دانہ پانی — قسط نمبر ۱

”پیر ابراہیم صاحب ہیں آپ؟ ” اُس نے اُن سے پوچھا۔ پیر ابراہیم نے اُس کی بجائے ان دونوں آدمیوں سے کہا:
”تم لوگ جاؤمیں تھوڑی دیر میں آتا ہوں مسجد۔” دونوں آدمیوں نے احترام سے سرجھکایا اور برق رفتاری سے وہاں سے چلے گئے تھے۔
”پیر صاحب ہمارے لئے دعا کردیں۔”
اللہ وسائی نے تتلاتے ہوئے پیرا براہیم سے کہا تھا۔ پیر ابراہیم نے نظر اُٹھا کر اُسے دیکھے بغیر گامو سے بڑی نرمی سے پوچھا۔
”کیا پریشانی ہے؟”
”دس سال ہوگئے ہیں پیر صاحب! اولاد نہیں ہے۔ خالی گھر ہے ہمارا، لوگ کہتے ہیں آپ سیّد ہیں، سیّدوں کی دُعا کبھی رد نہیں ہوتی۔” گامو ماشکی کو رونا آگیا تھا، پیر ابراہیم کے انداز اور آواز میں کچھ نہ کچھ ایسا تھا کہ اُس کا دل چاہ رہا تھا وہ اُن سے لپٹ کر دھاڑیں مار مار کر روئے۔
”میں سیّد نہیں ہوں،میری بیوی سیّدانی تھیں۔ میں توگنا ہ گار ہوں۔ اللہ کا بندہ۔” پیر ابراہیم نے بے اختیار کہا تھا۔
”اپنے آپ کو گناہ گار کہہ کر ہم کو گناہ گار نہ کریں پیر صاحب! بس ہمارے حق میں دعا کردیں۔” اللہ وسائی نے ہاتھ جوڑ کر کہا تھا۔پیر ابراہیم یکدم خاموش ہوئے تھے۔ ان پر جیسے کوئی عجیب سی کیفیت آنی شروع ہوگئی تھی۔ اُن کا سرخ و سفید رنگ یکدم بہت سرخ ہونے لگا تھا اور چہرے پر پسینے کے قطرے نمودار ہوگئے تھے، کچھ بھی کہے بغیر انہوں نے اپنے ہاتھ کی کلائی میںلپٹا موتیے کا ہار اتارا اور اس کو گامو کی اس کلائی میں پہنادیا جس سے وہ مشک کا منہ کھولتا تھا۔
”بیٹی دے گا اللہ سائیں۔ نیک، روپ والی، سات گاؤں جس کی بات کریں گے۔ اللہ نیک نصیب کرے اُس کے۔ نیکوں سے واسطہ ڈالے۔”
وہ کہہ کر رکے بغیر وہاں سے چلے گئے تھے اور گامو اور اللہ وسائی انہیں تب تک جاتے ہوئے بے یقینی سے دیکھتے رہے جب تک وہ غائب نہیں ہوگئے تھے۔ اُن کے جانے کے بعد گامو نے اپنی کلائی میں پہنائے جانے والے اس ہار کو پہلی بار دیکھا تھا جس کی خوشبو امرودوں کے باغ کی خوشبو کو گہنار ہی تھی۔ اُس نے اللہ وسائی کو دیکھا، وہ روتی جارہی تھی۔
…٭…

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

