دانہ پانی — قسط نمبر ۱

وہ تتلاتے ہوئے کہتی گئی تھی۔ تاجور نے ایک نظر اُن پھولوں کو دیکھا پھر اُس نے کہا :
”ٹھیک ہے رکھ دے اسے وہاں، اورشکوراں کسی سے کہہ اسے پانی پلادے۔”
یہ جیسے اس بات کا اشارہ تھا کہ اللہ وسائی اب یہاں سے جائے۔
شکوراں ”جی بی بی صاحبہ” کہہ کر اُسے لے کر وہاں سے چل دی تھی۔ تاجور فرش پر پڑی پھولوں کی اُس ٹوکری کو دیکھتی رہی جس سے اٹھنے والی خوشبو نے لمحوں میں اُس کے پورے کمرے کو معطر کردیا تھا۔ شکوراں کچھ دیر بعد اندر آئی اور اُس نے آکر ٹوکری اٹھاتے ہوئے کہا۔
”یہ کہاں رکھوں؟”
”باہر پھینک دو۔”
تاجور نے عجیب بے نیازی سے کہا۔ وہ اب سیج پر بیٹھنے کے لئے تیار ہورہی تھی۔ شکوراں پھول لئے باہر آگئی مگر انہیں پھینکنے کے بجائے اُس نے وہیں برآمدے میں انہیں دروازے کی چوکھٹ پر لٹکادیا۔ موتیا کے گجرے وہاں لٹکے اب اپنی خوشبو ہر طرف پھیلا رہے تھے۔
وہ چوہدری شجاع تھا جس نے اندر آتے ہوئے موتیا کے ان خوبصورت گجروں کو دیکھا تھا اور انہیں تاجور کی کلائیوں میں پہنانے کے لئے اتارلیا تھا یہ سمجھتے ہوئے کہ وہ گجرے تاجور کے لئے اُس کے باپ نے اپنے باغ سے چنوا کر بنوائے تھے۔
اُس رات اپنی سیج پر موتیا کے اُن گجروں کو پہنتے ہوئے تاجور کو ایک لمحہ کے لئے بھی یہ خیال نہیں آیا کہ وہ اللہ وسائی کے ہاتھوں کے بنے گجرے تھے جنہیں اُس نے باہر پھینکوایا تھا مگر جو چوہدری شجاع کے ہاتھوں اُس کی کلائیوں میں آکر لپٹ گئے تھے، اُس کی سیج کی زینت بن گئے تھے۔
…٭…

