اس نے سوچا کہ شاید اس نے غلطی سے انگوٹھی کسی دوسری دراز میں ڈال دی ہو گی۔ باری باری اس نے سارے درازنکال کر ان کی چیزوں کو باہر الٹ کر دیکھا ۔ انگوٹھی ہارون کے لیے کیا اہمیت رکھتی تھی مگر اس کی یہاں عدم موجودگی کچھ اور ثابت کر رہی تھی۔ شائستہ چند لمحے ہونٹ کاٹتی وہاں کھڑی رہی پھر پلک جھپکتے میں اس نے جیسے کوئی فیصلہ کر لیا تھا۔
فون اٹھا کر اس نے ہارون کی سیکرٹری سے رابطہ کیا اور اس سے اس ہوٹل کا نام اور کمرہ نمبر پوچھا جہاں ہارون رہ رہا تھا۔ وہ دونوں اکثر دوبئی آتے جاتے رہتے تھے اور عام طور پر وہ ایک مخصوص ہوٹل میں ہی ٹھہر تے تھے۔اس کے باوجود شائستہ ا س کے وہاں قیام کو کنفرم کرنا چاہتی تھی۔ ہارون وہیں ٹھہرا ہوا تھا۔ سیکرٹری نے تصدیق کر دی۔
”کیا آپ بھی دوبئی جانا چاہتی ہیں ۔ میں سیٹ بک کروادوں؟”
سیکرٹری نے شائستہ سے پوچھا ۔ شائستہ جانتی تھی کہ ہاں میں اس کا جواب ملتے ہی سیٹ بک کروانے سے پہلے وہ دوبئی میں ہارون کو اس بارے میں اطلاع دے گی۔
”نہیں ‘مجھے وہاں جا کر کیا کرنا ہے۔”
شائستہ نے سر سری سے انداز میں یہ جملہ کہتے ہوئے بات بدل دی۔ سکیرٹری کو آفس کے بارے میں کچھ ہدایات دینے لگی۔ وہ یوں ظاہر کر رہی تھی جیسے کل وہ کسی بھی وقت آفس کا چکر لگا سگتی تھی۔
اس نے فون بند کرتے ہی اگلا فون اس ٹریول ایجنسی کو کیا تھا جہاں سے ان کی اندرون اور بیرن ملک کی ٹکٹیں بک کی جاتی تھیں ۔ ہارون کی دوبئی کی سیٹ انہوں نے ہی بک کروائی تھی اور صرف ایک ہی سیٹ بک کروائی گئی تھی۔ بظاہر اس کیساتھ کوئی اور نہیں گیا تھا۔ مگر شائستہ ہارون کی رگ رگ سے واقف تھی۔ اگر اسے کسی کو اپنے ساتھ لے کر جانا تھا تو وہ کبھی کبھی اس ٹریول ایجنسی سے وہ دوسری سیٹ بک نہ کرواتا ۔ وہ جانتا تھا کہ وہاں سے شائستہ کسی وقت بھی اس بارے میں معلومات حاصل کر سکتی تھی۔
شائستہ نے انہیں پہلی دستیاب کسی بھی ملکی یا غیر ملکی فلائٹ میں دوبئی کے لیے سیٹ بک کروانے کو کہا دس منٹ بعد شام کی ایک فلائٹ کی بزنس کلاس میں ملنے والی سیٹ کا اسے بتایا گیا۔ شائستہ نے سیٹ بک کرنے کے لیے کہا فلائٹ کی ٹائمنگز ایسی تھیں کہ اسے فوری طور پر پیکنگ کر کے نکل جانا چاہیے تھا۔ برق رفتاری سے کپڑوں کے دو جوڑے اور چند دوسری ضرورت کی چیزیں بیگ میں ڈال کر شائستہ اپنے کمرے سے نکل آئی۔ اسے ابھی راستے میں ٹریول ایجنسی بھی جانا تھا۔
نایاب سے اس کا سامنا اپنے پورچ میں ہوا ۔ وہ ڈرائیور کو ٹریول ایجنسی کے بارے میں بتاتے ہوئے گاڑی میں بیٹھ رہی تھی جب نایاب کی گاڑی گیٹ سے اندر داخل ہوئی شائستہ کو خیال آیا کہ وہ اسے اپنے دوبئی جانے کے بارے میں بتا دے مگر پھر یک دم اس کو یاد آیا کہ نایاب اور ہارون کی اگر اس کے دوبئی پہنچنے سے پہلے آپس میں فون پر بات ہو گئی تو نایاب’ہارون کو شائستہ کی روانگی کے بارے میں بتا دے گی۔
