ہیں اس کے۔ اتنا سخت کام کریں گے تو زخمی ہوجائیں گے۔ ”
اللہ وسائی نے کہا تھا اور شکوراں نے تیکھی نظروں سے اسے دیکھا تھا۔
”کیا مطلب ہے تیرا؟ دانے چننا کون سا سخت کام ہے جو تو کرسکتی ہے پر تیری بیٹی نہیں کرسکتی۔”
”میں تو اجڈ گنوارہوں۔ میں نے تو دانے ہی چننے ہیں ساری عمر۔ پر وہ تو ڈاکٹر بن رہی ہے۔ اس سے تو میں گھر کا کام نہیں کرواتی۔”
اللہ وسائی اپنی بات پر اڑی ہوئی تھی اور شکوراں بری طرح جھنجھلا رہی تھی۔
”تونے ضد پکڑلی ہے تو اور بات ہے اللہ وسائی ورنہ اتنا بڑا کام نہیں ہے یہ موتیا کے لئے۔ میری بتول جاسکتی ہے حویلی تو تیری موتیا کیوں نہیں؟”
شکوراں نے جیسے زچ ہوکر کہا تھا اور اس سے پہلے کہ اللہ وسائی کچھ اور کہتی، اندر سے موتیا نکل آئی تھی۔
”ٹھیک ہے خالہ! میں آجاؤں گی۔” شکوراں اور اللہ وسائی نے بہ یک وقت اسے دیکھا تھا اور شکوراں کے چہرے پر خوشی جھلکی تھی۔
”بس اتنی سی تو بات تھی اللہ وسائی! دیکھ تیری بیٹی تجھ سے زیادہ سمجھدار نکلی ہے۔ چل میری دھی پھر ٹیموں ٹیم آجانا کل سویرے۔ یہ نہ ہو کہ دن چڑھادے۔”
شکوراں کہہ کر اپنی چادر ٹھیک کرتے ہوئے اللہ وسائی کی چوکھٹ پھلانگ گئی تھی اور اس کے جاتے ہی اللہ وسائی نے بڑی ناراضی سے موتیا کو دیکھا تھا۔
”تجھے کیا ضرورت تھی بیچ میں آکر کودنے کی جب میں بات کررہی تھی۔”
وہ مسکرادی تھی۔
”کچھ نہیں ہوتا امّاں! ان کے گھر سے کتنا ڈھیر سا پھل آیا تھا اور اب ہم اکڑ کے بیٹھ جائیں کہ ہم نہیں جاسکتے۔ چوہدرائن جی کیا سوچیں گی۔”
”وہ جو چاہے سوچتی رہے پر میں نے تیرے ہاتھوں سے دانے نہیں چنوانے۔ تیرے ہاتھ زخمی ہوجائیں گے مجھے پتا ہے۔” موتیا ہنسی تھی۔
”امّاں! کچھ نہیں ہو تا۔ اتنی نازک نہیں ہے تیری بیٹی۔” اس نے ماں کو تسلی دینے والے انداز میں گلے لگاکر کہا تھا۔
”اور چوہدرائن نے تو اب خاطر مدارت ہی بڑی کرنی ہے میری۔ آخر میں نے ان کے بیٹے کی جان جو بچائی ہے۔” اس نے ماں سے یوں کہا تھا جیسے اسے یاد دلا رہی ہو کہ تاجور اس سے دوسروں جیسا سلوک نہیں کرے گی اور اس کی بات پر اللہ وسائی جیسے کچھ ٹھنڈی ہوگئی تھی۔
…٭…
تاجور تسبیح لئے حویلی کے برآمدے میں بیٹھی ہوئی تھی جب مراد گھر آیا تھا۔
”ارے! آپ اب تک باہر بیٹھی ہیں۔” اس نے آتے ہی ماں سے بڑے لاڈ سے کہا تھا۔
”تم نے بتایا ہی نہیں تھا کہ اتنی دیر ہوجائے گی تمہیں باہر۔”تاجور نے اٹھتے ہوئے کہا۔
”ہاں! میں نانا جان سے ملنے چلا گیا تھا تو بس پھر انہوں نے ہی رات کے کھانے پر روک لیا۔ ” مراد ماں کو بتاتا ہوا اندر اپنے کمرے کی طرف آیا۔ تاجور کچھ حیران سی ہوکر پیچھے آئی تھی۔
”ابّا جان کی طرف گئے تھے تو مجھے بتا کر تو جاتے۔” مراد نے جو اب میں ماں کو صرف مسکرا کر دیکھا تھا۔ وہ اب الماری سے اپنے کپڑے نکال رہاتھا۔
”گامو کے گھر پھل تم نے بھیجے تھے؟” تاجور بہت دیر اس سوال کو دبا نہیں سکی تھی جسے اپنے اندر لئے وہ گھوم رہی تھی۔
مراد کپڑے نکالتے ہوئے ٹھٹکاتھا، پھر اس نے پلٹ کر ماں کو دیکھا اور بڑے ہموار لہجے میں کہا:
”جی امّی! انہوں نے میری جان بچائی تھی مجھے لگا مجھے بھی تشکر اور احسان مندی کے اظہار کے لئے کچھ کرنا چاہیے۔”
”تم نے اگر کچھ بھیجنا بھی تھا تو مجھ سے پوچھ کر بھیجتے۔” اس کی بات کے جواب میں بس یہی کہہ سکی تھی۔
”ٹھیک ہے! اگلی بار جب کچھ بھیجوں گا تو آپ سے پوچھ کر بھیجوں گا۔”مراد نے مسکرا کر ماں کو دیکھا اور بڑے صلح جو انداز میں کہا تھا۔ تاجور کھٹک گئی تھی۔
