”میں نے ایسا پیار کرنا بھی نہیں ہے بتول جومجھے خوار کردے۔ تو پڑھ لکھ لیتی تو آج میرے ساتھ شہر میں ڈاکٹری پڑھتی، دونوں سہیلیاں مزے سے اکٹھے آتی جاتیں ہر جگہ۔”
موتیا نے بھی اپنی بالٹی اٹھالی تھی۔ دونوں اب کنویں سے چل پڑی تھیں۔
”بتول کا دل نہیں لگتا موٹی موٹی کتابوں میں’ شکر ہے میری ماں میرے پیچھے نہیں پڑی مجھے اس طرح پڑھانے کے لئے جس طرح چاچا گامو اور چاچی تیرے پیچھے پڑ ے رہتے تھے۔ ” بتول نے بڑے اطمینان سے کہا۔
”وہ تھوڑی پیچھے پڑے رہتے تھے۔ یہ تو مجھے شوق تھا اور بس انہوں نے شوق پورا کردیا میر ا پڑھنے کا۔”موتیا مسکراتے ہوئے اسے کہہ رہی تھی۔ وہ گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے گاؤں آئی تھی ۔ وہ میڈیکل کے تیسرے سال میں تھی۔
”میں ویسے چلوں گی تیرے ساتھ کبھی شہر کے ہاسٹل اور تو مجھے شہر پھرا دینا سارا، میں کبھی شہر نہیں گئی۔” اس نے جیسے موتیا سے کہا تھا۔
”چلو ٹھیک ہے، اب کے واپس جاؤں گی تو میرے ساتھ ہی چلنا تم اور ہفتہ دس دن رہ کے آجانا۔”
موتیا بھی فوراً اسے ساتھ لے جانے پر تیار ہوگئی تھی۔
جھوک جیون میں شکوراں کی دھی بتول اس کی واحد سہیلی تھی جس کے ساتھ موتیا نے اپنا سارا بچپن گزارا تھا ۔ وہ بتول سے ہر بات کہہ سن لیتی تھی اور یہی حال بتول کا بھی تھا۔ موتیا کے شہر جانے کے بعد بھی وہ جیسے اس کے واپس چھٹی پر آنے کے لئے دن گنتی رہتی تھی۔
وہ گاؤں کی ہر لڑکی کی طرح موتیا کے حسن پر مرتی تھی پر اس سے حسد نہیں کرتی تھی یا کم از کم بتول کو ہی لگتا تھا کہ اسے موتیا سے کبھی حسد نہیں ہوسکتا تھا کیونکہ اسے اس سے اتنا ہی پیار تھا۔
”اچھا سن! تجھے اب بھی خواب میں وہ لڑکا نظر آتا ہے؟” بتول کو یک دم موتیا کے خوابوں میں نظر آنے والا لڑکا یاد آیا جس کا وہ کئی سالوں سے ذکر سنتی آرہی تھی۔
موتیا نے چونک کر اسے دیکھا اور سرہلایا۔ بتول کے چہرے پر اشتیاق آیا۔
”اچھا؟ اب کب آیا وہ خواب میں؟”
موتیا نے ساتھ چلتے ہوئے کہا۔
”رات کو۔”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
بتول بے اختیار ہنسی اور اسے چھیڑتے ہوئے کہا:
”دو دن ہوئے ہیں تجھے واپس گاؤں آئے اور تونے اسے پھرسے خواب میں دیکھ لیا۔”
وہ جیسے اسے چھیڑ رہی تھی مگر موتیا کے چہرے پر مسکراہٹ نہیں آئی تھی۔
”اس بار میں نے خواب میں ایک سانپ بھی دیکھا بتول۔”
بتول اس کی بات پر چونکی تھی۔
”سانپ؟”
موتیا نے سرہلایا۔
”ایک بہت لمبا، سیاہ ، خوفناک ”کوبرا” تھا اور وہ اس لڑکے کے اور میرے بیچ کھڑا تھا۔ پھر وہ اس لڑکے کو کاٹنے گیا، میں ڈر گئی اور میری آنکھ کھل گئی۔”
بتول نے موتیا کا چہرہ دیکھا۔ اسے موتیا کے خوابوں پر عجیب سا اعتقاد تھا۔ وہ سچے خواب دیکھتی تھی اور جو بھی وہ خواب میں دیکھتی تھی وہ پورا ہوتا تھا۔ اس کی گواہ خود بتول بھی تھی۔
