صبغہ نے شہیر کو بس اسٹاپ کی طرف آتے دیکھا’ وہ خود چند لمحے پہلے بس سے اتری تھی۔ وہ اس وقت اسے ایک فرشتے کی طرح لگا۔ اسے لگا صرف وہی ہے جو اس وقت اس کی مدد کر سکتا ہے۔ وہ کسی معمول کی طرح بے اختیار اس کی طرف گئی۔ اس نے اس کے چہرے کے تاثرات پر غور نہیں کیا۔
”شہیر ! مجھے آپ کی مدد کی ضرورت ہے۔” شہیر ٹھٹک گیا اس نے صبغہ کو دیکھا پھر اس سے نظریں چرا لیں۔ کچھ دیر وہ منہ سے ایک بھی لفظ نکالے بغیر کھڑا رہا’ صبغہ کو اس کی خاموشی سمجھ میں نہیں آئی۔ اسے یک دم خوف محسوس ہوا کہ کیا وہ اس کی مدد سے انکار کرنے والا تھا’ بالکل اس کے باپ کی طرح اور اگر وہ ایسا کر بھی دیتا تو ایسا کرنے میں حق بجانب تھا۔ آخر وہ کیا سمجھ کر اس کے پاس اس طرح چلی آئی تھی وہ اس کا تھا کون؟ صرف ایک ہمسایہ’ ایک شناسا۔
اس سے پہلے کہ وہ شہیر سے کچھ کہتی’ اس نے جیب سے ایک والٹ نکالا پھر اس میں سے ایک وزیٹنگ کارڈ نکالا اور اسے صبغہ کی طرف بڑھا دیا۔
”آپ اس ایڈریس پر جا کر اس آدمی سے ملیں’ یہ میرا دوست ہے’ آپ کی مدد کرے گا۔” صبغہ ذہنی طور پر اپ سیٹ نہ ہوتی تو وہ یہ محسوس کر لیتی کہ شہیر کی آواز بھرائی ہوئی ہے۔ اس کا چہرہ سرخ تھا اور وہ اس سے نظریں چراتے ہوئے بات کر رہا تھا۔
مگر وہ ذہنی طور پر اس قدر الجھی ہوئی تھی کہ اس نے ایک لفظ کہے بغیر اس کے ہاتھ سے کارڈ پکڑ لیا۔ شہیر اس کے جواب کا انتظار کرنے کے لیے رکا نہیں۔ وہ برق رفتاری سے بس کی طرف لپکا اور اس میں سوار ہو گیا۔
صبغہ نے اس کارڈ اور اس پر لکھے نام کو حیرانی سے دیکھا۔ آخر شہیر کو کیسے پتہ چلا کہ وہ اس سے جاب کے سلسلے میں مدد چاہتی ہے اور یہ دوست آخر یہ دوست اس کی کیا مدد کر سکتا ہے۔ اس نے کارڈ پر نظر ڈال کر الجھی ہوئی نظروں سے دور جاتی ہوئی بس کو دیکھا۔
”کیا ممی نے شہیر سے یا اس کی امی سے کوئی بات کی ہے۔” فوری طور پر اس کے ذہن میں خیال آیا۔
”ہاں وہ اتنی پریشان ہیں کہ وہ بھی میری طرح کسی سے بھی مدد مانگ سکتی ہیں۔” صبغہ نے سوچا۔
”مگر فاطمہ آنٹی کے گھر جا کر شہیر سے مدد مانگنا …” وہ کچھ کنفیوز ہوئی۔ منیزہ اس طرح نہیں کر سکتی تھیں کیونکہ وہ آج تک اپنے کسی کام کے لیے اس طرح کسی کے پاس نہیں گئی تھیں مگر کیا پتہ ممی چلی گئی ہوں۔” صبغہ نے ایک بار پھر سوچا۔ ”آخر میں بھی تو کبھی اپنے کسی کام کے لیے کسی کے پاس نہیں گئی اور اب یوں ہر کام کے لیے شہیر کا سہارا لے رہی ہوں۔”
صبغہ نے ایک بار پھر کارڈ پر نظر دوڑائی۔ پھر گھر کی طرف جانے کے بجائے دوبارہ بس اسٹاپ کی طرف بڑھنے لگی۔ اسے ابھی شہیر کے اس دوست کے پاس جانا تھا۔
