دانہ پانی — قسط نمبر ۱

تاجور برستی بارش میں حویلی پہنچی تھی اور چوہدریوں کی بہودیکھنے کے لئے گاؤں کے وہ سارے لوگ اُمڈ آئے تھے جو کسی نہ کسی وجہ سے بارات کے ساتھ نہیں جاسکے تھے، ورنہ چوہدری کرامت نے پورے گاؤں کو بیٹے کی بارات میں مدعو کیا تھا۔
تاجور بگھی سے چادر کا گھونگھٹ کاڑھے حویلی کے صحن میں اُتری تھی اور کسی نے اُس پر چھتری تان لی تھی۔ کسی عورت نے اُس کا منہ نہیں دیکھا تھا نہ کسی کو اتنی ہمت ہوئی تھی کہ وہ آگے بڑھ کر دلہن کامنہ دیکھنے کے لئے چادر ہٹاتا۔ اُس کارعب اس لئے تھا کہ وہ چوہدریوں کی بہو تھی اور دھاک اس لئے بیٹھ گئی تھی کہ پیروں کی وہ بیٹی جھوک جیون میں بارش کے ساتھ آئی تھی۔
شکوراں کسی باڈی گارڈ کی طرح تاجور پر تنبو جتنی لمبی ریشمی کڑھائی والی کالی چادر ڈالے اُس کو ان عورتوں سے گزارتے ہوئے اندر لے جارہی تھی اور انہیں عورتوں کے درمیان سے گزرتے ہوئے تاجور نے پہلی بار گامو ماشکی اور اللہ وسائی کا نام سنا تھا۔ ایک عورت کسی دوسری سے کہہ رہی تھی۔
”کیا خوش بخت اولاد ہے گامو ماشکی کی کہ آج دائی نے اللہ وسائی کو پیٹ سے ہونے کی خبر دی اور آج ہی بارش ہونے لگی ۔ گامو تو مٹھائیاں بانٹتا پھر رہا ہے پورے گاؤں میں، حالانکہ ابھی پہلے مہینے ہی کون مٹھائیاں بانٹتا ہے۔ ” دوسری عورت نے ہنس کے کہا تھا۔
”مجھے لگتا ہے بیٹا ہوگا۔”
”مجھے لگتا ہے بیٹی ہوگی کیونکہ بارش رحمت بن کر آئی ہے۔”
تاجور وہاں سے بھسم ہوتے ہوئے گزری تھی۔ وہ پورا رستہ اپنی برکت اور بخت کی باتیں سنتی آئی تھی اور یہاں کسی نے ایک لمحے میں کسی اور کو اُس کے بخت اور برکت کے ہم پلّہ کردیا تھا اور وہ بھی وہ جو ابھی پیدا ہی نہیں ہوا تھا، بس ماں کے پیٹ میں آیا تھا۔ تاجور کا بس چلتا تو وہ ان عورتوں کو کھڑے کھڑے وہاں سے نکال دیتی وہ بھی دھکے دے کر، وہ اُس کے محل کے درباری تھے، کسی اور کے قصیدے کیسے پڑھ سکتے تھے۔
وہ ”آنے والا” تاجور کے دل و دماغ سے چپک کر بیٹھ گیا تھا۔ جھوک جیون میں چوہدری کرامت اور چوہدری شجاع کے بعد گامو، اللہ وسائی اور اُن کا ہونے والا بچہ وہ پہلے تین لوگ تھے، جن سے تاجور متعارف ہوئی تھی۔ وہ تعارف نہیں تھا وہ تیر تھا جو اُس کے سینے میں لگا تھا۔
”کوئی اندر نہ آئے، میں آرام کروں گی۔” اپنے کمرے میں پہنچتے ہی تاجور نے شکوراں سے سرگوشی میں کہا تھا۔ ملکہ کو تخلیہ چاہیے تھا اُس آگ کو بجھانے کے لئے جو چند جملوں نے لگادی تھی۔
…٭…