دلہن بنی تاجور آنکھیں بند کیے خوشی سے بگھی کی سیٹ پر پشت سے ٹیک لگائے بیٹھے بیٹھے سوگئی تھی، اُس کے قدموں میں بیٹھی اُسے پنکھا جھلتی شکوراں کی نظر تاجور کے چہرے پر جمی ہوئی تھی۔ تاجور کو وہ روپ آیا تھا جو شکوراں نے کسی کسی دلہن پر دیکھا تھا۔ اُس کے چہرے سے شکوراں کی نظر ہٹتی تو اُس کے قیمتی لباس اور گہنوں میں اُلجھ جاتی۔ اُس کے جسم پر کپڑوں سے زیادہ زیور نمایاں تھا۔ کون سا گہنا تھا جو اُس نے اس وقت نہیں پہن رکھا تھا۔ جھومر ٹیکے سے لے کر نولکھا ہار اور گلو بند تک، کنگنوں سے لیکر پنجہ، پازیبوں تک وہ سرتاپازیور سے لدی تھی۔ شکوراں کی نظر الجھ الجھ جاتی، بھٹک بھٹک جاتی، تاجور کی نیند نے جیسے اُسے ایک موقع دے دیا تھا کہ وہ اُسے سر سے پیر تک جی بھرکر دیکھے۔ وہ تاجور ہی کی ہم عمر تھی اور اُن کے گھر میں شروع سے تاجور کی خدمت گار تھی، وہ خدمت گار جسے اب تاجور کی شادی کے بعد اس کے ساتھ ہی بھیج دیا گیا تھا۔ شکوراں کچے پکے راستے پر چلتی اورہر جھٹکے پر ہلتی بگھی کے اندر بیٹھی اُسے پنکھا جھل جھل کر تھک چکی تھی۔ تاجور اُسی کے کہنے پر چند لمحوں کے لئے آنکھیں بند کرکے اور سر ٹکاکے بیٹھی تھی ورنہ اُس کا خیال تھا اتنے جھٹکوں میں اُسے نیند کہاں آنے والی تھی مگرپتہ نہیں وہ کیسی تھکن تھی کہ بگھی کے اتنے جھٹکوں میں بھی کچھ دیر کے لئے تاجور کو اونگھ آگئی تھی۔ مگر پھر بگھی کا پہیہ کسی بڑے گڑھے میں گر کر نکلا تھا اور تاجور بھی جیسے اُس جھٹکے سے گرنے لگی تھی جب شکوراں نے پھرتی سے اُسے سنبھالا تھا۔ تاجور نے جیسے کرنٹ کھا کر آنکھیں کھولیں اور اپنی نیند سے بھری آنکھوں کے ساتھ پہلے شکوراں کو اور پھر اُس بگھی کو دیکھا اور پھر یکدم اُسے یاد آیا تھا کہ وہ آج بیاہ کر اپنے سسرال جارہی تھی۔ پیر ابراہیم کی نازو نعم میں پلی بیٹی پرائی ہوگئی تھی۔ تاجور کا دل یک دم بھر آیا۔ وہ رخصتی کے وقت بھی روئی تھی اور پھوٹ پھوٹ کے روئی تھی حالانکہ چوہدری کرامت’ پیر ابراہیم کا پرانا دوست تھا پھر بھی تاجور کو غم تھا کہ وہ پردیس جارہی تھی۔
”نہ تاجور بی بی! اب نہ رونا۔” شکوراں نے اس کی آنکھوں میں اُبھر تی نمی کو دیکھتے ہی لپک کر اُسے وہ رومال پکڑایا تھا جس پر پھول کڑھے تھے۔ تاجور نے اسے تھام کر اپنی آنکھیں اُس سے پونچھی تھیں۔
”ابھی کتنا رستہ باقی ہے؟” اُس نے شکوراں سے یوں پوچھا جیسے وہ بگھی چلا رہی تھی۔
” پتا نہیں تاجور بی بی! میں دیکھتی ہوں۔”
شکوراں نے کہہ کر بگھی کی کھڑکی کا پردہ ہٹایا اور کھڑکی کو کھولنے کی کوشش کی۔ کھڑکی چند لمحوں میں ہی کھل گئی تھی اور اُس کے کھلتے ہی گرم لو کے کچھ تھپیڑے اندر آئے تھے۔ وہ بگھی سوکھے کھیتوں کے بیچوں بیچ چلچلاتی دھوپ میں ایک کچے رستے پر ایک دوسری بگھی کے پیچھے دوڑ رہی تھی، جس میں چوہدری شجاع اور چوہدری کرامت بیٹھے ہوئے تھے، اور تاجور کی بگھی کے پیچھے وہ تیس تانگے دوڑے چلے آرہے تھے جو اس کی بارات لینے گئے تھے۔