٭٭٭
”مجھے آپ سے شہیر کے بارے میں بات کرنا ہے۔” دوبئی سے واپس آنے کے بعد اس دن ہارون اور نایاب کا پہلا باقاعدہ آمنا سامنا ہوا تھا۔ ہارون کچھ دیر پہلے ہی باہر سے آیا تھا اور نایاب سے اس کی ملاقات لاؤنج میں ہی ہو گئی تھی۔
ہارون نے ہمیشہ کی طرح پدرانہ شفقت سے مغلوب ہوتے ہوئے اسے گلے لگایا مگر نایاب نے گلے ملتے ہی اس سے شہیر کی بات کی۔ ہارون کا سارا جوش یکدم جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔ نایاب کو خود سے الگ کرتے ہوئے اس نے بہت غور سے اس کو دیکھا۔
”اندر چل کر بات کرتے ہیں۔” اس نے نایاب کا ہاتھ تھامتے ہوئے کہا ۔ وہ اس کے ساتھ چلتے ہوئے اب وہ ساری باتیں یاد کر رہا تھا’ جو اسے نایاب سے کہنا تھیں۔ وہ اسے اپنے ساتھ اپنے بیڈ روم میں لے آیا۔ شائستہ پہلے ہی وہاں موجود تھی اور نایاب کو ہارون کے ساتھ آتا دیکھ کر وہ بھی کچھ چونک گئی تھی۔
”بیٹھو بیٹا!” ہارون نے اس سے بہت نرمی سے کہا۔ نایاب بے تاثر چہرے کے ساتھ صوفہ پر بیٹھ گئی۔ شائستہ موبائل پر کسی سے بات کر رہی تھی۔ اس نے بات کرتے کرتے اچانک فون بند کر دیا۔
”شہیر کے بارے میں تمہاری ممی نے تم سے بات کی ہو گی۔” ہارون نے اس کے پاس صوفہ پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
”ہاں کی تھی اور مجھے ممی کی کسی بات پر یقین نہیں آیا’ میں سب کچھ آپ سے سننا چاہتی ہوں۔” اس نے بلاجھجک کہا۔ شائستہ کے ماتھے پر کچھ لکیریں ابھریں۔ ہارون نے ایک نظر شائستہ کو دیکھا اور پھر نایاب سے کہا۔
”مگر تمہاری ممی نے کچھ بھی جھوٹ نہیں کہا ہے’ یہ سب کچھ ایسے ہی ہوا تھا صرف ہم لوگوں نے تم دونوں سے یہ بات چھپائی۔” نایاب نے ہارون کی بات کاٹ دی۔
”پاپا میرے ساتھ ممی کی طرح absurd باتیں نہ کریں’ میں منہ اٹھا کر اس طرح اچانک کسی لڑکے کو اپنا بھائی نہیں مان سکتی نہ ہی لوگوں کو آپ کی ساری وجوہات پیش کر سکتی ہوں۔ لوگ ہنسیں گے مجھ پر اور آپ پر بھی اگر یہ سب ایسا ہے جیسے آپ کہہ رہے ہیں تو بھی آپ شہیر کو وہیں رہنے دیں جہاں وہ ہے اس کی مالی مدد کریں۔
کسی اور طریقہ سے اس کو سپورٹ کریں مگر یہ پینڈورا باکس مت کھولیں جو آپ کھولنا چاہتے ہیں۔”
وہ بنا کسی لحاظ کے بول رہی تھی اور اس کے ہر جملے پر شائستہ کے چہرے کے تاثرات تبدیل ہو رہے تھے۔ ہارون کمال نے چند بار شائستہ کو دیکھا مگر وہ اس کی طرف متوجہ نہیں تھی وہ نایاب کو گھور رہی تھی جو مسلسل بول رہی تھی۔
”میں نے اسد سے بات کی ہے اور وہ چند دنوں تک پاکستان آ رہا ہے۔” نایاب نے ایک اور انکشاف کیا۔
