دانہ پانی — قسط نمبر ۱

ایہہ تن میرا چشمہ ہووے مُرشد دیکھ نہ رجاں ہو
مرشد دا دیدار ہے باہو، لکھ کروڑاں حجاں ہو
گامو کی بیوی اللہ وسائی نے برتن میں پڑے دانوں کی آخری مٹھی کو چکی کے پاٹ میں ڈالا، وہ اس وقت گھر کے صحن میں بیٹھی آٹا پیس رہی تھی۔ وہ دانے آج دو وقت کے لئے کافی تھے۔ کل کی اللہ وسائی نے کبھی فکر نہیں کی تھی۔ وہ صبح اٹھ کر ایک مٹھی بھر کر دانے اسی برتن سے گھر کے صحن میں آنے والے پرندوں کے لئے نکال لیتی اور کچھ مٹھی دانے آٹا پیسنے کے لئے۔ برتن چھوٹا تھا اور اُس میں دانے ہمیشہ چوہدریوں کے گھر سے ہی آتے تھے۔ فصل کٹنے کے وقت زیادہ آتے اور کئی مہینے چلتے اور جب وہ ختم ہونے لگتے تب بھی کسی نہ کسی خدمت کے عوض چوہدریوں کے گھر سے کچھ نہ کچھ آتا ہی رہتا۔
اللہ وسائی ہر بار آخری مٹھی دانے نکالتے ہوئے سوچتی کہ اتنی بڑی دنیا کے لاکھوں کروڑوں لوگوں میں رب سوہنے کو گامو اور اُس کی بیوی کا وہ خالی ہوتا برتن بھی نظر آتا اور یاد رہتا تھا۔ واہ رب سوہنے تیریاں شاناں!
وہ سوچتی اور ہر بار اُس برتن کے دوبارہ بھرنے پر رب سوہنے پرقربان جاتی۔برتن کا خالی ہوکر دوبارہ بھر جانا اللہ وسائی کے لئے معجزہ تھا، اُسے رب سوہنے کی ذات سے کوئی اور معجزہ نہیں چاہیے تھا۔ پتھر کے دوپاٹوں والی چکی کی ہتھی اللہ وسائی کے ہاتھوں میں گھومتی جارہی تھی۔ اور پساہوا آٹا نیچے پھیلائے کپڑے پر گرتا جارہا تھا۔اللہ وسائی کا سانس پھول گیا تھا۔ وہ جیسے سانس لینے کے لئے رکی۔ دوپٹے کے پلوسے اُس نے اپنے ماتھے کا پسینہ صاف کیا۔ مئی جون میں چکی چلاتے وہ سر سے پیرتک اسی طرح پسینے میں نہا جاتی تھی۔
دوبارہ چکی چلانے سے پہلے اُس نے جیسے کان لگا کر فضا میں گامو کی آواز کی بازگشت کو کھوجنے کی کوشش کی تھی۔ اس کی آواز پورے گاؤں میں گونجتے گونجتے اُس کے اپنے گھر میں اللہ وسائی کے کانوں تک بھی ضرور پہنچتی تھی اور اُس کی آواز کی اونچ نیچ سے اللہ وسائی جیسے حساب لگا لیتی تھی کہ وہ اس وقت گاؤں کی کس گلی میں تھا۔ اور کب تک گھر پہنچ جائے گا۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

وہ فجر کے وقت اُٹھتی اور پھر گھر میں گامو کی قریب دور ہوتی آواز کی گونج سنتے وہ گھر کے کام نپٹاتی رہتی۔ اُس کی آواز جیسے اللہ وسائی کے لئے گھڑی کا کام دیتی تھی۔ وہ چھوٹا ساگاؤں تھا، بڑا ہوتا تب بھی اللہ وسائی کو یقین تھا کہ گامو کی آواز پھر بھی اتنی بلند ضرورہوتی کہ اُس کے گھر تک ضرور پہنچتی رہتی۔
