خوشی بادشاہ — افراح فیاض

مبارک پور کی جنازہ گاہ میں بچوں کا بہت رش تھا۔ ظاہرہے کوئی فوت ہوا تھا۔ مگر فوت ہونے والا کون تھا۔۔۔ ؟ جنازہ گاہ میں بچوں کی موجودگی ایک انہونی بات تھی۔ ایک راہ گیر نے بڑی بے تابی سے پاس کھڑے بچے سے پوچھا:۔۔۔ ’’کون فوت ہوا ہے ؟ ‘‘
بچے کی آنکھوں میںآنسو آ گئے۔۔۔ ، اس نے تھوک نگلا اور بولا: ’’خوشی بادشاہ‘‘ ۔۔۔ راہ گیر بچے کے جواب سے مطمئن نہ ہوا ، اس نے پھر پوچھا: ’’خوشی بادشاہ کون تھا ؟۔۔‘‘
’’ پاگل تھا ‘‘۔۔۔۔ بچہ جواب دے کر بھاگ گیا۔
جی ہاں ، خوشی بادشاہ ایک پاگل تھا ، کو ئی نہیں جانتا تھا کہ اس کے پاگل ہونے کی وجہ کیا تھی۔ کوئی کہتا اس کے بڑے بھا ئی نے بجلی کے جھٹکے لگوا کر اُسے پاگل کیا۔ معلوم نہیں بجلی کے جھٹکوں سے کوئی پاگل ہوتا ہے یا نہیں مگر خوشی بادشاہ کے حوالے سے ایسی ہی باتیں مشہور تھیں۔ پتا نہیں جھوٹ تھا یا سچ مگر یہ سچ تھا کہ پاگل ہونے سے پہلے وہ بس میں کنڈ یکٹر ہوا کرتا تھا اور اس کا خاندان بہت بڑا اور پیسے والا تھا۔
نہ جانے وہ کتنے عرصے سے ، شاید جوانی کے زمانے سے ہی مبارک پور محلے میں ایک کمرہ کے گھر میں رہ رہا تھا۔ سردی ہویا گرمی سب موسم وہ اسی کمرے میں گزارتا تھا۔ مٹی کا ایک چولہا، ٹوٹی ایک چارپائی ، اس پر میلا سا ایک گدا، اوڑھنے کے لیے ایک میلی سی چادر ، ایک ٹوٹی چپل ، ایک سٹیل کا ڈبہ ، ایک پیالہ اور کپڑوں کے دوجوڑے، یہ اس کی کل کائنات تھی۔ گھر کی دیواریں گر چکی تھیں ، کمرہ آگ کے دھویں سے کالا پڑ چکا تھا، برتنوں میں کتے بلی منہ مارتے پھرتے اور اس کے اردگرد مکھیاں بھنبھناتی رہتیں۔ مائیں بچوں کو سمجھاتیں اس پاگل کے گھر نہیں جانا بلکہ اس کے پاس سے بھی نہیں گزرنا۔۔۔ مگر بچے اس کی طرف ہی بھاگتے۔ ایک وجہ اس کے کھنڈر نما گھر کے بیچوں بیچ اونچا ، لہلہاتا کھجور کا درخت تھا، جو موسم میں کھجوروں سے لدا رہتا۔ ایسی میٹھی رسیلی کھجوریں کہ دیکھتے ہی منہ پانی سے بھر جاتا اور دوسری وجہ ٹافیاں تھیں۔





