دانہ پانی — قسط نمبر ۳

”قسم لے لیں چوہدرائن جی! میری بتول نے الف سے لے کر ی تک یہی بات بتائی ہے مجھے۔ میں نے ایک لفظ ادھر سے ادھر نہیں کیا۔ ” شکوراں نے کان پکڑ کر تاجور سے کہا تھا جو بالکل ساکت بیٹھی اسے دیکھتی جارہی تھی۔
”موتیا نے پہلے ہی دیکھ لیا کہ میرے بیٹے کو سانپ کاٹنے لگا ہے۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے شکوراں! تو کیسی باتیں کررہی ہے؟”
تاجور نے بالآخر اپنی خاموشی توڑی تھی۔
”میں نے بھی یہی بات کہی تھی بتول سے پر وہ کہتی ہے، موتیا بڑے سالوں سے مراد کو خواب میں دیکھتی آرہی ہے۔ اس نے یہ بھی دیکھا کہ مراد کے دل والی جگہ پر کوئی داغ ہے۔ چوہدرائن جی ایسا تو نہیں ہے۔”
شکوراں نے پتا نہیں اپنے کون سے شبہ کی تصدیق کی تھی اور تاجور پھر چپ کی چپ رہ گئی تھی۔
وہ نشان مراد کے سینے پر دل والی جگہ پر نہیں تھا، وہ تاجور کے سینے پر تھا اور وہ مراد کے حمل کے دوران بننا اور پھیلنا شروع ہوا تھا پھر جیسے ایک جگہ رک گیا تھا۔ تاجور نے کئی ٹوٹکے کئے تھے اور ڈاکٹری علاج بھی کروائے تھے پر وہ نشان کسی چھائیں کی طرح عین اس کے دل والی جگہ پر تھا اور تاجور نے کبھی کسی سے اس کا ذکر نہیں کیا تھا اور اب شکوراں اُسے اُس داغ کا بتا رہی تھی کہ موتیا سچے خواب دیکھتی تھی اور اس نے مراد کے دل والی جگہ پر داغ دیکھا تھا۔ تاجور عجیب ہی انداز میں بے قرار ہوئی تھی۔
”سن شکوراں! اپنی بیٹی کو کہہ دے، یہ باتیں کسی سے نہ دہرائے اور نہ ہی موتیا۔ بتول سے کہہ، مراد کا نام بھی موتیا کی زبان پر نہ آئے۔”
تاجور کو سمجھ نہیں آیا کہ وہ شکوراں سے کہے کیا۔ شکوراں کو جو بھی سمجھ میں آیا، اس نے بغیر سوال کے اطاعت کرنے والے انداز میں جی کہہ کے سرہلادیا۔ وہ چلی گئی تھی مگر تاجور کو جیسے جلتے انگاروں پر چھوڑ گئی تھی۔
”یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ خواب میں پہلے ہی سانپ کو مراد کو کاٹتا دیکھ رہی تھی۔ ہوسکتا ہے موتیا خود ہی وہ سانپ لائی ہو اور اُسے اس نے مراد پر چھوڑ دیا۔” تاجور کے دل میں اس وقت عجیب عجیب وہم آرہے تھے۔ وہ موتیا کو دھوکے باز ماننا چاہتی تھی پر مان نہیں پارہی تھی۔
کمرے کا دروازہ بند کرکے اس نے آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر قمیص کے بٹن کھول کر اپنے سینے پر وہ داغ دیکھا تھا جسے اس نے بہت عرصے سے دیکھنا چھوڑ دیا تھا پر اب وہ کسی اور کی نظر میں آگیا تھا۔ وہ اُس کے دل تک کیسے پہنچ گئی تھی۔ کسی نے جیسے تاجور کے کلیجے پر ہاتھ ڈالا تھا۔
اسے یہ خبر نہیں تھی کہ بالکل اسی وقت اپنے کمرے میں مراد بھی آئینے کے سامنے قمیص کے بٹن کھولے کھڑ اتھا۔ اس کا سینہ بے داغ تھا اور وہاں کچھ بھی نہیں تھا مگر وہ بات مراد کی موتیا کی زبان سے نکلی تھی اور مراد کو وہم میں ڈال گئی تھی۔ اس نے شکوراں اور تاجور کی ساری باتیں سنی تھیں اور وہ بھی تاجور کی طرح ششدر تھا۔
وہ اسے کئی سالوں سے خوابوں میں دیکھتی آرہی تھی اور اس نے اسے سانپ سے بچایا تھا کیونکہ وہ پہلے ہی جان گئی تھی کہ وہاں اسے سانپ کاٹنے والا تھا۔ وہ کنگز کالج میں وکالت پڑھ رہا تھا اور وہ ان انکشافات پر دنگ تھا۔ وہ کیوں اس لڑکی کی طرف کھنچ رہا تھا جو اسے کئی سالوں سے خوابوں میں دیکھ رہی تھی اور جو اس کی جان بچا چکی تھی۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

اور اپنے کمرے میں آئینے کے سامنے کھڑی تاجور کو پتا چل چکا تھا کہ موتیا کون تھی اور اسے یہ سب کیسے پتا چل رہا تھا۔ یہ سب جادو کا کمال تھا، کالے جادو کا کمال!