”ہائے میرے ربّا! اتنا سوکھا۔ جھوک جیون میں تو پتا نہیں کب سے بارش نہیں ہوئی۔ ”
شکوراں جیسے باہر سوکھے کھیت دیکھ کر ہکا بکا رہ گئی تھی۔ تاجور نے بھی کھلی کھڑکی سے ایک نظر باہر ڈالی تھی۔
پیرابراہیم نے اُسے بتایا تھا کہ چوہدری کرامت کے گاؤں میں تین سال سے بارش نہیں ہوئی اور چوہدری کرامت نے تاجور کا رشتہ بھی اسی امید اور آس پر لیا تھا کہ پیر ابراہیم کی بیٹی جس جگہ جائے گی خوشحالی لے کر آئے گی ۔ تاجو رکی خوش بختی کے کچھ ایسے ہی چرچے تھے ہر طرف۔
پیر ابراہیم نے تاجور کا رشتہ کرتے ہوئے اُس سے اس کی مرضی پوچھی تھی اور پھر اُسے چوہدری شجاع کو دور سے دکھا بھی دیا تھا اور تاجور نے بڑی خوشی سے چوہدری شجاع کے رشتے کے لئے ہاں کی تھی۔ وہ خوبرو تھا اور چوہدری کرامت کی حویلی میں چوہدرائن کی وفات کے بعد کوئی عورت نہیں تھی۔ تاجور نے جاکر جیسے وہ جگہ سنبھالنی تھی ۔ وہ حاکمانہ مزاج رکھتی تھی اور اپنے باپ کے عقیدت مندوں کی عقیدت سے واقف تھی۔ وہ اپنے حسن پرنازاں تھی اور ست بھرائی کے اعزاز پر بے حد مغرور۔ تاجور نے ”تھوڑ ” کبھی دیکھی ہی نہیں تھی۔ نہ رنگ روپ میں، نہ عزت میں، نہ پیار میں، نہ رزق میں اور نہ ہی قدر میں۔ باپ اُسے اس کی ماں کی وفات کے بعد اگر ہتھیلی کا چھالہ بناکر رکھتا تھا تو سات بھائی اُسے پلکوں پر اُٹھائے پھرتے تھے۔ تاجور نے ناں کبھی سنی ہی نہیں تھی اور ہاں کہنے کی اُسے عادت نہیں تھی۔
”بیٹا شوہر کی عزت کرنا، اُس کی پگڑی کا شملہ کبھی اپنے کسی کام سے نیچے نہ ہونے دینا۔”
پیر ابراہیم نے اسے رخصت کرتے ہوئے کہا تھا۔ وہ شاید کچھ اور بھی کہتے مگر اُس کے سسر نے آگے بڑھ کر انہیں روک دیا تھا۔
”تمہاری بیٹی نہیں رہی اب ابراہیم! ہماری بیٹی ہوگئی ہے اور میری بیٹی کو اتنی نصیحتیں مت کرو۔” وہ بچپن کے دوست تھے، ایک دوسرے سے اس طرح کی باتیں کرلیتے تھے، ورنہ پیر ابراہیم کے سامنے تو کوئی سراُٹھا کر بھی کھڑا نہیں ہوتا تھا۔
”اس کو راج کروانے کے لئے لے کر جارہا ہوں حکم دینے کے لئے۔ حکم سننے کے لئے نہیں۔” انہوں نے کہہ کر بات ختم کردی تھی۔ پیر ابراہیم مسکرا کر رہ گئے تھے۔ تاجور کا سر کچھ اور اُٹھ گیا تھا۔
شکوراں ایک بار پھر کھڑکی سے گردن باہر نکال کر دیکھنے لگی تھی اور اُس بار اُسی نے یک دم خوشی سے جیسے قلقاری مارتے ہوئے تاجور سے کہا:
