مراد وہیں کھڑا نیچے اترنے سے پہلے جیسے ان سب کے گزرنے کا انتظار کررہا تھا جن کی وجہ سے اس کا راستہ بند تھا۔
اپنے ڈبے کے سامنے سے گزرتے ہوئے لوگوں میں مراد نے موتیا کو جب دیکھا تھا، اس وقت وہ تیز ہوا کے جھونکے سے اپنے کرن لپّے والے پیلے دوپٹے کو اپنے سر سے ہٹنے سے بچا رہی تھی اور وہ دوپٹہ اُس سے لپٹ لپٹ جارہا تھا۔ اس روپہلی کرن والے دوپٹے نے اس کی آنکھوں سے ناک تک کو چھپا رکھا تھا، یوں لگتا تھا جیسے وہ گھونگھٹ کاڑھے ہوئی تھی اور پھر ہوا کے ہلکے جھونکے نے جیسے اس گھونگھٹ کو اڑایا تھا اور تب مراد نے موتیا کا چہرہ دیکھا۔
ایک گال پر سرمے کے ادھ مٹے ٹیکے کی سیاہی لئے جُھکی پلکوں والی آنکھیں، جو چہرے پر سرک کر اڑتے دوپٹے کے ساتھ کھلی تھیں اورانہوں نے مراد کے لئے حشر برپا کردی تھی۔ وہ جہاں سے آیا تھا وہاں حسن کا ہر نظارہ وہ کرکے آیا تھا۔ حسین اور سنگین! پر کسی حسن نے اس کی نگاہ کو اس طرح نہیں باندھا تھا جس طرح وہ اب بندھا تھا۔ وہ لڑکی جو بھی تھی، پلیٹ فارم پر ان بہت سارے لوگوں کے جھرمٹ میں موتیے کا پھول لگ رہی تھی۔
مراد کو اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے اس کے علاوہ کوئی اور تشبیہ ذہن میں نہیں آئی تھی۔
دوپٹہ اب اس کے ماتھے سے سر تک پہنچ کر اڑ گیا تھا اور اس کے بالوں کی لٹیں ہوا سے اڑنے لگی تھیں۔ وہ اپنے ایک ہاتھ کو سر سے اوپر لے جاتے ہوئے اڑ جانے والے دوپٹے کو پکڑنے کی جدوجہد میں مصروف تھی جب مراد نے اس کی کلائی میں پڑی دھنک رنگ چوڑیاں بھی دیکھی تھیں اور اُس کے گال پر آسمان سے گرتی پہلی بوند بھی۔
گال پر گرتی پہلی بوند کے ساتھ موتیا نے سر سے اڑجانے والے دوپٹے کو پکڑنے کی کوشش کی تھی اور وہ اس میں ناکام رہی تھی۔ پھراس نے سر اٹھا کر آسمان کو خوشی اور سرشاری کے ایک عجیب سے عالم میں دیکھا تھا۔ بارش کی اگلی بوند اس کے ہونٹوں پر ٹپ سے گری تھی اور جیسے اس نے گر کر اسے گدگدایا تھا اور موتیا کے ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ آئی تھی۔ اپنا سرسیدھا کرتے ہوئے اس نے ریل گاڑی کے ڈبے کے دروازے میں کھڑے مراد کو دیکھا تھا جو اسے مبہوت ہوکر دیکھ رہا تھا اور وہ ساکت رہ گئی تھی۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
ان دونوں کی نظریں ملیں اور وہ اپنا کرن لپے والا دوپٹہ بھول گئی تھی جو اب اس کے چہرے سے اتر کر اس کے جسم کے گرد لپٹنا شروع ہوگیا تھا اور بارش کی بوندیں اس کے چہرے پر ایک کے بعد ایک گرنا شروع ہوئی تھیں مگر موتیا جیسے کسی اور جہاں میں پہنچی ہوئی تھی۔
وہ یہاں کب تھی۔ وہ چہرہ جسے وہ خوابوں سے نکال کر آسمان کے چاند میں لے گئی تھی، وہ آج اس کے سامنے تھا۔ ریل گاڑی کے اس دروازے کے بیچوں بیچ ایستادہ اور موتیا کو رتی برابر شائبہ بھی نہیں تھا کہ یہ وہ نہیں ہے۔ وہ اس چہرے کے ہر نقش کو آنکھیں بند کرکے بھی کسی کاغذ پر اتار سکتی تھی اور یہاں تو وہ خود اس کے سامنے مجسم کھڑا تھا۔ چند فٹ کے فاصلے پر، صرف چند ہی فٹ کے فاصلے پر اور اس کی نگاہ بھی اس پر ویسے ہی ٹھہری تھی جیسے موتیا کی، اس لمحے ان دونوں کے لئے اس پلیٹ فارم سے سب کچھ غائب ہوگیا تھا۔ رہ گئے تھے تو صرف وہ دونوں، ہوا کے وہ اڑتے ہوئے جھونکے جو ان کے وجود کو سہلا رہے تھے اور بارش کے وہ قطرے جو ٹپ ٹپ گرتے ہوئے جیسے محبت کا استقبال کررہے تھے جو وہاں دبے قدموں آئی تھی اور جسے سب سے پہلے بارش نے دیکھا تھا اور ہوا نے محسوس کیا تھا۔
”راستہ دینا بھائی!”