وہ اس کے مراد پر ٹونے کررہی تھی کیونکہ وہ اس کے بیٹے کو اس سے چھین لینا چاہتی تھی۔ اسے موتیا سے عجیب سی نفرت محسوس ہوئی۔
”وہ میری اکلوتی اولاد ہے موتیا۔ تو چھین کر دکھااسے اگرچھین سکتی ہے تو۔” اس نے جیسے دل ہی دل میں موتیا کو چیلنج کیا تھا۔ للکارا تھا یہ جانے بغیر کہ موتیا ایک انگلی ہلائے بغیر اس کے بیٹے کے دل پر قابض ہوچکی تھی۔
…٭…
بتول اس دن صبح سویرے روز کی طرح حویلی میں داخل ہوئی تھی جب صحن میں ٹہلتا ہوا مراد اس کے سامنے آکر کھڑا ہوگیا تھا۔
”تم موتیا کی سہیلی ہو؟” اس نے بتول کے سلام کے جواب میں کہا تھا۔بتول کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ اسے کیا جواب دے ۔ مراد نے جیسے اس کی مشکل آسان کردی تھی۔
”تمہیں دیکھا تھا میں نے موتیا کے ساتھ ریلوے اسٹیشن پر اور پھرتانگے میں۔ ” اُس نے جیسے بتول کے لئے اگر مگر کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑ ی تھی۔
”جی!”
بتول نے مختصر جواب دیا وہ مراد کو سراٹھا کر دیکھ نہیں سکی۔ اس سے مراد کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر دیکھا ہی نہیں جاتا تھا۔ یہ کام صرف موتیا کرسکتی تھی۔
”مجھے موتیا سے ملنا ہے ۔ اسے میرا پیغام پہنچا دو۔” بتول نے اس بار ہڑبڑا کر اسے دیکھا تھا۔ وہ بے تاثر چہرے کے ساتھ اس پر نظریں جمائے کھڑا تھا۔
”میں اسے آپ کا پیغام دے دوں گی لیکن پتا نہیں وہ آپ سے ملے نہ ملے۔” اس نے مراد سے کہا اور مراد کے ہونٹوں پر عجیب سی مسکراہٹ آئی۔
”تم بس اسے پیغام دینا اور وقت اور جگہ پوچھنا ۔” وہ اس سے کہہ کر بڑے یقین سے وہاں سے چلا گیا تھا۔ یوں جیسے اسے پتا تھا کہ موتیا اس کا پیغام سنتے ہی دوڑکر چلی آتی۔ بتول دور جاتے مراد کو دیکھتی رہی، اس کے اونچے لمبے سراپے کو، لمبے لمبے ڈگ بھرتے اس کے وجود کو۔ ہر اچھی چیز کی طرح وہ بھی موتیا کا تھا۔
بتول کے اندر کچھ سلگا تھا۔ سعید ایک لمحہ کے لئے بھی اسے یاد نہیں آیا تھا اور مراد اب اسے بھول نہیں رہا تھا۔
…٭…
”کہاں ملنا ہے اس نے ؟” مراد نے ٹھیک کہا تھا۔ موتیا نے کوئی سوال جواب کئے ہی نہیں تھے۔ بتول سے اس نے بس جگہ اور وقت پوچھا تھا۔
”چوہدری مراد نے کہاہے، وقت اور جگہ تم طے کرو گی۔ ”بتول نے اسے بتایا۔ موتیا کا چہرہ چمکا۔
”تو بس پھر کنویں پر رات کے وقت ۔” موتیا نے کہا تھا۔
”تو کیا کہہ کر آئے گی؟” بتول نے پوچھا تھا۔
”سچ بول کر آؤں گی۔ امّاں سے کہوں گی، مراد کے پاس جارہی ہوں۔”
موتیا نے چھوٹی انگلی کی پور کے کونے سے آنکھ میں کاجل ڈال کر جیسے لکیر کھینچی تھی اور آئینے میں سے بتول کو دیکھ کر مسکرائی تھی۔
