تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۳

دیکھنے والوں نے اس نوجوان خوب صورت لڑکی کو شام کے دھند لکے میں نہر کے پل سے نہر میں چھلانگ مارتے دیکھا تھا۔ اس لڑکی کی خوش قسمتی یا بد قسمتی یہ تھی کہ شام کے اس پہر میں بھی وہاں نہر کے کنارے بہت سے لوگ تھے…ریڑھیوں والے’پھل فروش اور ایسے ہی دوسرے کام کرنیوالے جو اس وقت اپنا کام سمیٹ رہے تھے اور اس پر مستزاد نہر کے پل سے گزرنے والی گاڑیوں والے ‘جو ایک جوان لڑکی کو پل سے نیچے چھلانگ لگاتے دیکھ کر بے اختیار اپنی اپنی گاڑیاں روکنے لگے تھے۔یک دم ہی پل پر شور و غوغا برپا ہوگیا تھا۔
گاڑیوں والے اپنی گاڑیوں کی ہیڈ لائٹس جلا کر خود گاڑیوں سے نیچے اتر گئے۔ نہر کا وہ حصہ وقتی طور پر یک دم روشن ہو گیا تھا۔ پانی کے تیز ریلے میں وہ لڑکی نیچے پانی میں غوطے کھاتی نظر آرہی تھی اور اس کے پھولے ہوئے کپڑے پانی میں اس کا سراغ دے رہے تھے۔
٭٭٭
منصور علی رخشی کی کال ملنے کے پندرہ منٹ کے اندر گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے اپنے گھر پہنچ گیا تھا۔وہ بے حد مسرور تھا، اور راستہ بھر وہ تمام جملے سوچتا رہا ، جو اسے رخشی سے کہنے تھے۔
گیٹ پر پہلا ہارون دیتے ہی اس کے چوکیدار نے گیٹ کھول دیا تھا۔ ہمیشہ کی طرح آج اس نے منصور کو سلام نہیں کیا۔ اور منصور نے اس بات کو نوٹ کیا تھا۔ وہ ویسے بھی یہ بات طے کر چکا تھا کہ اسے اپنے ان تمام ملازمین کو آئندہ ہونے والے چند دنوں میں فارغ کر دینا ہے۔ وہ نمک حرام تھے اور انہوں نے جو سلوک اس کے ساتھ کیا تھا، وہ اسے معاف نہیں کر سکتا تھا۔ رخشی کی بات اور تھی وہ اس کی چہیتی بیوی تھی۔ وہ اسے سو خون معاف کر سکتا تھا مگر ملازم ملازم ہی ہوتے ہیں اور وہ اگر مالک سے وفاداری کونا بھول جائیں تو انہیں ٹھوکر یں مارتے ہوئے گھر سے نکال دینا چاہیے۔ اس نے پورچ میں گاڑی کھڑی کرتے ہوئے تلخی سے سوچا۔
رخشی اسے پورچ میں نظر نہیں آئی۔ اسے اس کی توقع بھی نہیں تھی، آخر وہ اس سے ناراض تھی اور ناراضی کی حالت میں اس کے استقبال کے لیے پورچ میں کیسے آسکتی تھی۔
منصور نے گاڑی سے اتر تے ہوئے ان چند دوسری گاڑیوں پر نظر دوڑائی جو آگے پیچھے وسیع و عریض پورچ میں کھڑی تھیں ۔ وہ اس کی گاڑیاں نہیں تھیں ۔ اس کا جسم ایک دم تن گیا۔ ان گاڑیوں کی یہاں موجودگی کا مطلب تھا کہ اس کے گھر میں اس وقت کوئی اور بھی تھا۔ اور یہ کوئی اور کون ہوسکتا تھا۔ وہ اچھی طرح جانتا تھا، غصے کی ایک لہر اس کے اندر اٹھی تھی۔ مگر اس نے اسے اندر ہی دبادیا۔ وہ وہاں لڑنے نہیں آیا تھا۔ اس نے خود کو سمجھایا ۔