کسی نے مراد کو عقب سے ٹہوکا دیا تھا اور وہ ہڑبڑا کر پلٹا۔ وہ کوئی آدمی تھا جو ریل گاڑی سے اترنے کے لئے اپنے سامان اور خاندان کے ساتھ وہاں کھڑا تھا۔ مراد نے پیچھے ہٹ کر انہیں نکلنے کے لئے راستہ دیا اور وہ چند لمحے اس کے لئے بڑے بھاری تھے۔ وقت کا لمحہ’ لمحے میں ہی گھنٹے میں بدلا تھا اور گھنٹہ بھی صدیوں جیسا۔ وہ خاندان اپنے سامان سمیت گاڑی سے اتر گیا تھا۔ مراد لپک کر دوبارہ گاڑی کے دروازے میں آیا تھا۔ وہاں باہر کوئی نہیں تھا۔ مراد کو لگا تھا پوری دنیا میں جیسے کوئی تھا ہی نہیں۔ اس ایک چہرے کے غائب ہونے نے جیسے مراد کے لئے ہر شے کو غائب کردیا تھا۔ بے قراری کے عالم میں اس نے دروازے کے دائیں بائیں لگے ڈنڈوں کو پکڑتے ہوئے جیسے لٹک کر دائیں بائیں دیکھنے کی کوشش کی تھی لیکن وہ لڑکی کہیں نہیں تھی۔ وہ جیسے کسی خیال کی طرح آئی تھی اور کسی وہم کی طرح پلک جھپکتے میں غائب ہوگئی تھی۔ وہ لپک کر گاڑی سے اترا اور اس نے اسے ڈھونڈنے کی کوشش کی تھی۔ یہاں، وہاں، ہر طرف، پر وہ یوں غائب ہوئی تھی جیسے کبھی یہاں تھی ہی نہیں۔
”چھوٹے چوہدری صاحب! آپ کو کوئی لینے نہیں آیا؟” وہ گامو تھا جو موتیا کو ڈھونڈنے آیا تھا اور موتیا کے بجائے مراد کو دیکھ کر حیران رہ گیا تھا۔ مراد نے چونک کر گامو کو دیکھا تھا۔ گامو کو لگا وہ اسے نہیں پہچانا۔
”میں گامو ماشکی! حویلی میں پانی۔۔۔” مراد نے اس کی بات کاٹ کر مسکراتے ہوئے اس سے ہاتھ ملایا۔
”میں جانتا ہوں آپ کو چاچا گامو! ٹرین جلدی آگئی اور ابھی شاید حویلی سے کوئی آیا ہی نہیں۔”
گامو نے لپک کر برستی بارش میں اس کا سامان اٹھایا جو مراد نے پلیٹ فارم پر رکھا ہوا تھا۔
”تو پریشانی کس بات کی چھوٹے چوہدری صاحب جی! ابھی پہنچا دیتا ہے فیقا آپ کو حویلی۔” مراد نے اس سے سامان لینے کی کوشش کی تھی لیکن وہ کامیاب نہیں ہوا۔
”نہیں مجھے اٹھانے دیں۔”
وہ مراد کے روکنے کے باوجود رکا نہیں اور اسٹیشن کے باہر کھڑے کچھ تانگوں میں سے ایک تانگے کی طرف چلا گیا۔ فیقا بھی چوہدری مراد کو دیکھ کر اسی طرح نہال ہوا تھا جس طرح گامو۔
”اگلی سیٹ پر بیٹھیں چھوٹے چوہدری جی اور دیکھیں آج فیقاکیسے حویلی پہنچاتا ہے آپ کو۔”
اس نے مراد کا سامان اگلی سیٹ پر رکھتے ہوئے کہا تھا۔ مراد بھی تانگے کے اگلے حصّے میں سوار ہوگیا تھا اور تب ہی گامو نے دور بارش میں بھیگتی آتی بتول اور موتیا کو بھی دیکھ لیا تھا۔ اس کے چہرے پر اطمینان لہرایا تھا۔ ان دونوں کے پاس پہنچنے پر اس نے ان دونوں سے کہا۔
