”شہیرہمارا بیٹا ہے۔ تمہارا اور اسد کا بڑا بھائی۔”
شائستہ نے بے حد پر سکون انداز میں نایاب کے سر پر جیسے بم پھوڑا تھا۔ وہ چند دن دوبئی میں گزار کر ابھی چند گھنٹے پہلے ہی پاکستان واپس آئی تھی اور یہاں آتے ہی اس نے نایاب کو گھر پر پایا تھا ۔ نایاب اس دن کے بعد کالج نہیں گئی تھی۔ وہ اس معاملے کی وضاحت شائستہ سے کروائے بغیر کالج جانا نہیں چاہتی تھی۔ ثمر کا سامنا کر نا اسے یک دم ہی بہت دشوار لگنے لگا تھا۔
اور اب شائستہ اسے وہاں اپنے کمرے میں بیٹھی وہ جھوٹ سنا رہی تھی ۔ جو اس نے اورہارون نے مل کر گھڑا تھا ۔ ہارون اس کے دباؤ پر بالآخر شہیر کو اپنانے پر تیار ہو گیا تھا مگر وہ یہ چاہتا تھا کہ شائستہ نایاب کو سب کچھ سچ سچ بتانے کے بجائے وہی جھوٹ بولے جو اس نے شہیر سے بولا تھا اور شائستہ کے لیے یہ کام قطعاً دشوار نہیں تھا ۔وہ اس وقت بڑی مسرت کے عالم میں نایاب کو یہ سب کچھ بتا رہی تھی۔
نایاب پلکیں جھکائے بغیر یک ٹک اس کا چہرہ دیکھ رہی تھی ۔شائستہ کو اس کی دلی کیفیت کا اندازہ نہیں تھا مگر اسے یہ یقین تھا کہ ابتدائی شاک کے بعد نایاب بالآخر اس کی بات کو حقیقت تسلیم کر لے گی۔
”میں نے اور تمہارے پاپا نے کورٹ میرج کی تھی۔ دونوں فیملیز کی مرضی کے خلاف ۔”اس لیے شروع میں دونوںفیملیز نے ہمارا بائیکاٹ کر دیا تھا۔ ہم لوگ اکیلے ہی رہتے رہے،یہی وجہ ہے کہ جب شہیر کلینک سے اس طرح غائب ہو گیا تو ہم خود ہی اسے ڈھونڈتے رہے ہم نے فیملی میں سے کسی کو اس کی گمشدگی کے بارے میں اطلاع نہیں دی کیونکہ کوئی بھی ہماری مدد کو نہیں آتا ۔البتہ وہ سب سے ضرور کہتے کہ ہمیں اپنی مرضی سے ضد کر کے شادی کرنے کی سزا ملی ہے۔ اسی لیے میں نے اور ہارون نے یہ فیصلہ کیا کہ ہم اس واقعہ کے بارے میں کسی کو نہیں بتائیں گے۔”
”تم لوگوں کو بتانے کا کیا فائدہ ہوتا۔ ”شائستہ نے کہا۔ ”ہم تم دونوں کو ڈسٹرب نہیں کرنا چاہتے تھے۔ ”
”اور اب ‘اب کیا کر رہے ہیں آپ ؟”
”اب شہیر مل گیا ہے ۔ اب ہمیں کسی کی پرواہ نہیں ہے ۔”شائستہ نے کہا۔
”شاید ہماری بھی نہیں ۔”نایاب کے لہجے میں تلخی تھی۔ ”
میں تمہاری بات نہیں کر رہی تھی ‘میں لوگوں کی بات کر رہی تھی۔ ”شائستہ نے یک دم سنبھل کر کہا۔
”آپ کے پاس آخر کیاثبوت ہے کہ یہ وہی بچہ ہے جو …”
نایاب نے بات ادھوری چھوڑی ‘اس کی سمجھ میں نہیں آیا تھا کہ وہ اس بچے کو کیا کہے اپنے ماں باپ کی اولاد؟اپنا بھائی ؟یا صرف ایک گمشدہ بچہ؟
