دانہ پانی — قسط نمبر ۱

الف اللہ چنبے دی بوٹی
مرشد من وچ لائی ہو
نفی اثبات دا پانی ملیا
ہر رگے ہر جائی ہو
گامو ماشکی کی بلند آواز ہر روز کی طرح اُس صبح بھی جھوک جیون کی فضاؤں میں دور تک کوئل کی کوک کی طرح گونج رہی تھی۔ وہ حق باہو کا کلام پڑھ رہا تھا۔ ہر روز کی طرح فجر کے بعد گاؤں کے کنویں پر چرخی کے ساتھ اپنی مشک باندھ کر کنویں میںڈالتے ہوئے گامو بڑے جذب سے وہ کلام شروع کردیتا تھا۔
پیر ملے تے پیڑ نہ جاوے، اوہ پیر کیہہ کرناہو
جس مرشد تھیں رُشد نہ ہووے اوہ مرشد کیہہ کرنا ہو
کنویں کی چرخی گر گر کرکے گھومتی جارہی تھی اور اس پر لپٹی رسی مشک کے وزن سے کُھلتی جارہی تھی اور گامو چرخی کو اور تیزی سے گھماتا حضرت سلطان باہوکا کلام بڑے جذب سے پڑھتا ہوا کسی اور جہاں پہنچا ہوا تھا۔ اسے نہ قرآن آتا تھا نہ حدیث۔ بس آتا تھا تو حق باہو کا کلام جو اُس نے اپنے باپ سے سن سن کر رٹا تھا۔ بچپن میں کبھی ماں باپ نے قرآن با قاعدہ پڑھانا شروع کیا تھا لیکن پہلا سپارہ ختم ہونے سے پہلے ہی باپ کی موت نے غلام محمد کے ہاتھ میں سپارے کی جگہ پانی کی مشک پکڑادی جو اُس کے قد سے بھی بڑی تھی۔ وہ غلام محمد سے گامو ماشکی ہوگیا اور یہ کام اُس نے بڑی خوشی خوشی سنبھالا تھا۔
وہ جدی پشتی ماشکی تھا۔ باپ دادا بھی یہی کام کرتے تھے اور اُسے بھی باپ کے ساتھ بچپن سے ہی گاؤں کے کنویں پر جاکر چرخی گھمانا اور مشک بھرنا اچھا لگتا تھا پر اُ س سے بھی زیادہ مزے کا کام اُس پانی کی مشک سے پورے گاؤں کے گھروں کے مٹکے اور برتن بھرنا تھا اور پھر گلیوں کی سوکھی مٹی پر پانی کاچھڑ کاؤ اور سوکھی مٹی کا یوں نم ہوکر بیٹھنا جیسے وہ اُس پانی کے لئے ہی ترسی ہوئی تھی۔ گامو تین سال کی عمر سے باپ کے ساتھ ساتھ صبح سویرے اپنے ننھے قدموں سے کسی بڑے کی طرح چلتے ہوئے جھوک جیون کے تمام پچاس ساٹھ گھروں کے دروازے دروازے جاتا تھا۔ اُس کا باپ پانی کاچھڑکاؤ کرتے ہوئے حق باہو پڑھتا جاتا اور وہ کلام ننھے غلام محمد کے ذہن پر جیسے نقش ہوتا گیا تھا۔ اُس کے باپ کی کوک میں ہوک نہیں تھی پر گامو کی آواز میں ہوک ہی ہوک تھی۔
جس ہادی تھیں نہیں ہدایت اوہ ہادی کیہہ کرنا ہو
مرشد عین حیاتی باہو، لوں لوں وچ سمایا ہو
مشک کنویں کی تہہ میں پانی سے ٹکرائی تھی اور چرخی گھومنا رک گئی۔ اتنے اندھیرے میں بھی گامو کو پتا چل گیا تھا کہ مشک پانی تک پہنچ گئی تھی اور اب پانی میں ڈوبتے ہوئے وہ اُس پانی کو اپنے اندر سمو رہی تھی۔ گامو کنویں کے کنارے کھڑا بغیر دیکھے بھی جیسے سب دیکھ رہا تھا۔ کتنی دیر میں مشک پانی تک پہنچتی، کتنی دیر میں پانی سے بھر جاتی اور پھر کب واپس کھینچ لینی تھی۔ چرخی کے گرد لپٹی باقی ماندہ رسی یک دم کھل کر تن گئی تھی ۔ گامو کو پتا تھا اب اُسے مشک واپس کھینچ لینی تھی۔
کیتی جان حوالے رب دے، ایسا عشق کمایا ہو
مرن تھیں پہلے مر گئے باہو، تاں مطلب نوں پایا ہو

