تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۳

”منصور صاحب !اس فیکٹری کے بارے میں قانونی کاروائی کرنے سے پہلے میں آپ کو دوسری فیکٹری کے بارے میں کچھ بتانا چاہتا ہوں۔” منصور اپنے وکیل اور مینجر کے ساتھ ہوٹل کے کمرے میں بیٹھا ہوا تھا۔ وہ کچھ دیر پہلے ہی وہاں پہنچا تھا اور اب اپنے وکیل کے ساتھ صلاح مشورہ کر رہا تھا۔ جب وکیل نے یک دم اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔ منصور چونک گیا۔
”دوسری فیکٹری کے بارے میں …؟”
”یہاں آنے سے کچھ دیر پہلے مجھے ہارون کمال صاحب کے وکیل کا فون آیا تھا’ وہ کہہ رہا تھاہارون کمال آپ کے ساتھ پارٹنر شپ ختم کرنا چاہتے ہیں اور اس سلسلے میں وہ آپ کے ساتھ میری موجودگی میں ملنا چاہتے ہیں۔ ”
منصور کو لگا اس بار چھت نہیں پورا آسمان اس کے سر پر آن گرا تھا۔
٭٭٭
دیکھنے والوں نے اس نوجوان خوبصورت لڑکی کو شام کے دھند لکے میں نہر کے پل سے نہر میں چھلانگ مارتے دیکھا تھا۔ اس لڑکی کی خوش قسمتی یا بد قسمتی یہ تھی کہ شام کے اس پہر بھی وہاں نہر کے کنارے بہت سے لوگ تھے ۔ریڑھیوں والے’ پھل فروش اور ایسے ہی دوسرے کام کرنے والے جو اس وقت اپنا کام سمیٹ رہے تھے اور اس پر مستزاد نہر کے پل سے گزرنے والی گاڑیاں والے جو ایک نوجوان لڑکی کو پل سے نیچے چھلانگ لگاتے دیکھ کر بے اختیار اپنی اپنی گاڑیاں روکنے لگے تھے۔ یک دم ہی پل پر شور و غوغا برپا ہو گیا تھا۔ گاڑیوں والے اپنی گاڑیوں کی ہیڈلائٹس جلا کر خود گاڑیوں سے نیچے اتر گئے۔نہر کا وہ حصہ وقتی طور پر یک دم روشن ہو گیا تھا۔ پانی کے تیز ریلے میں وہ لڑکی نیچے پانی میں غوطے کھاتی نظر آرہی تھی اور اس کے پھولے ہوئے کپڑے پانی میں اس کا سراغ دے رہے تھے۔
پھر یک دم وہ کپڑے پانی میں غائب ہونے لگے۔ وہ لڑکی اب ڈوب رہی تھی۔ پل کے اوپر اور ارد گرد شور میں اضافہ ہونے لگا پھر یکے بعد دیگرے پل کے اوپر سے بہت سے نوجوانوں نے نہر میں چھلانگیں لگائیں ۔ اگلے کئی ہفتے کے لیے وہاں وہ ہیرو کے طور پر جانے جاتے’ اگر وہ اس لڑکی کو بچانے میں کامیاب ہو جاتے مگراس کا امکان کم نظر آتا تھا۔ شام کے دھند لکے نے اور پانی کی تیز رفتار نے اس لڑکی کے بچائے جانے کے امکانات کو بہت کم کر دیا تھا۔
کچھ دوسرے آدمیوں اور لڑکوں نے نہر کے کنارے سے پل سے کافی آگے سے بھی نہر میں چھلانگ لگائی تھیں اور ایسے ہی ایک آدمی نے نہر کے کنارے پر اس جگہ بندھی ایک پرا نی اور بوسیدہ کشتی کو پانی میں دھکیل کر آگے جانے کی کوشش کی۔ ایک اور آدمی ایک لمبا بانس لیکر کشتی میں سوار ہو گیا۔