گامو گلیاں گلیاں پھرتا۔ اللہ وسائی گھر کے کام نپٹاتی، اُس کے لئے آٹا پیستی اوراس کے آنے سے پہلے ناشتہ تیار کئے بیٹھی ہوتی۔ وہ ناشتہ بھی معمولی ہوتا، کبھی گندم کی روٹی اور اچار، کبھی روٹی اور رات کا بچا ہوا سالن اور کبھی خالی روٹی۔ گامو کی کمائی پانی کی کمائی تھی اور پانی کی کمائی ہوائی روزی۔
پر اللہ وسائی کو کبھی فرق نہیں پڑا تھا کہ گامو کیا کماتا تھا اور کیا لاتا تھا۔ اُس کے لئے بس گامو کافی تھا۔ باقی چیزیں ہوتیں نہ ہوتیں، آتیں نہ آتیں۔
جتنا سیدھا گامو تھا، ویسی ہی اللہ میاں کی گائے اللہ وسائی تھی۔گاؤں کے ہر گھر میں، ہر کام کے لئے آگے آگے۔ خوشی غمی میں بغیر بلائے جانے والی۔ کسی کی بیٹی کی شادی ہوتی تو اللہ وسائی باورچی خانہ اور برتن سنبھال لیتی۔ داج سینے پرونے میں تو وہ پہلے ہی آگے ہوتی تھی پر جب تک شادی چلتی رہتی، اللہ وسائی راکھ سے برتن مانجھ مانجھ کر اپنے ہاتھ زخمی کرلیتی پھر بھی اُس کو درد نہیں ہوتا تھا۔
لڑکی رخصت ہوتی۔ اللہ وسائی گاؤں کی آخری حد تک گھروالوں کے ساتھ روتی دھوتی جاتی، لڑکی کی ماں بہنوں کو تسلی دیتے دیتے خود رو رو کر ہلکان ہوجاتی اور اپنے دوپٹے کے پلوسے ناک اور آنکھیں رگڑ رگڑ کر اپنا حشر کرلیتی اور اگر کہیں لڑکے کی شادی ہوتی تو اللہ وسائی ایسی ڈھولک بجاتی کہ پورا گاؤں ناچ اٹھتا۔ اُس کے ہاتھ سرخ ہوجاتے، بازو اور کندھے دکھنے لگتے، بیٹھے بیٹھے ٹانگیں سن ہونے لگتیں مگر مجال ہے کہ اللہ وسائی محفل چھوڑ کر جاتی۔ اُسے سارے سہرے، سارے ٹپّے یاد تھے۔ اپنی توتلی زبان میں وہ سہرا شروع کرتی اور پورے گاؤں کی عورتیں اُس کی ہم آواز ہوکر گانے لگتیں اور اُن کے گانے اور آوازوں میں اللہ وسائی کی توتلی آواز چھپ جاتی اور اللہ وسائی ڈھولک پیٹتے سہرا گائے جاتی۔ ڈھولک کی ڈوریاں کستی، بار بار نئے سرے سے نئی لے پر ڈھولک پیٹتی، وہ گامو ماشکی کی بیوی کے طور پر مشہور نہ ہوتی تو پھر ڈھولک والی کے طور پر مشہور ہوتی۔
گاؤں میں کسی کے گھر سوگ ہوجاتا تو بھی اللہ وسائی سب سے پہلے پہنچنے والوں میں ہوتی اور باورچی خانہ سنبھال کر بیٹھ جاتی تھی۔ غم سے بے حال اہلِ خانہ کو اللہ وسائی کے ہوتے ہوئے یہ نہیں سوچنا پڑتا تھا کہ دوسرے گاؤں سے آنے والے شریکے کو کسی نے کھانا کھلا کر بھیجا یا نہیں اور کھانا آیا کہاں سے۔ اللہ وسائی اور گامو ماشکی جہاں سے بھی بندوبست کرتے، سوگ والے گھر کا چولہا ٹھنڈا نہ پڑنے دیتے۔ اللہ وسائی ہر میت پر یوں بلک بلک کر روتی جیسے وہ اسی کا رشتہ دار تھا۔ حالانکہ اللہ وسائی نے کسی اپنے کی موت کبھی دیکھی ہی نہیں تھی۔ اُس کے ماں باپ اُس کے ہوش سنبھالنے سے پہلے ہی طاعون کا شکار ہوکر مرگئے تھے۔ دادا،نانا، نانی پہلے ہی نہیں تھے۔ رشتے کے جس چچا نے اُسے پال کر شادی کی تھی ، وہ ابھی بھی حیات تھے اور ان کے اہلِ خانہ بھی مگر اللہ وسائی پھر بھی ہر موت پر اپنے رشتہ داروں کے نام لے لے کریوں روتی تھی جیسے اُس کا غم تازہ ہوگیاہو۔
گاؤں والے ہر خوشی غمی میں اللہ وسائی کو پکارتے پھرتے تھے لیکن اگر کبھی نہیں پکارتے تھے تو تب نہیں پکارتے تھے جب کسی کے ہاں کوئی بچہ پیدا ہوتا۔ پھر کسی کے گھر سے اللہ وسائی کے لئے نیوتا نہیں آتا تھا۔ وہ بے اولاد تھی، نیک تھی تو کیاہوا، تھی تو بے اولاد اور بے اولاد عورت کی پرچھائیں بھی ایسے گھر میں نہیں پڑنی چاہیے تھی۔
وہ سب اللہ وسائی کو جانتے تھے۔ جانتے تھے کہ وہ نہ حسد کرتی تھی نہ اسے کسی سے جلن تھی پھر بھی لوگوں کو اُس کی نظر لگنے کا اندیشہ ہوتا۔ اللہ وسائی دس سال سے بے اولاد تھی اور اُس نے جیسے اس بے اولادی کو بھی اللہ کی رضا سمجھ کر سرجھکا دیا تھا پر دنیا کو اللہ کی رضا سے سروکار نہیں ہوتا نہ اللہ کے حکم سے۔ دنیا اپنے وہموں اور رواجوں پر چلتی ہے اور اللہ وسائی کو کسی سے اس بات کا بھی گلہ نہیں تھا۔
وہ خاموشی سے آس پڑوس میں بچے کی پیدائش پر آکر رقص کرنے والے ہیجڑوں کی آوازیں اور گانے سنتی جو گڑوی بجا بجا کرناچتے، دعائیں دیتے۔ نومولود کی بلائیں لیتے اور اللہ وسائی اپنے گھر کے اندر چوکھٹ سے کان لگائے باہر کے اس شوروغل کو سن سن کر خوش ہوتی رہتی۔
اپنی توتلی زبان میں وہ بھی ہیجڑوں کے ساتھ آواز ملاتی، نئے پیدا ہونے والے بچے کو بغیر دیکھے، بغیر چھوئے لوریاں دیتی رہتی۔ گامو اگر گھر پر ہوتا تو دل مسوس کر رہ جاتا، صحن میں بیٹھے وہ حقّہ پیتے کبھی اُس کو دیکھ کر ہنستا، کبھی روتا، اللہ وسائی کے قہقہوں میں اُس کی آنکھوں کی برسات دیکھتا جاتا اور پھر حق باہو کا کلام پڑھنے لگتا۔
وہ کلام جیسے اُس کے سارے زخموں پر مرہم کا کام کرتا تھا۔ وہ رب کی شان بیان کرتا جیسے رب کی محفل میں پہنچا ہوتا اور ہر بار اس کیفیت میں جانے کے بعد وہ جیسے توبہ توبہ کرتا۔ کہاں رب، کہاں گامو ماشکی!
