تاجور کے وہم و گمان میں بھی یہ کبھی نہیں آیا تھا کہ اسے زندگی میں کبھی گامو ماشکی اور اُس کی بیٹی سے بھی مدد مانگنی پڑ سکتی تھی۔ مگر اُس رات پڑ گئی تھی۔ مراد کو چڑھنے والا بخار بڑھتا ہی گیا اور آدھی رات تک وہ اس طرح بے سدھ اور بے حال ہوگیا تھا کہ تاجور نے رونا شروع کردیا۔ گاؤں کی ڈسپنسری میں کمپاؤنڈر بیٹھتا تھا اور وہ دو دفعہ مراد کو دیکھ کر جاچکا تھا مگر اُس کی کسی دوائی کسی ٹوٹکے سے مراد کو افاقہ نہیں ہوا اور بالآخر یہ اُسی کا مشورہ تھا کہ موتیا کو بُلا کے مریض دکھایا جائے۔
”اس کے ہاتھ میں بڑی شفا ہے چوہدری جی! میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھی ہے ابھی ڈاکٹر نہیں بنی پھر بھی بڑا تجربہ ہے اُسے مریضوں کا۔”
بوڑھے کمپاؤنڈر کو اس وقت اس مسئلے کا حل موتیاہی نظر آئی تھی اور چوہدری شجاع نے تاجور کو بتا کر موتیا کو بُلابھیجا تھا ۔ تاجور بلاچوں چرا اُن کی بات مانی تھی۔ اُسے اس وقت بس اپنے بیٹے کی زندگی اور صحت چاہیے تھی’ اُس کا وسیلہ کوئی بھی بنتا اُسے پروا نہیں تھی۔
وہ پہلا موقع تھا جب تاجور نے جوان موتیا کو دیکھا تھا۔ اُس موتیا کو جس کے حسن کے قصّے پورے گاؤں میں مشہور تھے۔ وہ کالی چادر اوڑھ کے آئی تھی اور اُس کالی چادر میں بدلی میں چھپا چاند لگ رہی تھی۔
تاجور کو اُسے دیکھ کر عجیب وہم پڑے۔ مراد کے سامنے جائے گی، وہ اُسے دیکھے گا تو کہیں دیکھتا نہ رہ جائے۔ مرد ذات ہے اور وہ خوبصورت ہے۔ تاجور اس کے سلام کے جواب میں سوچنے بیٹھ گئی اور موتیا کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ مریض کیوں نہیں دکھا رہے۔ بالآخر تاجو رنے جیسے ہار مانتے ہوئے اُسے مراد کے کمرے میں چلنے کا کہا تھا۔ اُس نے اپنے دل کو تسلی دے لی تھی کہ وہ بخار میں سدھ بُدھ کھوئے پڑا ہے، اس حالت میں اُسے کہاں ہوش ہوگا کسی کو دیکھنے کا۔
موتیا چوہدری شجاع اور تاجور کے ساتھ مراد کے کمرے میں گئی تھی۔ وہ لمبا تڑنگا مرد جسے آج دوپہر کو اُس نے اپنے خوابوں سے نکل کر حقیقت میں دیکھا تھا، اتنی جلدی دوبارہ اُسے اس حال میں ملے گا، موتیا نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔ اور نہ صرف ملے گا بلکہ وہ اُسے چھو بھی سکے گی اور وہ بھی اُس کے اتنے قریب بیٹھ کر۔
موتیا کے لئے وہ معجزہ تھا جو اُس کی دعا کے بدلے ہوا تھا۔ مراد آنکھیں بند کئے ہوئے پڑا تھا۔ نہ کمرے میں ہونے والی آوازوں پر اُس نے آنکھیں کھولی تھیں نہ ہی اپنا ماتھا چھونے پر، نہ اپنی کلائی پکڑنے پر۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
موتیا نے زندگی میں پتا نہیں کتنے مریضوں کو چھو ا تھا۔ پر وہ اب جس کی کلائی تھام رہی تھی وہ اُس کے لئے مریض نہیں تھا۔ اُس کے ہاتھ کا نپنا شروع ہوگئے تھے۔ مراد کی گرم کلائی کو اُس کے ماں باپ کے سامنے تھام کر بیٹھے رہنا آسان نہیں تھا۔