” وہ تو پہلے سے ہی تیرا ہے۔ تو نے کیا پانا ہے اسے ۔ ”بتول نے عجیب حسرت سے سوچا تھا۔
…٭…
”اس سے کہو ، دن کو آئے، رات کو گھر سے نکلے گی تو بدنامی مول لے گی اور اس کی عزت مجھے اپنی عزت سے زیادہ پیاری ہے۔”
بتول نے مراد کو موتیا کا پیغام پہنچایا تھا اور اُس نے جواباً اس سے کہا تھا۔
بتول اس پر مرمٹی تھی ، یہ کیسا مرد تھا جو رات کے اندھیرے میں ملنا نہیں چاہتا تھا۔ دن کے اجالے میں اپنی محبوبہ سے ملاقات چاہتا تھا۔ جسے محبوبہ کی نیک نامی کی پروا خود سے زیادہ تھی اور وہ سعید سے ہمیشہ رات کے اندھیرے میں ملتی تھی۔ وہ بلاتا ہی رات کو تھا۔ اسے سعید پر ایک بار پھر غصّہ آیا۔ اس کی بزدلی پر اور اس کی بے غیرتی پر لیکن اپنی بے بسی اور مجبوری پر اس سے بھی زیادہ۔
وہ موتیا ہوتی تو اسے مراد ملتا۔ وہ بدبخت بتول تھی، اس لئے اسے سعید ملا تھا۔ بتول نے جیسے خود کو خودہی کوسا تھا۔ یہ جاننے کے باوجود کہ ان کوسنوں سے بھی سعید نے سعید ہی رہنا تھا اس نے مراد نہیں بن جانا تھا۔
”دیکھا بتول! نہیں ملانا وہ مجھ سے رات میں۔”موتیا بتول کی زبان سے مراد کا جواب سن کر ہنسی تھی اور ہنستی ہی چلی گئی تھی۔
” مجھے پتا تھا۔ انکار ہی آئے گا اس کا، وہ مجھ سے رات کو ملنے پر تیار ہوجاتا تو موتیا کے دل سے اتر جاتا۔”
بتول اس کا بھی چہرہ ہی دیکھتی رہ گئی تھی۔ وہ دونوںعشق کی کون سی داستان رقم کرنے جارہے تھے جس کی پرکھ میں ایسے امتحان ہوتے تھے اور محبوب کی صداقت کویوں پرکھا جاتا تھا۔ یا وہ عشق کی کون سی معراج پر تھے کہ ایک دوسرے سے ملنے کے لئے بے قرار ہوتے ہوئے بھی دن اور رات کی حدیں پھلانگنے کو تیار نہیں تھے۔
ایسا کبھی بتول اور سعید کے پیار میں تو نہ ہوا تھا ۔ وہ پتا نہیں بار بار کیوں خود کو اور سعید کو ان دونوں کے برابر لاکر کھڑا کردیتی تھی۔
”تو بس پھر ٹھیک ہے، دن دہاڑے ملوں گی اس سے۔ وہیں کنویں پر۔ اور تم بھی ساتھ ہوگی میرے بتول۔” موتیا نے یک دم اعلان کرنے والے انداز میں اس سے کہا تھا۔
”مجھے کیوں ساتھ رکھتی ہے۔ میرے سامنے تو بات بھی نہیں کرسکوگے تم دونوں؟” بتول نے فوراً ہی جیسے ہاتھ کھڑے کردیئے تھے۔
موتیا کے ہونٹوں پر عجیب پراسرار سی مسکراہٹ آئی تھی، یوں جیسے اسے اس کی بات بے وقوفانہ لگی ہو۔
…٭…
