میں نے تمہیں اس کلاس میں جا بٹھا یا جس کا تمہارے باپ اور بھائیوں نے کبھی خواب بھی نہیں دیکھا ہو گا۔ ”وہ چلا رہا تھا۔
”ہاں انہوں نے بھی ایسے خواب نہیں دیکھے تھے ۔ اس گندگی میں اترنے کے خواب صرف میں ہی دیکھا کرتی تھی۔”شائستہ نے سلگتے ہوئے کہا۔
ہارون کے غصے میں مزید اضافہ ہو گیا۔”اگر یہ گندگی ہے تو نکل جاؤ اس گندگی سے ۔ چھوڑ دو مجھے ‘طلاق لے لو مجھ سے۔”ہارون کے منہ سے صرف جھاگ نکلنے کی کمی تھی ورنہ وہ غصے کے عالم میں بالکل پاگل ہو رہا تھا۔
”میں طلاق نہیں لوں گی البتہ تم طلاق دینا چاہتے ہو تو ضرور دے دو۔ اس سے بہت سے معاملات بہت اچھے طریقے سے سلجھ جائیں گے۔ ”
شائستہ نے بے حد سرد آواز میں کہا۔ ہارون کمال کو یک دم جیسے بریک لگ گیا۔ وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ وہ کن معاملات کا ذکر کر رہی تھی۔ اسے خود طلاق دینے کا مطلب بزنس کے چیتھڑے اڑانے کے مترادف ہوتا۔
”تم نے نایاب کو کیا بتایا ہے؟”ہارون نے یک دم موضوع بدلتے ہوئے کہا۔
”میں نے اس سے کچھ نہیں کہا۔”شائستہ نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔
”مگر تم نے ابھی مجھے بتایا ہے کہ نایاب کو سب کچھ پتہ چل گیا ہے۔ ”ہارون نے بے یقینی سے کہا۔
”ہاں مگر اسے میں نے کچھ بھی نہیں بتایا۔ ”
”کیا مطلب ہے تمہارا؟”ہارون تیکھے لہجے میں بولا ۔ ”تمہارے علاوہ اس سے یہ سب کچھ اور کون کہے گا۔؟”
”تم بھی تو کہہ سکتے ہو۔”شائستہ نے کہا۔
ہارون کے ماتھے کے بل مزید گہرے ہوئے”میں خود اسے شہیر کے بارے میں بتاؤں گا؟مجھے کسی پاگل کتے نے کاٹا ہے کیا؟”
”پھر تم اسے فون کر کے پوچھ لو کہ اسے یہ سب کس نے بتایا ہے۔”
”میں فون پر اس سے بات کروں ؟میں تو اس کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں رکھتا اور تم مجھ سے کہہ رہی ہو کہ میں اس سے فون پر پوچھوں کہ یہ سب اسے کس نے بتایا ہے۔”ہارون نے بری طرح تلملاتے ہوے کہا۔
”وہ میرا راستہ روک رہی تھی۔ مجھ سے اس بارے میں تفصیلی بات کرنا چاہتی تھی۔ ”شائستہ اطمینان سے بولی۔”مگر میں نے اس سے کہا کہ میں کراچی جارہی ہوں اور وہاں سے واپس آنے کے بعد ہی اس سے بات کروں گی۔”
ہارون نے اس بار کچھ نہیں کہا۔ وہ شائستہ سے کچھ فاصلے پر صوفہ آکر بیٹھ گیا۔ اس نے اپنا سر دونوں ہاتھوں سے تھام لیا۔
”اب اس راز کو راز میں رکھنے کی کوشش کرنا حماقت ہے ہارون !ہمیں نایاب اور اسد سے بات کر لینی چاہیے ہمیں شہیر کو اپنے گھر لے آنا چاہیے …ہم سے ایک غلطی ہوئی تھی۔ بہت بڑی غلطی مگر اس کی تلافی کی اب ایک ہی…”
ہارون نے کاٹ کھانے والے انداز میں اس کی بات کاٹی ۔
”یہ سب کچھ تمہاری وجہ سے ہو رہا ہے…میں نے تمہیں منع کیا تھا۔ بار بار سمجھایا تھا کہ اس بچے کو بھول جاؤ…اسے جانے دو مگر تم’تمہیں میری بات کیوں سمجھ میں آتی ۔ تم تو یہ چاہتی تھیں کہ ہماری اولاد ہم پر پتھر برسائے ۔”
”ہماری اولاد …؟کون سی اولاد …؟نایاب اور اسد؟بس ؟اگر وہ اولاد ہیں اور تمہیں ان کی اتنی پروا ہے تو پھرشہیر کی کیوں نہیں۔ وہ بھی بیٹا ہے تمہارا۔”