”میرے پاس بہت سے ثبوت ہیں ۔ میں بے وقوف نہیں ہوں کہ خوامخواہ اتنے سالوں کے بعد ایک لڑکے کو دیکھ کر اسے اپنی اولادتسلیم کر لوں۔” شائستہ نے کہا۔”میں نے فاطمہ کا پورا بیک گراؤنڈ چیک کروا لیا ہے اسی حلیے کی ایک عورت کو تب ایک بچہ لے کر اس کلینک سے اس رات نکلتے دیکھا گیا تھا جس رات شہیر غائب ہوا تھا۔”
”ممی !یہ کوئی ثبوت نہیں ہے ۔ ”نایاب نے بے رخی کے ساتھ اس کی بات کاٹی۔
”فاطمہ کبھی شادی شدہ نہیں رہی ۔ میں اس کے بھائی کے گھر جا چکی ہوںاس کی ماں سے مل چکی ہوں۔”
نایاب اب چونک گئی۔
”پچیس سال پہلے وہ ناراض ہو کر گھر سے چلی گئی تھی اور اس کے بعد وہ کبھی واپس نہیں آئی نہ ہی گھر والوں نے اسے ڈھونڈنے کی کوشش کی۔”
”ہو سکتا ہے’ انہوں نے گھر چھوڑنے کے بعد اپنی مرضی سے یہ شادی کر لی ہو؟”نایاب نے کہا۔
”نہیں ایسا بھی نہیں ہوا۔ ”شائستہ نے کہا۔’ ‘میں نے تمہیں بتایا ہے کہ میں نے اس کے بیک گراؤنڈ کے بارے میں سب کچھ چیک کر وایا ہے۔ وہ گورنمنٹ ٹیچر رہی ہے اور اور اس کی جاب کے ریکارڈ میں کہیں بھی اس کی ازدواجی حیثیت کے بارے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ہو سکتا ہے اس نے زبانی طور پر ان اسکولز میں جہاں اس کی پوسٹنگ رہی ہے’یہ بتایا ہو کہ وہ ایک بیوہ ہے مگر اس کے ڈاکو منٹس میں یہ بات کہیں بھی نہیں ہے۔”
نایاب اس کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔ ”آپ کا کیا مطلب ہے؟اگر شہیر ان کا بیٹا نہیں ہے تو پھر ثمر اور ثانیہ…”
شائستہ نے اس کی بات کاٹ دی”ہاں ۔وہ دونوں بھی اس کے بچے نہیں ہیں۔”
”آپ کا مطلب ہے’ انہوں نے ان دونوں کو بھی اسی طرح اغوا کیا ہے؟”نایاب نے بے یقینی کے عالم میں پوچھا۔
”نہیں اس نے ان دونوں کو اغوا نہیں کیا۔شائستہ نے ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہا۔ ”اس نے انہیں کوڑے کے ایک ڈھیر سے اٹھایا تھا۔ ”
نایاب کا جسم سن ہو گیا۔
”وہ دونوں کسی کی ناجائز اولاد تھے۔ کسی نے انہیں اس محلے میں کوڑ ے کے ایک ڈھیر پر پھینک دیا جہاں سے یہ عورت انہیں اٹھا لائی۔” شائستہ نے جیسے وضاحت کی۔
نایاب پھٹی ہوئی آنکھوں کے ساتھ شائستہ کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔
”میں اس محلے میں بھی جا چکی ہوں ۔ فاطمہ نے وہاں کئی سال گزارے تھے اور پھر یک دم وہ محلہ چھوڑ دیا۔”
نایاب کو ٹھنڈے پسینے آرہے تھے۔ شائستہ کو آخر اور کتنے انکشافات کرنے تھے اور کیا سب آج ہی کردینے تھے۔