اس کے عزیز رشتے داروں میں سے کبھی کوئی اس سے ملنے نہیںآیا تھا۔آتے بھی کیوں ، ظاہرہے پاگلوں کو ملنے یا یاد رکھنے کا وقت اس مصروف زندگی میں کس کے پاس ہے؟ اس نے تنہا ساری عمر ایک کمرے میں گزاردی۔ گرمیوں کی راتوں میں وہ بہت بے چین ہو کر چیختا ، اردگرد پنکھوں کے سامنے سوئے محلے دار اس کی آواز سے پریشان ہوتے ۔ وہ گرمی کے ساتھ ساتھ مچھروں کا مقابلہ کرتے کرتے کھلے آسمان تلے آجاتا۔ آسمان کی چھت اور باہر کی ٹھندی ہوا اسے اپنی آغوش میں لے کر تھپک تھپک کر سلا دیتے۔ سردیوں کی راتوں میں وہ ایک چادر میں کروٹیں بدلتا رہتا، کبھی اٹھ کر چولہا جلاتاکبھی گرم رہنے کے کوئی اور جتن کرتا۔ اڑوس پڑوس میں لوگ نرم گرم لحاف اوڑھے سوئے رہتے، کسی کو کسی کی کیا پروا۔۔۔ اور ایک پاگل کی پروا کرتا بھی تو کون۔۔
خوشی بادشاہ بہت انا پرست اور سمجھ دار قسم کا پاگل تھا۔ زبان و بیاں اور عقل کی رُو سے یہ کتنی غلط سطر ہے مگر علم نفسیات اسے درست سطر تسلیم کرتا ہے۔
اس نے کبھی کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایا، کبھی بلا اجازت کسی کے گھر نہیں گھسا اور نہ ہی کبھی کسی کے ہا تھ سے کچھ چھینا۔
ساجد ایک خدا ترس انسان تھا۔ موت تک بادشاہ کے لیے تین وقت کا کھانا اس کے گھر سے جاتا رہا۔ کبھی کبھار اس محلے کی ایک عورت سلامت بی بی بادشاہ کو کھانا بھجواتی ، پیسے دیتی اور کہتی بادشاہ اگر کچھ چاہیے ہو تو لے لیا کرو۔ وہ ان لوگوں سے بھی زیادہ تر ایک جگ پانی مانگنے آتا یا کبھی کبھار روٹی پر رکھ کر کھانے کو اچار۔
ساجد اور سلامت بی بی سے ملنے والے پیسوں سے بادشاہ عیاشی کرتا۔ ایک سگریٹ کی ڈبی لیتا ایک سادہ کاغذ والا رجسٹر ، ایک بال پوائنٹ اور باقی بچنے والے سارے پیسوں کی ٹافیاں لے لیتا۔ دکان سے اس کے گھر تک کے راستے میں جتنے بچے ملتے وہ سب کو ایک ایک ٹا فی دیتا۔ باقی ٹافیاں وہ مٹھی بھر بھر کے ان گھروں کے صحنوں میں پھینک دیتا، جہاں بچے موجود ہوتے۔ یہ دنیا کا کیسا پاگل تھا۔۔۔۔۔۔ سمجھ سے باہر تھا۔ گھر پہنچ کر وہ سٹیل کے پیالے میں پانی اور پتی ڈال کر چائے بناتا، سگریٹ سلگاتا اور رجسٹر پر حساب کتاب لکھنا شروع کر دیتا۔ دیکھنے والے کہتے تھے کہ وہ ہر وقت صرف لکھتا ہے ، جب وہ گھر میں موجود نہ ہوتا تو بچے جاکر اس کا رجسٹر دیکھتے، ان میں سے جو زیادہ پڑھا لکھا ہوتا وہ کہتا: ’’او دیکھ اوئے! بادشاہ نے ریاضی کے سوال حل کیے ہیں اور سارے کے سارے ٹھیک ہیں ۔‘‘ بچوں کو یہ بات کبھی سمجھ نہ آئی کہ یہ پاگل آخر ریاضی کے سوال کیسے حل کرتا ہے؟
اس سے متعلق اس طرح کے اور بہت سے معمے تھے، جو بچے کبھی سلجھا نہ سکے، وہ اپنی نوعیت کا ایک مختلف پاگل تھا، جس سے بچے محبت کرتے تھے۔ شاید دنیا کا پہلا اور آخری پاگل تھا جس نے کبھی کسی بچے سے کوئی پتھر نہیں کھایا، کبھی کسی سے گالی نہیں سنی۔ وہ واقعی بادشاہ تھا۔ گائوں کے نشئی اس سے پیسے مانگنے آتے۔ وہ جیب میں ہاتھ ڈالتا جو نکلتا پکڑا دیتا۔
اور پھر وہ دن آگیا۔۔۔۔۔۔۔ وہ دن جو اس کائنات کے بنانے والے نے ہر انسان پر لازم کر دیا ہے۔ تو ثابت ہوا کہ خوشی بادشاہ جو دنیا کی نظر میں پاگل تھا حقیقت میں ایک انسان تھا۔ گرمیوں کی ایک سہانی صبح ایک بچہ بھاگتا بھاگتا سلامت بی بی کے پاس آیا:
