”گامو کو بھی رب سوہنے نے کیا ہی آواز دے کے بھیجا ہے۔” شکوراں نے بھی وہاں دانہ چنتی دوسری عورتوں کے ساتھ بیٹھے گامو کو سراہا تھا۔
تاجور آج کل ایسی سرشار پھر رہی تھی کہ شکوراں گامو کے قصیدے بھی پڑھتی تو تاجور کو سنائی نہ دیتے۔ اس کے کان صرف مراد کی آہٹ پر لگے تھے۔ وہ لندن سے آنے والا تھا۔ ہر سال ایک بار آتا۔ اس بار سردیوں کے بجائے گرمیوں میں آرہا تھا اور تاجور کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ پوری حویلی بیٹے کے لئے سجا کر اس کا استقبال کرتی۔
”چوہدرائن جی! اس بار تو چھوٹے چوہدری کی شادی کر ہی دیں۔ یہ نہ ہو کہ گوروں کے ملک سے گوری لے آئیں۔” گندم صاف کرتی ایک عورت نے تاجو رسے کہا تھا اور تاجور نخوت سے مسکرائی تھی۔
”میری اولاد ہے مراد، وہاں شادی کرے گا جہاں ماں کہے گی۔ گوروں کے ملک میں بیرسٹر بننے گیا ہے گوری ڈھونڈنے نہیں۔”
”تجھ کو بھی نذیراں کبھی عقل نہیں آئی۔ دیکھ کر تو بولا کر کس سے کیا کہہ رہی ہے؟’ ‘شکوراں نے اس عورت کو جھڑکا تھا اور وہ عورت کچھ خفیف سی ہوکر چپ ہوگئی تھی۔
”میں نے تو اللہ وسائی کو بھی کہا ہے موتیا کا رشتہ ڈھونڈے، یہ نہ ہو وہ شہر سے واپس نہ آئے۔” ایک دوسری عورت نے لقمہ دیا تھا اور موتیا کے نام پر لاشعوری طور پر تاجور کے کان کھڑے ہوئے تھے۔
”پر موتیا سے تو نظر نہیں ہٹتی۔ دیکھے میلی ہوتی ہے۔ رنگ روپ قد کاٹھ تو رانیوں جیسا لے کر پیدا ہوئی ہے اوپر سے ڈاکٹرنی بھی بن رہی ہے۔ اللہ وسائی کہتی ہے کسی اونچی جگہ رشتہ کرنا ہے اس نے موتیا کا۔”
وہاں بیٹھی عورتوں کو اب جیسے اپنا من پسند موضوع مل گیا تھا بات کرنے کے لئے اور وہ ایک کے بعد ایک لقمے دے رہی تھیں اور پنکھا جھلتی تاجور نہ سننے کی خواہش رکھتے ہوئے بھی سب سن رہی تھی۔ اس نے موتیا کو بس بچپن میں ایک بار دیکھا تھا پھر اس کے بعد کبھی نہیں، نہ اللہ وسائی اسے لائی تھی نہ تاجور نے موتیا کو کبھی بلایا تھا۔ پراب وہ گاہے گاہے اللہ وسائی کو یاد دلانے لگی تھی کہ گاؤں کی دوسری لڑکیوں کی طرح اسے بھی موتیا کو کام کاج کے لئے حویلی لاناچاہیے اور اللہ وسائی ہر بار اس کے سامنے ہاں کہہ کر وعدہ کرلیتی کہ اگلی بار موتیا آئے گی تو وہ اسے لے آئے گی گندم صاف کرنے اوروہ اگلی باری کبھی نہیں آئی تھی۔
”اللہ وسائی نے دماغ خراب کردیا ہوگا اپنی طرح بیٹی کا بھی۔ ماشکی کی بیٹی اور اونچا گھر، ڈاکٹر بن رہی ہے تو کیا، ہے تو کمی کمین ہی۔” تاجور نے عجیب نفرت اور حقارت سے سوچا تھا۔