”مر چکا ہے وہ میرے لیے ۔”ہارون چلایا۔
”صرف کہہ دینے سے کوئی نہیں مرتا۔”شائستہ نے ترکی بہ ترکی کہا۔
”تمہیں کچھ اندازہ ہے کہ اسے اپنے گھر لے آنے کے بعد ہم نہ اپنے بچوں سے نظریں ملا سکیں گے’ نہ خاندان کا سامنا کر سکیں گے…نہ ہی دنیا کا۔”ہارون نے خون آشام نظروں سے اسے دیکھا۔
”میں ان میں سے کسی کی بھی پروا نہیں کرتی اور اب’اب تو نایاب سب کچھ جان چکی ہے پھر اب کیا باقی رہا۔”شائستہ نے کندھے جھٹکتے ہوئے کہا۔
”شہیر کو گھر لائیں یا نہ لائیں اسے اپنی اولاد مانیں نہ مانیں نایاب تو…”ہارون نے اس کی بات کاٹ دی۔
”ہم اسے ملنے والی تمام معلومات جھٹلادیں گے ۔ ہم کہہ دیں گے کہ کوئی ہمارے خلاف سازش کر رہا ہے۔ وہ مجھ پر یقین کرے گی۔ وہ مجھ پر اندھا اعتماد کرتی ہے ۔ میری بات مان لے گی۔ ”
”مگر میں اس سے کوئی جھوٹ نہیں بولوں گی۔ ”شائستہ نے دوٹوک انداز میں کہا۔
”میں اس سے یہ نہیں کہوں گی کہ یہ سب جھوٹ تھا اور ہم دونوں جب بھی یہاں سے جائیں گے اس بارے میں کوئی فیصلہ کرنے کے بعد ہی جائیں گے۔ ”
ہارون نے اپنے ہونٹ بھینچ لیے ۔اس کا دل چاہ رہا تھا وہ شائستہ کو شوٹ کر دے۔
٭٭٭
منصور علی نے وہ رات ایک ہوٹل میں سگریٹ پھونکتے اور ہارون کمال کے بارے میں سوچتے گزاری تھی۔ اسے اب بھی یقین نہیں آرہاتھا کہ ہارون واقعی اسے نظر انداز کر رہاتھا اور اس نے اپنے چوکیدار سے اسے یہ سب کہنے کے لیے کہا تھا۔
اس نے شائستہ کے موبائل پر وقتا فوقتا کئی بار کال کی تھی۔ پہلے اگر ہارون کا موبائل آف تھا تو اس بار شائستہ کا موبائل بھی آف تھا۔ اس نے ہارون کے گھر فون کیا۔ ملازم نے اسے بتایا کہ شائستہ کچھ دنوں کے لیے کراچی گئی ہے۔ منصور کو اس کی بات بھی جھوٹ لگی۔
وہ دوپہر کو اس سے بات کررہی تھی۔ اس وقت اس نے کراچی جانے کے بارے میں اس سے کوئی بات نہیں کی اور اب چند گھنٹوں کے بعد وہ کراچی چلی گئی تھی…کیا وہ بھی اب ہارون اور رخشی کے منصوبے میں شریک ہو گئی تھی؟کیا ساری دنیا اس کے خلاف کوئی سازش کرنے لگی تھی؟…منصور کا دماغ سوچ سوچ کر پھٹنے لگا تھا۔
اگلے دن صبح وہ کسلمندی کے عالم میں فیکٹری جانے کے لیے تیار ہو رہا تھا تب بھی اس کا ذہن ہارون کے بارے میں ہی الجھا ہوا تھا۔ اس کا دل چاہ رہا تھا وہ خود بھی سیدھا دوبئی چلا جائے اور وہاں جا کر ہارون سے مل کر اس سارے معاملے کو کلئیر کرے مگر اسے ایک بار پھر بے عزتی کا خدشہ محسوس ہو رہا تھا۔ اگر ہارون نے وہاں بھی اس سے ملنے سے انکار کر دیا تو؟…اور اس تو کا اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ وہ فیکٹری جانے کے لیے بھی اپنے دل کو بمشکل تیار کر رہا تھا۔ وہ اس ذہنی حالت کے ساتھ وہاں جا کر بھی کچھ نہیں کر پاتا۔ مگر وہاں نہ جانے کی صورت میں اسے یہ خدشہ ستانے لگتا کہ کہیں گھر کی طرح اسے فیکٹری سے بھی بے دخل نہ کر دیا جائے۔