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

”تاجور بی بی ایسی حسین ہیں گامو کہ اُن سے نظر نہیں ہٹتی، میں تو دیکھتی کی دیکھتی رہ گئی۔”
اللہ وسائی نے اُس شام گامو کو تاجور کے بارے میں بڑے اشتیاق سے بتانا شروع کیا تھا جب گامو نے اُسے ٹوک دیا۔
”نہ نہ اللہ وسائی! پیر صاحب کی بیٹی کے حسن کے بارے میں کسی غیر محرم سے بات نہ کر، سیدوں کی بیٹیوں کے پیچھے بھی اُن کے بارے میں بات نہیں کرتے۔”
”پتا ہے مجھے پھر میں تمہیں کیسے بتاؤں کہ وہ دیکھنے میں کیسی لگتی ہیں۔”
”کچھ نہ بتا مجھے اور نہ ہی مجھے سننا ہے۔ بس تو اُن سے پوچھ کر اُن کی خدمت کے لئے چلی جایا کر۔” گامو نے اُس سے کہا تھا۔
”لے ایک طرف تو مجھے کام کرنے سے روک رہا ہے اور دوسری طرف اُن کی خدمت کے لئے جانے کا کہہ رہا ہے۔ ”
اللہ وسائی نے ہنس کر جیسے گامو کویاد دلایا تھا۔
”اُن کی خدمت کرنے سے کچھ نہیں ہوگا تجھے۔ اُن ہی کے گھر کے طفیل تو رب سوہنے نے نوازا ہے ہمیں۔”
”ہاں یہ بھی ٹھیک کہہ رہا ہے تو۔ پر تجھے وہاں کلام پڑھنے سے کیوں روک دیا انہوں نے ؟”
”جھلی بتایا تو ہے، سیدوں کی بیٹیاں غیرمحرموں کی آوازوں سے بھی پردہ کرتی ہیں۔ میری ہی غلطی تھی، میں اتنی اونچی آواز میں کلام پڑھنے بیٹھ گیا۔ اب ہمیشہ نیچی آواز میں کلام پڑھوں گا وہاں۔” گامو جیسے خود ہی اپنی اصلاح کرتے ہوئے بولا۔
”گامو! میں موتیا کے گجرے لے کر گئی تھی اُن کے لئے۔ اپنے ہاتھوں سے بناکر۔ پتا نہیں انہوں نے پہنے یانہیں۔”
اللہ وسائی کو رہ رہ کر خیال آرہا تھا۔ اُن پھولوں کو اُس نے طبیعت خراب ہونے کے باوجود بھی صبح سویرے جگہ جگہ سے چُنا تھا۔
”تو نے دل سے بنائے تھے تو انہوں نے ضرور پہنے ہوں گے۔” گامو نے جیسے اُس کی دل جوئی کی تھی۔
”ہاں! بنائے تو دل سے ہی تھے ۔ یہ پھول پروتے ہوئے کتنی بار سوئی لگی ہے انگلیوں میں۔”
اُس نے گامو کے سامنے اپنے ہاتھ کرتے ہوئے کہا۔ گامو جیسے تڑپ اٹھا تھا۔
”جھلئے! احتیاط سے کام کرنا تھا۔ کیسے ادھیڑ دی ہیں اپنی انگلیاں، اب کوئی سینے پرونے کا کام نہیں کرنا تونے، پھول تک نہیں پرونے تونے۔”
اللہ وسائی منہ میں دوپٹہ دبائے ہنستی ہی چلی گئی۔
”لو بھلا اب تو پھولوں سے بھی دور رکھے گا مجھے۔ ابھی تو پھولوں کا وقت آیا ہے۔ میں نے تو اپنی بیٹی کا نام بھی موتیا ہی رکھنا ہے گامو تاکہ اُس کے حسن کی خوشبو بھی پوری دنیا میں پھیلے۔”
گامو نے پیار سے اُسے دیکھا۔
”لے تو نے نام بھی سوچ لیا اور مجھ سے مشورہ بھی نہیں کیا۔”
”میں نے نام نہیں سوچا، پیر صاحب نے موتیا ہی پکڑایا تھا نا تجھے، میں نے تو اُسی وقت سوچ لیا تھا کہ اللہ اچھا وقت لائے تو بس موتیا ہی نام ہوگا اُس کا ۔” اللہ وسائی نے مسکراتے ہوئے کہا۔ گامو سرہلا تا چلا گیا۔
”ہاں! پیر صاحب نے توموتیا ہی دیا تھا۔ تو بس موتیا ہی ہوگا اُس کا نام ۔”
…٭…
شکوراں نے اگلی صبح وہ گجرے تاجور کے بستر کے برابر پڑی میز پر دیکھے تھے اور اُس نے پلک جھپکتے میں اُنہیں پہچانا تھا۔
”یہ گجرے یہیں رہنے دینا، چوہدری صاحب نے پہنائے تھے مجھے۔مرجھا بھی جائیں نا تو کوڑے میں مت پھینکنا۔ کہیں مٹی میں دبا دینا۔”
