دانہ پانی — قسط نمبر ۲

بتول نے اپنی بندھی ہوئی گیلی چٹیا کھولنا شروع کردی تھی۔ اس کا ذہن موتیا کے اس ایک جملے میں ہی الجھا ہوا تھا۔
”یہ وہی لڑکا ہے جسے میں خوابوں میں دیکھتی ہوں۔”
بتول حیران تھی۔ اس نے درجنوں بار موتیا سے اس کے خواب سنے تھے اور ان خوابوں میں نظر آنے والے لڑکے کا حلیہ بھی کرید کرید کر پوچھا تھا لیکن ایسا کیوں ہوا تھا کہ اس کا دھیان کبھی چوہدری مراد کی طرف نہیں گیا۔ چوہدری مراد سے بتول کا بہت کم آمنا سامنا ہوا تھا، وہ جب بھی پاکستان آتا حویلی میں بہت کم ہی ٹھہرتا۔ وہ، تاجور اور چوہدری شجاع سیرو تفریح کے لئے نکل جاتے تھے پر پھر بھی حویلی میں جگہ جگہ مراد کی تصویریں تھیں۔
بتول کو کبھی چوہدری مراد کا خیال کیوں نہیں آیا تھا؟ یہ سوال بتول اب اپنے آپ سے پوچھ رہی تھی اور جواب اس کے پاس تھا۔ وہ گامو ماشکی کی دھی موتیا تھی۔ اس کے خوابوں میں بھی چوہدریوں کا بیٹا کیسے آسکتا تھا اور پھر موتیا تو کبھی حویلی بھی نہیں گئی تھی۔ بچپن کے علاوہ مراد اور اس کا کبھی آمنا سامنا بھی نہیں ہوا تھا پھر بتول کیسے یہ سوچتی کہ وہ مراد بھی تو ہوسکتا تھا۔ اس نے گاؤں کے ہرہر لڑکے کے چہرے پر موتیا کے خوابوں والے لڑکے کا چہرہ رکھ کر ناپا تھا اور ہر بار اُسے مایوسی ہی ہوئی تھی۔
سوال یہ نہیں تھا کہ آخر موتیا نے مراد کو بغیر دیکھے خوابوں میں کیسے دیکھنا شروع کردیا تھا۔ سوال یہ تھا کہ مراد اسے اس طرح کیوں دیکھ رہا تھا جیسے وہ اس برستی بارش میں کھڑا دیکھتا رہا تھا۔
وہ مرد کی نظر پہچانتی تھی کیونکہ جس نظر سے مراد نے موتیا کو دیکھا تھا، اس نظر کے لئے بتول ساری عمر ترسی تھی۔ وہ جس سے پیار کرتی تھی، اس کے پاس محبوب کی نظر ہی نہیں تھی اور آج بتول نے دیکھی تھی تو وہ تھا ہ ہی مرگئی ۔
”موتیا! تو کتنی خوش نصیب ہے کہ جو بھی تجھے دیکھتا ہے تجھ پر مر ہی جاتا ہے۔”
بتول نے عجیب حسرت سے چٹیا کا آخری بل کھولتے ہوئے سوچا اور ایک ٹھنڈی آہ بھری تھی۔ موتیا روپ والی تھی اور وہ بس روپ والی کی سہیلی تھی۔ موتیا نصیب والی تھی اور وہ بس اس کی سکھی، موتیا کے چرچے ہوتے تھے اور وہ بس سننے والوں میں سے ایک تھی۔
وہ موتیا سے حسد کرنا چاہتی تھی۔ رج کے حسد۔ وہ بھی نہیں ہوپاتاتھا کیونکہ وہ نیک تھی۔ اس کی نیکیاں بتول کا زہر پی جاتی تھیں جیسے منکا زہر پیتا ہے اور پھولتا جاتا ہے پر خود زہریلا نہیں ہوتا۔
اسے اس دن وہاں کھڑے کھڑے سعید پر طیش آیا وہ سامنے ہوتا تو وہ اس کی مونچھیں کھینچ کر اتار دیتی ۔ اس کے بال نوچ لیتی، اس کے ٹوٹے ٹوٹے کردیتی۔ اسے پیار کی ایک نگاہ تک نہیں آتی تھی اور وہ کس پر مرمٹی تھی۔
اس کے دل نے سوتاویلیں، سو بہانے ڈالے تھے پر بتول کے دل سے مراد نہیں نکل رہا تھا۔ موتیا والا مراد۔
…٭…

