جادو کا آئینہ

جادو کا آئینہ
احمد عدنان طارق

سین نمبر ١
”مجھے سمجھ نہیں آتی کہ تم ہر وقت غصّے میں رہ کر کیوں ماتھے پر تیوریاں چڑھائے رکھتے ہو؟” معاذ کی امّی بولیں۔ معاذ نے ان کی طرف دیکھا۔ اس کی امی کا خیال تھا کہ وہ غصّے میں بہت برُا دکھائی دیتا ہے۔ اس کے ماتھے پر کسی بوڑھے آدمی جتنی جھریاں پڑگئیں تھیں اور منہ کے اردگرد دو لکیریں نظر آنے لگیں تھیں۔ امّی بولیں:
تمہیں خوش مزاج اور مسکراتے ہوئے بچوں کی طرح ہونا چاہیے مگر تم اکھڑے اکھڑے رہتے ہو۔ پتہ نہیں تم بڑے ہوکر کیسے دِکھو گے۔”
معاذ نے بگڑے ہوئے کہا ”میں بالکل ٹھیک ہوں گا” اس کی امّی بولیں ”بڑے ہونے تک تمہیں اپنا چہرہ خود تراشنا ہے، اگر ایسے ہی رہا تو تمہارا چہرہ ایک ناراض اور سفاک چہرہ شخص کے چہرے کی طرح ہوجائے گا۔ بیٹا خوش رہنا سیکھو، مسکرایا کرو اور اپنے دل میں نرمی پیدا کرو۔”
معاذ کو یقین تھا کہ بڑے ہوکر اس کا چہرہ مختلف ہوجائے گا وہ سمجھتا تھا کہ یہ سب صرف بڑوں کی نصیحتیں ہیں۔
سین نمبر ٢
ایک دن سڑک پر معاذ کی ملاقات مسعود صاحب سے ہوئی۔ اُن کی آنکھیں آسمان کی طرح نیلی اور چہرہ خوشی سے تمتماتا ہوا تھا۔ وہ ہر ایک سے پیار اور مہربانی سے ملتے۔ اس دن انہوں نے بھی معاذ کو روک کر کہا ”بیٹا اپنے ماتھے کے بل اور تیوریاں ختم کرو ورنہ بڑے ہوکر تم ایک غصّے والے بدصورت انسان دکھائی دو گے” معاذ اکتا کر بولا ”میری امّی بھی میرے متعلق اسی طرح کی باتیں کرتی ہیں وہ کہتی ہیں بچے جو چہرے بچپن میں مستقل بنائے رکھتے ہیں۔ بڑے ہوکر وہی چہرے پکے ہوجاتے ہیں۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ایسا نہیں ہوتا۔ یہ صرف باتیں ہی ہیں۔” یہ سن کہ مسعود صاحب بولے میرے ساتھ آؤ میں تمہیں ایک خاص چیز دکھاتا ہوں۔
”میرے پاس جادو کا آئینہ ہے۔ اس میں دیکھ کر تم خود بتاسکتے ہو کہ تمہاری امّی صحیح کہتی ہیں یا نہیں۔”
”جادو کا آئینہ!” یہ سن کر معاذ کے جسم میں سنسناہٹ سی پھیل گئی۔
مسعود صاحب نے اپنے گھر میں ایک اندھیری دیوار کی طرف اشارہ کیا جس پر ایک گول اور چاندی کے فریم والا دلفریب آئینہ چمک رہا تھا۔
وہ بولے جاؤ اور آئینے میں خود کو دیکھ لو۔ گھبراؤ نہیں۔ آئینے میں تمہیں بہت کچھ دکھائی دے گا۔