ان دونوں کو چیوؤں کی مدد سے کشتی نہر کے درمیان لے کر جانے میں چند منٹ لگے تھے پھر ان میںسے ایک آدمی نہر میں اتر گیا۔ پانی میں ڈبکیاں لگاتے ہوئے وہ ادھر ادھر ہاتھ مارتے ہوئے اس لڑکی کو تلاش کرنے لاگا۔ دوسرے آدمی نے اس لمبے بانس کو پانی میں ڈال دیا۔ وہ بانس کو سیدھا کرنا چاہتا تھا جب اسے محسوس ہوا کہ بانس نہر کے نیچے کسی چیز میں اٹک گیا تھا’ اسے یقین تھا یہ لڑکی نہیں ہو سکتی تھی کیونکہ پانی کی رفتار کے ساتھ اسے وہاں تک آنے میں ابھی مزید چند منٹ لگتے ۔ اس نے بانس کو چھڑانے کی کوشش کی ‘ وہ ناکام رہا ۔ اس نے آواز دے کر دوسرے آدمی کو مدد کے لیے بلایا۔ اس کا خیال تھا بانس نہر کی تہہ میں اگی ہوئی کسی جھاڑی میںپھنس گیا تھا۔ دوسرا آدمی بانس کو پکڑے پکڑے پانی میں غوطہ کھاتے ہوئے اسے چھڑانے کے لیے نیچے پانی میں گیا۔
عین اسی وقت پہلے آدمی کوکشتی سے کچھ فاصلے پر ایک کپڑے کی ہلکی سی جھلک دکھائی دی۔ سوچے سمجھے بغیر اس نے بانس ہاتھ سے چھوڑتے ہوئے پانی میں چھلانگ لگا کر اس کپڑے کے تعاقب میں ہاتھ مارا ۔ کپڑاوزنی تھا’وہ یقینا اسی لڑکی کا لباس تھا۔ بے حد جوش کے عالم میں اس نے پانی میں کچھ اور نیچے جاکر ہاتھ مارے اور تب ہی اس کے ہاتھ سے ایک بازو ٹکرایا۔ اس نے برق رفتاری سے اسے پکڑ لیا ۔ لڑکی کے پیچھے پل کے اوپر سے چھلانگیں لگانے والے لڑکے اب قریب آگئے تھے۔ ان میں سے ایک دونے اس آدمی کو کشتی سے چھلانگ لگا کر زیر آب جاتے دیکھا تھا اور پھر خود بھی اس کے تعاقب میں اسی جگہ پرخودبھی غوطہ لگایا۔ تب تک وہ آدمی پانی سے سر باہر نکال کر شور مچانے لگا تھا۔ ایک لڑکے نے ہاتھ مارتے ہوئے اس لڑکی کے اسی بازو کو اپنی گرفت میں لیا جو پہلے ہی اس آدمی کے ہاتھ میں تھا اور پھر پوری طاقت سے اسے اوپر دھکیلنے کی کوشش کی۔ ایک منٹ سے بھی کم وقت میں وہ لڑکی پانی کی سطح پر آگئی تھی۔ وہ بے ہوش تھی۔ پانی میں چھلانگ لگانے والے تمام لوگ اب اسی سمت آرہے تھے۔ سوائے اس آدمی کے جو بانس کے تعاقب میں گیاتھا ۔ وقفے وقفے سے وہ زیر آب پانی کی سطح تک آتا اور پھر سانس لے کر اندر چلا جاتا اور پانی کی سطح پر خود سے دور لوگوں کے ہجوم کو دیکھ کر اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ لڑکی کو نکال لیا گیا تھا۔ چنانچہ اب وہ خاصا بے فکر ہو کر بانس کو چھڑانے کی کوشش میں مصروف تھا۔
آخری غوطے میں اس کا ہاتھ بالآخر اس چیز پر پڑا جو بانس میں اٹک گئی تھی۔ وہ گدلے اور مٹیالے پانی میں شام کے اندھیرے میں یہ نہیں دیکھ سکتا تھا کہ وہ کیا چیزتھی۔ اسے وہ رسی نما کوئی چیز محسوس ہوئی جو بانس کے گرد لپٹی ہوئی تھی۔ اس نے کچھ اور نیچے غوطہ مارتے ہوے بانس کو اس سے الگ کرنا چاہا اور تب ہی اس کا ہاتھ اس دوسری چیز سے ٹکرا یا جو اس رسی سے منسلک تھی۔ اس چیز پر ہاتھ پھیرتے ہوئے چند لمحوں میں اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ کیا تھا۔ وہ ایک بیگ تھا۔ اس آدمی نے یک دم ہی اس بیگ کے اسٹریپس کو اپنے ہاتھ میں لے کر بیگ کو اوپر کی طرف کھینچنے کی کوشش کی۔ پہلی کو شش ناکام رہی بیگ بہت وزنی تھا۔ آخر اتنے وزنی بیگ میں کیا ہو سکتا تھا۔ آدمی کو تجسس ہوا ۔ اس نے پانی کی سطح پر آکر سانس لیا اور دور کشتی کو دیکھا۔ لڑکی کو اب کشتی پر منتقل کیا جا چکا تھا۔ اس کا ساتھی بھی یقینا اس وقت اسے بھلائے ہوئے اس لڑکی کو ہوش میں لانے کی کوشش میں مصروف تھا اورشاید کچھ ہی دیر میں وہ بانس کا دوسرا سرا نہر میں پھینک کر کشتی کو کنارے کی طرف لے جاتا ۔
آدمی کا دل چاہا کہ وہ بھی بانس کو چھڑانے کی ایک اور کوشش کرنے کے بجائے واپس کشتی کی طرف چلا جائے مگر وہ اس بیگ کو اپنے ذہن سے نکالنے میں ناکام رہا۔ پتہ نہیں اس میں کیا تھا۔ ہو سکتا ہے کوئی قیمتی چیز …اسمگلنگ کا کوئی مال …لوٹ مار کا کوئی سامان …کسی حادثے کا شکار ہونے والی کسی گاڑی میں سے کسی مسافر کا سامان …اس کا دماغ جیسے ایک پہیلی میں الجھا ہوا تھا…جو بھی ہو اس بیگ میں کچھ نہ کچھ تو ہو گا…مجھے ایک بار پھر قسمت آزمانی چاہیے۔ اس آدمی نے بالآخر طے کیا اور نہر میں دوبارہ غوطہ لگایا۔
اس بار صرف چند لمحوں کی جدوجہد کے بعد وہ بیگ کو کھینچ کر پانی کی سطح تک لانے میںکامیاب ہوگیا تھا۔ کشتی اب واقعی نہر کے کنارے لگی ہوئی تھی اور وہاں ہجوم تھا۔ بانس نہر میں غائب ہو چکا تھا۔
اس آدمی نے نہر کے اس کنارے کی طرف جانے کے بجائے جہاں ہجوم تھا نہر کے دوسرے کنارے کا رخ کیا۔ وہ بیگ کو بمشکل گھسیٹ رہا تھا۔ وہ واقعی بے حد وزنی تھا۔ اسے دوسرے کنارے تک پہنچنے میں چند منٹ لگے تھے۔ مگر اس کی ہمت تب تک جواب دے چکی تھی۔ بیگ اب نہر کے کنارے پڑاتھا۔آدمی کچھ دیر نہر کے کنارے بیٹھ کر گہرے سانس لیتے ہوابیگ کو دیکھتا رہا ۔ وہ ایک بہت بڑے سائز کا بیگ تھا۔ بیگ کو ایک چھوٹا سا تالا لگایا گیا تھا۔ سیاہ رنگ کے اس بیگ پر ایک نظر ڈالتے ہی یہ اندازہ ہو جاتا تھا کہ وہ بہت قیمتی ہے۔ نہ صرف مہنگا بلکہ نیا بھی۔ استعمال کرنے والے نے ابھی تک اسٹریپس کے ساتھ لگے ٹیگز کو نہیں اتارا تھا۔ پانی نے اگرچہ ان ٹیگزکی حالت خراب کر دی تھی مگراس کے باوجود اس پر لگی ہوئی تحریر پڑھنا مشکل نہیں تھا ۔ وہ لاہور کے ایک بہت بڑے اسٹور سے خریدا گیا تھا۔ وہ آدمی انگلش جانتا ہوتا تو ان ٹیگز کو پڑھنے کی کوشش کرتا مگر اس نے ان پر نظر نہیں دوڑائی۔