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

”تجھے تو بخار ہورہا ہے مراد۔ ”
کھانے کی میز پر تاجور نے مراد کا ماتھا چھوتے ہوئے کہا۔ وہ ان دونوں کے ساتھ کھانا کھانے بیٹھا تھا اور بار بار چھینک رہا تھا۔ تاجور کو اس کا چہرہ اور آنکھیں سرخ لگیں اور وہ یک دم فکر مند ہوگئی۔ اس کا ماتھا گرم تھا۔
”امّی! آپ خوامخواہ ہی پریشان ہورہی ہیں۔ کچھ نہیں ہوا، ابھی یہ آپ کے ہاتھ کا پکا ہوا شاندار کھانا کھا رہا ہوں تو ٹھیک ہوجاؤں گا۔”
مراد نے جیسے ہر بات مذاق میں اڑانے کی کوشش کی تھی پرتاجور کو کب قرار تھا۔
”مجھے پہلے ہی ڈر تھا بھیگا ہے توبخار تو ہوا ہی ہوا۔ کبھی ایسا نہیں ہوا آج تک کہ مراد تو بارش میں بھیگا ہو اور تجھے بخار نہ ہوا ہو۔”
تاجور کے کہنے پر اس نے اطمینان سے کہا:
”امّی! لندن میں ہر وقت بھیگتا ہی رہتا ہوں اور کچھ نہیں ہوتا مجھے۔ یہ تو میں شاید سفر کرکے آیا ہوں اس لئے ہوگیا ورنہ ٹھیک ہوں میں۔” مراد نے ماں کی بات کو بالکل سنجیدگی سے نہیں لیا تھا۔
”میری ہی غلطی تھی وقت پر چلا جاتا تو تجھے تکلیف نہ ہوتی تو آرام سے آتا۔” چوہدری شجاع پچھتایا۔
”میں تو بڑے مزے سے آیا ہوں، ابّو آپ خواہ مخواہ پچھتا رہے ہیں۔” مراد نے باپ کو تسلی دی۔
”بس اب دل نہیں لگتا تمہارے بغیر مراد، اتنے سال سے تمہاری جدائی برداشت کررہی ہوں۔ پہلے ایچی سن میں اور اب لندن میں ۔” تاجور کا دل بھر آیا تھا۔
”تو یہ ضد کس کی تھی ایچی سن میں پڑھانے کی ورنہ میں تو نظروں کے سامنے رکھنا چاہتا تھا ہمیشہ۔” چوہدری شجاع نے لقمہ دیا۔
”ہاں میری ہی ضد تھی اور دیکھیں نا کیسا قابل نکلا ہے ۔ یہاں گاؤں کے اسکول میں پڑھتا تو کیا بنتا۔ ”
تاجور نے فوراً سے پہلے کہا۔ مراد دونوں کی نوک جھوک سنتے ہوئے مسکراتے ہوئے کھانا کھاتا رہا اور بالکل ٹھیک نظر آنے کی اداکاری کرتا رہا لیکن اُسے اندازہ ہورہا تھا کہ وہ ٹھیک نہیں تھا۔ اُس کی طبیعت واقعی خراب ہورہی تھی۔
”میں نے تو سوچ لیا ہے مراد! اس بار تمہاری شادی کرکے ہی تمہیں واپس لندن بھیجوں گی۔”
تاجور نے یک دم کہا۔وہ چونکا، مسکرایا اور پھر اُس نے کہا:
”شادی کی بات کریں گی تو پھر تو واقعی طبیعت خراب ہوجائے گی میری اتنا سکون اور آرام ہے میری زندگی میں۔ آپ کیوں ختم کرنا چاہتے ہیں؟”
تاجور اس کی بات پر ناراض ہوئی۔
”خواہ مخواہ میں؟ اکلوتے بیٹے ہو ہمارے’ میرا بس چلتا تو تمہاری شادی کرکے ہی آگے پڑھنے کے لئے لندن بھیجتی تمہیں لیکن بس تمہارے ابّا نہیں مانے۔”
تاجور نے خفا سے انداز میں چوہدری شجاع کو دیکھا۔