”کہاں غائب ہوگئی تھیں تم دونوں؟ بارات تو کب کی گاؤں چلی گئی۔ یہ تو اللہ بھلا کرے فیقے کا میرے کہنے پر رکا ہوا ہے۔”
”چاچا! ریل گاڑی اندر سے دیکھنے کا شوق تھا ۔ بس اسی میں دیر ہوگئی۔”
بتول نے کہا تھا اور وہ دونوں اگلی سیٹ پر بیٹھے ہوئے مسافر پر غور کئے بغیر پچھلے حصّے میں سوار ہوگئیں تھیں۔ مراد فیقے سے باتوں میں لگا عقب میں سوار ہونے والی لڑکیوں کو دیکھ نہیں سکا۔ دیکھ لیتا تو پتھر کا ہوجاتا۔
وہ لڑکی اس سے بس چند انچ دور اس کے عقب میں بیٹھی تھی تانگے کی پچھلی سیٹ کی پشت سے ٹیک لگائے۔ گامو بھی اب تانگے کے اگلے حصّے میں سوار ہوگیا۔
پچھلی سیٹ پر بیٹھی موتیا گم صم بیٹھی ریلوے اسٹیشن کی دور ہوتی ہوئی عمارت کو دیکھ رہی تھی اور ساتھ اس ریل گاڑی کو بھی جو بارش میں دھواں اڑاتی چھکا چھک کرتی اب اسٹیشن سے کسی اگلی منزل کے لئے نکل گئی تھی۔
”تجھے کیا ہوا؟ تو کیوں گم صم ہے؟”
بتول نے سرگوشی میں موتیا سے کہا۔ اسے اندازہ تھا کہ اگلی سیٹ پر کوئی مرد بیٹھا ہے جسے وہ نہیں جانتی اور پھر یک دم اس نے سرگوشی میں موتیا سے کہا:
”ہائے اللہ! یہ تو چھوٹا چوہدری ہے جو اگلی سیٹ پر بیٹھا ہے۔ پلٹ کر دیکھ موتیا کتنا سوہنا ہے۔”
بتول نے اس کا ہاتھ دبا کر اس کے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے کہا تھا۔ موتیا نے گردن تک نہیں موڑی اور اسی مدھم سرگوشی میں اس سے کہا:
”سوہنا تو وہ ہے جسے میں خوابوں میں دیکھتی ہوں۔”
بتول جھلائی تھی۔ وہ اس کے خوابوں سے بھی واقف تھی اور اس میں نظر آنے والے لڑکے کے بارے میں بھی جانتی تھی۔
”وہ خواب ہے، یہ تو ساتھ بیٹھا ہے۔ دیکھ تو سہی۔”
اس نے موتیا کا ہاتھ دبایا تھا، موتیا نے ہاتھ چھڑاتے ہوئے اس سے کہا:
”وہ بھی خواب نہیں ہے۔” بتول نے اس کی بات پر غور نہیں کیا تھا۔ اس کا دھیان اب صرف چوہدری مراد پر تھا جو گامو اور فیقے سے گاؤں کے کھیتوں ، کھلیانوں، باغوں، مویشی اور پتا نہیں کس کس چیز کی بات کررہا تھا اور بات کرنے سے بھی زیادہ وہ گامو اور فیقے کی باتیں سن رہا تھا۔
برستی بارش میں تانگہ بالآخر حویلی کے سامنے جاکر رکا تھا۔ مراد نے تانگے سے اترنے سے پہلے اپنی جیب سے بٹوہ نکال کر فیقے کو چند نوٹ دینے چاہے لیکن فیقے کو جیسے کرنٹ لگ گیا تھا۔
”چھوٹے چوہدری سے کرایہ کیسے لے سکتا ہوں جی میں؟”