اندر کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔ وہ لاؤنج میں داخل ہوتے ہی ٹھٹک گیا۔ لاؤنج میں بہت سے لوگ بیٹھے تھے۔ رخشی، رخشی کی ماں صاعقہ ، وہ لڑکا جسے اس نے رخشی کے ساتھ دیکھا تھا۔ بھاری بھر کم اسلحہ سے مسلح بہت سے افراد اور ایک اور آدمی جو صوفہ پر بیٹھا اپنے سامنے والی سینٹر ٹیبل پر کچھ کاغذ پھیلائے ان پر کچھ لکھنے میں مصروف تھا۔




تمام افراد کی نظریں تقریباََ بیک وقت ہی منصور علی پر پڑی تھیں ۔اور ان میں سے ہر نظر میں منصور علی نے اپنے لیے واضح تضحیک محسوس کی تھی۔ اس وقت اسے پہلی بار احساس ہوا کہ رخشی نے اسے وہاں کسی مصالحت یا پچھتاوے کے تحت نہیں بلایا تھا۔ اسے وہاں کسی اور کام کے لیے بلایا گیا تھا۔
چند قدم آگے بڑھاتے ہوئے وہ لاؤنج میں بیٹھے ہوئے ان تمام لوگوں کے بالمقابل آگیا مگراس کی نظریں رخشی پر جمی ہوئی تھیں ۔رخشی کے چہرے پر شناسائی نام کی کوئی شے نہیں تھی۔ اس کا چہرہ بالکل بے ناثر تھا۔ ٹھنڈک ، سرد مہری، منصور علی کو چند سال پہلے سنووائٹ کے اسٹیچ پلے میں ملکہ کا کردار ادا کرتی رخشی یاد آئی۔ وہ اسی بے تاثر چہرے کو دیکھ کر اس کے عشق میں گرفتار ہوا تھا۔ اور آج وہ چہرہ اسے تکلیف دے رہا تھا۔
”بیٹھو!”اس لڑکے نے یک دم تحکمانہ انداز میں اس سے کہا تھا۔ منصور نے چونک کر اسے دیکھا اور پھر ناگواری سے کہا۔
”یہ میرا گھر ہے اور اپنے گھر میں بیٹھنے کے لیے مجھے تمہاری ہدایات کی ضرورت نہیں ہے۔ ”
”یہ رخشی کا گھر ہے اور رخشی کے گھر میں صرف بیٹھنے کے لیے ہی نہیں اندر آنے کے لیے بھی تمہیں میری اجازت کی ضرورت ہے۔”اس لڑکے نے جواباََ بے حد ترشی سے کہا۔
”رحشی میری بیوی ہے اور اپنے گھر آنے کے لیے بیٹھنے کے لیے مجھے کسی تیسرے آدمی سے پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے۔”
”رخشی تمہاری بیوی ہے۔”اس لڑکے نے مضحکہ خیز انداز میںکہتے ہوئے رخشی کو دیکھا۔ دونوں کے درمیاں مسکراہٹوں کا تبادلہ ہوا پھر اس لڑکے نے کہا۔
”اسی مسئلے کو حل کرنے کے لیے تمہیں یہاں دعوت دی گئی ہے، تشریف رکھیے۔ منصور صاحب !یا دو چار جوتے کھانے کے بعد تشریف رکھیں گے۔”منصور کا چہرہ اس کے آخری جملے پر بے اختیار سرخ ہو گیا اور اس سرخی میں رخشی کے چہرے پر ابھرنے والی مسکراہٹ نے کچھ اور اضافہ کیا، مگر اس بار کچھ کہنے کے بجائے منصور ایک خالی صوفہ پر بیٹھ گیا۔ اسے اس لڑکے کے بارے میں کوئی شبہ نہیں تھا کہ وہ اسے جس چیز کی دھمکی دے رہا تھا، وہ عملی طور پر کر بھی سکتا تھا۔
