میں نے قائد کے آنکھوں میں دُکھ دیکھا اور چمکتے آنسو بھی۔ پہلے تو میں لاجواب ہوگیا پھر پتا ہے میں نے قائد کو کیا جواب دیا؟ میں نے کہا: ”آپ کا وطن اس لیے ان حالات کا شکار ہوگیا کہ انھوں نے اپنے بزرگوں کے کارناموں کو بھلا دیا، آزادی کے عظیم رہنما کو اپنا ہیرو بنانے کہ بہ جائے انہوں نے فلموں ڈراموں کے کرداروں کو اپنا ہیرو بنا لیا اور اپنے بچوں کو بھی ان کا گرویدہ بنا دیا۔”پھر میرے لہجے میں ایک اُمید بولنے لگی۔ ”میرے کشمیر میں ایسا نہیں ہوگا۔ ہمارے والدین نے ہمیں جس طرح آزادی کی لوری سُنا کر پروان چڑھایا ہے ویسے ہی آنے والی نسلوں کو ہمارے نوجوان برہان کی کہانیاں سنایا کریں گے۔ ان کے ہیرو شاہ رخ اور سلمان کے بہ جائے افضل گورو اور برہان وانی ہوںگے اور پتا ہے آپ کی قوم آزادی میں بھی ذہنی غلام اس لئے بن گئی ہے کیوںکہ انہیں آزادی کے لیے جدوجہد نہیں کرنی پڑی یہ آزادی تو سجی سجائی مل گئی ہے ان کو۔ جب کہ ہم ستر سال سے خون بہا رہے ہیں جو اب تک بہتا چلا جا رہا ہے اور اس بہتے لہو کی گونج ہم اپنی آنے والی نسلوں کو سنائیں گے تاکہ انہیں دوست اور دشمن کے بارے میں مکمل آگاہی ہو اور وہ ایک غلامی سے نکل کر دوسری غلامی میں نا پھنس جائیں۔ آپ اُداس مت ہوں اِن شاء اللہ پاکستانی قوم بھی اس غلامی سے بیدار ہوگی”میں نے قائد کو تسلی دی تھی۔ مگر ان کا جواب مجھے پھر سے لاجواب کرگیا تھا: ”تم ہی تو کہتے ہو آزادی کے لئے خون بہانا پڑتا ہے تو کیا، اس آزادی کے لئے بھی اب مزید خون بہے گا؟”
اچھا اب اجازت میں نے آپ کا بہت وقت لے لیا آپ جائیں کوئی مزے دار سی فلم آپ کا انتظار کررہی ہوگی اور یہ ایک اور کشمیری بھائی آپ کی مدد سے شہید ہو کر سبز ہلالی پرچم میں جنت میں ہم سے آ ملا ہے۔ آپ کا بہت شکریہ پاکستان!
ویسے کشمیر میں شہادتوں سے آپ کو اتنا فرق تو نہیں پڑے گا پھر بھی جاتے جاتے آپ کو تسلی دینا چاہتا ہوں یا شاید خود کو۔
مت گھبرائو دیکھ کے اتنی لاشیں اور جنازے
اسی طرح تو کھلتے ہیں آزادی کے دروازے..
فقط
پاکستانیوں سے حق کی آواز بلند کرنے کا منتظر
برہان مظفر وانی