دانہ پانی — قسط نمبر ۳

”پورے گاؤں میں شور مچا ہوا ہے موتیا، تو نے چوہدری مراد کو سانپ سے بچالیا۔ ”
وہ بتول تھی جو اُس سے ملنے آئی تھی اور گھر میں داخل ہوتے ہی اُس نے موتیا کو دیکھ کر کہاتھا۔
وہ ہینڈ پمپ چلا چلاکے بالٹی میں پانی اکٹھا کررہی تھی اور اب اپنے پاوںٔ رگڑ رگڑ کر دھونے بیٹھ گئی تھی۔ بتول بھی آکر اُس کے پاس ہی کُھرے پر بیٹھ گئی تھی۔
”میں نے تجھ سے کہا تھا بتول کہ میں نے خواب میں چوہدری مراد کے پاس سانپ دیکھا تھا جو اُسے کاٹنے لگا تھا۔ ” وہ اپنی ایڑیوں کو جھانویں سے رگڑتے ہوئے اس سے کہہ رہی تھی اور بتول کو یوں لگا جیسے وہ کسی گہری سوچ میں تھی۔ وہ اُس کے نازک دودھیا پیروں کو دیکھنے لگی جن کی ایڑیوں کو وہ یوں کھرچ کھرچ کر صاف کررہی تھی جیسے وہ پتا نہیں کتنی گندی تھیں۔
”مان گئی میں تجھے موتیا! تیرے خواب کبھی جھوٹے نہیں ہوتے۔”
بتول نے اس سے کہا تھا ۔ موتیا نے سر اٹھا کر اُسے نہیں دیکھا وہ اُسی طرح رہی اور پھر اُس نے اُلجھن بھری آواز میں اس سے کہا۔
”بس مجھے یہ حیرانی ہے کہ خواب میں میں نے سانپ کو کاٹتے دیکھا تھا پھر اپنی چیخ سنی تھی۔ سمجھ میں نہیں آرہا۔ سانپ نے کاٹاکیوں نہیں اور پھر وہ چیخ۔۔۔”
بتول نے مذاق اُڑانے والے انداز میں اُس کی بات کاٹی تھی۔
”شکر کر موتیا سانپ نے نہیں کاٹا ۔ وہ چوہدری مراد کو کاٹ لیتا تو تیرا کیا ہوتا۔ تو نے تو مرجانا تھا۔”
وہ بتول کے جملے پر بیربہوٹی کی طرح لال ہوئی تھی۔
”یہ بات کسی دوسرے کے سامنے مت کرنا ورنہ بدنام ہوجاؤں گی میں۔” موتیا نے اُسے ٹوکا تھا۔
”توبہ توبہ! تیری بچپن کی سہیلی ہوں۔ کیوں راز کھولوں گی تیرے دل کا کسی کے سامنے اور وہ بھی ایسے حالات میں۔”
بتول نے اپنے کانوں کی لوؤں کو ہاتھ لگاتے ہوئے اُسے یقین دلایا تھا اور موتیا نے یقین کرلیا تھا۔ وہ ہر ایک کی باتوں پر ایسے ہی یقین لے آنے والی تھی۔ جو کسی کی زبان پر ہوتا وہی اُس کے لئے سچ ہوتا۔ جو بھید دل کے اندر ہوتا اس کی کبھی موتیا نے گامواور اللہ وسائی کی طرح پرواہی نہیں کی تھی۔
”چوہدری مراد نے تیرا شکریہ اداکیا؟” بتول نے اُسے نہ چاہتے ہوئے بھی کریدا تھا۔ موتیا نے سراُٹھا کر عجیب سی مسکراہٹ کے ساتھ اُسے دیکھا۔ اُس کی سیاہ آنکھوں میں نمی چمک رہی تھی یا محبت، بتول بوجھ نہیں سکی۔ مگر وہ جو بھی تھا ہیرے کی کنی کی طرح گھائل کردینے والا تھا۔ موتیا نے نفی میں سرہلایا تھا مگر اس کی مسکراہٹ نے بتول کو تڑپایا تھا۔
”چل جھوٹی! تو نے ایک بار نہیں دو بار اُس کی مدد کی، جان بچائی اور اس نے ایک بار بھی شکریہ نہیں کہا۔ ” بتول کو یقین نہیں آیا۔
”کیوں کہتا؟ اس کی جان تھوڑی بچائی تھی، اپنی بچائی تھی۔ وہ کیوں شکریہ کہتا؟”
وہ موتیا کے جواب پر پہلے لاجواب ہوئی تھی۔ پھر نثار ہی ہوگئی تھی۔
موتیا اب کچھ گنگنا رہی تھی اور بتول اُسے یک ٹک دیکھ رہی تھی۔ اُسے تو بس رب سوہنے نے دیکھنے کے لئے ہی بنایا تھا۔ بتول نے ہمیشہ کی طرح سوچا تھا۔
…٭…