”میری طرح اسے بھی ان میں سے کسی بات پر یقین نہیں آیا۔ اور وہ تو سرے سے یہ ماننے پر ہی تیار نہیں ہے کہ شہیر ہمارا بھائی ہو سکتا ہے یا آپ لوگوں کا کوئی بچہ کبھی گم ہوا تھا اور پاپا! آپ یہ بات اچھی طرح جان لیں کہ میں وہی کروں گی جو اسد مجھ سے کہے گا’ میں اس معاملے میں اسد کے ساتھ ہوں’ آپ لوگ شہیر کو اس گھر میں لائے تو ہم دونوں یہ گھر چھوڑ کر چلے جائیں گے۔ ورنہ دوسری صورت وہی ہے جو میں نے آپ کو بتائی ہے۔” وہ کہہ کر اٹھ کھڑی ہوئی۔ ہارون یا شائستہ میں سے کسی نے اسے روکنے کی کوشش نہیں کی۔ ہارون’ شائستہ کو دیکھ رہا تھا۔ نایاب نے ماں باپ پر ایک آخری نظر ڈالی اور کمرے سے باہر نکل گئی۔
٭٭٭
ثمر نے گھر آنے پر گھر کا دروازہ کھلا ہوا پایا تھا’ وہ کچھ حیران سا اندر داخل ہوا۔ صحن میں داخل ہوتے ہی اس نے صحن کے وسط میں تخت پر بیٹھی فاطمہ کو دیکھ کر اس نے سرجھکا لیا۔
”امی ! یہ دروازہ کیوں کھلا ہوا ہے۔؟” ثمر نے پلٹ کر دروازے کا بولٹ چڑھاتے ہوئے کہا
”آپ کو اندازہ نہیں ہے اس طرح کوئی بھی اندر آ سکتا ہے۔”
وہ فاطمہ کی طرف آتے ہوئے بولا اور تب قریب آنے پر اس نے پہلی بار فاطمہ کے چہرے پر غور کیا’ وہ اس وقت اگرچہ رو نہیں رہی تھی مگر اس کی متورم آنکھیں کسی کو بھی یہ بتا سکتی تھیں کہ وہ روتی رہی ہے۔
”کیا ہوا؟” ثمر بے اختیار پریشان ہو کر فاطمہ کے پاس آیا۔
”کچھ نہیں۔” فاطمہ کی آواز جیسے کسی کھائی سے آئی تھی۔
”آپ مجھ سے کچھ چھپا رہی ہیں؟” وہ فاطمہ کے چہرے کو دیکھتے ہوئے بولا۔
”نہیں میں کچھ نہیں چھپا رہی’ بس طبیعت خراب ہے میری۔” فاطمہ نے اسی طرح سرجھکائے ہوئے کہا۔ ثمر نے آگے بڑھ کر فاطمہ کی کلائی تھام لی۔
”بخار تو نہیں ہے پھر کیا ہوا؟”
”میرے سر میں درد ہے۔ ” فاطمہ نے اس سے اپنی کلائی چھڑاتے ہوئے کہا۔ اس کی یہ توجہ اس وقت اس کے دل کو چیر رہی تھی۔
”کیا سب کچھ جان جانے پر بھی یہ میرے لیے اسی طرح پریشان ہو گا۔” اس نے اپنے دل میں سوچا۔
”سر میں درد ہے تو ٹیبلٹ لے لیتیں اور اندر جا کر لیٹ جاتیں یہاں صحن میں بیٹھنے کی کیا تک ہے۔” اس نے ماں کو جیسے جھڑکا۔
”میں شہیر کا انتظار کر رہی ہوں۔” فاطمہ کے منہ سے بے اختیار نکلا۔ ثمر نے حیران ہو کر فاطمہ کو دیکھا۔ رات ابھی اتنی زیادہ نہیں ہوئی تھی کہ وہ اس طرح شہیر کے انتظار کے لیے بیٹھ جاتی اور خودوہ بھی تو ابھی چند لمحے پہلے ہی گھر آیا تھا۔ پھر صرف شہیر کا انتظار کیا معنی رکھتا تھا۔
”شہیر بھائی تو آنے والے ہی ہوں گے۔ مگر آج ان کا انتظار کرنے کی کوئی خاص وجہ ہے’ پہلے تو اس وقت آپ کبھی ان کے انتظار میں نہیں بیٹھیں۔” اس کے سوال کا جواب دینے کے بجائے فاطمہ یک دم اٹھ کر اندر کمرے میں چلی گئی۔ ثمر نے حیرانی سے اس کے اس انداز کو دیکھا۔
