”گامو چاچا کل تانگے میں دو لڑکیاں تھیں۔ وہ کون تھیں؟” مشک کامنہ بند کرتے ہوئے گامو ٹھٹکا۔ اندر سے آتی تاجور وہیں رک گئی تھی۔ اس نے مراد کا سوال سن لیا تھا اور اس کے جیسے دل کو ہاتھ پڑا تھا۔ وہ گامو کا جواب سننا چاہتی تھی اور اس کا دل کہہ رہا تھا، ایک موتیا تھی۔
”پتا نہیں میں نے دھیان نہیں کیا جی، آپ کے ساتھ آگے بیٹھا ہوا تھا پیچھے والوں پر غور نہیں کیا میں نے۔”گامو نے جھوٹ بولنے میں اپنی عزت جانی۔ وہ اپنے منہ سے اپنی بیٹی کا پتا کیسے بتاتا۔ پر وہ حیران تھا مراد کو اس کی بیٹی یاد نہیں وہ تو رات کو اس کا علاج کرنے آئی تھی۔
”ٹھیک ہے۔” مراد نے مزید نہیں کریدا اور گامو کو جانے دیا۔ اسے یقین تھا گامو جھوٹ بول رہا تھا مگر وہ گامو کے جھوٹ کا پردہ رکھنا چاہتا تھا۔ گامو مزید کچھ کہے بغیر سلام کرتے ہوئے وہاں سے چلا گیا۔
تب ہی تاجور باہر آگئی تھی۔
”تم کیوں صبح سویرے باہر نکل کے بیٹھ گئے ہو؟” اس نے آتے ہی مراد کو ڈانٹا۔
”ہاں! بس نیند نہیں آرہی تھی مجھے اور بخار اترا ہے تو کمرے میں عجیب سی گھٹن محسوس ہورہی تھی اس لئے باہر آکر بیٹھ گیا۔ ”
مراد نے مسکراتے ہوئے ماں سے کہا جس نے پاس آتے ہی اس کی کلائی اورماتھا چھو کر اس کے ٹھیک ہونے کی تصدیق کی تھی اور پھر مطمئن ہوئی۔
”تم گامو سے کن لڑکیوں کا پوچھ رہے تھے؟” اس کے اگلے سوال پر مراد بری طرح سے گڑبڑایا۔
”اوہ اچھا ہاں! وہ ایسے ہی پوچھ رہا تھا۔ تانگے میں دو تین لڑکیاں تھیں تو میں نے سوچا ان کے بارے میں پوچھوں آخر میرے ہی گاؤں کی ہیں۔” مراد جانتا تھا اُس کے پاس کوئی مضبوط وجہ نہیں تھی۔
”ایک لڑکی گوری چٹی ، لمبے بالوں والی ہوگی۔ موٹی موٹی کالی آنکھیں، تیکھی ناک۔” مراد نے حیرانی سے ماں کو دیکھا پھر ہنسا۔
”آپ تو وہاں تھیں ہی نہیں آپ کو کیسے پتا وہ کیسی دکھتی ہوں گی؟”
”کیا کوئی ایسی تھی؟” مراد نے ماں کو ٹالا۔
”پتا نہیں امّی میں نے اتنا غور سے تھوڑی دیکھا تھا ان کو، میں نے تو ویسے ہی پوچھ لیا تھا گامو چاچا سے۔ اچھا یہ بتائیں نانا جان کی طرف کب چلنا ہے؟”
اس نے کہتے ہوئے ساتھ ہی بات بدل دی تھی۔ وہ ماں کے سوالوں سے زیادہ انداز پر پریشان ہوا تھا۔
…٭…
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
بتول موتیا کی شکل دیکھ کر رہ گئی تھی ۔
”مجھے ایسے مت دیکھ بتول جھوٹ نہیں بول رہی میں! جو دیکھا ہے وہی بتا رہی ہوں، میں نے پہلے بھی سانپ دیکھا تھا اب پھر دیکھا ہے۔” موتیا کو اس کے چہرے سے پتا چل گیا تھا کہ وہ اس کی بات پر الجھ رہی تھی۔ مراد کو آئے تیسرا دن تھا جب وہ دونوں ملی تھیں۔ کیونکہ بتول کو اس کی طبیعت خراب ہونے کا پتا چلا تھا اور وہ عیادت کے لئے آئی تھی۔
”تونے مجھے یہ کیوں نہیں بتایا کہ تیرے علاج سے بخار اترا ہے مراد کا؟” بتول نے جواباً جیسے لڑتے ہوئے اس سے کہا تھا۔