’’اماں، اماں! بادشاہ کو کچھ ہوگیا ہے۔ اس کی آنکھیں بند ہیں اور تھوک اس کے منہ سے نکل کے باہر جمع ہوگیا ہے۔‘‘ سلامت بی بی ہاتھ پہ رکھی روٹی بڑھاتے بڑھاتے ٹھہر گئی۔ آٹا گول مول کر کے پرات میں پھینکا۔۔۔ یا اللہ خیر۔۔۔۔
سلامت بی بی اور اس کا شوہر مشہود احمد بادشاہ کے گھر کی طرف بھاگے۔ جانے رات یا صبح کے کس پہر فرشتہ اجل نے اس کے گھر قدم رکھا تھا۔ بادشاہ کی آنکھیں بند تھیں۔۔۔ کس نے کیں۔۔۔۔ کسی کو معلوم نہیں۔۔۔۔ مشہود احمد نے خود ہی اندازہ لگایا کہ رات کے کسی پہر سوتے میں جان نکل گئی ہے۔ سلامت بی بی رو دی۔ بے چارہ۔۔۔ مر گیا۔
سلامت بی بی نے بادشاہ کے بڑے بھائی رفیق محمد کو ٹیلی فون پر اطلاع دی۔ ساجد دکھ اور بے بسی سے رو دیا کہ کیوں اطلاع دی؟۔۔ اگر میں ساری عمر اسے کھلا پلا سکتا تھا تو اس کے کفن دفن کا انتظام بھی کر سکتا ہوں۔
’’خبردار۔۔ رفیق محمد کو کہہ دو اسے کفن نہ دے۔ آخر اسے اطلاع دی ہی کیوں؟‘‘۔۔ لوگوں نے کہا: ’’چھوڑو یار کیوں چیختے ہو، پاگل تھا، مر گیا۔ بڑا بھائی ہے رفیق محمد۔۔ بتانا ہم محلے والوں کا فرض بنتاتھا۔‘‘
اور پھر بادشاہ کے بہت سارے رشتے دار اچانک کہیں سے آگئے۔۔۔ بہت سارے۔۔۔ بڑی بڑی گاڑیوں میں۔ محلے میں ہجوم اکٹھا ہو گیا۔ بادشاہ کی میت سلامت بی بی کے گھر رکھی گئی۔ محلے کی عورتوں نے پہلی بار بادشاہ کے رشتے داروں کو دیکھا تو دانتوں تلے انگلیاں داب لیں۔ ایک عورت سے رہا نہ گیا بالآخر طنزیہ بول اُٹھی:۔۔۔ ’’بادشاہ کے رشتے دار اتنے امیر تھے۔۔۔۔ اچھا۔۔۔۔ ہمیں تو آج پتا چلا۔‘‘ گائوں کی عورتیں آپس میں باتیں کرنے لگیں: ’’ان کے زیورات دیکھو، کپڑے دیکھو۔۔۔‘‘ لیکن بادشاہ کی رشتہ دار خاتون نے سنی ان سنی کر کے اپنے بچے کو آواز دی ـ’’ بیٹا باہر جا کر گاڑی دیکھو ٹھیک کھڑی ہے، بچے خراب تو نہیں کر رہے۔‘‘ میلے کچیلے بادشاہ کو اس دن نہلا دُھلا کر نئے کپڑے پہنائے گئے ، دیگیں چڑھیں اورگائوں کی مسجد سے بلند آواز میں اعلان نشر ہوا:
’’حضرات ایک ضروری اعلان سماعت فرمائیں۔۔۔۔رفیق محمد کا چھوٹا بھائی خوشی محمد المعروف خوشی بادشاہ جو بچوں میں ٹافیاں تقسیم کرتا تھا بہ قضائے الٰہی انتقال کر گیا ہے۔ اس کی نمازِ جنازہ ابھی کچھ دیر میں، بعد از نمازِ ظہر پڑھائی جائے گی۔ آپ احباب سے شرکت کی اپیل ہے ۔‘‘
سلامت بی بی کا گھر گائو ں کے بچوں سے بھرا پڑا تھا۔ گلی میں چھوٹے چھوٹے قدموں کی کئی آوازیں تھی۔۔۔۔ ’’ او بادشاہ مر گیا، اوئے تجھے پتا ہے بادشاہ مر گیا۔ ۔۔۔ ‘‘
محلے کے جوان جنازہ اٹھانے آئے۔۔۔۔ ننھی ننھی آنکھیں اشک بار تھیں ، ’’ادھر آئو بادشاہ کو دیکھ لو۔ وہ رہ گیا اس کو بلائو‘‘۔۔۔ یہ چھوٹے معصوم بچے بادشاہ کے وارث تھے، یہی بادشاہ کے رشتے دار تھے، انہی کا دل مغموم تھا۔ ان کا بادشاہ جو ٹافیوں کی شکل میں ان میں محبتیں بانٹتا تھا، مر چکا تھا۔
اگلے کئی دن تک گائوں کے بچے بادشاہ کا گھر دیکھنے کے لیے آتے رہے، اس کے مرنے کے اگلے روزایک نوجوان نے بادشاہ کی یاد میں بچوں میں ٹافیاں بانٹیں۔ وہ اس گھر سے بچوں کو ملنے والی آخری ٹافیاں تھیں۔





Loading

Read Previous

عادت — ثمینہ سیّد

Read Next

لال فیتا — امینہ عنبرین

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!