”اور ابّا اسی لئے تو اچھے لگتے ہیں مجھے۔ اب بس اور نہیں کھاؤں گا میں۔ تھوڑی دیر لیٹوں گا۔”
مراد کہتے ہوئے اُٹھ کھڑا ہوا تھا۔ اُس کے لئے اب واقعی کچھ کھانا مشکل ہورہا تھا مگر وہ ماں باپ کو پریشان بھی نہیں کرناچاہتا تھا۔
تاجور اُس کے جانے کے بعد بھی دروازے کو دیکھتی رہی اور پھر وہ اُٹھ کر کھڑی ہوگئی۔
”تمہیں کیا ہوا تم تو کھاؤ۔” چوہدری شجاع نے اُسے روکا۔
”میں اسے دیکھ کر آتی ہوں، سردبادیتی ہوں ۔مجھے لگتا ہے طبیعت ٹھیک نہیں ہے اس کی۔ آپ بکرے کا صدقہ دیں جلدی۔”
وہ کہتے ہوئے مراد کے پیچھے لپکی تھی۔
…٭…
”بھلیے لوکے! تجھے نیند کیوں نہیں آرہی؟”
گامو نے اُس رات اللہ وسائی کو کروٹیں لیتے دیکھ کر کہا تھا ۔ بارش کی وجہ سے وہ اس رات اندر کمرے میں سونے کے لئے لیٹے تھے۔
”میں سوچتی ہوں گامو! پیر صاحب کے پاس چلتے ہیں موتیا کے رشتے کی دعا کروانے۔” گامو اللہ وسائی کی بات پر یک دم اُٹھ کر بیٹھ گیا۔
”آدھی رات کو تجھے موتیا کا رشتہ کیوں یاد آگیا؟”
اللہ وسائی بھی اٹھ کر بیٹھ گئی۔ کچھ دیر کے لئے وہ چپ بیٹھی رہی پھر اُس نے جیسے سب کچھ صاف صاف بتانے کا فیصلہ کرلیا۔
”خواب دیکھتی ہے وہ!”
”خواب؟” گامو اُلجھا۔
”چوہدری مراد کو دیکھتی ہے وہ خواب میں۔”
گامو سانس نہیں لے سکا۔
”چوہدری مراد۔”
”کئی سالوں سے دیکھ رہی ہے۔ مجھے کہتی تھی خوابوں میں کوئی نظر آتا ہے ۔ میں ہنس کے ٹال دیتی اور کہتی تھی کہ تیری عمر میں سب کو ہی خوابوں میں ایسے سوہنے منڈے نظر آتے ہیں یہ کون سی خاص بات ہے۔ پر وہ ناراض ہوکر کہتی تھی کہ ایسی بات نہیں ہے۔ اور آج تو نے چوہدری مراد کو حویلی چھوڑا ہے تو موتیا نے مجھے بتایا کہ وہ وہی لڑکا ہے جسے وہ اتنے سالوں سے خوابوں میں دیکھ رہی تھی۔”
اللہ وسائی بتاتی چلی گئی تھی۔ گامو چپ چاپ گنگ بیٹھا اُس کو دیکھ رہا تھا۔
وہ چپ ہوئی تب بھی گامو نے کوئی جواب نہیں دیا۔ پھر لمبی خاموشی کے بعد اس نے اللہ وسائی سے کہا:
”جھوٹ تو کبھی نہیں بولا موتیا نے۔”
”ہاں پر اللہ کرے یہ جھوٹ ہی ہو۔” اللہ وسائی نے عجیب سے انداز میں کہا۔
”تجھے یاد ہے نا جب اسکول میں پڑھانے کے لئے موتیا کو لے کر گئے تھے تو چوہدرائن نے کتنا ذلیل کیا تھا مجھے کہ تیری جرأت کیسے ہوئی کہ تو اُس اسکول میں موتیا کو بھیج رہی ہے جہاں میرا بیٹا پڑھے گااور تیری بیٹی نے میرے بیٹے کو زمین پر بٹھادیا ۔ وہ کوئی کمی کمین تھا۔ تو اوقات بھول گئی ہے۔” اللہ وسائی کو تاجور کا ایک ایک جملہ یاد تھا۔
