دانہ پانی — قسط نمبر ۱

گندم کی ایک بوری کا منہ کھلا ہوا تھا اور اُس کے برابر میں گندم کی چند اور بوریاں بھی پڑی ہوئی تھیں۔ تاجور برآمدے میں ایک اونچے موڑھے پر بڑے کروفر سے بیٹھی ہوئی تھی اور اُس کے پاس شکوراں اور کچھ دوسری ملازمائیں تھیں۔ حویلی کے صحن میں عورتیں قطار بنائے کھڑی تھیں اور باری باری آگے آکر اس حویلی کی نئی بہو سے پہلی خیرات لے رہی تھیں۔ شکوراں برتن بھر بھر کے بوری سے دانے تاجور کو دیتی اور وہ عورتوں کی جھولی، چادر یا لائے ہوئے برتنوں میں اُنڈیل دیتی اور ساتھ اُن کی دعائیں لیتی اور بڑے کروفر سے اُن دعاؤں کا جواب بھی دیتی۔ لیکن کسی کو آگے بڑھ کر خود کو چھونے نہ دیتی۔ اللہ وسائی بھی اُسی قطار میں کھڑی تھی جب اُس نے ایک بوڑھی عورت کو آگے بڑھ کرتاجور کے سر پر پیار دینے کی کوشش کرتے دیکھا اور تاجور کو بے حد غرور کے ساتھ اُس کا ہاتھ جھٹکتے دیکھا۔
”اس کی ضرورت نہیں ہے امّاں!” اُس کے کہنے پر شکوراں نے بڑی درشتی سے اُس عورت کو پیچھے ہٹاتے ہوئے کہا۔
”پتا نہیں لگتا تم لوگوں کو، کتنے گندے ہاتھ ہیں تیرے اور بی بی صاحبہ کے سرپر پھیر کر اُن کے بال بھی گندے کرے گی۔ پاکی پلیدی کا کچھ پتا نہیں تجھے۔” وہ عورت کچھ خجل سی ہوگئی اور اُس نے ہاتھ اٹھا کر کہا۔
”اللہ بی بی اور چھوٹے صاحب کی جوڑی سلامت رکھے۔”
”ہاں ہاں! ٹھیک ہے۔ اب دانے لے اور آگے چل۔”
شکوراں نے کٹوری تاجور کو پکڑاتے ہوئے اُس عورت کی چادر پھیلائی تھی اور تاجور نے کچھ کہے بغیر اُس میں دانے ڈال دیئے تھے۔
اللہ وسائی کے آگے آنے سے پہلے ہی تاجور اُسے دیکھ چکی تھی اور تاجور کی نگاہ جہاں مرکوز ہوئی تھی۔ یہ کیسے ممکن تھا کہ شکوراں تاجور کی نگاہ نہ پہچانتی ۔
”آؤ اللہ وسائی!” تاجور نے خود اُسے نام لے کر پکارا تھا اور جیسے پورے گاؤں کی عورتوں کے سامنے لمحہ بھر کے لئے اللہ وسائی کا سیروں خون بڑھ گیا تھا۔ چوہدریوں کی بہو کو نہ صرف اُس کا چہرہ یاد تھا بلکہ نام بھی یاد تھا۔
”بابا جان کی دُعا سے دس سال بعد گودہری ہورہی ہے نا تمہاری۔” تاجور نے بلند آواز میں پورے گاؤں کے سامنے اعلان کرنے والے انداز میں کہا تھا۔ اللہ وسائی اُسی طرح ہاتھ جوڑے کھڑی رہی۔
”اسے دو کٹوری دینا، یہ تھتھی بھی تو ہے نا۔”

