دور کہیں گامو کی آواز گونج رہی تھی۔ لفظ سمجھ نہیں آرہے تھے مگر اُس کی آواز کی گونج گامو کے گھر آنے سے پہلے اللہ وسائی تک پہنچ گئی تھی۔ وہ تیز تیز ہاتھ چلاتی آٹا گوندھنے لگی۔ جب تک گامو گھر پہنچا، وہ آٹا گوندھ کر مٹی کا چولہا جلاچکی تھی اور اب لکڑیوں میں پھونکیں مار مار کر اُس آگ کو تیز کر رہی تھی تاکہ توا جلد گرم ہوجائے۔ لوہے کی پھونکنی لکڑیوں میں پھنسائے پھونکیں مار مار کر اللہ وسائی نے بالآخر آگ تیز کرلی تھی جب گامو گھر کے دروازے کا پٹ کھول کر اندر آیا تھا۔
”لے بھلی مانس! آج توچھاچھ آگئی چوہدری صاحب جی کے گھر سے۔”
گامو نے سلام دعا کے بعد تانبے کے برتن میں پڑی چھاچھ اُس کے پاس رکھتے ہوئے کہا۔
وہ اب اپنی مشک سے اپنے گھر کے پانی کے برتن بھر رہا تھا اور پھر وہ مٹی میں اٹے ہوئے اپنے ہاتھ پاؤں دھونے بیٹھ گیا تھا۔
اللہ وسائی نے کپڑے میں بندھے دانے کھولے اور اُنہیں اُس خالی برتن میں ڈالتے ہوئے شکر گزار انداز میں ہنسی جو آج خالی ہوا تھا اور آج ہی پھر بھر گیا تھا۔ پھر وہ چھاچھ کے برتن سے پیالوں میں چھاچھ اُنڈیلنے لگی تھی، گامو تب تک منہ ہاتھ دھوکے آگیا تھا۔
”سن گامو! پیر صاحب ملیں گے نا ہم سے؟”
اُس کے سامنے روٹی کی چنگیر رکھتی اللہ وسائی نے اُس سے پوچھا تھا۔
”کیوں نہیں ملیں گے ؟چوہدری کرامت کے گھر آنے والی ہے اُن کی بیٹی بہو بن کر اور ہم اُن کی بیٹی کے ہونے والے سسرال سے ہوں گے۔ ہم سے کیوں نہیں ملیں گے؟”
گامونے روٹی توڑنے سے پہلے چھاچھ کا گھونٹ لیتے ہوئے جیسے اکڑ کر کہاتھا۔
”لے توں آیا بڑا سمدھی۔” اللہ وسائی ہنسی تھی گامو کی اکڑ دیکھ کر۔
”پیر صاحب بڑے نیک ہیں بھلی لوک، کوئی گدی نہیں ہے اُن کی۔ کہتے ہیں اُن کو دعا ہے کسی کی کہ فیض ملے گا لوگوں کو اُن سے۔” گامو روٹی کھاتے ہوئے جیسے اُسے بتا رہا تھا۔
”ہم جیسے پتا نہیں کتنے آتے ہیں اُن کے پاس اور وہ ہر ایک سے ملتے ہیں۔ کسی کو ٹھکراتے نہیں، نا ں نہیں کرتے۔” گامو بڑی مرعوبیت سے بول رہا تھا۔
وہ آج برابر والے گاؤں میں پیر ابراہیم کے ڈیرے پر جانے والے تھے۔ پتا نہیں اولاد کے لئے انہوں نے کہاں کہاں دُعا کروائی تھی مگر پیر ابراہیم کے بارے میں کسی نے بتایا ہی نہیں تھا اور اب جب سنا تھا تو گامو حیران تھا کہ پہلے کیوں نہیں سنا۔
”سنا ہے اُن کی بیٹی ست بھر ائی ہے اور بڑی سوہنی ہے۔” اللہ وسائی نے گاؤں کی عورتوں سے سنی سنائی باتوں کی تصدیق جیسے گامو سے کی تھی۔
”لے مجھے کیا پتا کہ سوہنی ہے یا نہیں مگر ست بھرائی ہے پھر پیر صاحب کی بیٹی ہے۔ اُس کے خوش نصیب ہونے کو اتنا ہی کافی ہے۔”