وہ اب رخشی کے خلاف پولیس کی مدد لینے کاسوچ رہا تھا۔ پولیس کی مدد سے وہ اس گھر کو اس کے بوائے فرینڈ سے خالی کروا سکتا تھا اور پھر رخشی سے بعد میں مصالحت کی جاسکتی تھی۔ آخر کب تک اس کے گھر سے جانے کے بعد سہولتوں کے بغیر رہ سکتی تھی۔ منصور سوچ رہا تھا اور اس کے دل کو ایک ڈھارس سی بندھنے لگی تھی۔
رخشی اگر اس بوائے فرینڈ کے ساتھ اس کے گھر سے چلی بھی گئی تو کب تک وہ اس لڑکے کے ساتھ رہ سکتی تھی۔ اسے ایک دن واپس آناہی تھا۔ ”اس جیسے لڑکے رخشی کو آخر کیا دے سکتے ہیں جو آسائش اسے میں دے سکتا ہوں وہ وہ لڑکا تو نہیں دے سکتا۔”
منصور مسلسل سوچ رہا تھا۔ روم سروس کے ذریعے اس نے ناشتہ منگوا یا اور اس سے پہلے کہ وہ ناشتہ شروع کرتا اس کا موبائل بجنے لگا۔ اس نے موبائل اٹھا یا اور اس کا دل بے اختیار دھڑکنے لگا۔ وہ رخشی کی کال تھی۔ اس کے ہونٹوں پر بے اختیار مسکراہٹ آگئی ۔ تو بالآخر اسے اس کی یاد آگئی تھی۔ آخر یہ ہو ہی کیسے سکتا تھا کہ وہ اس کو اس طرح بھول جاتی۔ اس نے بے تابی سے کال ریسیو کرتے ہوئے سوچا۔
”ہیلو!اس نے کہا۔ ”کیسی ہو رخشی ؟اس نے رخشی کی آواز سنتے ہی کہا۔
”میں ٹھیک ہوں ۔ تم اس وقت کہاں ہو؟”رخشی کے لہجے میں اب بھی ٹھنڈک تھی۔
”میں ایک ہوٹل میں ہوں…یہ سب کچھ کیا ہو رہا ہے رخشی …دیکھو بات کو اتنا بڑھانا …”منصور نے کچھ کہنا چاہا۔
رخشی نے اس کی بات کاٹ دی۔ ”تم میرے گھر آسکتے ہو؟”رخشی نے کہا۔ منصور نے میرے گھر پر غور کیا مگر وہ بے اختیار خوش بھی ہو اتھا۔
”ہاں کیوں نہیں ۔ میں ابھی اپنے گھر آجاتا ہوں میں وہاں سے جانا ہی کب چاہتا تھا۔ مگر…”
رخشی نے ایک بار پھر اس کی بات کاٹ دی ۔
”ٹھیک ہے پھر اسی وقت یہا ں آجاؤ ۔”
”I miss youرخشی !منصور نے اس سے معذرت کے لیے تمہید باندھنا شروع کی۔
”باقی باتیں یہاں پہنچ کر ہی ہوں گی۔ ”رخشی نے تیسری بار اس کی بات کاٹی اور اس پہلے کہ منصور کچھ اور کہتا فون بند ہو چکا تھا۔ منصور نے بے اختیار ایک گہرا سانس لیا۔
اس کا وجود یک دم ہلکا ہو گیا تھا۔رخشی کو واقعی اس سے محبت تھی ورنہ وہ اس طرح صبح سویرے اسے کال کیوں کرتی۔ یقینا وہ بھی اسے مس کر رہی ہو گی اگر چہ ناراض ہو گی مگر اسے مس کر رہی ہو گی۔منصور ناشتہ کرتے ہوئے سوچنے لگا ۔ یک دم ہی اسے شدید بھوک محسوس ہونے لگی تھی۔ پچھلے دو دنوں میںاس نے برائے نام خوراک لی تھی مگر رخشی کی ایک کال نے اسے بالکل ہلکا پھلکا کر دیا تھا۔
”اور میں خوامخواہ ہی ہارون پر شک کر رہا تھا۔ آخر ہارون بے چارے کا اس سارے معاملے سے کیا تعلق تھا۔ رخشی سے میری شادی تو کروائی ہی اسی نے تھی پھر وہ کیوں میرے اور رخشی کے درمیان کوئی دیوار کھڑی کرنے کی کوشش کرتا۔ اس نے ہارون کو چند لمحوں میں بری الذمہ قرار دیتے ہوئے سوچا ۔ وہ اب ناشتہ کرتے ہوئے ہلکی سیٹی بھی بجانے لگا تھا۔ اس کے اور رخشی کے درمیان سب کچھ دوبارہ سے بالکل ٹھیک ہونے والا تھا اور وہ خوامخواہ اتنا پریشان ہو رہا تھا۔ ”آخر میرے جیسے اچھے آدمی کے ساتھ کوئی برا کام کیسے ہو سکتا ہے۔”چائے کا کپ لیتے ہوئے اس نے پرسکون انداز میں سوچا تھا۔
٭٭٭