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

تاجور نے مسکراتے ہوئے شکوراں سے کہہ کر اللہ وسائی کو دیکھا جس کا رنگ فق ہوا تھا اور وہاں کھڑی عورتوں کی پوری قطار نے جیسے بہ یک وقت قہقہہ لگایا تھا۔
تاجور نے پہلی بار وہاں کوئی ”مزاح کی بات” کی تھی اور کسی کو ہنسی نہ بھی آرہی ہو تو بھی ہنسنا لازم تھا۔ صرف چادر پھیلائے ہوئے اللہ وسائی تھی جو شرم سے پانی پانی ہوگئی تھی۔ اُس سے اُس دن سرہی نہیں اٹھایا گیا تھا نہ اُس کی زبان سے کچھ نکلا تھا۔ وہ کچھ بولتی تو تھتھی کہلاتی اور سب اُس پر ہنستے۔ اللہ وسائی اُس دن سارا راستہ روتی آئی تھی۔
”میں نے آئندہ دانے لینے حویلی نہیں جانا گامو!” اُس نے گھر آتے ہی گامو کو سب کچھ کہہ سنایا تھا۔ اُس کا بھی دل برا ہوا تھا لیکن اُس نے اللہ وسائی سے کہا تھا:
”تجھے کتنی بار کہا ہے، وہ پیر صاحب کی بیٹی ہیں جن کے فیض سے ہمارا گھر آباد ہونے جارہا ہے۔ چوہدری صاحب کی بہو ہیں جن کے گھر سے آنے والے دانوں سے ہمارا چولہا جلتا ہے ۔ تو دل میلا نہ کیا کر نہ برا ماناکر اُن کی بات کا ۔ دیکھ نا، انہوں نے سارے پنڈ کو چھوڑ کر صرف تیرے ساتھ مذاق کیا۔”
گامو نے جیسے اُسے تسلی دینے کی کوشش کی تھی۔ پر اللہ وسائی اُس کی بات پر جیسے بلبلا اُٹھی تھی۔
”اس گاؤں میں آج تک کبھی کسی نے مجھے تھتھی نہیں کہا۔ کبھی کوئی مجھ پر نہیں ہنسا۔ آج اُن کی وجہ سے گاؤں کی عورتیں ہنسی ہیں مجھ پر۔ کل وہ تھتھی تھتھی کہہ کر گلیوں میں بلائیں گی مجھے۔” اللہ وسائی پھر روپڑی تھی۔
”نہ رو اس طرح اللہ وسائی! جانے دے پیر صاحب کا احسان اتنا بڑا ہے کہ اُن کی بیٹی کو سات خون معاف ہیں۔ تو غصّہ اور رونا چھوڑ۔ یہ دیکھ کیا لایا ہوں میں۔” گامو نے اس کا دل بہلاتے ہوئے ایک پوٹلی کھول کر اُس میں سے خوبصورت کپڑے نکالے تھے جو ایک ننھے بچے کے تھے ۔ اللہ وسائی یک دم رونا بھولی۔
”یہ کہاں سے لایا ہے تو؟”
”جہاں سے بھی لایا ہوں۔ تو یہ دیکھ ہیں کتنے سوہنے۔ جب ہماری دھی یہ پہنے گی تو شہزادی لگے گی بالکل۔”
”ہاں روپ والی شہزادی! میں کہتی ہوں تاجور بی بی جیسی سوہنی ہو پران جیسا غرور نہ ہو اس میں۔”
اللہ وسائی نے بے اختیار کہا تھا۔ گامو مسکرا دیا تھا۔ اللہ وسائی اب وہ ننھے ننھے رنگین کپڑے کھول کھول کر دیکھ رہی تھی۔
…٭…
گامو کی بھول تھی کہ اللہ وسائی سب بھول گئی تھی۔ وہ اس دن کے بعد سے دوبارہ حویلی نہیں گئی تھی۔ تب بھی نہیں جب مہینے کے بعد ہی تاجور کا پاؤں بھاری ہونے کی خبرگاؤں میں پھیلی تھی اور چوہدری کرامت نے اناج کی بوریاں ایک بار پھر کھول دی تھیں۔ اس نے تاجور کے لئے دعا کی تھی لیکن اس سے جاکر ملی نہیں تھی اور تاجور کو بھی اس کا خیال نہیں آیا تھا۔