گامو نے جواباً کہا تھا۔
”یہ تو نے ٹھیک کہا گامو!” اللہ وسائی نے اس کی ہاں میں ہاں ملائی تھی۔
”اور دیکھ تو پنڈ کی عورتوں کے ساتھ بیٹھ کر چوہدریوں کے گھر کی عورتوں کی باتیں نہ کیا کر۔ ہمیں رزق ملتا ہے ان کے گھر سے ہم باتیں کرتے اچھے نہیں لگتے اُن کے بارے میں۔” گامو نے جیسے بڑی سنجیدگی سے بیوی کو سمجھایا تھا۔
”میں باتیں نہیں کرتی گامو! عورتیں کرتی ہیں، میں تو بس سنتی ہوں۔” اللہ وسائی نے جیسے اپنی صفائی دی۔
”تو سنا بھی نہ کر، اُٹھ جایا کر۔” گامو نے کہا۔
اللہ وسائی نے کچھ شرمندہ سا ہو کر چھاچھ کا پیالہ منہ سے لگالیا۔
…٭…
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
پیر ابراہیم کا ڈیرہ کئی دہائیوں سے دُعا کے لئے آنے والے لوگوں سے بھرا رہتا تھا۔ وہ نہ روایتی پیر تھے نہ کوئی گدی نشین، نہ ہی وہ تعویذ دھاگے کرتے تھے، پھر بھی لوگ اُن کے پاس آکر بیٹھتے تھے، مسئلے بتاتے تھے، دعا کرواتے تھے۔ لوگ کہتے تھے اُنہیں ان کے بچپن میں کسی بزرگ کی دعا لگی تھی اور جیسے ان کا ہاتھ فیض والا ہاتھ ہوگیاتھا۔ پیرابراہیم کو اس کااحساس بڑے ہوکر ہوا تھا کہ فیض بانٹنے والے پر کیسا بھاری بوجھ ہوتا ہے۔
وہ جدی پشتی زمین دار تھے اور اُن کی شادی سیّد نہ ہونے کے باوجود سیّدوں میں ہوئی تھی۔ وہ خود جتنی عبادت کرنے والے انسان تھے اُنہیں بیوی بھی ویسی ہی عبادت کرنے والی ملی تھی۔ کہتے ہیں جوانی کی عبادت اللہ کو بہت پیاری ہوتی ہے اور وہ دونوں میاں بیوی جوانی میں عبادت کرنے والے تھے اورپیر ابراہیم کو یقین تھا اُن سے ملنے والا فیض تب ہی جاری رہ سکتا تھا جب وہ خود سیدھے رستے پر رہتے۔ جس دن وہ اللہ کی حدیں توڑتے وہ ڈیرہ ختم ہوجاتا۔
…٭…
گامو اور اُس کی بیوی ناشتہ کرکے اُس دن صبح سویرے نکلے تھے۔ جب تک وہ دوسرے گاؤں میں پیرابراہیم کے ڈیرے پر پہنچے تو سہ پہر ہوچکی تھی اور انہیں وہ ڈیرہ خالی ملا تھا۔
”پیر صاحب سے ملنے کے لئے آئے ہیں۔” گامو نے ایک آدمی سے کہا جو ڈیرے کے باہر صحن میں کبوتروں کو دانہ ڈال رہا تھا۔
” پیر صاحب تو اُٹھ گئے۔ جلدی آنا تھا۔”
اُس ملازم نے جواباً اُسے کہا تھا۔ گامو کچھ مایوس ہوا۔
”اٹھ گئے؟ ہم تو دس میل چل کر آئے ہیں دوسرے گاؤں سے۔”
وہ ملازم ہنس پڑا تھا۔
”یہاں تو لوگ بیس بیس میل چل کر بھی آتے ہیں۔ اگلے ہفتے آجانا۔ وہ روز روز بیٹھتے بھی نہیں کہ میں تمہیں کہوں رات رک جاؤ اور کل مل کے چلا جانا۔”