”تمہارے لئے نہیں گھوڑے کے لئے دے رہا ہوں۔ تم تو واقعی نہیں لے سکتے۔”
مراد خوش دلی سے کہتے ہوئے نوٹ اس کی مٹھی میں دبا کر اتر گیا تھا ۔ گامو پہلے ہی اس کا سوٹ کیس پکڑے کھڑا تھا۔
”نہیں چاچا! اب نہیں اب میں خود لے جاؤں گا اندر۔” اس نے گامو کے نہ چاہنے کے باوجود اس کے ہاتھ سے وہ سوٹ کیس پکڑلیا تھا۔ گامو تانگے پر دوبارہ بیٹھ گیا اور فیقے نے تانگہ آگے بڑھا دیا تھا اور تب اندر حویلی کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے مراد نے پہلی بار دور جاتے تانگے کے پچھلے حصّے کو دیکھا تھا اور وہ قدم اٹھا نہیں سکا۔ جس لڑکی کے بارے میں وہ پورا راستہ سوچتا آیا تھا، وہ اس کے عقب میں اسی تانگے پر بیٹھی ہوئی تھی جس پر وہ گاؤں آیا تھا۔ وہ گردن موڑے پلکیں جھپکائے بغیر موتیا کو دیکھے جارہا تھا اور یہی حال موتیا کا تھا۔ وہ بتول تھی جو پلیٹ فارم پر اس کی کلائی پکڑ کر اس کو دوسرے ڈبے کی طرف لے گئی تھی اور پھر موتیا اس چہرے کو ڈھونڈتی رہ گئی تھی جسے وہ کئی سالوں سے اپنے خوابوں میں دیکھتی آرہی تھی اور اب ایک بار پھر اس چہرے کو تانگے کی رفتار اس سے دور کررہی تھی۔ پر اس بار وہ اس چہرے کا نام جان چکی تھی۔
”یہ مراد ہے؟”
دور کھڑے بارش میں بھیگتے مراد پر نظریں جمائے عجیب سی کیفیت میں موتیا نے بتول سے پوچھا تھا۔ بتول نے ایک نظر اسے دیکھا اور پھر مراد کو جو ان کی طرف دیکھ رہا تھا اور پھر اُس نے کہا تھا:
”چوہدری مراد!” وہ اب موتیاکا چہرہ دیکھ رہی تھی۔ پھر دور بارش میں بھیگتے مراد کو اور پھر دوبارہ موتیا کو جس کے ہونٹوں پر ایک عجیب والہانہ مسکراہٹ تھی۔
”یہ وہی ہے بتول جومیرے خوابوں میں آتا ہے۔”
بتول کو جیسے کرنٹ لگا تھا۔ اس نے گردن موڑ کر ایک بار پھر مراد کو دیکھنے کی کوشش کی تھی۔ لیکن دیکھ نہیں پائی، حویلی بہت دور رہ گئی تھی اور بارش بہت تیز تھی۔ پر اس نے یہ دیکھ لیا تھا کہ اس بارش میں بھی مراد وہیں کا وہیں کھڑا تھا۔ بتول نے موتیا کا چہرہ دیکھا، وہ اب بھی دور مراد کو دیکھ رہی تھی۔ فاصلہ اور بارش جیسے دونوں غائب ہوگئے تھے، وہ اسے اب بھی دیکھ رہی تھی اپنی ہتھیلی کی طرح۔
”چوہدری مراد؟” بتول نے بے یقینی سے دہرایا تھا۔ یوں جیسے یہ یقین چاہتی ہو کہ اسے غلط فہمی نہیں ہوئی تھی۔
”مراد!” موتیا نے جواباً دہرایا تھا۔
…٭…
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});