وہ حویلی کی اگلی نسل کو دنیا میں لانے میں اتنی مصروف تھی کہ اللہ وسائی کے ساتھ ساتھ گامو ماشکی بھی اسے بھول گیا تھا۔
مراد ساتویں مہینے پیدا ہوا تھا اور قبل از وقت پیدا ہونے کے باوجود وہ صحت مند تھا۔ اس کی پیدائش پر حویلی میں کئی ہفتے جشن کا سماں رہاتھا اور اسی جشن میں کسی نے تاجور کو اللہ وسائی کے ہاں پیدا ہونے والی بیٹی کی خبر دی تھی۔
”بی بی صاحبہ! گاؤں کی عورتیں کہہ رہی تھیں کہ اللہ وسائی کی دھی تو رنگ روپ میں آپ پر چلی گئی ہے۔ وہ تو اللہ وسائی کی دھی لگتی ہی نہیں۔”
شکوراں نے اس دن تاجور کے بالوں میں تیل ڈال کر مالش کرتے ہوئے جیسے اُس کو خنجر گھونپا تھا۔
”تجھے بات کرتے ہوئے لحاظ نہیں آتا۔ کس کی اولاد کا رنگ روپ مجھ سے ملارہی ہے۔” تاجور خفا ہوئی تھی۔ شکوراں گڑبڑائی ۔
”نہیں نہیں بی بی صاحبہ! یہ میں تھوڑی کہہ رہی ہوں،یہ تو گاؤں کی عورتیں کہہ رہی ہیں۔ میں نے تو خوب لڑائی کی ان عورتوں سے کہ نام بھی لے رہی ہیں تو حویلی کی بہو کا۔”
تاجور عجیب بے قرار سی اپنے سرکی مالش کرواتی رہی۔
”تو نے دیکھی ہے اس کی بیٹی؟” کچھ دیر کی خاموشی کے بعد اس نے ایک دم پوچھا تھا۔
”نہیں بی بی صاحبہ! میں نے کہاں سے دیکھنا ہے۔ آپ کہیں تو دیکھ کے آؤں؟” شکوراں نے جھٹ تجسس سے کہا تھا۔
”ہاں! جا دیکھ کر آ اور مبارک باد بھی دے آنا میری طرف سے۔”
تاجور کو بھی عجیب کرید سی ہوئی تھی اور شکوراں بے اختیار اس طرح خوش ہوئی جیسے اس کی دلی مراد پوری ہوئی ہو ۔
گاؤں کی عورتیں فضول میں بک بک نہیں کررہی تھیں۔ شکوراں اللہ وسائی کی بیٹی پر پہلی نظر ڈالتے ہی دنگ رہ گئی تھی۔
دودھ جیسی رنگت اور گلابی ہونٹوں والی وہ بچی ہرنی جیسی آنکھیں کھولے کسی غزال کی معصومیت سے شکوراں کو دیکھ کر مسکرائی تو شکوراں کا دل بے اختیار پیار سے پگھلا تھا۔ اسے وہ اپنی ایک سال کی بتول جیسی لگی تھی۔ پر بتول اور اس میں ”روپ” کا فرق تھا۔
”یہ تو تیری بیٹی لگتی ہی نہیں۔” شکوراں اسے گود میں لئے کہے بغیر نہیں رہ سکی تھی اور اللہ وسائی نے موتیا اس سے جھپٹ لی تھی۔
”میری نہیں تو اور کس کی بیٹی ہوگی۔ چل جایہاں سے۔” وہ شکوراں سے خفا ہوگئی تھی۔ جب سے موتیا اس کی زندگی میں آئی تھی اسے کسی کی پروا نہیں رہی تھی۔ وہ اور گامواب موتیا کے گرد طواف کرتے رہتے تھے۔
…٭…
شکوراں نے واپس جاکرموتیا کا ویسا ہی نقشہ کھینچا تھا جیسا وہ دیکھ کے آئی تھی۔ وہ نہ جھوٹ بول سکی تھی نہ اس کی کوئی خامی بیان کرپائی تھی۔ تاجور نے ماتھے پر بل لئے اس کی بات سنی تھی اور پھر کوئی سوال نہیں کیا تھا۔