”تاجور بی بی! میں نے بدلیاں دیکھیںہیں کالی اس طرف۔” ہاتھ کے اشارے سے تاجور کو ایک سمت کا بتا رہی تھی۔ تاجور نے بے یقینی سے اُسے دیکھا پھر خود بھی کھڑکی سے باہر جھانک کر اُس نے سوکھے کھیتوں کے پار آسمان پر واقعی سیاہ بادل اُمڈتے دیکھے۔
” آج آپ جھوک جیون آئی ہیں اور آپ کے برکت والے قدموں کے صدقے آج ہی اللہ نے جھوک جیون کی زمین کی بھی سن لی۔” شکوراں نے جیسے لہکتے ہوئے کہا۔ تاجور کے چہرے پر مسکراہٹ آئی تھی۔
وہ بادل صرف ان دونوں نے نہیں دیکھے تھے بلکہ اگلی بگھی میں بیٹھے چوہدری کرامت اور چوہدری شجاع نے بھی دیکھے تھے۔ اور پیچھے بھاگتے ٹانگوں میں بیٹھی ہوئی بارات نے بھی۔ پلک جھپکتے میں اُن بدلیوں نے آسمان گھیرا تھا اور پھر برسنے لگے تھے۔
جھوک جیون میں کوئی ایسا آیا تھا جس کے وجود کی برکت نے آسمان سے وہ پانی برسا دیا تھا جس کے برسنے کی دعائیں وہاں کے لوگ تین سالوں سے کرتے پھر رہے تھے۔
بگھی اب سرپٹ دوڑنے کے بجائے اُس برستے مینہ میں بہت سنبھل سنبھل کر چل رہی تھی اور اندر تاجور کسی ملکہ کی طرح غرور سے تن کر بیٹھی کھلی کھڑکیوں سے آنے والی بارش کے پانی میں بھیگے ٹھنڈے جھونکوں سے محظوظ ہورہی تھی، اور شکوراں ہمیشہ کی طرح تاجو ربی بی کی خوش بختی کی کرامات دیکھتے ہوئے اُس پر قربان جارہی تھی۔ سوکھے کھیت پانی کو یوں پی رہے تھے جیسے پتا نہیں کب سے پانی کے لئے ترسے تھے۔ وہ کچا رستہ جس پر بگھی بھاگ رہی تھی وہ بھی ابھی تک تیز بارش کے باوجود کیچڑ میں تبدیل نہیں ہوا تھا۔ زمین پانی پی رہی تھی اور پیتی ہی جارہی تھی۔
”دیکھ شجاع !پیروں کی اولادوں کا نصیب اور برکت دیکھی تو نے۔ اُن کے قدم جہاں پڑتے ہیں ویرانے آباد ہوجاتے ہیں۔ بنجر زمین پھوٹنے لگتی ہے۔”
چوہدری کرامت اگلی بگھی میں سفر کرتے ہوئے چوہدری شجاع سے کہہ رہا تھا۔
”بس تاجور کاکبھی دل نہ دکھانا، کبھی کسی چیز کے لئے منع نہ کرنا اُسے، وہ سیاہ کا سفید کرے سفید کو سیاہ، کرنے دینا۔ وہ پیر ابراہیم کی بیٹی ہے۔ اُس کے طفیل بھاگ لگے رہیں گے تجھے بھی اور تیری نسل کو بھی۔”
چوہدری کرامت نے حویلی پہنچنے کے رستے میں جیسے بیٹے کے لئے زندگی گزارنے کی حد بندی کردی تھی۔ وہ حویلی میں ملکہ نہیں بادشاہ لارہا تھا۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

الف — قسط نمبر ۱۲ (آخری قسط)

Read Next

عام سی عورت — مریم جہانگیر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!