”اور ایسا بھی کیا حسن ہے کہ پورا گاؤں باتیں کرتا ہے۔ کسی دن بلاکے دیکھتی ہوں یہ ہے کیا موتیا؟” وہاں بیٹھے تاجور نے دل ہی دل میں طے کیا تھا۔
…٭…
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
آئینے کے سامنے کھڑی وہ اپنی آنکھوں میں سلائی بھر بھر کے سرمہ ڈال رہی تھی جب اللہ وسائی اندر آئی تھی اور اس نے سجی سنوری بیٹی کو ایک نظر دیکھتے ہی اپنی نظر ہٹائی تھی۔ آگے بڑھ کے اس نے موتیا کی آنکھ سے ہی اپنی چھوٹی انگلی کی پورپہ سرمہ لگا کر موتیا کے گال پر نظر کا ٹیکہ لگادیا تھا۔
”کیا کررہی ہیں امّاں! اتنی مشکل سے تیار ہوئی ہوں آپ نے پھر یہ ٹیکہ لگادیا۔ ”
موتیا جھنجھلائی تھی اور اس نے گال رگڑنے کے لئے ہتھیلی بلند کی تھی پر اللہ وسائی نے کلائی پکڑلی۔
”یہ نظر کا ٹیکہ ہے، خبردار اسے ہٹایا تو نے۔ منع بھی کرتی ہوں نہ نکلا کر باہر اس کالے ٹیکے کے ساتھ بھی نظر نہیں ہٹتی تجھ سے موتیا۔”
اللہ وسائی فکر مند ہوئی تھی اور موتیا ماں کی پریشانی دیکھ کر ہنسی تھی۔
”اب کوئی ایسی بھی حور پری نہیں ہوں امّاں۔” اس نے لپ اسٹک ہونٹوں پر پھیرتے ہوئے کہا تھا۔
”نہ یہ ہونٹ لال کرنے کی کیا ضرورت ہے تجھے موتیا! چل صاف کر انہیں۔ ” اللہ وسائی کا دل ہول گیا تھا۔ اس نے آج پہلی بار موتیا کو اس طرح ہارسنگھار کے ساتھ دیکھا تھا اور پہلی دفعہ ہی اسے اس کے جوان ہونے کا بھی احساس ہوا تھا۔
”اچھا امّاں! ہٹادیتی ہوں۔”موتیا نے ماں سے بحث کرنے کے بجائے اپنی ہتھیلی ہونٹوں پر رگڑ کر جیسے ہونٹ پونچھے تھے اور پھر لپ اسٹک کی لالی کو ہتھیلیوں پر ہی رگڑ لیاتھا۔اللہ وسائی کو پھر بھی تسلی نہیںہوئی تھی۔ لپ اسٹک پونچھنے کے بعد رہ جانے والی لالی موتیا کے ہونٹوں کو اور حسین کررہی تھی۔
”یہ ٹیشن (اسٹیشن) پر جاکر بارات دیکھنا ضروری ہے؟ ادھر گاؤں میں ہی آنی ہے تیری سہیلی کی بارات تو پھر کہیں جانے کی کیا ضرورت ہے۔” اللہ وسائی کو اس کے اسٹیشن جانے پر اعتراض ہوا تھا۔
”امّاں! میری سہیلی کی بارات ہے۔ پورا گاؤں جارہا ہے اسٹیشن، میں کوئی اکیلی تھوڑی جارہی ہوں۔”
اس سے پہلے کہ موتیا کچھ اور کہتی گامو اندر آگیا تھا۔
”چل جلدی کر موتیا! ٹانگے چل پڑے ہیں۔ اتنی مشکل سے فیقے کو روک کے آیا ہوں۔” گامو عجلت میں تھا۔
”آ پ بھی چلیں امّاں!” موتیا نے اللہ وسائی کا ہاتھ پکڑا۔ اُس نے ہاتھ چھڑالیا۔