”تجھ سے ملاقات ہوتی تو بتاتی نا اب آگئی تو بتادیا۔”موتیا نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”تم نے بتایا ہے؟ مجھے امّاں نے بتایا ہے۔” بتول نے کھٹکتے انداز میں کہا۔
”اچھا چل جس نے بھی بتایا ہو، مراد ٹھیک ہوگیا یہ ضروری تھا،کون ٹھیک کرتا یہ تھوڑی ضروری تھا۔”
موتیا نے صلح جو انداز میں کہا۔ وہ ہمیشہ یہی کرتی تھی بتول کے سامنے۔ بتول کو غصّہ آتا موتیا پانی ڈال کر ٹھنڈا کردیتی۔
”مراد پوچھ رہا تھا گامو چاچا سے کہ تانگے پر اس دن کون سی لڑکیاں تھیں۔” بتول نے یک دم اس سے کہا۔ موتیا نے حیران ہوکر اس کی شکل دیکھی۔
”اچھا! ابّا نے بتادیا اسے؟”
”نہیں! چاچا نے کہا کہ انہوں نے دھیان ہی نہیں دیا۔ ایک تو گامو چاچا بھی بڑا ہی بھولا ہے۔ یہ تو چوہدرائن نے میری امّاں سے پوچھا تو اسے پتا چلا کہ تو اور میں تھے تانگے میں۔” بتول بتاتی جارہی تھی۔
”مجال ہے بات کرتے ہوئے ذرا سانس لے ۔”موتیا کو اس کے مشین کی طرح بولنے پر ہنسی آئی تھی۔
”میں تمہیں کیا بتارہی ہوں اور تم مجھے کیا بتانا شروع ہوگئی ہو۔” بتول ناراض ہوکراُٹھ کھڑی ہوئی۔
”اور دیکھو اب یہ خواب وغیرہ دیکھنا چھوڑ دو، اتنا اچھا لگتا ہے تو جاکر سیدھا سیدھا ملو چوہدری مراد سے اور کہو رشتہ بھیجے۔”
موتیا بتول کی باتوں پر ہنسنا شروع ہوئی اور ہنستے ہنستے اس کی آنکھوں میں پانی آنا شروع ہوگیا۔
”پیار ایسے نہیں ہوتا بتول، یہ تو پیار نہیں ضرورت ہوگئی۔” بتول کو اس کی بات نے لاجواب کیا تھا۔
”تجھے کبھی ضرورت نہیں پڑنی اس کی بس صرف پیار سے ہی کام چل جائے گاتیرا؟”اس نے کچھ طنزیہ انداز میں جواباً موتیا سے کہا تھا۔
”میرے ہاتھوں کی لکیروں میں ہوا تو بھی میرا ہے نہ ہوا تو بھی موتیا کا ہی مراد رہے گا وہ۔” اس نے عجیب سے انداز میں بتول کو ہاتھ کی ہتھیلیاں دکھاتے ہوئے کہا اور بتول بول نہیں سکی۔
…٭…
پیر ابراہیم نے مراد کا ماتھا چومتے ہوئے اسے گلے لگا کر پتا نہیں کیا کیا پھونکا تھا۔
”مجھ سے بھی لمبے ہوگئے ہو اب تو تم ۔”
انہوں نے مراد کے گال تھپکتے ہوئے کہا تھا۔ مراد ساتھ کھڑی ماں کو دیکھتے ہوئے ہنسا۔
”ہاں! مگر امّی کو میرا قد کاٹھ نظر نہیں آتا۔ انہیں آج بھی چھوٹا لگتا ہوں میں نانا جان۔ امّی کو سمجھائیں۔”
”اچھا اب شکایتوں کے لئے تھوڑی لے کر آئی ہوں۔” تاجور نے فوراً سے پیشتر کہا۔
تاجو رکی بات پر پیر ابراہیم اور مراد دونوں ہنس دیئے تھے ۔
”میں ذرا ڈیرے کا چکّر لگا کے آتا ہوں نانا جان! پچھلی بار آیا تھا تو آپ کے ڈیرے پر نہیں گیا۔ ”
”ملازم کو ساتھ لے جانا۔ ” پیر ابراہیم نے جواباً کہا۔
”نہیں! ملازم کی ضرورت نہیں، ہر راستے اوررقبہ کا پتا ہے مجھے۔” وہ کہتے ہوئے چلا گیا تھا۔ تاجور نے قربان جانے والی نظروں سے بیٹے کو جاتا دیکھا اور پھر پیر ابراہیم سے کہا۔