”ہاں! اور پھرہم نے اگلے دن موتیا کو ساتھ والے گاؤں کے اسکول میں داخل کروادیا تھا جہاں روز پانچ میل پیدل چل کر اُس کو چھوڑتے اور لاتے تھے۔”گامو کو یاد آیا وہ کس طرح موتیا کوکندھوں پر بٹھا کر لے کر جاتا تھا اور اللہ وسائی موتیا کا بستہ اٹھائے ساتھ ہوتی تھی۔
”ہاں اور اگلے دن اسکول کی چھت گرگئی تھی چوہدری مراد پر۔ اُس کی قسمت تھی کہ وہ زخمی ہوا پر بچ گیا۔” اللہ وسائی کو پتا نہیں کیا یاد آیا۔
”ہاں! شکر ہے میرے رب سوہنے کا کہ چوہدریوں کی نسل کو کچھ نہیں ہوا ۔ نہ ہی کسی اور بچے کو۔” گامو کو خیال آیا۔
” اور پھر چوہدری شجاع نے مجھے بلاکے معافی مانگی تھی، دانوں کی بوری دی تھی اور کہا تھا کہ میں موتیا کو واپس لے آؤں۔”
” اور میں نہیں مانی تھی۔” اللہ وسائی نے یاد دلایا۔
”ہاں! تو توہے ہی شروع سے ضدی۔” گامو ہنس پڑا تھا۔
”پر اُس! کے بعد چوہدرائن نے تجھے جھڑکنا کم کردیا تھا۔”
”ہاں! پر وہ آج بھی تھتھی اور کمی کمین ہی کہتی ہے مجھے۔” اللہ وسائی نے یاد دلایا۔
”کمی کمین تو ہیں نا ہم۔ اس کا کیا غصّہ کرنا۔ دانے والا نہیں بنایا رب سوہنے نے۔ یہ تو اُس کی تقسیم ہے۔”گامو اب بھی مطمئن تھا۔
”رب تقسیم نہیں کرتا، جوڑتا ہے پہچان کرواتا ہے۔ پر گامو میں نہیں چاہتی میں چوہدرائن سے دوبارہ کچھ سنوں۔”
اللہ وسائی نے کہا۔ اس سے پہلے کہ گامو کچھ کہتا، باہر دروازے کو کسی نے زور سے بجایا تھا۔ وہ دونوں چونک گئے۔
”یہ اتنی رات کو کون آگیا۔ ذرا دیکھوں میں۔” گامو کہتے ہوئے باہر نکل گیا۔ اللہ وسائی بھی اُس کے پیچھے تھی۔
”وہ چوہدری صاحب کے بیٹے کو بہت بخار ہے انہوں نے تمہاری بیٹی کوبلوانے کے لئے بھیجا ہے کہ وہ ڈاکٹر ہے کوئی دوا دارو کردے۔”
دروازہ کھلتے ہی گامو نے باہر ایک تانگے کے ساتھ چوہدریوں کے دو ملازم دیکھے تھے ۔ ایک بھی لفظ کہے بغیر گامو اندر پلٹا مگر اُسے کچھ بھی کہنے کی ضرورت نہیں پڑی تھی۔ وہاں پیچھے اللہ وسائی کے ساتھ موتیا کھڑی تھی۔ وہ بھی شاید رات گئے بجنے والے دروازے کی وجہ جاننے آئی تھی۔
”میں فرسٹ ایڈ باکس لے لوں ابّا۔”
موتیا نے گامو کے کچھ کہنے سے پہلے ہی کہا تھا اور اندر چلی گئی۔ اللہ وسائی اورگامو نے عجیب نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھا پھر گامو نے ہاتھ اُٹھا کر مدھم آواز میں کہا۔
”جو رب سوہنے کی مرضی! ”
…٭…

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

کتنی صدیاں بند ہیں —- فائزہ افتخار

Read Next

میری ڈائریاں میرے خواب —- محسن علی شامی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!