اپنی گھڑی کو دیکھ کر اُس کی نبض ٹٹولتے ہوئے اور پھر اس کا ٹمپریچر لیتے ہوئے موتیا نے مراد کے چہرے کو دیکھنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ وہ بار بار اپنے ذہن کو یہ سمجھا رہی تھی کہ وہ بس ایک مریض تھا اور وہ اس کا علاج کرنے آئی تھی۔ اُسے اس کے علاوہ کچھ نہیں سوچنا تھا مگر یہی سب سے مشکل ہو گیا تھا۔
”پتر ٹھیک ہے نا میرا بیٹا؟ بخار کہیں دماغ کو تو نہیں چڑھ گیا؟”
چوہدری شجاع نے عجیب بے قراری سے اُسے مخاطب کیا تھا ۔ وہ اس وقت اپنا فرسٹ ایڈ کا باکس اٹھائے مراد کے لئے ایک انجکشن تیار کررہی تھی۔
”جی بالکل ٹھیک ہیں یہ اور بخار سر وغیرہ کو نہیں چڑھا لیکن تیز بخار ہے۔ ابھی میں انجکشن لگاؤں گی چند گھنٹوں میں ٹھیک ہوجائیں گے۔” موتیا نے اُسے تسلی دی تھی اور پھر مراد کے بازو میں سوئی گھسادی تھی۔ اُس لمحے پہلی بار مراد کے جسم میں جنبش ہوئی تھی۔ اُس نے آنکھیں کھول کر ان سب کو دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کی تھی کہ اُس کے ساتھ کیا ہورہا تھا لیکن بخار واقعی اتنا تیز تھا کہ وہ چاہنے کے باوجود آنکھیں کھلی نہیں رکھ سکا۔ اُس نے موتیا کو دیکھا تھا پر وہ اسے یاد نہیں رکھ سکا اور اُس نے دوبارہ آنکھیں بند کرلیں۔ اس کے کانوں میں کسی کی آواز گونجی تھی، کسی کی میٹھی مہربان آواز، مراد کی سماعتوں نے جیسے اس آواز کو شناخت کرنے کی کوشش کی مگر ناکام رہا لیکن وہ آواز اُس کے لاشعور کا حصّہ بن گئی تھی۔
فرسٹ ایڈکا باکس بند کرکے موتیا اُٹھ کھڑی ہوئی اور تب اُس کا استقبال تاجور کی سرد نظروں نے کیا تھا۔ وہ تاجور کی آنکھوں کی خفگی کو سمجھ نہیں پائی۔ یقینا وہ اس کے لئے نہیں ہوسکتی تھی۔ وہ تو ان کے بیٹے کا علاج کرنے آئی تھی اُس کے ساتھ ان کی کیا خفگی ہوسکتی تھی۔ اُس نے اپنے اس احساس کو وہم سمجھ کر جھٹکا تھا۔
”تمہارا بہت شکریہ بیٹا! تم رات کے اس پہر مراد کی مدد کے لئے آئیں۔ ” شجاع نے اُس کے سر پر ہاتھ رکھ کے جیسے اپنی ممنونیت کا اظہار کیا تھا۔
”میں تو ڈاکٹر بن رہی ہوں ۔ڈاکٹر کے لئے رات دن کچھ نہیں ہوتا بس مریض ٹھیک ہونا چاہیے اور یہ بھی ٹھیک ہوجائیں گے۔” اُس نے جیسے انہیں یقین دلایا تھا۔
تاجور نے اُس سے کوئی بات نہیں کی تھی۔ موتیا باہر آگئی جہاں برآمدے میں گامو ماشکی بیٹھا ہوا تھا۔ چوہدری شجاع نے ایک بار پھر گامو سے ہاتھ ملاتے ہوئے شکریہ ادا کیا اور گامو نہال ہوگیا۔ ایسا موقع زندگی میں کہاں روز روز ملتا ہے کہ وہ بھی کسی کے احسانوں کے بدلے میں احسان کرسکے اور یہ سب موتیا کے طفیل ہوا تھا۔
دونوں باپ بیٹی چوہدریوں کے تانگے میں رات گئے اسی خاموشی کے ساتھ واپس آگئے تھے جس خاموشی سے گئے تھے۔ موتیا کے جانے کے گھنٹہ بعد مراد کا بخار اترنا شروع ہوگیا تھا۔ تاجور کے دل کو عجیب قرار آیا تھا۔
”اُس بچی کے ہاتھ میں واقعی شفا ہے ماشاء اللہ۔” چوہدری شجاع نے تاجور سے کہا تھا۔ وہ جیسے اور احسان مند ہوا تھا۔ تاجور کی زبان سے ایک لفظ نہیں نکلا تھا۔ اُسے بس ایک ہی دھڑکا لگا ہوا تھا کہیں مراد نے بخار میں بھی اُس کو دیکھ نہ لیا ہو۔