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

”ادھر آؤ گامو! میرے بیٹے کی جان بچائی ہے تمہاری بیٹی نے اور تم نے۔ بتاوؑاس کے بدلے چوہدری شجاع کیا کرے تمہارے لئے؟”
چوہدری شجاع نے گامو کو اُسی دن ڈیرے پر بلایا تھا ۔ اُسے مراد سے پیر ابراہیم کے ڈیرے پر ہونے والے واقعہ کا پتا چل گیا تھا۔
”نہ نہ چوہدری جی! آپ تو شرمندہ کررہے ہیں۔ اللہ آپ کا اور آپ کے بیٹے کا سایہ ہمارے سر پر قائم رکھے۔ آپ کی چوہدراہٹ بنائے رکھے۔ گاموا ور اس کی بیٹی کی کیا اوقات کہ آپ سے احسان کا بدلہ لے۔ ”
گامو نے خجل ہوکر چوہدری شجاع کے سامنے ہاتھ باندھ دیئے تھے۔ وہ واقعی شرمندہ ہورہا تھا۔
”پر اس احسان کا بدلہ میں ضرور چکاؤں گا گامو! اور اپنی حیثیت کے مطابق چکاوؑں گا۔ یاد رکھنا یہ احسان میرے سر پر تمہارا قرض ہے۔ جب بھی جس وقت بھی لینا ہو، آجانا میرے پاس۔ چوہدری شجاع اپنی حیثیت سے بڑھ کر دے گا تمہیں۔”
چوہدری شجاع نے اپنے مردان خانے میں گاؤں کے مردوں کے سامنے گامو سے جو وعدہ کیا تھا، وہ دل سے کیا تھا ۔ پر گامو نے اس لمحے دعا کی تھی کہ اُس پر کبھی وہ وقت نہ آئے کہ وہ چوہدری شجاع سے اس احسان کا بدلہ مانگنے پر مجبور ہوجائے ۔
اندر بیٹھی تاجور تک مردان خانے میں دیئے جانے والے اس وعدے کی باز گشت ملازموں کے ذریعے پہنچ گئی تھی اور وہ جیسے اور ناخوش ہوئی تھی۔ اس کے خیال میں جتنی عزت افزائی گامو کی پیر ابراہیم کے گھر پر ہوگئی تھی، وہ کافی تھی۔ اب بار بار اُس واقعے کو دہرانے اور گامو اور موتیا کو اس طرح ہیرو بنانے کی ضرورت نہیں تھی۔
”چوہدری صاحب! کیا ضرورت تھی گامو کے ساتھ اس طرح کے وعدے وعید کرنے کی؟ آخر ایسا بھی کون سا کارنامہ کردیا ہے اس نے؟ سانپ ہی تو مارا ہے، شیر تو نہیں مارا۔” تاجور نے شجاع کے اندر آتے ہی اُس سے بڑے تیکھے انداز میں کہا تھا۔
”اس طرح بات مت کرو تاجور، کوبرا تھا، کاٹ لیتا تو گاوؑں میں تو کوئی علاج کرنے والا تک نہیں تھا۔ شہر لے جاتے جاتے پتا نہیں کیا ہوجاتا۔ میرا دل تو ابھی بھی لرز رہا ہے۔ تمہارے دل کو کچھ نہیں ہورہا؟”
چوہدری شجاع نے کچھ گھر کنے والے انداز میں کہا۔
”اُس پر ماں نے دُعائیں پھونکی ہوئی تھیں، اپنے نانا کے باغ میں کھڑا تھا،وہ جہاں سے فیض کے علاوہ کچھ نہیں ملتا انسانوں کو۔ تو یہ کیسے ممکن تھا مراد کو کچھ ہوتا۔ ” تاجور نے بڑے گھمنڈ سے کہا تھا۔