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

پو پھٹ رہی تھی جب گامو مشک کھینچ رہا تھا اور چرخی اُسی گر گر کی آواز کے ساتھ اب اُلٹا گھومتے ہوئے رسی کو لپیٹ رہی تھی۔ جب تک مشک کنویں سے باہر آئی، گاؤں کے چند آوارہ کتے ہر روز کی طرح پیاس سے ہانپتے کانپتے زبانیں لٹکائے کنویں کے پاس جمع ہوگئے تھے۔ وہ گامو پر کبھی نہیں بھونکتے تھے کیونکہ صبح و شام وہی تھا جو مشک کنویں سے نکال کر سب سے پہلے کنویں کے پاس بنے اک گڑھے میں ان کے لئے پانی ڈالتا تھا۔ وہ کتے گامو سے بھی پہلے اُس گڑھے کے گرد اکٹھے ہو گئے تھے۔ مشک سے نکلتا ٹھنڈا پانی اُس گڑھے میں گرنے لگا اور تب تک گرتا گیا جب تک آخری کتا بھی اپنی پیاس بجھاکر ہٹ نہیں گیا تھا۔
جاں دا مرشد کا سۂ دتڑا، تاں دی بے پرواہی ہو
راتیں جاگیاں کیہہ ہویا جے ، مرشد جاگ نہ لائی ہو
جھوک جیون کی صبح شام گامو ماشکی کے پانی اور حق باہو کے کلام سے ہوتی تھی۔ نہ مشک کا پانی ختم ہوتا تھا نہ گامو کی آواز کا سوز اور نہ اُس کی ہوک۔ جو بھی گاموکو سنتا تھا بس سنتا ہی رہ جاتا تھا۔ وہ اُس گاؤں کا Pied Piperتھاجو صبح سویرے پانی بھرتا، چھڑکاؤ کرتا، پیاس بجھاتا، پورے گاؤں کے چرند پرند کو اپنے پیچھے لگائے پھرتا رہتا تھا۔ گاؤں کا پتا پتا، بوٹا بوٹا جیسے گامو کی آواز ، اس کے پیروں کی چاپ، اُس کی مشک سے چھلکتے پانی کی مہک اور مٹھاس کو پہچانتا تھا۔ وہ کتے کنویں پر گامو کی مشک سے پانی پیتے پھر گامو کے ساتھ ساتھ پورے گاؤں میں تب تک گھومتے پھرتے جب تک گامو مشک بھر بھر کر گاؤں کی گلیوں میں پھرتا رہتا اور پھر جب وہ اپنے گھر چلا جاتا تو وہ بھی لوٹ جاتے اور پھر شام کو پھر کنویں پر گامو کے انتظار میں بیٹھے ملتے۔
گامو رستے میں آنے والی ہر مخلوق کو پانی پلانے کھڑا ہوجاتا تھا اور کئی بار گاؤں کی عورتوں کی جھڑکیاں سنتا جن کے گھر وہ اس لئے دیر سے پہنچتا تھا کیونکہ اُس کی مشک کا پانی راستے کے جانوروں کو پلاتے پلاتے ہی ختم ہوجاتا۔ گامو اُن کی جھڑکیاں سُنتا پھر بھی ہنستا جاتا۔
چھوٹے قد کا دبلا پتلا، سانولا، معمولی صورت گامو پانی ڈھوڈھو کر اُس گاؤں کے لوگوں کا رازدان بن گیا تھا۔ جس سے پانی بھرواتے، پیتے کوئی بھی کچھ بھی پوچھ لیتا، کچھ بھی کہہ دیتا، دل کے رازوں سے لے کر ذہن کے پردوں پر بننے والی یادوں تک۔
گامو ماشکی سے کسی کا کوئی پردہ نہیں تھا، دل سے کسی کا کیا پردہ۔ وہ جھوک جیون کی رگوں میں پانی خون کی طرح پہنچاتا جھوک جیون کا دل ہی تو تھا۔
کنویں سے مشک اٹھاکر وہ سب سے پہلے گاؤں کے قبرستان میں قبریں تر کرنے جاتا تھا۔ یہ بھی اُس نے اپنے باپ سے سیکھا تھا۔ اپنے ماں باپ اور رشتہ داروں کی قبروں پر پانی کا یوں چھڑکاؤ کرتے ہوئے گامو ساری ہی قبروں کو تر کرنے لگتا تھا کیونکہ گیلی قبروں کے درمیان سوکھی قبریں گامو کا منہ چڑاتی تھیں جیسے اُس نے سب کو پانی پلادیا ہو اور کسی ایک کو پیاسا چھوڑ دیا ہو اور گامو کہاں کسی کو پیاسا چھوڑنے والا تھا۔ وہ جن کے خاندان والوں کی قبریں تھیں وہ وہاں آتے نہ آتے، گامو ضرور آتا، قبریں ٹھنڈی کرتے کرتے، پورے قبرستان میں پانی چھڑک کر چلا جاتا اور جہاں جہاں کسی نے قبر پر پرندوں کے لئے دانہ پانی کے پیالے رکھے ہوئے تھے ان میں بھی پانی بھر جاتا۔