”وکیل صاحب !اسے کاغذ دکھائیں اور بتائیں کہ اس نے کہاں سائن کرنے ہیں ۔”
اس بار وہ لڑکا صوفہ پر بیٹھے کا غذات پر کچھ تحریرکرتے ہوئے آدمی سے مخاطب ہوا تھا۔ وہ آدمی جواب میں کچھ کہنے کی بجائے ان کاغذات کو سمیٹ کر منصور کے برابر صوفہ پر آبیٹھا ۔ اور کاغذات اس کے سامنے ٹیبل پر پھیلانے لگا۔
”یہ کیسے کاغذات ہیں ؟”منصور نے چونک کر اس لڑکے کو کو دیکھا۔
”وکیل صاحب !آپ اسے باری باری بتاتے جائیں کہ آپ اس سے کس کس کاغذپر سائن کروانے والے ہیں۔”
اس لڑکے نے جواباََ وکیل سے کہا۔ وکیل نے پہلے چند کاغذات منصور کی طرف بڑھائے ۔
”یہ طلاق نامہ ہے ۔ ”منصور نے بے اختیار کہا”مگر میں رخشی کو طلاق نہیں دینا چاہتا۔ ایک چھوٹی سی بات پر میں اپنی بیوی کو طلاق کیسے دے دوں ؟”
اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور کہتا، ایک مسلح آدمی اس کے عقب میں آکر کھڑا ہو گیا۔ اور منصور نے ایک ریوالور کی نالی اپنی کنپٹی پر محسوس کی۔
”یہاں میں نے تمہیں کسی تقریر کے لیے نہیں بلایا۔ صرف ان کاغذات کو سائن کرنے کے لیے بلوایا ہے۔اب یہ تم طے کر لو کہ تم رخشی کو مطلقہ بنانا چاہتے ہو یا بیوہ ۔ جاوید!اگر یہ بات کرنے کے لیے منہ بھی کھولے تو تم اس کا بھیجہ کھول دینا۔”
اس لڑکے نے آخری جملہ اس کے پیچھے کھڑے آدمی سے کہا تھا۔ منصور نے اپنی گردن پر پسینے کی دھاریاں بہتے محسوس کیں۔ وہ بے تحاشہ خوف زدہ ہو گیا ۔ وکیل نے کاغذات اس کے گھٹنے پر رکھتے ہوئے دوبارہ اس کو سائن کرنے کے لیے کہا۔ منصور نے ملتجیانہ انداز میں دور بیٹھی رخشی کو دیکھا۔ رخشی نے اس سے نظریں چراتے ہوئے اس لڑکے کو دیکھا، منصور نے اپنی کنپٹی کے قریب ریوالور کا چیمبر گھمانے کی آواز سنی، ایک لفظ بھی منہ سے نکالے بغیر کانپتے ہاتھ کے ساتھ اس نے پین پکڑتے ہوئے ان کاغذات کو سائن کر دیا۔
وکیل نے ان کاغذات کو میز پر رکھتے ہوئے کچھ دوسرے کاغذات اس کے گھٹنے پر رکھے۔
”یہ آپ کے بیٹے کی کسٹڈی کے کا غذات ہیں جن کے مطابق آپ اپنے بیٹے سے مکمل طور پر دست بردار ہوتے ہوئے اسے رخشی کودے رہے ہیں ۔”
منصور نے کچھ کہے بغیر ان پیپرز کو سائن کیا۔ بیٹا اسکے لیے کوئی معنی نہیں رکھتا تھا، اس کا ذہن صر ف طلاق نامے میں الجھا ہوا تھا۔ اور وہ سوچ رہا تھا کہ گن پوائنٹ پر اس طرح زبردستی کروائی جانے والی طلاق موثر نہیں ہوسکتی ہے یہاں سے سیدھا کسی مولوی کے پاس جائے گا اور اس بارے میں اس سے پوچھے گا اور اسے یقین تھا۔ کہ وہ اس سے یہی کہیں گے کہ ایسی صورت میں طلاق نہیں ہوتی۔