وہ کنویں پر ہی ملے تھے پر کنویں کے پچھلی طرف آم کے باغ میں جہاں موتیا اس کے انتظار میں ٹہلتی ہوئی چلی گئی تھی ۔ مراد گھوڑے پر آیا تھا۔ کچے راستے پر گھوڑا دوڑاتے، گرد اُڑاتے اس نے موتیا کو بہت دور سے دیکھ لیا تھا اور خود موتیا نے بھی۔ وہ عجیب سحر زدہ سی اسے دور سے آتا دیکھتی رہی تھی۔ وہ گھوڑا یوں دوڑارہا تھا جیسے وہ کچا راستہ پکی پگڈنڈی ہو۔ موتیا سے کچھ دور ہی اس نے گھوڑے کی رفتار ہلکی کردی تھی ۔گھوڑا سرپٹ بھاگتے ہوئے ہلکی چال پر آگیا تھا اور پھر آم کے باغ کی حد بندی کے ساتھ ساتھ چلنے لگاتھا۔ وہ بھی جیسے اپنے سوار کی طرح موتیا پر ہی نظریں جمائے ہوئے تھا۔ موتیا کے قریب آنے پر مراد نے باگ کھینچ کر گھوڑے کو روکا پھر باگ کو گرہ لگا کر چھوڑ تے ہوئے وہ گھوڑے سے نیچے کودا تھا اور پھر موتیا کے سامنے آکر کھڑا ہوگیا تھا۔ وہ دو آم کے درختوں کے بیچوں بیچ کھڑی تھی۔
”تو تم مجھے اپنے خوابوں میں دیکھ رہی ہو؟ اور کتنے سالوں سے؟”
مراد نے نہ سلام کیا تھا نہ کوئی تمہید باندھی تھی۔ وہ اس لڑکی سے صاف صاف بات کرنا چاہتا تھا، ادھرادھر کی باتیں نہیں۔
”پانچ سال سے۔” موتیا نے اس پر نظریں جمائے ہوئے کہا تھا اور پھر ہاتھ بڑھا دیا تھا۔ مراد نے اس کے ہاتھ میں پکڑا موتیا کا ہار دیکھا تھا جو اس نے اپنے ہاتھ سے پھول پرو کر بنایا تھا۔
مراد نے اس کے ہاتھ سے وہ ہار نہیں لیا تھا۔ اس نے اس ہار کو اسی کی کلائی میں نرمی سے لپیٹنا شروع کردیا تھا جس میں موتیا نے وہ ہار تھاما ہوا تھا۔
”سنو! تم سے لمبی بات کرنے نہیں آیا نہ جھوٹے قول واقرار کرنے آیا ہوں ۔ تم مراد کے دل میں تیر کی طرح کھب گئی ہو۔ نکالنے سے بھی نہیں نکل رہیں۔ اور نکالنا چاہتا بھی نہیں تمہیں۔ تو بس تم سے یہی کہنے آیا ہوں کہ تم میری ہو ۔ اپنے ماں باپ کو بھیجوں گا تمہیں اپنی زندگی کا ساتھی بنانے کے لئے اور دیر نہیں کروں گا۔ بس تم میری رہنا۔ کسی اور کے ہاتھ میں یہ ہاتھ نہ دینا ورنہ میں تمہیں تو کچھ نہیں کہوں گا۔ اسے جان سے ماردوں گا۔”
وہ عجیب قول واقرار تھا جس پر موتیا ہنسی تھی اور اس نے مراد سے کہا تھا:
”تمہارے علاوہ تو میرے خوابوں میں بھی کوئی نہیں آتا مراد، جاگتے اپنا ہاتھ کیسے کسی کو تھماسکتی ہوں؟”
وہ دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑے تھے۔ وہ چپ تھے، ساکت تھے اور سانس بھی نہیں لے رہے تھے اور اس سب کی ضرورت بھی کیا تھی۔ یہ سب تو زندہ رہنے کے لئے کیا جاتا ہے، وہ دونوں تو ایک دوسرے پر مرگئے تھے۔
اس کے نین غزالی دلبر
اس کے گال گلابی
اس کے روپ پر ساون برسے
بہہ جائے مرمر کے
اس کا حسن کہانی جیسا
کاغذ کتنے بھردے
اس کی مُشک بہاروں جیسی
صحرا جنت کردے
اس کے بول ہیں میٹھا جھرنا
اس کی چپ میں چھاوؑں
وہ حسن پری
وہ روپ متی
وہ میرے جل کی ناؤ

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

میری ڈائریاں میرے خواب —- محسن علی شامی

Read Next

عداوت — ہما شہزاد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!