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

”یہ گامو کہاں ہے۔کوئی اسے لائے آکر حق باہو کا کلام پڑھے۔” چوہدری کرامت کو حویلی پہنچتے ہی گامو یاد آیا تھا۔ اور ساتھ ہی کسی نے اُنہیں گامو کے گھر اولاد کی خوش خبری کے بارے میں بتادیا تھا۔ چوہدری کرامت دل سے خوش ہوا تھا اور اُس کا یہ یقین بھی پختہ ہوا تھا کہ اُس کی بہو کے قدم پڑتے ہی صرف بارش نہیں آئی بے اولادوں کی گودیں بھی ہری ہونے لگی تھیں۔
”بلاؤ گامو کو مجھے کیوں اُس نے سب سے پہلے یہ خبر نہیں دی۔” چوہدری کرامت کے کہنے پر گامو کی ڈھنڈیامچی تھی اور وہ چوہدری کرامت کے سامنے آتے ہی اپنا رتبہ اور اوقات سب بھولتے ہوئے روتے ہوئے اس کے گلے لگ گیا تھا۔ چوہدری کرامت اُسے تھپکتے ہوئے نمناک ہوگیا۔
”چل گامو! پڑھ حق باہو کاکلام۔ میرے بیٹے کی بارات آئی ہے اور تیرے گھر اولاد کی خوش خبری آئی ہے، چل پڑھ اسی خوشی میں۔” چوہدری کرامت نے اُسے کہاتھا اور ساتھ ہی اپنے ملازموں کو کہا کہ گامو کے گھر آنے والی اس خوش خبری پر پورے گاؤں میں مٹھائی چوہدریوں کی طرف سے بٹے گی۔ گامو جیسے چوہدری کرامت کی اس عنایت پر اورمٹی ہوگیا تھا۔
…٭…
نہ میں عالم نہ میں فاضل نہ مفتی نہ قاضی ہو
نہ دل میرا دوزخ منگے نہ بہشتیں راضی ہو
نہ میں تیرے روزے رکھے نہ میں پاک نمازی ہو
باجھ وصال اللہ دے باہو دنیا کوڑی بازی ہو
اندر اپنے کمرے میں شربت پیتی تاجور گامو ماشکی کی آواز پرٹھٹکی تھی۔ اُس نے شکوراں کو دیکھا جو اُسی کی طرح جیسے ساکت بیٹھی تھی۔
”یہ کون ہے؟” گامو سانس لینے کے لئے رکا تو تاجور نے شکوراں سے پوچھا تھا۔ شکوراں جلدی سے اُٹھ کر باہر چلی گئی تھی ۔ تاجور اک بار پھر گامو ماشکی کو سننے لگی تھی۔ شکوراں واپس اندر آئی اور اُس نے بتایا۔
”گامو ماشکی ہے کوئی۔”
تاجور بری طرح چونکی تھی۔ اُس نے شکوراں سے مزید کوئی سوال نہیں کیا تھا۔ وہ شربت پیتے ہوئے وہ کلام سنتی رہی اور شکوراں بھی گم صم وہاں بیٹھی رہی۔” جب گامو ماشکی کی آواز بند ہوگئی تو شکوراں نے اپنے بازو تاجور کے سامنے پھیلاتے ہوئے کہا۔
”بی بی صاحبہ! دیکھیں میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے ہیں اس آدمی کی آواز سن کر ۔”
تاجور نے ایک نظر شکوراں کو دیکھا پھر بے حد سرد آواز میں اُس سے کہا:
”باہر مردان خانے میں کسی کے ہاتھ پیغام پہنچا ؤ کہ وہاں سے کوئی آواز اندر زنان خانے میں نہیں پہنچنی چاہیے۔ جو مردان خانے بیٹھے، آواز نیچی کرکے بیٹھے۔ ہم سیدوں کی اولاد ہیں۔ مردوں کی آوازوں سے بھی پردہ کرتے ہیں۔” شکوراں تاجور کا چہرہ دیکھ کر رہ گئی مگر کوئی سوال کئے بغیروہ برق رفتاری سے اُٹھ کر کھڑی ہوگئی تھی۔
”تو کدھر جارہی ہے اللہ وسائی؟” حویلی کی طرف سے آتی ہوئی عورتوں میں سے ایک نے اللہ وسائی سے کہا جو حویلی جانے والے راستے پر اُنہیں نظر آئی تھی۔
”میں چوہدریوں کی بہو دیکھنے جارہی ہوں، بارات میں نہیں جاسکے میں اور گامو۔ میری طبیعت خراب تھی صبح سے۔ اب سنبھلی ہے تو آئی ہوں۔” اللہ وسائی نے کہا۔
”ارے جاکر آرام کر۔ اس حالت میں اس طرح لور لور نہیں پھرتے اور چوہدریوں کی بہو نے گاؤں کی کسی عورت کو پاس بھی نہیں پھٹکنے دیا کھوٹا کرے گی وقت خوامخواہ جاکے۔” ایک عورت نے اُسے منع کیا تھا۔
”نہ نہ! میں تو ضرور جاؤں گی۔ گامو ماشکی کی بیوی ہوں مجھے کیسے انکار کریں گے چوہدری صاحب۔”