”شکر کرو اللہ نے برے وقت سے بچالیا۔ بری گھڑی دستک دے کے نہیں آتی اور ہر دُعا کی دیوار پھاندلیتی ہے وہ ۔ تو بس شکر ادا کرو۔ صدقہ دو مراد کا اور احسان مند رہو اُن لوگوں کی جو وسیلہ بن گئے مراد کو بچانے کا۔ ”
چوہدری شجاع نے اُسے ہمیشہ کی طرح سمجھایا تھا۔ تاجور کو چوہدری شجاع کا سمجھانا برا لگا۔
”نہ چوہدری صاحب! ایسی کون سی بات کہہ دی ہے تاجور نے کہ آپ سمجھانے بیٹھ گئے ہیں۔ بیٹا آپ کا کلمہ پڑھ رہا ہے گامو اور موتیا کا، آپ ہیں تو آپ الگ سے وعدے دے رہے ہیں گامو کو ۔ اور گامو نے کل کو کوئی زمین کا کِلّا مانگ لیا تو پھر نہ کہنا۔ پھر دے دینا اُسے۔” اُس نے بے حد ناگواری سے کہا تھا۔
”کِلّے مانگنے والا ہوتا گامو تو پھر تو مسئلہ ہی کیا تھا تاجور، چیزیں دے کر اتار دیتا اس کا احسان۔ وہ درویش، سادہ لوح ہے۔ اللہ کا بند ہ ہے۔ دنیا دارکہا ں ہے۔”
تاجور کو چوہدری شجاع کی یہ تعریفیں اور کھلیں مگر بحث کرنے کے بجائے وہ اس بار اٹھ کے باہر نکل گئی تھی۔
…٭…
شکوراں کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا تھا۔
”تو کیا کہہ رہی ہے بتول؟” اُس نے اپنی بیٹی کی بات پر حیرت سے اپنی ٹھوڑی پکڑ کے کہا تھا۔
”امّاں! میں سچ کہہ رہی ہوں، موتیا نے مجھے پہلے ہی بتادیا تھا کہ اُس نے خواب میں سانپ کو چوہدری مراد کو کاٹتے دیکھا تھا۔ وہ بڑے سالوں سے چوہدری مراد کو خوابوں میں دیکھتی آرہی ہے۔” شکوراں اب بھی بیٹی کا منہ دیکھتی جارہی تھی۔
”ارے وہ کون سی پیرنی ہے کہ سب کچھ پہلے ہی دیکھ لیتی ہے خوابوں میں؟ کمی کمین ہے وہ بھی ہماری طرح۔”
شکوراں کو بیٹی کی باتیں ہضم نہیں ہورہی تھیں۔
”جھوٹ سچ گھڑ کے کہہ دیتی ہوگی کچھ بھی۔”
”نہیں امّاں! موتیا جھوٹ نہیں بولتی اور اُسے کیا پڑی ہے جھوٹ سچ گھڑنے کی۔ اُس نے تو چوہدری مراد کو بھی اب سے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا پر جو شکل وہ مجھے اُس لڑکے کی بتاتی تھی، وہ ہوبہو چوہدری مراد سے ملتی تھی پر میں نے کبھی دھیان ہی نہیں کیا۔ ”
بتول نے موتیاکی حمایت کی تھی۔
”ہوسکتا ہے اس نے کبھی کہیں دیکھ لیا ہو مراد کو۔” شکوراں نے کمزور آواز میں کہا تھا۔
”امّاں! وہ تو کبھی حویلی تک نہیں گئی اور چوہدری مراد تو اتنے سال شہر پڑھا، پھر باہر چلا گیا پھر کہاں دیکھ لیا موتیا نے؟” بتول ہنسی تھی پھر اس نے کہا:
”اس نے تو مجھے یہ بھی بتایا تھا کہ اس لڑکے کے سینے پر داغ ہے کوئی، دل کی جگہ پر۔”
شکوراں الجھے انداز میں اُسے دیکھنے لگی۔
”پر چوہدری مراد کے سینے پر تو کوئی داغ نہیں۔ میں نے بچپن سے دیکھا ہے اُسے، میرے ہاتھوں پلا ہے۔ اُس کے سینے پر کوئی داغ نہیں۔ فضول ہی بک بک کرتی رہتی ہے موتیا۔”