”ان تینوں میں سے کوئی بچہ فاطمہ کی اولاد نہیں ہے’ ہاں بس یہ ثمر اور ثانیہ جڑواں بہن بھائی ہیں اور شہیر وہ ان میں سے کسی کے ساتھ کوئی رشتہ نہیں رکھتا ۔ وہ تم دونوں کا بھائی ہے میرا اور ہارون کا بیٹا ہے۔ ”شائستہ یک دم جذباتی ہوگئی”جسے میں نے اس عورت کی وجہ سے اتنے سال پہلے کھودیا اور جوان ساری آسائشوں کے بغیر زندگی گزارتا رہا جو تمہیں اور اسد کو ملتی رہیں۔ مگر اب’اب جب میں اسے ایک بار پھر تلاش کر چکی ہوں میں ۔میں اسے کسی قیمت پر بھی نہیں چھوڑوں گی۔ میں اسے وہ زندگی گزارنے نہیں دوں گی جو میرے ملازم بھی نہیں گزارتے۔”
شائستہ کہہ رہی تھی نایاب کا ذہن جھکڑوں کی زد میں تھا۔ وہ شہیر کے بارے میں نہیں سوچ رہی تھی اسے شائستہ کی اتنی لمبی تقریر کے بعد بھی اچانک مل جانے والے اس بھائی میں کوئی دلچسپی پیدا نہیں ہوئی تھی جس کے بارے میں اس نے زندگی میں پہلی بار ان چند دنوں کے اندر سنا تھا۔ وہ صرف ثمر اور اس سے متعلقہ انکشاف کے بارے میں سوچ رہی تھی۔
”کیا ثمر یہ سب کچھ پہلے ہی جانتا تھا؟کیا اس نے دانستہ طور پر اپنے ماضی کو اس سے چھپایا تھا؟ یا پھر وہ واقعی بے خبر تھا؟ اور اگر وہ یہ سب کچھ نہیں جانتا تھا تو اب یہ سب کچھ جان کر اس کا ردِعمل کیا ہو گا؟ یہ جان کر کہ وہ کسی کی ناجائز اولاد…؟اور یہ انکشاف اس پر کون کرے گا؟ کم از کم میں تو نہیں ۔ کسی قیمت پر نہیں۔”
نایاب نے پلک جھپکتے میں طے کیا۔ اس نے اس وقت شہیر کے لیے نہیں ثمر کے لیے ہمدردی محسوس کی تھی بے تحاشا ہمدردی۔ اسے اس انکشاف سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کہ وہ کسی کی ناجائز اولاد تھی اور اس کے اس فیصلے پر بھی کوئی اثر نہیں ہوا تھا۔ کہ وہ اس سے شادی کرنا چاہتی تھی۔ ہاں مگر اب وہ یہ ضرور جان گئی کہ پہلے اگر ہارون اور شائستہ کو ثمر سے شادی کے لیے تیار کرنا مشکل تھا تو اب یہ جان جو کھوں کا کام بن گیا تھا اور اسے اگر کسی تکلیف اور خوف کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا تو وہ شہیر کے حوالے سے نہیں تھا۔ وہ ثمر اور اپنی شادی کے حوالے سے تھا۔
وہ یک دم اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔
”تم کچھ نہیں کہو گی اس ساری صورت حال کے بارے میں ۔”شائستہ نے اسے ٹوکا۔
”مجھے پہلے پاپا سے بات کرنی ہے پھر اسد بھائی سے ۔ ”نایاب نے کہا۔
”تم ہارون سے بات کر لو مگر اسد سے ابھی بات مت کرنا ۔”شائستہ نے کہا۔
”کیوں ؟”نایاب نے ابروا چکا ئے۔
”مجھے شہیر کو یہاں لے آنے دو’اس کے بعد میں اور ہارون خود اسد سے بات کر لیں گے۔”