مگر اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور کہتا ‘ بیرونی دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی۔ ثمر پلٹ کر دروازے کی طرف گیا اور اس نے دروازہ کھول دیا۔ باہر شہیر کھڑا تھا۔ دروازہ کھلنے پر وہ خاموشی سے اندر آ گیا۔ فاطمہ کے تاثرات نے اگر ثمر کو چونکایا تھا تو شہیر کے تاثرات نے اسے پریشان کر دیا تھا۔ اس نے شہیر کو کبھی اس طرح بی ہیو کرتے نہیں دیکھا تھا۔ شہیر ایک لفظ کہے بغیر برق رفتاری سے اپنے کمرے کی طرف گیا۔ ثمر نے دوسرے کمرے کے دروازے پر فاطمہ کو کھڑا دیکھا جو اپنے آنسوؤں پر قابو پانے کی کوشش کر رہی تھی۔
ثمر حیرانی سے ان دونوں کو دیکھ رہا تھا۔ ”کیا ان دونوں کے درمیان کوئی جھگڑا ہوا ہے؟” ان دونوں کا ردعمل بتا رہا تھا کہ واقعی ایسا ہی ہوا تھا۔ اور اگر یہ ہوا ہے تو ثمر کے نزدیک یہ دنیا کا عجیب ترین واقعہ تھا کیونکہ اس نے اپنی زندگی میں کبھی شہیر اور فاطمہ کے درمیان کوئی اختلاف ہوتے نہیں دیکھا تھا۔ یا تو فاطمہ بلاچوں چرا شہیر کی بات مانتی تھی’ یا پھر شہیر اس کی ہاں میں ہاں ملاتا رہتا تھا۔ مگر کسی بات پر جھگڑا اور اس طرح کا جھگڑا کہ ان کے درمیان بول چال بند ہونے کی نوبت آئے’ یہ اس نے اپنے ہوش میں نہیں دیکھا تھا۔ لیکن اب ”کچھ” ہو چکا تھا۔
شہیر نے کمرے میں داخل ہوتے ہی کمرے کا دروازہ بند کر لیا تھا۔ فاطمہ وہیں دوسرے کمرے میں کھڑی اس کے کمرے کے دروازے پر نظریں جمائے ہوئے تھی۔
”آپ دونوں کے درمیان کوئی جھگڑا ہوا ہے؟” ثمر نے پاس آ کر آہستہ آواز میں فاطمہ سے پوچھا۔
”تم اس سے کھانے کا پوچھو۔” فاطمہ نے جواب دینے کے بجائے کہا۔
”آپ پہلے یہ بتائیں کہ کیا آپ دونوں کا آپس میں جھگڑا ہوا ہے؟” ثمر بضد تھا۔
”ہاں ۔” فاطمہ نے شکست خوردہ لہجے میں کہا۔
”واقعی ؟” ثمر کو اب بھی یقین نہیں آیا۔ فاطمہ پلٹ کر کمرے میں چلی گئی۔
ثمر نے شہیر کے کمرے کے دروازے پر دستک دی … اس کی پہلی دستک پر ہی اندر سے شہیر نے بڑی درشتی سے کہا۔
”کیا ہے؟” ثمر کو بھائی کا یہ لب و لہجہ سن کر جیسے ایک جھٹکا لگا۔
وہ اس طرح بات کرنے کا عادی نہیں تھا’ پھر اب اسے کیا ہوا تھا۔
”شہیر بھائی! کھانا لے آؤں۔؟”
”مجھے بھوک نہیں ہے اور تم دوبارہ میرے دروازے پر دستک مت دینا۔” شہیر نے کرختگی سے کہا۔ ثمر چند لمحے خاموش کھڑا سوچتا رہا پھر دوسرے کمرے میں آ گیا۔
”شہیر بھائی تو کھانا نہیں کھا رہے ہیں’ آپ کے لیے کھانا لے آؤں۔” اس نے اندر آکر فاطمہ سے پوچھا۔