معاذ آئینے کے سامنے جاکر کھڑا ہوگیا۔ پہلے پہل تو کُچھ نہ دکھا بلکہ ایک دھند سی آئینے پر چھائی رہی پھر منظر صاف ہونے لگا۔ پھر اس نے آئینے میں اپنا چہرہ دیکھا۔
سین نمبر ٣
مسعود صاحب نے، ”اب اپنا چہرہ دیکھو۔ یہ چہرہ بہت پیارا دکھائی دے سکتا ہے۔ تمہاری بھوری بڑی بڑی آنکھیں، ستواں ناک، بیضوی منہ اور خوبصورت بال ہیں۔” واقعی مسعود صاحب صحیح کہہ رہے تھے۔ معاذ واقعی دکھنے میں خوش شکل ہوسکتا تھا۔ اگر وہ منہ کو ہر وقت منہ بنائے نہ رہتا اور چہرے پر تیوریاں نہ سجائے رکھتا۔ اُس نے اپنے چہرے کو گھور کر دیکھا اِس دوران مسعود صاحب آہستگی سے اور افسردگی سے گفتگو کرتے رہے۔
”اب ذرا اپنے ماتھے پر پڑی ہوئی تیوڑی جُھریاں دیکھو۔ تمہاری آنکھوں کے درمیان پڑنے والی دو لکیریں کتنی برُی لگ رہی ہیں۔ اپنا منہ دیکھو۔ بسورتے بسورتے ویسا ہی ہوگیا ہے۔ اہنی بھوری آنکھوں میں پائی جانے والی ویرانی کو دیکھو۔ لیکن ذرا، اب یہ دیکھو۔”
دھند دوبارہ آئینے پر چھاگئی۔ جب دوبارہ منظر صاف ہوا تو وہ حیران رہ گیا۔ وہ ابھی بھی خود کو ہی دیکھ رہا تھا۔ لیکن وہ اپنی عمر سے کہیں بڑا نظر آرہا تھا۔ مسعود صاحب بولے۔ ”اب یہ پھر تم ہی ہو۔ لیکن اِس عمر سے دس سال بڑے۔ ایک بڑے لڑکے۔ جلدی سے جوان ہوتے ہوئے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ بہت ہی سڑیل قسم کا لڑکا۔ تمہارا کیا خیال ہے؟”
واقعی ایسا ہی تھا۔ وہ مشکل واقعی دوستانہ نہیں تھی اور ناراضگی اُس کے چہرے پر ٹپک رہی تھی۔ معاذ کو بھی آئینے میں اپنا آپ ذرا پسند نہیں آیا۔ مسعود صاحب بولے۔ ”ذرا چہرے پر تیوریاں دیکھو اور جھریاں بھی۔ میں نے ایسا سخت چہرہ کبھی نہیں دیکھا۔ اِن تیوریوں سے یہ لڑکا عمر سے کہیں بوڑھا اور بدصورت لگ رہا ہے۔ میرا نہیں خیال کہ ایسے چہرے والے لڑکے کو کوئی دوست بنا سکتا ے؟” معاذ بولا ”واقعی۔ مجھے بھی اِس کا چہرہ ذرا پسند نہیں آیا۔ لیکن مسعود صاحب! کیا یہ میں ہی ہوں نا؟’ لیکن مسعود صاحب نے کوئی جواب نہیں دیا۔ آئینے ہر ایک دفعہ پھر دھند چھا گئی۔
آئینے پر ایک اور چہرہ اُبھرا۔ یہ ایک ادھیڑ عمر شخص کا چہرہ تھا۔ معاذ کو وہ چہرہ دیکھتے ہی اُس سے نفرت ہوگئی۔ یہ ایک بہت ہی سخت گیر شخص کا چہرہ تھا۔ جس کا ماتھا جھریوں سے بھرا ہوا تھا۔ مسعود صاحب بولے۔ ”جھریوں کو دیکھو اور آنکھوں کے اردگرد لکیروں کو دیکھو۔ یہ لکیریں تب بنتی ہیں جب ہم بھنویں اُچکا کر ماتھے پر جھریاں ڈالتے ہیں۔ اِن سے اِس شخص کا چہرہ کتنا ڈراؤنا اور بدصورت لگ رہا ہے اور اب ذرا اِس کے منہ کو دیکھو۔ یہ لکیریں جو ناک سے تھوڑی تک جاتی ہیں۔ اِس کے چہرے کو کتنا سخت گیر دکھائی دینے والا بنا رہی ہیں۔ واقعی یہ بہت خوفناک دکھائی دینے والا شخص ہے۔ کیا تم میری بات سے اتفاق کرتے ہو؟”
ڈرا ہوا معاذ کہنے لگا۔ ”میں اور چہرے نہیں دیکھنا چاہتا۔” کیونکہ وہ شخص ہوبہو معاذ سے ملتا جلتا تھا۔ لیکن پھر دھند نے وہ چہرہ دھندلا دیا۔ لیکن جب دھند صاف ہوئی تو آئینے میں ایک اور چہرہ معاذ کا منتظر تھا۔ یہ ایک نارا ۔ ناخوش اور بدصورت بوڑھے کا چہرہ تھا۔
مسعود صاحب کہنے لگے۔ ”لو ایک اور چہرہ دیکھو۔ کیا تنک مزاج اور ناراض بوڑھا ہے۔ کوئی اِس کا دوست نہیں ہوسکتا اور کوئی اِسے پیار نہیں کرتا ہوگا مجھے تو اِس پر ترس بھی نہیں آرہا۔ تمہارا کیا خیال ہے معاذ؟”
معاذ آہستگی سے بولا۔ ”جی ہاں! میں کبھی اِس طرح کا نہیں بننا چاہتا اِس آئینے سے تو مجھے خوف آنے لگا ہے۔ مسعود صاحب! کیا یہ سبھی میرے ہی نہیں ہیں جب میں بڑا ہوجاؤں گا؟”
مسعود صاحب افسردگی سے بولے۔ ”یہ تمہارے ہی چہرے ہیں۔ ہم اپنے چہرے خود بناتے ہیں۔ جیسے ہم اپنی زندگیاں خود بناتے ہیں۔ خوش بھی اور ناخوش بھی۔ کیا تم نے سب چہروں کو بسورنے سے بڑنے والی لکیریں نہیں دیکھیں اور تیوریوں سے بننے والی جھریاں۔ جیسا چہرہ تم آج کل بنائے رکھتے ہو۔ یہی لکیریں بڑی ہوتی ہیں۔ معاذ! لیکن اگر تم چاہو تو اب بھی ایک اچھے پیارے بچے بن سکتے ہو۔”
سین نمبر ٤