شکوراں نے بتول کی بات ٹھٹھے میں اڑائی تھی۔
”جو بھی ہے، تو چوہدرائن یا کسی سے بھی یہ ساری باتیں مت کرنا۔ میں نے تو تجھے ویسے ہی بتایا ہے یہ سب کچھ۔”بتول کو یک دم خدشہ پیدا ہوا اور اُس نے شکوراں سے کہا۔
”لے بھلا میں کیوں بتاتی پھروں گی چوہدرائن جی کو موتیا کے جھوٹ سچ۔ وہ مجھ پر ہی غصّہ کرنے بیٹھ جائیں گی۔”
شکوراں نے ہاتھ جھٹک کر کپڑے ٹھیک کرنے شروع کردیئے تھے جو اُس نے بکسے میں رکھنے تھے پر بتول کی باتیں اُس کے کانوں میں اس طرح گونجتی رہی تھیں۔
…٭…
”دیکھ موتیا! چوہدری صاحب کے گھر سے کیا کیا آیا ہے ان ٹوکروں میں۔”
اللہ وسائی نے اگلی صبح صحن میں پھلوں کے ٹوکروں کا ڈھیر دیکھ کر خوشی سے کھلکھلاتے ہوئے باہر کنویں سے آتی موتیاسے کہا تھا۔ وہ بتول سے مل کر آئی تھی۔
”کیا کیا آگیا ان ٹوکروں میں؟” موتیا نے بھی کچھ حیرت اور خوشی کے ساتھ پھلوں کے ان ٹوکروں سے کاغذ ہٹانے شروع کئے۔ ان ٹوکروں میں بہت سارے پھل تھے۔ امرود، انار، خوبانی، آڑو، سیب ہر پھل ۔
”اتنا پھل! یہ کون کھائے گا؟” موتیا حیران ہوکر ہنسی تھی۔
”تیرے لئے بھیجا ہے موتیا۔ تو ہی تو کھانے لگی تھی امرود پیر صاحب کے باغ سے، تو بس چوہدری شجاع کو بھی پتہ چل گیا ہوگا۔”
اللہ وسائی نے انگور کے گچھے سے کچھ انگور کے دانے توڑتے ہوئے کہا اور موتیا کی آنکھوں کے سامنے ایک جھماکے کے ساتھ مراد کا چہرہ آگیا۔ اُسے پتا چل گیا تھا کہ پھلوں کا وہ ڈھیر بھیجنے والا کون تھا۔
”میرے لئے تو بس پیر صاحب کے باغ کا ایک امرود بھی کافی تھا امّاں۔” موتیا نے مدھم آواز میں کہا تھا۔
”لے ناشکری نہ کرتو۔ اللہ نے نعمتیں بھیجی ہیں تو بس شکر کر اور لا اندر سے ٹوکری۔ میں آس پڑوس والوں کو بھی بھیجوں، یہ اتنا پھل کون کھائے گا ہمارے گھر۔”
اللہ وسائی کو ہمیشہ کی طرح گھر میں کچھ آتے ہی حق ہمسائے کی فکر ہونے لگی تھی اور موتیا کو پھلوں کے اُن ٹوکروں کو دیکھتے ہوئے خوشی سے زیادہ سر پر ایک بوجھ محسوس ہوا تھا۔ چوہدریوں کے گھرکا دانہ بھی اُن پر بڑا بھاری پڑتا تھا اور اب یہ تو پھلوں کا ڈھیر تھا۔
”کون سا روز روز آتے ہیں یہ، میں خوامخواہ ہی فکر کررہی ہوں۔” اُس نے خود ہی جیسے اپنے آپ کو تسلی دی تھی۔
…٭…

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

میری ڈائریاں میرے خواب —- محسن علی شامی

Read Next

عداوت — ہما شہزاد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!