کچھ دیر تک اپنا سانس بحال کر کے بعد اس نے بیگ کے پاس جا کر اس کی مختلف جیبوں کو کھولنا شروع کیا۔ بیگ کی حالت سے اندازہ ہو رہا تھا کہ اسے پانی میں بہت عرصہ نہیں ہوا’ورنہ اس آدمی کو زپ کھولنے میں کچھ وقت کا سامنا کرنا پڑتا۔بیگ کی بیرونی کسی جیب میں کچھ نہیں تھا۔ وہ آدمی بمشکل اپنا ہاتھ ان جیبوں کے اندر ڈال سکا۔ بیگ کے اندر جو کچھ بھی بھرا ہوا تھا’وہ بہت سخت تھا اور اس نے باقی جیبوں میں کچھ اور رکھنے کی گنجائش نہیں چھوڑی تھی۔ آدمی نے بیگ کو کچھ تھپتھپا کر اندر موجود چیزوں کی نوعیت کے بارے کچھ اندازہ لگانے کی کوشش کی تو اسے ایک عجیب سا احساس ہوا۔ پہلی بار اس نے اس بد بو کو محسوس کیا جواب یک دم تیز ہوگئی تھی۔ اس سے پہلے وہ یہی سمجھ رہا تھا کہ وہ بونہر کے کنارے جھاڑیوں میں مختلف پرندوں اورجانوروں کی لاشوں کی وجہ سے ہے مگر بیگ کے قریب کچھ دیر بیٹھے رہنے پر اسے محسوس ہونا شروع ہوا تھاجیسے بوکا منبع بیگ ہی تھا۔ اس نے بیگ پر رکھے اپنے ایک ہاتھ کو اٹھا کر سونگھا اور اس کا دل بے اختیار متلایا ۔ اس کے ہاتھ میں سے ویسی ہی بو آرہی تھی۔ پیروںکے بل بیٹھتے ہوئے اس نے ذرا ساجھک کر بیگ کو سونگھا اور پھر بے اختیار اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ پہلی بار اس نے صحیح طور پر بیگ سے اٹھنے والے بدبو کے بھبھکوں کو محسوس کیا۔ اس کا دل دھڑکنے لگا تھا۔ اس نے زندگی میں پہلی بار اس طرح کی بدبو محسوس کی تھی۔ اس کے باوجود وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ وہ کسی انسانی لاش سے آنے والی بدبو تھی۔ وہاں کھڑے کھڑے اسے چند لمحوں میں فیصلہ کرنا تھا کہ اسے کیا کرنا ہے۔ بیگ کو واپس نہر میں پھینک کر خود اطمینان سے گھر چلا جائے یا پھر پولیس کو اطلاع کر دے ۔ا س صورت میں وہ خود پھنس سکتا تھا۔ اس نے پل بھر میں فیصلہ کرلیا تھا۔ بیگ کو اسٹریپس سے پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے وہ دوبارہ نہر کے پانی کی طرف لے جانے لگا۔ نہر کے کنارے تک پہنچنے کے بعد اس سے پہلے کہ وہ بیگ کو دوبارہ پائی میں دھکیل دے ‘ اس نے دور کسی مسجد سے اذان کی آواز سنی تھی۔ اس کے قدم ٹھٹکے پھر ہاتھ رکے ۔ اس کے دل کو جیسے کسی نے مٹھی میںلیا ۔ بیگ میں موجود لاش اگر کسی انسان کی تھی تو کیا وہ انسان اس قابل تھا کہ اسے ایک بار پھر پانی میں پھینک دیا جاتا’ جہاں کچھ عرصہ گزر جانے کے بعد بیگ گلتا پھر وہ وجود گلتا سڑتا مچھلیوں اور دوسرے حشرات کی غذا بن جاتا۔ صرف ایک ڈھانچہ کسی شناخت کے بغیر وہاں پڑا رہتا اور زمین کے اوپر اس انسان کے وارث اسے پاگلوں کی طرح تلاش کرتے رہتے ۔ وہ آدمی اس لاش کو زندگی نہیں دے سکتا تھا مگراس لاش کو اس کے وارثوں تک پہنچانے کی کوشش کرکے اسے بے گوروکفن پڑے رہنے سے بچا سکتا تھا۔
”اللہ اکبر…اللہ اکبر…”موذن کی آواز نے ایک بار پھر اس کے دل کو عجیب سی ہیبت کی گرفت میں دیا۔ بیگ کے اسٹریپس پراس کے ہاتھ کی گرفت کمزور ہوگئی۔ پہلی بار اسے اس لاش پر ترس آیا جو اس بیگ کے اندر ٹھونسی گئی تھی پھر اسے اپنی موت کا خیال آیا اور اس قبر کا جو اس پر اس سے بھی زیادہ تنگ کی جاسکتی تھی۔ اس نے اس بار بیگ کو پہلے کی طرح گھسیٹا نہیں بلکہ اسے زمین سے کچھ اوپر اٹھاتے ہوئے نہر کے کنارے کے پاس گزرتی کچی سڑک کی طرف چلنا شروع کر دیا۔