معاذ کچھ کہے بغیر وہاں سے کھسک لیا۔ وہ بہت پریشان تھا۔ وہ کبھی نہیں چاہتا تھا کہ ایسا بن جائے۔ لیکن وہ کیا کرسکتا تھا؟ وہ سیدھا گھر گیا اور جاکر گھر والے آئینے میں خود کو غور سے دیکھنے لگا۔ اُس نے سوچا۔ ”میں مسکرا کر دیکھتا ہوں کہ اِس سے میرے چہرے پر کیا فرق پڑتا ہے؟” وہ مسکرایا۔ تو اُس نے آئینے میں دیکھا۔ وہ آئینے میں مسکراتے ہوئے بڑا پیارا بچہ دکھائی دے رہا تھا۔ اُس کی آنکھیں مسرت سے چمک رہی تھیں۔ اُس کا منہ سیدھا ہوگیا تھا اور اُس کی جھریاں غائب ہوچکی تھیں۔
معاذ حیران ہوکر خود سے کہنے لگا۔ ”یہ وہ بچہ ہے جِسے ہر کوئی دوست بنانا پساند کرے گا۔ اب میں کبھی منہ نہیں بسوروں گا اور ماتھے پر تیوری نہیں چڑھاؤں گا۔ اب میں کبھی ناراض نہیں رہوں گا۔ میں نہیں چاہتا کہ بڑے ہوکر میں ایک بدصورت اور سخت گیر بوڑھے میں تبدیل ہوجاؤں۔ جیسا میں نے جادو کے آئینے میں دیکھا تھا۔”
اُس کے بعد معاذ نے تیوریاں چڑھانا بند کردیا اور مسکرانا شروع کردیا اُس نے بڑبڑانے کی بجائے قہقے لگانے کی عادت ڈالی۔ اُس کا مزاج دوستانہ اور ملنسار ہوگیا اور جلد ہی اُس نے کتنے سارے دوست بنائے۔
اب آپ کو بھی اندازہ ہوگیا ہوگا کہ ہم خود اپنے چہرے بناتے ہیں۔ ہم ویسے ہی بن جاتے ہیں جیسا بننا چاہتے ہیں۔ اگر یہ بات صحیح ہے تو آپ بھی ایک دفعہ آئینے کے سامنے جائیں اور فیصلہ کریں کہ آپ اپنا چہرہ کیسا دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہنستا ہوا مہربان چہرہ یا پھر بسورتا ہوا تیوریوں والا ناراض چہرہ۔ فیصلہ آپ نے خود کرنا ے۔
فیصل آباد

Loading

Read Previous

ہوا اور بادل

Read Next

ادھورا پن —- منیر احمد فردوس

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!