قبرستان کے بعد وہ سیدھا گاؤں کی مسجد جاتا، وہاں گھڑے بھرتا اور خوشی سے نہال ہوتا رہتا۔ یوں جیسے وہ رب سوہنے کے گھر میں پانی دینے آیا ہو۔ گاؤں کی اُس کچی مسجد میں کوئی نمازی آتا نہ آتا، گامو پانی ڈالنے ضرور آتا۔ قبرستان میں لگے موتیا کے پودوں سے پھول توڑ کر وہ مسجد میں پانی کے گھڑوں کے پاس چھوڑ جاتا۔ کسی اور نے مسجد میں جھاڑو نہ دی ہوتی تو وہ جھاڑو دینے کھڑا ہوجاتا۔
مسجد کے بعد وہ سب سے پہلے گاؤں کے چوہدریوں کی حویلی جاتا تھا۔
بغداد شہر دی کی اے نشانی، اچیاں لمیاں چیراں ہو
تن من میرا پرزے پرزے، جیویں درزی دیا لیراں ہو
اُس حویلی سے گامو کو دانے آتے تھے۔ وہ دانے جس سے اُس کے گھر کا چولہا جلتا تھا اور اُس کے پیٹ کا ایندھن بھی۔ وہ احسان مندی اور تشکر کے لئے وہاں پانی ہی لاسکتا تھا۔ اس کے باوجود کہ حویلی میں ہینڈپمپ بھی لگا تھا اور وہاں پچھلے احاطے میں اپنا کنواں بھی تھا۔ اُسے کبھی کسی نے حویلی پانی لانے کے لئے نہیں کہا تھا پر گامو پھر بھی وہاں جاتا اور حویلی میں وہیں سے پانی لے لے کر اندر باہر چھڑکاؤ کرتا اور حق باہو کا کلام پڑھتا جاتا۔ کئی بار چوہدری کرامت اُسے بٹھا کر وہ کلام سنانے کا کہہ دیتے اور جس دن وہ چوہدری کرامت کو کلام سناتا، اُس دن صبح سویرے ہی جیسے اُس کا دامن دانوں سے بھرجاتا۔ وہ گامو کو کچھ نہ کچھ دے کر ہی رخصت کرتے۔ گاؤں کے ماشکی کے لئے کبھی حویلی کا دروازہ بند نہیں ہوا تھا۔ یہ جیسے اُس کے کام اور” عہدے” کی تکریم تھی۔
لیراں دی گل کفنی پاکے، رل ساں سنگ فقیراں ہو
منگ بغداد دے ٹکڑے باہو، کرساں میراں میراں ہو
اندر کسی کمرے میں چوہدری کرامت مردان خانے میں جانے کے لئے تیار ہورہے تھے۔ گامو کے کلام نے جیسے چوہدری کرامت کے دل پر ہاتھ ڈالا تھا۔ چوہدرائن کو چار مہینے ہوئے تھے فوت ہوئے اور جب سے وہ گئی تھی چوہدری کرامت کا اندر باہر ہی بدل کے رہ گیا تھا۔ گامو کی آواز ان کو اندر باہر سے یوں ”پھرول” رہی تھی جیسے دانوں کو صاف کرنے کے لئے اُن میں ہاتھ پھیرتی کسی کی انگلیاں۔
چوہدری کرامت نے آئینے کے سامنے کھڑے اپنی آنکھوں کو رگڑ کر خشک کیا تھا اور پھر شملہ سر پر سجاتے ہوئے انہوں نے اپنے ملازم کو آواز دی تھی۔
”گامو کو چھاچھ کی گھڑولی دینا آج دانوں کے ساتھ۔”
ان کا ملازم تابعداری سے باہر لپکاتھا۔
چوہدری کرامت کی حویلی میں کئی دن سے سفیدی ہورہی تھی۔ ان کے اکلوتے بیٹے کی شادی کی تیاری تھی جو چوہدرائن کی زندگی میں شروع ہوئی تھی اور اب اُس کے جانے کے کئی مہینے بعد دوبارہ شروع ہوئی تھی۔
…٭…

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

الف — قسط نمبر ۱۲ (آخری قسط)

Read Next

عام سی عورت — مریم جہانگیر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!