ملازم نے جیسے بڑی لاپروائی سے اُن سے کہا تھا۔ گامو اور اللہ وسائی بڑی مایوسی سے ایک دوسرے کا چہرہ دیکھنے لگے تھے۔
”بڑی مصیبت میں ہیں ہم بھائی! کوئی اور طریقہ نہیں ہے؟” اللہ وسائی نے اُس ملازم کی منت کرتے ہوئے کہا۔
”یہاں سارے مصیبتوں والے ہی آتے ہیں کوئی تم اکیلے تھوڑی ہو ضرورت مند۔” وہ ملازم کہتے ہوئے وہاں سے چلا گیا تھا۔ گامو کندھے پر ڈالی ہوئی مشک سے اُس برتن میں پانی ڈالنے لگا جو کبوتروں کے لئے رکھا تھا۔ اللہ وسائی کے برعکس وہ بڑا بے فکر نظر آرہا تھا۔
”اب کیا ہوگا گامو؟” اللہ وسائی نے اُس سے پوچھا۔
”کچھ نہیں ہوگا چل واپس چلیں۔ اب اگلے ہفتے آجائیں گے۔”گامو چلتے ہوئے اُس امرودوں والے باغ کی طرف جانے لگا جہاں سے گزر کر وہ ڈیرے تک پہنچے تھے۔ اللہ وسائی نے یکدم دلبرداشتہ ہوکر رونا شروع کردیا۔
”تجھے کہا بھی تھا جلدی چل پر تونے کہا نہیں پہنچ جائیں گے آرام سے۔” وہ اب گامو سے لڑنے لگی تھی۔
”مجھے کیا پتہ تھا اتنی دور ہوگا ڈیرہ میں کون سا روز روز آتا ہوں یہاں۔ پہلی بار آیا تھا ہوگئی بھول چوک آنے میں۔” گامو نے بیوی کو روتے دیکھ کر جیسے صفائی دی تھی۔
”میری قسمت میں ہے ہی نہیں اولاد،دوسری شادی کرلے گامو!” اس کے ساتھ چلتی اللہ وسائی یکدم بہت دل برداشتہ ہوکر بولی تھی۔
”جھلی ہوگئی ہے تو؟ اگر تیری قسمت میں نہیں ہے تو پھر سمجھ دونوں کی قسمت میں نہیں ہے۔ اِس طرح مت مشورے دے مجھے۔” گامو نے اُسے جھڑک دیا تھا۔
”تیرے سر پر سوکن لاکر کون بٹھائے گا۔”
”کیوں؟” اپنی ناک چادر سے سڑکتی اللہ وسائی نے پوچھا۔
”تیری بددعائیں کون لے؟ کالی زبان ہے تیری۔” گامو نے کانوں کی لوویں چھوتے ہوئے کہا۔
”میں کیوں دوں گی تجھے بددعائیں؟” اللہ وسائی بے ساختہ بولی۔
”زبان سے نہیں دل سے تودے گی نا۔ اور دل سے نکلی بد دعا سیدھا دوزخ میں لے جاتی ہے بندے کو۔”
اس کی بات پر اللہ وسائی ایک بار پھر رونے لگی تھی۔
”نہ رو جھلیے! چل تجھے حق باہو صاحب کا کلام سناتا ہوں۔ راستہ کٹ جائے گا ہمارا۔” اُس نے اللہ وسائی کا کندھا تھپک کر نرمی سے اُسے کہا تھا۔ اللہ وسائی نے ناک اور آنکھیں دوپٹے سے رگڑتے ہوئے صاف کرلی تھیں، گامو اسے رونے نہیں دیتا تھا۔ پھاہا بن کر اُس کے زخموں کو مندمل کردیتا تھا۔
حق باہو کا کلام پڑھتے ہوئے گامو نے مشک کا پانی امرود کے درختوں کو دینا شروع کردیا۔