”ممی !اس سارے معاملے میں اگر کسی کی زندگی پر اثر پڑ رہا ہے تو وہ میں ہوں یا پھر اسد بھائی اور آپ یہ چاہتے ہیں کہ انہیں اندھیرے میں رکھا جائے؟”
”شہیر تمہارا بھائی ہے۔”شائستہ نے یک دم اس کی بات کاٹی’ نایاب نے بے بسی سے کندھے جھٹکے۔
”میں اسد کے علاوہ کسی دوسرے بھائی کو نہیں جانتی۔ہاں میں یہ ضرور جانتی ہوں کہ آپ دونوں ہمارے ماں باپ ہیں اور آپ دونوں اگر ہر سال کسی نہ کسی کو پکڑ کر ہمارے سامنے لا کر یہ کہیں گے کہ یہ تمہارا بھائی ہے تو ہم مان لیں گے۔ فرمانبردار اولاد ایسا ہی کرتی ہے لیکن اگر میرا دل اور ذہن یہ نہیں مانتا تو میں انہیں ماننے پر مجبور نہیں کروں گی۔”شائستہ کو لگا جیسے اس نے اس کے منہ پہ جوتا دے مارا ہو۔
”آپ لوگ ایک پوری فیملی کو تباہ کرنے والے ہیں۔شہیر کو’ثمر کو ‘ثانیہ کو ‘فاطمہ کو۔ سب کو اور آپ کو اس کا احساس نہیں ہے۔”
”وہ فیملی نہیں ہے۔ وہ کبھی فیملی نہیں تھی۔ ”شائستہ غرائی”میں تمہیں کتنی بار بتاؤں گی ‘ وہ عورت ایک فراڈ ہے۔ جھوٹی ہے۔”
”ممی !یہ سب کسی اور کو بتائیں ۔ مجھے جانا ہے۔”نایاب نے تیزی سے اس کی بات کاٹی اور کمرے سے نکل گئی۔ شائستہ ہونٹ کاٹتے ہوئے!! اسے جاتا دیکھتی رہی۔ وہ اولاد کے معاملے میں خوش قسمت تھی یا بد قسمت ۔ یہ اسے ساری زندگی سمجھ میں نہیں آیا تھا۔
٭٭٭
وہ رخشی کے گھر سے فیکٹری کی طرف جارہا تھا جب راستے میں اس کے موبائل پر اس کے مینجر کی پہلی کال آئی۔
”فیکٹری کے اندر کچھ لوگ گھس آئے ہیں اور انہیں نے اسٹاف اور ورکرز کو فیکٹری خالی کرنے کے لیے کہہ دیا ہے۔”منصور کا دل ڈوبنے لگا۔ ابھی اور کیا کیا جانا تھا۔
وہ ہوا کی رفتار سے گاڑی چلاتے ہوئے فیکٹری پہنچا تھا اور دور سے ہی اس نے فیکٹری کے باہر ہجوم دیکھ لیا تھا۔ فیکٹری کے گیٹ اب بند تھے ۔ گارڈز بھی دوسرے لوگوں کے ساتھ باہر کھڑے تھے۔
”ہم نے پولیس کو فون کر دیا ہے’وہ کچھ دیر میں یہاں پہنچنے ہی والی ہوگی۔ یہ تو سراسر غنڈہ گردی ہے۔ ”منیجر نے منصور کے گاڑی سے اترتے ہی اسے جلدی جلدی سب کچھ بتانا شروع کردیا۔ منصور پتھرائی ہوئی آنکھوں کے ساتھ فیکٹری کے بند آہنی گیٹ کو دیکھ رہا تھا وہ اس کی عمر بھر کی کمائی تھی جو اس کے ہاتھ سے نکلی جارہی تھی۔ ڈوبتے دل کے ساتھ کچھ کہے بغیر اس نے اپنے وکیل کو فون کیا پھر باری باری ان تمام افسران اور کاروباری دوستوں کو جن کے ساتھ اس کے اچھے تعلقات تھے۔ اسے امید تھی’ وہ اس کا مسئلہ حل کروا دیں گے۔ رخشی کی بات اور تھی’ گھر کی بات بھی دوسری تھی۔ پر فیکٹری پر کوئی اس طرح کیسے شب خون مار سکتا تھا اور اس نے تو ابھی کل ہی اپنے وکیل کو بلوا کر فیکٹری کی ملکیت کے کاغذات میں تبدیلی کروا دی تھی۔