”نہیں ‘ مجھے بھی بھوک نہیں ہے۔ تم کھالو۔” فاطمہ اپنے بستر پر لیٹ گئی۔ ثمر باہر جانے کے بجائے آگے بڑھا اور فاطمہ کے بستر پر اس کے ساتھ لیٹ گیا اس نے ننھے بچوں کی طرح فاطمہ کے گرد اپنا ایک بازو حمائل کر دیا’ فاطمہ کو بے اختیار رونا آیا۔ کتنے لمحے باقی رہ گئے تھے اس کے اس لاڈ پیار کو وصول کرنے کے۔
”ثمر جاؤ جا کر اپنے بستر میں سوؤ۔” فاطمہ نے بھرائی ہوئی آواز میں اس کے بازو کو ہٹانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
”کیسے سوؤں؟ شہیر بھائی نے کہا ہے کہ میں دوبارہ دروازے پر دستک نہ دوں اس لیے آج تو مجھے ادھر ہی سونا پڑے گا۔” اس نے اطمینان سے کہا۔
”پھر ثانیہ کے بستر پر جا کر سو جاؤ۔”
”نہیں’ میں ادھر ہی سوؤں گا آپ کے ساتھ”۔ وہ جیسے ماں کو بہلانے کی کوشش کر رہا تھا۔ فاطمہ کا دل چاہ رہا تھا وہ اس سے لپٹ کر دھاڑیں مار مار کر رونے لگے۔ کم از کم اس وقت اس کا یہ لمس اس کے لیے ناقابل برداشت تھا۔
وہ شہیر کی طرح اسے بھی سب کچھ بتا دینا چاہتی تھی’ مگر وہ اسے اس حالت میں کیسے سب کچھ بتا سکتی تھی۔ جب وہ محبت سے اس کا سر اس طرح سہلا رہا تھا جیسے وہ کوئی ننھی بچی ہو۔
”چھوڑیں امی! اب یہ رونا دھونا بند کریں۔ صبح ہو گی تو … شہیر بھائی کا غصہ خود ہی اتر جائے گا۔ آپ دیکھئے گا وہ کتنا شرمندہ ہوں گے۔” وہ اب اس کے آنسو پونچھتے ہوئے لاپرواہی سے کہنے لگا۔ فاطمہ بہت دیر تک بھیگی آنکھوں کے ساتھ اسے دیکھتی رہی۔
وہ اس کا اپنا بیٹا ہوتا تو اسے اس پر کتنا ناز ہوتا۔ اور اب وہ اسے دیکھ رہی تھی تو اس کے انداز میں کوئی استحقاق نہیں تھا۔ وہ جن کا بھی بیٹا تھا وہ ماں باپ واقعی بدقسمت تھے’ جنہوں نے اسے یوں چھوڑ دیا اگر آج اتنے سالوں بعد وہ اسے دیکھتے تو کبھی چھوڑ دینے کا نہیں سوچتے۔ اس کے دل میں عجیب چبھن سی ہوئی۔
”اگر کبھی میں تم سے یہ کہوں ثمر! کہ میں تمہاری ماں نہیں ہوں تو ؟” فاطمہ کے دل میں اچانک پتا نہیں کیا آیا تھا۔ ثمر کا ہاتھ ایک لمحے کے لیے اس کے بالوں پر ٹھہر گیا۔ فاطمہ نے ”اس لمحے” کو محسوس کیا۔ اس کے دل کی کوئی دھڑکن مس ہوئی تھی۔ وہ اب بے حد سنجیدگی سے اس کو دیکھ رہا تھا۔
”پھر میں آپ سے کہوں گا کہ میں یہ پہلے ہی جانتا تھا۔” فاطمہ کا دل دھڑکنا بھولا تھا’ پھر اسے یاد آیا وہ کس طرح ہر بات کو مذاق میں اڑانے کا عادی ہے وہ اس وقت بھی یہی کر رہا تھا۔ اس کے بالوں پر اس کا ہاتھ پھر گردش میں تھا۔ ثمر نے اب اس کے چہرے سے نظریں ہٹالی تھیں۔ فاطمہ اس سے جواب نہیں پا سکی تھی۔ ثمر کس طرح کا ردعمل کرے گا وہ اندازہ نہیں کر سکی۔ ایک نئے خوف نے اسے اپنی گرفت میں لے لیا۔
٭٭٭