پیر ابراہیم نے اسی باغ میں ایک جگہ سے گزرتے ہوئے گامو کی آواز میں وہ کلام سنا تھا۔ وہ کلام جتنا پرسوز تھا، اُس کو پڑھنے والے کی آواز اُس سے بھی زیادہ پرسوز۔ وہ مسجد میں امامت کرانے جاتے جاتے اُس آواز کے پھندے میں آئے تھے اور پھر جیسے کھنچے چلے آئے تھے اُس طرف جہاں سے گامو کی آواز آرہی تھی۔ وہ ان ہی کاباغ تھا اور وہاں پرندے چہچہاتے تھے پر آج گامو نے جوتان لگائی تھی، وہ پیر ابراہیم کے دل کو مٹھی میں کرلے گئی تھی۔ آواز کو کھوجتے، انہوں نے ایک درخت کو پانی دیتے گامو کو دیکھ لیا تھا اور اللہ وسائی کو بھی۔ جب گامو سیدھا ہوا تھا تو اُس نے بھی پیر ابراہیم کو دیکھ لیا تھا جو کافی دور تھے مگر ان ہی کو دیکھ رہے تھے۔ گامو یکدم چپ ہوگیا تھا ۔ اُسے درختوں کے پار اُس آدمی کو دیکھ کر عجیب ہیبت آئی تھی حالانکہ وہ آدمی بے حد نرم خو لگتا تھا۔ پیر ابراہیم اُس کے قریب آگئے تھے۔
”رُک کیوں گئے بھائی۔پڑھتے رہو۔” پیر ابراہیم نے اُس سے بڑی نرمی سے کہا تھا اور جیسے گامو کو موقع دے دیا اپنا دل کھول کر رکھنے کا۔
” کیا پڑھنا ہے بھائی! پیر صاحب کو ملنے آئے تھے، وہ ملے ہی نہیں، دس میل چل کر آئے ہیں اب پھر دس میل چل کر جائیں گے۔” پیر ابراہیم نے اس کی بات بغور سنی پھر اس سے پوچھا ۔
”کہاں سے آئے ہو؟” گامو اب مشک کا باقی پانی دوسرے درختوں میں ڈالنے لگا تھا۔
”جھوک جیون سے۔” اُس نے پیر ابراہیم کی طرف دیکھے بغیر کہا۔
”پانی کیوں دے رہے ہو درختوں کو؟” پیر ابراہیم کو اُس کی حرکت کچھ عجیب لگی تھی۔
”گامو ماشکی ہوں، پانی پلانا کام ہے میرا، پیر صاحب کے لئے اپنے کنویں کا میٹھا پانی لائے تھے۔ میری بس پانی جتنی اوقات تھی، پیر صاحب تو ملے نہیں ۔ یہ سوکھے ہیں تو انہیں پلارہا ہوں تاکہ پیر صاحب کو نہیں تو ان درختوں کو گامو ماشکی یاد رہ جائے۔”
پیر ابراہیم اُس کی بات پر مسکرائے پھر آگے بڑھ کر انہوں نے دونوں ہاتھوں کی اوک بناکر گامو سے کہا:
”لاؤ پلاؤ پانی تاکہ میں بھی یاد رکھوں تمہیں۔ ‘ ‘ گامو ماشکی نے اُن کی بات پر توجہ دیئے بغیر مشک کا منہ بسم اللہ کہہ کر کھول کر پانی پیر ابراہیم کے ہاتھوں کی اوک میں ڈالنا شروع کردیا تھا۔
پیر ابراہیم نے پانی کے کچھ گھونٹ لئے پھر گیلے ہاتھ چہرے پر پھیرتے ہوئے کہا۔
”میٹھا ہے تمہاری آواز کی طرح۔” اس سے پہلے کہ گامو کچھ کہتا درختوں کے پیچھے سے دو آدمی لپکتے ہوئے آئے تھے اور ان میں سے ایک نے پیر ابراہیم سے کہا:
”پیر صاحب! یہ کیا کررہے ہیں آپ؟ میں پیالے میں لاکر پلاتا ہوں آپ کو پانی۔” گامو ماشکی بے اختیار بدکا تھا اور اُس نے ہراساں ہوکر پیر ابراہیم کو دیکھا جو اب پانی پی کر سیدھے کھڑے ہورہے تھے۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});