”ناں! بس ٹھیک ہے تم دونوں باپ بیٹی ہی جاؤ مجھے بہتیرے کام ہیں پنڈ میں۔” اللہ وسائی نے کہا اور پھر ساتھ ہی وہ گامو کو ہدایات دینے لگی۔
”دیکھو گامو! جلدی لے کر آجانا اسے واپس شام ہونے سے پہلے۔”
”ہاں ہاں اللہ وسائی! تو شام کی بات کررہی ہے میں تو گھنٹے دو گھنٹے میں آجاؤں گا واپس۔” گامو نے اسے تسلی دیتے ہوئے موتیا کو دیکھا اور نظر ہٹالی۔
اس کی دھی کے چہرے پر ایسا ہی روپ تھا کہ گامو کی نظریں ٹھہر نہیں پائی تھیں۔ اسے پتا تھا اللہ وسائی کیوں اتنی بے چین ہورہی تھی۔ ان دونوں نے اتنے سالوں میں موتیا کو سیپ کے موتی کی طرح پالا تھا، جیسے کوئی مرغی اپنے انڈے اور پھر ان انڈوں سے نکلنے والے بچوں کو لے کر بیٹھتی ہے ویسے ہی گامو اور اللہ وسائی موتیا کی چوکیداری کرتے تھے۔
ان کی بیٹی کے حسن کا چرچا گاؤں میں تھا اور قابلیت کے جھنڈے سات گاؤں میں گڑے ہوئے تھے۔
وہ جہاں سے گزرتی تھی، لوگوں کی نظریں روک لیتی تھی۔ وہ جس سے ملتی تھی اسے یاد رہ جاتی تھی۔ کیا بچے، بڑے، بوڑھے، موتیا پر گاؤں کا گاؤں شیدا تھا۔ گاؤں کا بوڑھا موچی جو ایک سال کی عمر سے اس کے جوتے بنارہا تھا اور اب اس کے جوتے مرمت کرتا تو سب سے پہلے مرمت کرکے بھیجتا۔
وہ گاؤں کی ڈاکٹر بیٹی تھی جس کے ہاتھ سے لوگوں کو شفا ملنے والی تھی، ویسی ہی شفا جو گامو ماشکی کی مشک کے میٹھے پانی سے ملتی تھی۔
گاؤں کا حلوائی اب بھی اس کے مانگے بغیر بچپن کی طرح کاغذ کے ٹکڑے پر ایک جلیبی رکھ کے اسے پکڑا دیتا تھا اور بوڑھا ڈاکیا اپنی سائیکل کچے راستے پر چلاتا دوڑاتا سب سے پہلے موتیا کے گھر کے دروازے پر ہی آکر کھڑا ہوتا تھا کیونکہ جتنے کاغذ اور لفافے اس نے اتنے سالوں میں موتیا کے گھر لاکر دیئے تھے وہ پورے پنڈ میں کہیں نہیں دیئے تھے۔
موتیا کسی کو چاچا کہتی، کسی کو ماما، کسی کو بابا جی، کسی کو تایا جی پر وہ ہر ایک سے رابطے میں تھی، ہر کسی سے ملتی تھی۔ اور جب بھی وہ گاؤں آتی تو دوائیوں کا ڈھیر ساتھ لاتی جو وہ پورے گاؤں میں مفت بانٹتی پھرتی۔
وہ گاؤں کی ڈسپنسری میں بنا اجازت ہی بیٹھنے لگ گئی تھی۔ چند دن، چند ہفتے وہ جب بھی آتی روز ڈسپنسری میں بیٹھتی، گاؤں کے لوگوں کا علاج معالجہ انہیں یہ بتا بتا کر کرتی کہ وہ ابھی ڈاکٹر نہیں ہے۔ اندازے سے ہی دوا دے رہی ہے۔