دس بجے کے قریب اس نے پولیس کی ایک گاڑی کو بالآخر وہاں آتے دیکھا’ ان کے ساتھ ایک اور گاڑی میں کچھ دوسرے افراد بھی تھے۔ منصور بے تابی سے پولیس کی گاڑی کی طرف گیا اور اس سے پہلے کہ کچھ کہتا۔ ایک پولیس والے نے درشتی سے اسے بتایا۔
”یہ متنازعہ جائیداد ہے’آپ کی بیوی نے کورٹ سے stay orderلے لیا ہے۔ فیکٹری کو وقتی طور پر بند کیا جا رہا ہے۔”
دوسری گاڑی میں بیلف اور چند دوسرے لوگ تھے جو اب فیکٹری کے گیٹ کی طرف جارہے تھے۔ منصور یک دم بلند آواز میں چیخنے اور چلانے لگا۔ وہ فیکٹری کے اندر جانا چاہتا تھا۔ پولیس کے ایک کانسٹیبل نے اسے روکا۔ منصور نے اسے زور سے دھکا دیا۔ دوسرے کانسٹیبل نے غصے کے عالم میں ہاتھ میں پکڑا ہوا ڈنڈا منصور کی کمر پر دے مارا۔ ایک تیسرے کانسٹیبل نے منصور کو کالر سے پکڑ لیا۔ وہ بیچ چورا ہے پر اپنے ورکرز اور اسٹاف کے سامنے بے عزت کیا جارہا تھا۔ منصور کی زندگی میں یہ دن پہلے کبھی نہیں آیا تھا۔ منصور علی کی زندگی میں ایسے دن اب کئی بار آنے تھے۔ وہ پولیس والوں سے جھگڑ رہا تھا اور بے عزت پٹ رہا تھا۔ اس کا منیجر اور دوسرے افراد اسے کھینچ کر پیچھے لے جانے کی کوشش کر رہے تھے۔
”سر …سر…ہمیں بھی عدالت میں جانا چاہیے’ وکیل کی مدد لینی چاہیے۔ یہاں لڑنے کا کوئی فائدہ نہیں ۔ سر…پلیز آپ آجائیں۔” منیجر منصور کو کھینچ رہا تھا۔ منصور کا گریبان پھٹ چکا تھا۔ وہ پولیس والوں کو بری طرح گالیاں دے رہا تھا۔ فیکٹری کے اندر بیٹھے لوگوں کو…اس ملک کے نظام کو …عدالتوںکو…سب کو …وہ سب مل کر ملک کے ایک ”معزز”اور ”شریف ”شہری کے ساتھ”ظلم ”کر رہے تھے۔ اسے اس کی جائیداد سے محروم کر رہے تھے۔
”یہ غنڈہ اسٹیٹ ہے’ یہ ملک اس قابل نہیں کہ یہاں میرے جیسے لوگ رہیں ۔ میں لعنت بھیجتا ہوں اس ملک پر’ یہاں کے سسٹم پر میں تم لوگوں کو دیکھ لوں گا ‘ تم سب کو دیکھ لوںگا۔ ”اس کا مینجر اسے کسی نہ کسی طرح گاڑی تک لانے میں کامیاب ہو گیا تھا۔
پولیس والے اسے جاتا دیکھ کر اطمینان کے عالم میں خود بھی فیکٹری کے گیٹ کی طرف جانے لگے۔
”پہلے دو دو شادیاں کرتے ہیں’ دوسری بیوی کے نام جائیداد یں لگاتے ہیں پھر سڑکوں پر کھڑے ہو کر ملک کو گالیاں دیتے ہیں ۔” ایک پولیس کانسٹیبل نے دوسرے سے کہا۔
”بڑے لوگوں کی بڑی باتیں ۔”دوسرے نے مضحکہ خیز انداز میں کہا پھر دونوں ہاتھ پر ہاتھ مار کر ہنس پڑے۔
٭٭٭