”اور یہ آپ کی اس فیکٹری کے کاغذات ہیں جسے آپ اپنے بیٹے کے نام کر چکے ہیں ۔ اس میں پاور آف اٹارنی ہے، جو آپ رخشی کو دے رہے ہیں کہ بیٹے کے بڑے ہونے تک فیکٹری کے معاملات کو وہی چلائے گی اور آپ فیکٹری سے الگ ہو رہے ہیں ۔ ”
منصور کو ایک دم جیسے کسی نے چابک سے مارا تھا۔ فیکٹری ہاتھ سے نکل جانے کا مطلب کیا تھا وہ اچھی طرح جانتا تھا۔ اس نے کچھ کہنا چاہا پھر بے اختیار اسے اپنی کنپٹی کے ساتھ لگا ریوالور یاد آیا ۔ کچھ کہے بغیر اس نے خاموشی سے اس پر بھی دسخط کردیے۔
وکیل نے اس سے کچھ اور پیپرز بھی سائن کروائے مگر اس بار اس نے منصور کو ان کی نوعیت کے بارے میں نہیں بتایا۔ اس تمام کاروائی میں صرف دس منٹ لگے تھے ۔ آخری پیپر کو سائن کرتے ہی اس لڑکے نے منصور کو اٹھنے کا کہا۔ منصور کھڑاہو گیا۔
”اسے بڑی عزت کے ساتھ گیٹ سے باہر چھوڑ آؤ…یہ بڑا اچھا بچہ ہے۔”
اس لڑکے نے مذاق اڑانے والے اندازمیں منصور کی طرف اشارا کرتے ہوئے ان مسلح آدمیوں سے کہا۔
لاؤنج میں بیٹھے تمام لوگ کھلکھلا کر ہنس دیے۔ منصور چیخ کر اس لڑکوں اور ان تمام لوگوں کو گالیاں دینا چاہتا تھا، مگر اس کا نتیجہ…
صرف بارہ منٹ کے بعد وہ ایک بار پھر گیٹ کے باہر کھڑا بے یقینی کا شکار تھا۔ صرف چند منٹ لگے تھے، رخشی کو اس کی زندگی سے نکلنے میں ۔ یا منصور علی کو اپنی زندگی سے نکالنے میں ۔ اس کے ساتھ کتنا بڑا دھوکا ہوا تھا۔اس کا دل چاہا ۔وہ بلند آواز میں وہاں اس گیٹ کے سامنے کھڑے ہو کر چیخے چلائے ‘اتنا کہ ساری دنیا کو وہاں اکٹھا کر لے۔ اس کی بیوی کو بری طرح ورغلایا گیا تھا ‘ ورنہ رخشی نے اس کے ساتھ یہ سب کچھ کیوں کرتی ۔اس کا ذہن اب بھی یہ بات ماننے سے انکار کر رہا تھا کہ رخشی نے اسے دھوکہ دیا ہے۔ہو سکتا ہے اس پر دباؤ ہو۔ ہو سکتا ہے وہ بہک گئی ہو ۔ہو سکتا ہے ‘وہ یہ سب کچھ ناراضی میں کر رہی ہو۔ اس کی ”ہو سکتا ہے”کی فہرست ختم نہیں ہو رہی تھی۔ سڑک پر کھڑے پاگلوں کی طرح اپنے گھر کو دیکھتے ہوئے وہ ایک کے بعد ایک وجہ سوچ رہا تھا ۔ جس نے رخشی کو اس سے دور کر دیا تھا۔
٭٭٭




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۲

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۴

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!