کہتے ہیں ماؤں کے سارے اندیشے صحیح ہوتے ہیں۔ تاجور کو پتہ ہی نہیں تھا مراد اُسے پہلے ہی دیکھ کر فدا ہوچکا تھا جس کی ایک جھلک سے بھی بچانے کے لئے تاجور بے حال ہورہی تھی۔
…٭…
اپنے گھر میں وہ رات موتیا نے جائے نماز پر گزاری تھی۔ وہ اُسے تکلیف میں دیکھ تو آئی تھی مگر وہ تکلیف اب اُس پر بہت بھاری پڑ رہی تھی۔ پتا نہیں وہ اُس کے دل میں کہاں جا بیٹھا تھا کہ دل اُس کے خیال بنا دھڑکنا ہی بھول گیا تھا۔ حاصل اور حصول تک کا تو تب تک موتیا نے سوچا ہی نہیں تھا ۔ نہ دیواروں کا سوچا تھا نہ اپنی اوقات کا۔ اُس کو تو بس پیار ہوا تھا اور پیار بھی فی سبیل اللہ، جس میں پڑ کے محبوب سے زیادہ رب یاد آنا شروع ہوجاتا ہے۔
اللہ وسائی نے صبح سویرے موتیا کو جائے نماز پر ہی سویا پایا۔ اُس نے موتیا کو جگانے کے لئے اُس کا ماتھا چھوا تھا۔ اُس کا ماتھا بری طرح جھلس رہا تھا۔ وہ مراد کی بیماری اپنے سر گھرلے آئی تھی۔ سرخ چہرے کے ساتھ بخار میں سدھ بدھ کھوئے وہ جائے نماز پرپڑی تھی اور اللہ وسائی اُ س کا چہرہ بس دیکھتی جارہی تھی۔ اُس نے عشق کا چہرہ پہلی بار دیکھا تھا اور ایسا طوفانی عشق جو ایک دن اور ایک رات میں ہوا تھا۔ وہ اُس کے ماتھے پر ٹھنڈے پانی کی پٹیاں رکھ رکھ کے روتے ہوئے موتیا کے لئے دعا کر رہی تھی۔ وہ مرادیں پوری کرنے والا رب اس کی بیٹی کی مراد پوری کردے۔ موتیا جو دل سے مانگ رہی تھی، اس کی ماں اپنی توتلی زبان میں مانگ رہی تھی، روتے اور گڑگڑاتے ہوئے۔ اس کے بس میں بس یہی تھا۔
…٭…
”تو کتنا جھلّا ہے گامو! کل سارا دن اور ساری رات تو بارش برستی رہی ہے۔ گاؤں کی گلیاں بھی گیلی ہیں اور تو پھر مشک بھرکے چل پڑا ہے۔”
صبح سویرے گاؤں میں کسی نے گامو کو کنویں پر کھڑے دیکھا اور ہنس کے کہا تھا۔
”لو بھلا گلیاں گیلی ہیں نا۔ گھڑے تو خالی ہیں نا گاؤں والوں کے’ وہ کون سی بارش بھرے گی ۔ وہ گامو کی مشک کا ہی انتظار کرتے ہیں ۔”گامو نے کہا اور ہمیشہ کی طرح مشک بھر کے سب سے پہلے حویلی کی طرف چل پڑا تھا۔
اس دن حویلی میں اس کا سامنا صبح سویرے برآمدے میں پھرتے ہوئے مراد سے ہوگیا اور گامو اسے بھلا چنگا دیکھ کے حیران ہونے سے زیادہ خوش ہوا تھا۔
”آپ تو بالکل ٹھیک ہوگئے ہیں چھوٹے چوہدری جی اللہ کی مہربانی سے۔” گامو نے سلام دعا کے بعد کہا۔مراد کچھ حیران ہوا۔
”آپ کو کیسے پتا چلا کہ میں بیمار تھا؟”
گامو کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ وہاں اپنے موتیا کے ساتھ رات آنے کا ذکر کرے یا نہ کرے۔ اگر مراد کو اس کا آنا یاد نہیں تھا تو شاید ذکر نہ کرنا ہی بہتر تھا، گامو نے سوچا۔
”میں نے ادھر کنویں پر گاؤں کے کسی ملازم سے سنا ہے۔”گامو نے جیسے ٹالتے ہوئے کہا تھا اور حویلی کے باورچی خانے میں پانی ڈالنے چلا گیا۔ وہ جب پانی بھر کے واپس آیا تو بھی مراد وہیں بیٹھا ہوا تھا۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});