”باباجان میں نے اس بار ماہ نور سے مراد کا رشتہ طے کردینا ہے۔”پیر ابراہیم نے اس سے کہا۔
”تم نے مراد سے اس کی مرضی پوچھی؟”
تاجور عجیب تنفر سے ہنسی۔
”میں ماں ہوں اس کی ابّاجان مجھے انکار کیسے کرے گا وہ؟”
”یہ دل کی بات ہوتی ہے اور دل ماں کی مرضی پر نہیں چلتا۔ تم پہلے اس سے پوچھو پھر میں یحییٰ سے بات کروں گا۔”
پیر ابراہیم نے دو ٹوک انداز میں اسے بتایا تھا۔ تاجور کو باپ کا انداز برا لگا تھا لیکن وہ ادب کے مارے خاموش رہی۔ ماہ نور اس کے بڑے بھائی کی بیٹی تھی اور تاجو رپچھلے ایک سال سے مراد کے ساتھ اس کا رشتہ کرنے کے لئے بار بار پر تولتی رہتی تھی اور ہر بار پیر ابراہیم اس سے یہی کہتے تھے کہ وہ پہلے مراد سے پوچھے۔
…٭…
”پیر صاحب کے باغ کا امرود ہے بنا اجازت کیسے توڑ لیا تم نے موتیا؟”
گاموموتیا پر خفا ہوا تھا۔ وہ صبح سے چلتے ہوئے کہیں اب جاکر پیر صاحب کے ڈیرے پہنچے تھے اور باغ کی حدود شروع ہوتے ہی موتیا تھک ہار کر بیٹھ گئی تھی۔ گامو اور اللہ وسائی بھی سانس لینے کے لئے اس کے پاس بیٹھ گئے تھے اور تب ہی موتیا کو درخت پر لٹکے وہ امرود نظر آئے جنہیں اس نے کھڑے ہوکر توڑ لیا اور امرود کے توڑتے ہی اللہ وسائی اور گامو دونوں بے حد خوف زدہ ہوگئے تھے۔
”اللہ کا رزق ہے، کوئی بھی کھا سکتا ہے۔ میں پیر صاحب کو بتادوں گی۔” اس نے امرود دوپٹے سے رگڑ کر صاف کرنا شروع کیا۔
”بغیراجازت کوئی ان کے ڈیرے سے کچھ نہیں لیتا۔” اللہ وسائی اور ناراض ہوگئی۔
”اب تو لے لیا نا امّاں، بھوک لگی ہے۔”
اس نے کہتے ہوئے امرود کو دانتوں سے کاٹنا شروع کیا تھا اور بالکل اسی وقت اس نے مراد کو دیکھا تھا جس کی نظر اسی پر تھی۔ امرود موتیا کے ہاتھ سے گر پڑا تھا۔ مراد اب ان کی طرف آرہا تھا اور موتیا ٹکٹکی باندھے اُسے آتا دیکھ رہی تھی۔ اس کے ہاتھوں سے گرتے امرود کو دیکھ کر گامو اور اللہ وسائی نے بھی اس طرف دیکھا تھا جہاں وہ دیکھ رہی تھی۔ مراد سفید شلوار قمیص میں ملبوس چمڑے کی کھلی چپل پہنے ہوئے تھا۔ زمین پر اُگی دو انچ گھاس میں اس کے پاؤں دھنسے جارہے تھے۔
موتیا کو بالکل اسی لمحے وہ خواب یاد آیا تھا۔ وہ بھی ایسی ہی جگہ تھی جہاں اس نے مراد کو دیکھا تھا۔ ایک عجیب سی وحشت اور سراسیمگی میں اس نے زمین پر گھاس کو دیکھنا شروع کیا تھا اور پھر اس نے گھاس میں لہراتی ہوئی وہ چیز دیکھ لی تھی، وہ کوبرا سانپ جو مراد کے پاؤں کے قریب رینگ رہا تھا اور کسی بھی لمحے مراد کا پاؤں اس پر ہوتا۔ خوف سے اس کا حلق خشک ہوا تھا۔
موتیا کو خواب والا سانپ یاد آیا تھا۔ اس کی خوفناک آنکھیں۔ وہ جیسے کسی ٹرانس میں اس بل کھاتے ہوئے سانپ کو دیکھتی رہی جو مراد کی چپل سے نظر آنے والے پاؤں کے قریب پہنچنے و الا تھا۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});