”اللہ خیر کرے موتیا! خواب تو اچھا نہیں۔” اس نے جیسے فکر مند ہوکر کہا تھا۔
”ہاں! برا خواب ہے میں جانتی ہوں اور مجھے خواب میں یوں بھی محسوس ہوا تھا جیسے وہ سانپ مادہ تھی، ناگن اور جب اس نے اس لڑکے کو کاٹا تو میں چیخ اٹھی تھی۔ ”
وہ اب بھی عجیب الجھے انداز میں اسے دھندلکے میں لئے اس خواب کے آخری لمحوں کے بارے میں بتا رہی تھی۔
”تو صدقہ دے۔” بتول نے بے اختیار کہا۔
”ہاں! میں بھی صدقہ ہی دینے کا سوچ رہی ہوں پر یہ سمجھ میں نہیں آرہا کہ صدقہ دوں کس کا؟ اپنا یا اس لڑکے کا؟”
وہ بڑبڑائی تھی اور بتول اس کا چہرہ دیکھ کر رہ گئی تھی۔
…٭…
”مٹی کا ایک ذرہ تک نظر نہیں آنا چاہیے میرے مراد کے کمرے میں۔”
تاجور مراد کے کمرے میں کھڑی شکوراں اور ایک دوسری ملازمہ سے کمرے میں جھاڑ پونچھ کرواتے ہوئے ہدایات دے رہی تھی۔
”یہ سفید چادر کیوں ڈال دی ہے تو نے میرے بیٹے کے بستر پر؟ وہ رنگلا کھیس نکال کر لاکڑھائی والا۔”
اس نے دوسری نوکرانی کو ڈانٹتے ہوئے کہا تھا جس نے مراد کے بستر پر سفید چادر ڈال دی تھی۔
”بس عقل ہی نہیں دی اسے رب نے۔ لکھ بار سمجھا کے بھی کرنی اپنی مرضی ہی ہوتی ہے اس نے۔” شکوراں نے بھی اس نوکرانی کو تاجور کی دیکھا دیکھی ڈانٹا تھا۔
تاجور کمرے پر ایک تنقیدی نظر ڈالتے ہوئے ان دونوں سے مزید کچھ کہے بغیر باہر نکل گئی تھی۔
”چوہدری مراد کب آرہا ہے؟” تاجور کے جاتے ہی اس نوجوان ملازمہ نے بڑی بے قراری سے شکوراں سے پوچھاتھا۔
”دو دن بعد آرہا ہے اور دیکھ یہ سرخی پاؤڈر کم کرکے آنا اب سے حویلی میں سنا تو نے؟”
شکوراں نے اسے بتاتے ہوئے ساتھ ہی ڈانٹنا ضروری سمجھا۔
”لے خالہ! بتول کو تو کبھی نہیں سمجھاتی، میری سرخی پاؤڈر کے پیچھے پڑ گئی ہے تو۔”
اس ملازمہ نے ناراض ہوکر اسے ترکی بہ ترکی کہا تھا۔
شکوراں اسے گھور کر رہ گئی تھی اور پھر اس سے مزید بحث کئے بغیر وہ لپک کر کمرے سے یہ کہتے ہوئے نکل گئی۔
”چوہدرائن کو دیکھوں کوئی کام نہ ہو انہیں۔”
باہرصحن میں تاجور گندم کی بوریوں کو دیکھنے میں لگی تھی جنہیں کھولے گاؤں کی عورتیں پراتوں میں دانے ڈالے ہاتھ پھیر پھیر کر انہیںصاف کررہی تھیں۔ وہ دانے صاف کرنے کے بعد انہیں بان کی چارپائیوں پر ڈال کر دھوتیں اور پھر دھوپ میں سوکھنے کے لئے چھوڑ دیتیں اور جب گندم سوکھ جاتی تو تاجور کی حویلی کے بھڑولے اس سے دوبارہ بھر کے قطار در قطار رکھ دیئے جاتے۔ وہاں موجود دانے پورا سال اگلی فصل آنے تک صرف حویلی کی مہمان داری کے کام نہیں آتے تھے بلکہ وقتاً فوقتاً پورے گاؤں میں بانٹے جاتے تھے۔