پر عجیب بات تھی۔ موتیا کا اندازہ کبھی غلط ہوا تھا نہ اس کی تشخیص، گاؤں کے لوگوں کو اس کے ہاتھ سے ابھی سے آرام آنے لگا تھا، افاقہ ہونے لگا تھا۔ گامو اور اللہ وسائی اپنی بیٹی کی یہ تعریفیں سن کر خوشی سے پھولے نہ سماتے۔
انہوں نے ساری عمر دوسروں کے سامنے جھکتے گزاری تھی، اب وہ لوگوں کو موتیا کے سامنے جھکتا دیکھ رہے تھے۔وہ نہ پیر تھی نہ فقیر اور نہ ہی اس کے ہاتھ میں جادو تھا پر اس کے ہاتھ میں شفا تھی اور برکت، اوریہ دونوں چیزیں کہاں سے آئی تھیں، اس کے لئے گاؤں والوں کو حساب کا کوئی کلیہ رٹنا نہیں پڑتا تھا۔ وہ اللہ کی دین تھی۔
…٭…
ریل گاڑی چھک چھک کرتے ہوئے اس کے گاؤں کے قریبی اسٹیشن پر رکی تھی۔ مراد نے اپنا سامان اکٹھا کرنے سے پہلے کھڑکی سے باہر جھانکا تھا۔ پلیٹ فارم پر زیادہ رش نہیں تھا اور ریل گاڑی آدھ گھنٹہ پہلے اسٹیشن پر پہنچ گئی تھی۔ کلائی میں بندھی گھڑی کے ڈائل پر ایک نظر ڈالتے ہوئے وہ اٹھ کر کھڑ اہوگیا تھا۔ اس کے پاس زیادہ سامان نہیں تھا جس کی اسے پریشانی ہوتی ۔ وہاں اس اسٹیشن پر اترنے کے لئے کھڑے ہونے والے مسافروں میں سے کوئی بھی پینٹ شرٹ میں ملبوس نہیں تھا۔
وہ سب شلوار قمیص ہی پہنے ہوئے تھے یا پھر لاچا کُرتا، صرف وہ تھا جو اپنے حلیے اور رکھ رکھاؤ سے ویسا نہیں لگتا تھا اور اسی لئے وہ ریل گاڑی کے اندر سب کی توجہ کا مرکز تھا۔اپنا بیگ کندھے پر ڈالے سوٹ کیس دھکیلتے ہوئے وہ ڈبے کے دروازے تک آگیا تھا اور ڈبے کے کھلے دروازے سے باہر چلتی ٹھنڈی ہوا کو اپنی سانس کے ذریعے اندر اُتار رہا تھا۔
بادل آسمان کو ڈھک رہے تھے اور پرندے نیچی پرواز کرتے ہوئے جیسے آنے والی بارش کا اعلان کررہے تھے۔ شاید آس پاس کہیں بارش ہورہی تھی کیونکہ ہوا ٹھنڈی تھی، نم بھی اور تروتازہ کردینے والی بھی۔
ڈبے کے دروازے میں کھڑے کھڑے اس نے پلیٹ فارم پر چوہدری شجاع یا اپنی حویلی کے کسی ملازم کو ڈھونڈنے کی کوشش کی تھی۔ یہ جاننے کے باوجود کہ وہ اپنے مقررہ وقت سے آدھ گھنٹہ پہلے پہنچ گیا تھا۔ پلیٹ فارم پر یک دم ہی بھیڑ بڑھی تھی۔ اس کے برابر والے ڈبے میں کوئی بارات تھی جو اب ریل گاڑی سے باجوں گاجوں سے لیس اتر رہی تھی اور پلیٹ فارم پر اس بارات کا استقبال کرنے کے لئے بہت سے لوگ آئے تھے۔ ان لوگوں میں مراد کو عورتیں بھی نظر آرہی تھیں جو اس کے ڈبے کے سامنے سے گزرتے ہوئے دوسرے ڈبے کی طرف جارہی تھیں۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});