اللہ وسائی نے اُن کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے آگے قدم بڑھادیئے تھے۔ موسلادھار بارش اب ہلکی پھوار میں تبدیل ہوگئی تھی مگر پھر بھی حویلی پہنچتے پہنچتے اللہ وسائی کے کپڑے بھیگ چکے تھے۔
بڑی چوہدرائن کے ہوتے ہوئے اللہ وسائی حویلی کا کام کاج کرنے اور دانے لینے کے لئے آتی رہتی تھی۔ اس لئے اُسے حویلی کے ہر کمرے کا پتا تھا۔
وہ شکوراں تھی جس نے بھیگے ہوئے کپڑوں والی اللہ وسائی کو روکا تھا۔ اللہ وسائی کے ہاتھوں میں موتیا کے پھولوں کی ٹوکری تھی۔ وہ اپنی چپل باہر والے برآمدے میں اتار کر اندر آئی تھی۔
”کدھر آرہی ہے تو؟” شکوراں نے اُسے چوہدری شجاع کے کمرے کے باہر جھڑکا اور اللہ وسائی کو بُرا لگا۔
”میں گامو ماشکی کی بیوی ہوں اللہ وسائی ۔ بہو کی منہ دکھائی کے لئے آئی ہوں۔ ”اندر آئینے کے سامنے دوپٹہ ٹھپک کرتی تاجور باہر سے آتی آواز سن کر ساکت ہوئی تھی۔
”تجھے بتایا نہیں کسی نے کہ بہو صاحب نہیں ملیں گی کسی سے ۔” شکور اں نے اُسی انداز میں اس سے کہا۔
”مجھ سے مل لیں گی۔ میں گامو ماشکی کی بیوی ہوں۔ وہ ماشکی ہے سارے گاؤں کا۔ اُسے کوئی انکار…”شکوراں نے بے حد بدتمیزی سے اُس کی بات کاٹی۔
”تجھے ایک بار کہہ دیا نا کہ بہو صاحبہ نہیں ملیں گی اور…”اس سے پہلے کہ شکوراں کچھ کہتی، اندر سے تاجور نے آواز دی تھی۔
”اسے آنے دو اندر۔ ”شکوراں بے یقینی سے کھڑی رہ گئی۔اللہ وسائی نے بڑے تفاخر سے اُسے دیکھا اور اُس دروازے کی طرف بڑھ گئی جو شکوراں نے اُس کے لئے کھولا تھا۔
اللہ وسائی کمرے میں جھجکتے ہوئے داخل ہوئی تھی۔ تاجور سامنے ہی کھڑی تھی۔ اور اُس پر پہلی نظر ڈالتے ہی اللہ وسائی فدا ہوگئی تھی ۔
”یا اللہ میری بیٹی کو بھی ایسا حسن دینا کہ جو دیکھے میری طرح دیکھتا ہی رہ جائے۔” اُس کے اندر کہیں ایک خواہش پیدا ہوئی تھی۔
تاجور بھی اُسے اسی طرح پلکیں جھپکائے بغیر دیکھ رہی تھی۔ اللہ وسائی آگے بڑھی تھی اور اُس نے پھولوں کی ٹوکری تاجور کے قدموں میں رکھ کے اُس کے مہندی رچے حسین پیر پکڑ کر رونا شروع کردیا تھا، ایک لمحہ کے لئے تاجور حواس باختہ ہوئی۔
”پیر صاحب کی دُعا سے دس سال بعد آج گود ہری ہوئی ہے میری۔ انہوں نے دُعا دی تھی مجھے کہ بیٹی ہوگی اور میں آج اُن کی بیٹی کے پیر دھونے آئی ہوں۔”
اللہ وسائی نے روتے اور تتلاتے ہوئے تاجور کو بتایا تھا اور تاجور کے جلتے وجود پر جیسے پانی نہیں شبنم گری تھی۔ تو اُس کو کھ میں آنے والی اولاد بھی اُس کے باپ کی دعاؤں کے طفیل تھی اور جس کی کوکھ ہری ہوئی تھی، وہ احسان فراموش نہیں نکلی تھی نہ ہی اپنی اوقات بھولی تھی۔ وہ وہیں آکر بیٹھی تھی جہاں اُسے بیٹھنا چاہیے تھا۔
تاجور کی آگ نہیں بجھی۔ غصّہ ٹھنڈا ہوگیا تھا۔
”چل اُٹھ، پیر دھونے کی ضرورت نہیں ہے۔” اُس نے اللہ وسائی کے ہاتھوں سے اپنے پاؤں چھڑالئے تھے۔ اللہ وسائی نے دوپٹے سے اپنے آنسو صاف کئے اور وہیں زمین پر بیٹھے موتیا کے پھولوں کے گجروں والی ٹوکری تاجور کی طرف بڑھا دی۔
”ہماری اوقات بس یہی لانے کی ہے۔ پیر صاحب نے بھی میرے گامو کو یہی پھول دیئے تھے’ میں بھی آپ کے لئے انہیں پھولوں کا گجرالائی ہوں۔”

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

الف — قسط نمبر ۱۲ (آخری قسط)

Read Next

عام سی عورت — مریم جہانگیر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!