٭٭٭
صبغہ نے منصور کے موبائل پر فون کیا ۔ چند بیل کے بعد منصور نے فون اٹھا لیا۔
”پاپا!میں آپ سے ملنا چاہتی ہوں’مجھے آ پ سے بہت ضروری بات کرنا ہے۔”صبغہ نے منصور کی آواز میں موجود سرد مہری کو نظر انداز کرتے ہوئے علیک سلیک کے فورا بعد کہا۔
”اگر تم اس لیے مجھ سے ملنا چاہتی ہو کہ میں تمہیں پیسہ دوں تو اپنے ذہن سے یہ خیال نکال دو۔”منصور نے اس کی بات کے جواب میں درشتی سے کہا۔ صبغہ کو جیسے شاک لگا۔ کیا ضروری تھا کہ منصور علی ہر بار یہ سوچے کہ انہیں جب بھی اس کی ضرورت پڑے گی’ پیسے کے لیے پڑے گی۔
”پاپا!ہمیں پیسے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر میں پی سی اوپر کھڑی نہ ہوتی تو آپ کو فون پر سب کچھ بتا دیتی مگر میں اس وقت پی سی اوپر ہوں اور یہاں کھڑے ہو کر میں یہ بات آپ کو نہیں بتا سکتی۔”
”اس مسئلے کا تعلق کس سے ہے؟”منصور نے یک دم اس کی بات کاٹ کر اسی انداز میں پوچھا۔ ”تم لوگوں سے یا مجھ سے؟”
”یہ صرف ہمارا مسئلہ نہیں ہے پاپا!آپ کا مسئلہ بھی ہے بلکہ یہ آپ ہی کا مسئلہ ہے”دوسری طرف چند لمحے خاموشی رہی پھر منصور نے اس ہوٹل کا نام اور کمرہ نمبر بتایا’ جہاں وہ ٹھہرا ہوا تھا۔
”میں یہاں ہوں ‘ تم مجھ سے ملنے آسکتی ہو۔”صبغہ کو ایک جھٹکا لگا تھا۔ آخر منصور اس وقت گھر یا فیکٹری کے بجائے ہوٹل کے ایک کمرے میں کیا کر رہا تھا۔
”میں تھوڑی دیر میں آپ کے پاس آتی ہوں۔”دوسری طرف سے موبائل بند کردیا گیا۔ صبغہ حیرانی سے فون کے ریسیور کو دیکھتی رہی۔
آدھ گھنٹہ کے بعد اس نے ہوٹل کے کمرے کے دروازے پر دستک دی۔
”کم ان ۔”اندر سے منصور نے بلند آواز میں کہا ۔صبغہ دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی۔منصور سامنے ہی صوفہ پر بیٹھا ہوا تھا۔ اس پر ایک نظر پڑتے ہی صبغہ کو جھٹکا لگا تھا۔ ایک لمحہ کے لیے وہ اسے پہچان نہیں پائی۔ بڑھی ہوئی شیو’ سرخ آنکھیں ‘ملگجے کپڑے’بکھرے بال ‘ منصور علی اس کے لیے قطعی اجنبی تھا۔
”پاپا!آپ کی طبیعت ٹھیک ہے؟”صبغہ نے بے اختیار قریب آتے ہوئے پوچھا۔
”ہاں میں ٹھیک ہوں’ تم بیٹھو۔”منصور نے برق رفتاری سے اس سے نظریں چراتے ہوئے اسے دوسرے صوفہ پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ صبغہ قدرے تشویش کے عالم میں منصور کو دیکھتے ہوئے دوسرے صوفہ پر بیٹھ گئی۔
”تم کیا کہنا چاہتی تھیں مجھ سے’ میرے کسی مسئلے کے بارے میں ؟”منصور بلا تمہید مطلب کی بات پر آگیا۔




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۲

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۴

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!