اس کے بیٹے مرادکا گاؤں میں کہیں چرچا نہیں ہوا تھا روپ رنگ میں۔ وہ صرف چوہدری شجاع کے بیٹے کے طور پر ہی یاد تھا سب کو لیکن جو قصیدے موتیا کے سننے میں آرہے تھے، وہ تاجور کو ہضم نہیں ہوپائے تھے۔
اللہ وسائی چھلہ نہاکر حویلی آئی تھی۔ وہ پہلی بار تاجور کو مراد کی مبارک باد دینے آئی تھی اور تاجور نہ چاہتے ہوئے بھی اُسے اندر بلانے پر مجبور ہوگئی تھی۔
”یہ کیا لائی ہو تھتھی ؟” تاجور نے جان بوجھ کر اسے اسی نام سے پکار ا۔ اللہ وسائی نے جیسے کان بند کرلئے تھے۔ اس کے اندر اب غصّہ رہا ہی نہیں تھا۔
”یہ گڑ ہے۔ موتیا چھلے کی ہوئی ہے تو بانٹ رہے ہیں پورے گاؤں میں۔” تاجور نے شکوراں کو اشارہ کیا تھا اور اُس نے وہ گڑپکڑ لیاتھا۔
”سنا ہے تمہاری بیٹی بڑی روپ والی ہے۔” تاجور نے کچھ عجیب سے انداز میں اللہ وسائی سے کہا تھا۔ اللہ وسائی کا چہرہ چمکا تھا۔
”شکر ہے رنگ روپ میں تجھ پر اور گامو پر نہیں چلی گئی۔”
تاجور نے عجیب کاٹ دار مسکراہٹ کے ساتھ کہا تھا۔
”ہاں جی! رنگ روپ تو آپ کالے آئی ہے چوہدرائن جی! میں جب بھی اپنے آپ کو دیکھتی تھی تو دُعا کرتی تھی، اللہ اسے آپ جیسا رنگ روپ اور نصیب دے، میرے جیسا نہیں۔ اللہ نے میری سن لی۔”
اللہ وسائی کے جملوں نے تاجور کو عجیب طرح سے چٹخایا تھا۔
”نہ تمہاری بیٹی کا رنگ روپ میرے جیسا ہے اور نہ ہی نصیب میرے جیسا ہونا ہے، تھتھی! میں پیروں کی دھی ہوں چوہدریوں کی بہو۔اور وہ کمی کمینوں، ماشکیوں کی اولاد۔”وہ تنک کر بولی تھی۔
”دانے ڈال دے اسے شکوراں! اس کے بھی اور اس کی بیٹی کے لئے بھی۔”
تاجور کہہ کر اٹھ گئی تھی پر جاتے جاتے اللہ وسائی کے منہ پر جیسے جوتا مار گئی تھی۔ شکوراں کو جیسے پہلی بار تاجور کے جملے اچھے نہیں لگے تھے۔
”چل تو دل پہ نہ لینا۔ یہ پیر اور سید غصّے کے بڑے ڈھاڈے ہوتے ہیں پر دل کے بہت اچھے ہوتے ہیں۔ تو لے جا یہ دانے۔ میں آؤں گی بتول کو لے کر کسی دن۔”
شکوراں نے تاجور کے جانے کے بعد بڑی مدھم آواز میں اس سے کہا تھا اور پھر اسے دانوں سے بھرا ہوا تھیلا تھما دیا۔
اللہ وسائی ایک لفظ بھی بولے بغیر چلی گئی تھی۔ شکور اں اندر کمرے میں آئی۔
”بی بی صاحبہ! یہ گڑ کا کیا کرنا ہے؟”اس نے اللہ وسائی کے لائے ہوئے گڑ کا پوچھا۔
” باہر پھینک دے۔ پتا نہیں کون کون سے ٹونے کرکے لے آتی ہیں عورتیں میٹھے پر۔” تاجور نے مراد کو جُھلاتے ہوئے کہا تھا۔ اس کے کانوں میں ابھی بھی اللہ وسائی کے جملے گھوم رہے تھے اور وہ یوں جھنجھلا رہی تھی جیسے اللہ وسائی اس کا رنگ روپ اور نصیب چوری کرکے لے کے گئی تھی اپنی بیٹی کے لئے۔
…٭…

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

الف — قسط نمبر ۱۲ (آخری قسط)

Read Next

عام سی عورت — مریم جہانگیر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!