گاؤں کی عورتیں گندم صاف کرکے دھونے پر بھی معاوضے کے طور پر دانے ہی لیتی تھیں۔ اسی لئے اس گندم کو وہ ایسی محبت سے صاف کرتی تھیں جیسے اپنے گھر کے دانے۔
”تھتھی نہیں آئی؟” تاجور نے ایک نظر ان عورتوں پر ڈالتے ہی اللہ وسائی کو غائب دیکھا تھا۔
”آنا تو تھا اس نے چوہدرائن جی، پر وہ جب سے موتیا آئی ہے نا چھٹیاں گزارنے، اللہ وسائی کا دھیان کسی اور کام میں نہیں لگتا۔”
شکوراں نے اسے بتایا تھا اور تاجور چونکی تھی۔
”موتیا آئی ہوئی ہے؟”
”ہاں جی چوہدرائن جی! آپ کو سلام کرنے نہیں آئی؟ اسے تو دو تین دن ہوگئے ہیں۔”
شکوراں نے تاجور کو جیسے تفصیل بتاتے ہوئے کہا۔
”پہلے کبھی لائی ہے اسے سلام کرانے جواب لائے گی۔” تاجور کے انداز میں عجیب کاٹ تھی۔
”بیٹی کو ڈاکٹر بنارہی ہے تو دماغ ان دونوں کا خراب ہونے لگ گیا ہے۔”
”ٹھیک کہہ رہی ہیں چوہدرائن جی پر میں سمجھاؤں گی اسے کہ موتیا کو بھیجے آپ کے پاس۔” شکوراں نے لقمہ دیا۔
”ہاں! اس سے کہنا دانے چننے بھیجے بیٹی کو صرف ڈاکٹری سکھانی ہے اس نے؟ عورتوں والا کوئی کام نہیں سکھانا؟” تاجور نے جیسے سلگ کر کہا تھا۔
”تو اور کیا، ڈاکٹری بھی چوہدریوں کی مہربانی سے ہوئی ہے اس کی ورنہ کہاں خرچے پورے ہونے تھے گامو سے اس کی پڑھائیوں کے۔ یہ تو چوہدرائن جی آپ اور چوہدری صاحب کے بڑے دل کی نشانیاں ہیں۔”
شکوراں کو ایک بار پھر موقع ملا تاجور کو مکھن لگانے کا اور اس نے ہمیشہ کی طرح موقع ضائع نہیں کیاتھا۔
تاجور جیسے جھاگ کی طرح بیٹھی تھی۔ ہاں یہ وہی تو تھے جنہوں نے موتیا کو پڑھایا تھا۔ ورنہ ان کے پلّے کیا تھااور اس احسان کی وجہ سے اللہ وسائی اس کے پیر پکڑتے نہ تھکتی تھی اور گامو پانی سے مٹی ہوگیا تھا ان کی چوکھٹ کی۔
بالکل اسی وقت باہر مردان خانے سے گامو کی ہوک بھری آواز گونجنے لگی تھی۔
دل دریا سمندروں ڈونگے
تے کون دلاں دیاں جانے ہُو
تاجور ٹھٹکی تھی۔ وہ گامو کی آواز پر اسی طرح ہمیشہ ٹھٹکتی تھی۔ ایک لمبا عرصہ اس نے حویلی کے مردان خانے میں اس کی آواز گونجنے نہیں دی تھی مگر پھر چوہدری کرامت کی موت کے بعد گامو ایک بار پھر مردان خانے آکر یہ کلام پڑھنے لگا تھا اور چوہدری شجاع کو اس کی آواز کسی ٹھنڈے پھاہے کی طرح لگنے لگی تھی۔ چوہدری کرامت کے چہلم تک گامو روز بلاناغہ آکر مردان خانے میں سارا سار ا دن بیٹھا چوہدری کرامت کے احسان اور نیکیاں گنتا روتا، حق باہو کا کلام پڑھتا رہا اور وہ چالیس دن تاجو رکے اندر جو بھی آگ تھی وہ بھی ٹھنڈی ہی رہی۔ گامو بے ضرر تھا، اس نے کیا لے جانا تھا اس حویلی سے اکھاڑ کے، تاجورنے جیسے خود کو سمجھا لیا تھا۔ گاؤں میں اب بھی موتیا کے نام کی باز گشت اُڑتے اُڑتے تاجور کے کانوں تک پہنچتی رہتی پر وہ تکبر سے اسے جھٹکتی رہتی۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});