اُس کی کیا اوقات کہ وہ رب سوہنے کے دربار میں ہونے کا سوچے بھی۔
وہ بآوازِ بلند اپنے آپ کوکوستا۔اور اللہ وسائی اُسے کسی مرید کی طرح دیکھتی جاتی۔
اللہ وسائی کو گامو کے اُس کلام کی ککھ سمجھ نہیں تھی جس کو سننے کے لئے لوگ رک جاتے تھے۔ وہ بھی گامو کی طرح چٹی اَن پڑھ تھی اور اُسے اگر کچھ یاد تھا تو شادی بیاہ کے سہرے اور ٹپے اور بس۔ پر گامو کو حق باہو کا کلام پڑھتے سن کر اس پر بھی جیسے وجدطاری ہوجاتاتھا اور وہ زارو زار روتی تھی۔
وہ کلام کیا کہتا تھا، یہ اُسے نہیں پتا تھا مگر اُسے یہ پتا تھا کہ وہ حق تھا۔ بزرگوں کی باتیں تھیں۔ نیکوں اور ولیوں کی، اور اُس میں رب سوہنے کا نام آتا تھا۔ بار بار آتا تھا اور جب بھی گامو کلام پڑھتے ہوئے اللہ کا نام لیتا، دوپٹہ اوڑھے اللہ وسائی کچھ بھی کر رہی ہوتی، وہ سینے پر ہاتھ لگاتی یوں جیسے رب کو دل میں اُتار رہی ہو۔ اُس نے کبھی گامو کا کلام پڑھنے کی جرأت نہیں کی تھی، وہ تتلاتی تھی اور اُسے لگتا تھا وہ اُس کلام کو تتلا کے پڑھے گی تو بے ادبی کرے گی اور یہ کوئی ٹپہ اور سہرا تو ہے نہیں کہ کچھ بھی کہہ دو، کچھ بھی گا جاؤ، معافی ہی معافی ہے۔ رب سوہنا تو پکڑ کرتا ہے اور اُسے رب سوہنے سے بڑا ڈر لگتا تھا۔ پیار بھی آتا تھا پر ڈر زیادہ لگتا تھا۔
گامو گھر میں جب بھی وہ کلام پڑھ رہا ہوتا، اللہ وسائی اُسے بغیر مخاطب کئے بیٹھی سنتی رہتی۔ اُسے گامو پر پہلے سے بھی زیادہ پیار آتا تھا اور اُسے یقین تھا، گامو اللہ کو بھی بڑا پیار ا تھا او رگامو اُس کی ایسی باتیں سن سن کر شرماکر ہنستا۔ اس کا سانولا رنگ سرخ ہوجاتا اور وہ اللہ وسائی پر اور قربان جاتا۔ وہ اس کی نظر میں ملکۂ حُسن تھی اور اس کے چہرے پر وہ حسن صرف گامو کو ہی نظر آتا تھا جس کی زندگی کی دھوپ میں وہ چھاؤں کی طرح شامل ہوئی تھی۔ نہ گامو کو کبھی اُس کی تتلاہٹ بری لگتی تھی نہ اُس کا چہرہ۔
وہ اللہ وسائی کو اللہ والی سمجھتا تھا کیونکہ وہ جو کہتی تھی پورا ہوجاتا تھا۔ اور اللہ وسائی اُس کی باتوں پر ہنستی تھی۔”توبہ کریا کر گامو کس کو اللہ والی کہتا ہے۔”
وہ خود بھی کانوں کی لویں پکڑتی ناراض ہوتی اور اُسے بھی ڈراتی۔ وہ خود گامو کو مومن سمجھتی اور ہر دم درود اُس سے کرواتی، یہ جاننے کے باوجود کہ گامو کو قرآن نہیں آتا اور وہ نماز میں بھی مسجد میں صرف بسم اللہ پڑھ پڑھ کر آجاتا تھا۔ پر اللہ وسائی کو پھر بھی یقین تھا کہ گامو کی دعامیں بڑا اثر تھا۔
گاؤں والے ان دونوں کو ہیر رانجھا کہتے تھے اور گامو اور اللہ وسائی کِھل کِھل ہنستے موربن کے اتراتے پھرتے۔
…٭…

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

الف — قسط نمبر ۱۲ (آخری قسط)

Read Next

عام سی عورت — مریم جہانگیر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!