”اگلی بار کیوں بھیجو گے کچھ بھی انہیں؟” اُس نے مراد سے کہا تھا۔
”تحفہ بھیجنے سے محبت بڑھتی ہے۔”مراد نے کہا تھا اور تاجور بری طرح تلملا اٹھی تھی۔
”کس سے محبت بڑھانی ہے تم نے، موتیا سے؟” اس نے مراد سے سیدھا ہی پوچھ لیا تھا۔ مراد ماں کے غصّہ کی وجہ سمجھ نہیں سکا۔ وہ بس سنجیدگی سے اس کا چہرہ دیکھتا رہا۔
”یہ جو کمیوں کی لڑکیاں ہوتی ہیں ناں، یہ بڑی تیز ہوتی ہیں۔ اور موتیا کو تو ویسے ہی شہر کی ہوا لگی ہوئی ہے۔ وہاں پڑھ رہی ہے وہ لڑکوں کے ساتھ۔” تاجور نے اب بغیر کسی لگی لپٹی کے اس سے کہا تھا۔
”امّاں! اس طرح تو میں بھی ساری زندگی شہر میں پڑھا ہوں اور اب انگلینڈ میں لڑکیوں کے ساتھ پڑھ رہا ہوں تو پھر تو میں بھی بڑا تیز ہوا ناں۔” اس نے ماں سے سادہ لیکن بڑے صاف انداز میں کہا تھا۔ تاجور لاجواب ہوئی تھی اور کچھ اور جھنجھلائی تھی۔
”تو اب ماں سے بحث کرے گا دوسروں کے لئے۔”
”ٹھیک ہے بالکل بھی نہیں کرتا بحث چلیں۔ آپ بھی سوجائیں، میں بھی سوتا ہوں، صبح کرلیں گے بات۔ آپ ویسے بھی تھکی ہوئی لگ رہی ہیں مجھے۔”
مراد نے ماں کے پاس آکر بڑے پیار سے اسے ساتھ لگا کر بچوں کی طرح تھپکتے ہوئے کہا تھا۔ تاجور کا غصّہ کچھ ٹھنڈا پڑا۔ مراد سے وہ خفا رہ ہی نہیں سکتی تھی۔
”مجھے تم سے تمہاری شادی کے بارے میں بات کرنی ہے؟” اس نے بالآخر اعلان کرنے والے انداز میں مراد سے کہا اور حیران کن طور پر مراد نے جواباً آئیں بائیں شائیں کرنے کے بجائے اس سے کہا تھا۔
”مجھے بھی آپ سے اسی سلسلے میں بات کرنی ہے۔”
تاجور کھڑی کی کھڑی رہ گئی تھی۔ اس کا دل بڑی زور سے دھڑکا تھا لیکن جیسے اس نے دل کو سنبھالا تھا۔
”تم نے کیا بات کرنی ہے؟” وہ پوچھے بغیر نہیں رہ سکی تھی۔ مراد ہنسا۔
”نہیں امّی! اس وقت بات نہیں کریں گے، کل کریں گے۔ اس وقت ہم دونوں کو نیند آرہی ہے۔”
اس نے ماں کو بڑی محنت کے ساتھ جیسے موضوع سے ہٹانے کی کوشش کی تھی ۔ تاجور کچھ بھی کہے بغیر اس کے کمرے سے آگئی تھی پر اپنے دل اور کندھوں پر پہاڑ جیسا بوجھ لے کر آئی تھی اور سر پر اندیشوں اور واہموں کی گٹھڑی۔
اسے تو مراد سے ماہ نور کی بات کرنا تھی پر مراد کو اس سے کس کی بات کرنی تھی؟
اس کا ذہن ایک ہی خیال میں الجھا ہوا تھا۔
”کہیں موتیا؟” اسے ایک لمحہ کے لئے خیال آیا اور اس نے اس خیال کو اسی لمحے جیسے دونوں ہاتھوں سے گلا گھونٹ کر ختم کیا۔ باہر برآمدے میں کھڑے ہوکر صحن میں تھوکا بھی۔ موتیا جیسے کوئی ڈراؤنا خواب تھی تاجور کے لئے۔ وہ اس کی دہشت میں اس پر تھوک رہی تھی یوں جیسے اس کے شر اور برائی سے اپنا دامن بچائے رکھنا چاہتی ہو۔
”خوامخواہ ہی وہم کرنے بیٹھ گئی میں، جمعہ جمعہ چار دن ہوئے ہیں مراد کو موتیا سے ملے۔ اب چار دنوں میں کیا مجھ سے اس کے لئے بات کرنے بیٹھ جائے گا۔ تو بھی وہمی ہوگئی ہے تاجور خوامخواہ میں ہی۔ کچھ نہیں کہنا ہوگا مراد نے اور کہے گا بھی تو دیکھی جائے گی۔ میں ماں ہوں، مرضی تو میری ہی چلنی ہے اور اس حویلی میں ماہ نور کے علاوہ کسی اور نے بہو بن کر آنا ہی نہیں ہے۔” تاجور نے اس رات دل ہی دل میں جیسے مراد کا نصیب لکھ کر قلم توڑ دیا تھا۔
…٭…

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

میری ڈائریاں میرے خواب —- محسن علی شامی

Read Next

عداوت — ہما شہزاد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!