اپنے گیلے بال سلجھاتے ہوئے تاجور نے شکوراں سے کہا تھا اور شکوراں ڈر کے مارے یہ نہیں کہہ سکی کہ وہ اللہ وسائی کے گجرے تھے۔
”جی بی بی صاحبہ!” کہہ کر وہ بات گول کر گئی تھی۔ صبح سویرے اپنی شامت بلانے کا اُس کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔
…٭…
”یہ پانی کتنا کھارا ہے۔” ناشتے پر تاجور نے پانی کا ایک گھونٹ بھرتے ہی چوہدری شجاع سے ناک بھوں چڑھا کر کہا تھا۔
”اچھا! مجھے تو ٹھیک ہی لگ رہا ہے۔ گھر کی کھوئی کا پانی ہے۔” شجاع نے اپنی حسین و جمیل بیوی کی چڑھی ہوئی ناک اور ماتھے کے بل دیکھے اور پانی کا ایک گھونٹ لے کر جیسے پانی چکھا، اُسے وہ ٹھیک ہی لگا تھا۔
”ہمارے گھر کا پانی بڑا میٹھا ہوتا ہے۔ میں بابا جان سے کہوں گی، وہ بھجوادیا کریں۔” تاجور نے وہ پانی وہیں اُسی طرح گلاس میں چھوڑتے ہوئے کہا۔
”اتنا کھارا پانی تو میرے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔”
شجاع اس کی بات پر ہنس پڑا تھا۔
”دس میل دور ہے تمہارا گاؤں، کیسے بھیجیں گے اور کتنا بھیجیں گے۔”شجاع نے جیسے اُسے یاد دلایا۔
”وہ بھیج دیں گے میرے لئے ۔ ہر روز ایک بھائی بھی دینے آئے تو آٹھ دن تو گھر کے لوگ ہی بھگتا دیں گے پھر اُن سمیت ملازم وغیرہ آجائیں گے۔”
شجاع نے لاڈ پیار اور نازو نعم کی اُس انتہا کے بارے میں سوچا تھا جس کی عادی اُس کی نئی نویلی دلہن تھی۔
”بیٹا! اب گھر کے مرد پانی ڈھوتے اچھے تھوڑی لگتے ہیں۔ گاؤں کے کنویں کا پانی بڑا میٹھا ہوتا ہے میں گامو ماشکی سے کہوں گا، وہ دے جایا کرے گا تمہارے لئے پانی۔”
چوہدری کرامت نے اُن کی گفتگو میں پہلی بار مداخلت کی ۔ تاجور کے ذہن میں گامو ماشکی کا نام گونجا تھا۔ اُس نے صرف چوہدری کرامت کو دیکھا اور کچھ کہا نہیں۔
پندرہ منٹ بعد گامو ماشکی حویلی پانی پہنچا گیا تھا اور تاجور ذہن بنائے بیٹھی تھی کہ وہ اس میں بھی نقص نکالے گی مگر پہلا گھونٹ لیتے ہی تاجور کچھ بول نہیں سکی تھی۔ وہ ایسا ٹھنڈا میٹھا پانی تھا کہ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی غٹاغٹ پیتی چلی گئی۔ چوہدری کرامت اور شجاع نے مسکراتے ہوئے ایک دوسرے کو دیکھا تھا۔
”ہاں! یہ کچھ بہتر ہے پر ہمارے گھر کے کنویں جیسا نہیں ہے۔”
تاجور نے گلاس رکھ کردوپٹہ ٹھیک کرتے ہوئے کہا تھا۔ چوہدری کرامت ہنس پڑاتھا۔
”وہ پیر ابراہیم کے گھر کا پانی ہے، اُس کا اور میرے گھر کے پانی کا کیا مقابلہ ۔ اب تم آگئی ہو تو میرے گھر کے کنویں کے پانی میں بھی وہی مٹھاس آجائے گی۔ انشاء اللہ ۔”
تاجور کچھ بول نہیں پائی چوہدری کرامت کی اس بات کے بعد۔ گامو ماشکی کے لائے ہوئے پانی کا ذائقہ اُس دن تاجور کی زبان پر سارا دن رہا۔ چوہدری کرامت کے سامنے یہ اعتراف نہیں کرسکی کہ گاؤں کے کنویں کا وہ پانی جو گامو ماشکی لایا تھا، وہ پیر ابراہیم کے گھر کے پانی سے بھی میٹھا اور ٹھنڈا تھا۔
…٭…

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

الف — قسط نمبر ۱۲ (آخری قسط)

Read Next

عام سی عورت — مریم جہانگیر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!