دوبئی روانگی کی بات گول کرتے ہوئے وہ گاڑی سے نکل آئی۔نایاب نے اپنی گاڑی اس کی گاڑی کے برابر میں کھڑی کی اور وہ بھی باہر نکل آئی۔ شائستہ ایک نظر اس کے چہرے پر ڈالتے ہی یہ جان گئی تھی کہ وہ کسی بات پر اپ سیٹ ہے اور وہ اکثر کسی نہ کسی بات پر اپ سیٹ ہوتی رہتی تھی۔ شائستہ نے اسے اپنی طرف آتے دیگھا۔
”میں چند دنوں کے لیے کراچی جارہی ہوں نایاب …”شائستہ نے اسے اپنی طرف آتے دیکھ کر کہا۔ ”میں ابھی نکلنے ہی والی تھی اچھا ہوا کہ تم سے ملاقات ہوگئی ورنہ میں تمہیں فون کرتی۔”
شائستہ نے اس کے چہرے کے تاثرات کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا۔ وہ اب دوبارہ گاڑی میں بیٹھنا چاہتی تھی۔ جب نایاب نے اسے روک دیا۔
”مجھے آپ سے بہت ضروری بات کرنی ہے۔”اس کا لہجہ بے حد ترش تھا۔
”اوہ کم آن اس وقت میں تم سے کوئی بات نہیں کر سکتی میری فلائٹ کا ٹائم ہو رہا ہے۔ ”شائستہ نے لاپروائی سے کہا۔ ”جب واپس آؤں گی تو پوچھوں گی کہ تمہیں مجھ سے کیا بات کرنی ہے۔”
”مجھے شہیر کے بارے میں آپ سے کچھ پوچھنا ہے؟”
وہ ایک بار پھر بولی اس بار اس کی آواز میں پہلے سے زیادہ کڑواہٹ تھی۔ فوری طور پر شائستہ کی سمجھ میں نہیںآیا کہ وہ اس سے کیا کہے’کیا نہ کہے۔اس کا ذہن فوری طور جیسے کسی بگولے کی زد میں آگیا تھا۔
اسے اندازہ نہیں ہو پا رہا تھا کہ نایاب سے شہیر کے بارے میں کس بات کی ہے…کیا ہارون نے ؟مگر ہارون اتنی جرأت نہیں کر سکتا تھا پھر اور کون تھا جس نے نایاب سے۔
”مجھے آپ کو ممی کہتے ہوئے شرم آرہی ہے۔”نایاب نے تحقیر آمیزا نداز میں اگلا جملہ ادا کیا تھااور اس کے اس جملے نے شائستہ کی تمام مشکلات آسان کر دی تھیں ۔ پلک جھپکتے میں اس کی قوت گویائی واپس آگئی تھی۔ کبھی نہ کبھی اسے اسد اور نایاب کا شہیر سے سامنا کروا نا تھا اور اس وقت اپنی عزت رکھنے کے لیے اسے سو جھوٹ بولنا پڑتے اوراب…اب وہ اس مشکل سے نکل آئی تھی۔
”کراچی سے آنے کے بعد تم سے اس بارے میں تفصیل سے بات کروں گی۔ ”
اس نے اپنے حواس بحال کرتے ہوئے کہا۔ اس بار کرنٹ نایاب کو لگا تھا…وہاں کوئی صفائی …کوئی وضاحت نہیں تھی۔ اس کی ماں شہیر کے نام پر چونکی تک نہیں تھی۔ تو کیا وہ اعتراف کر رہی تھی اس سب کا جو ثمر نے کہا تھا؟۔مگر یہ کیسے ممکن تھا …وہ لاشعوری طور پر جیسے توقع کر رہی تھی کہ شائستہ فوری طور پر ہر بات سے انکار کرے گی اور شاید اسے بر ابھلابھی کہے ۔مگر وہاںایسا کچھ بھی نہیں تھا۔
نایاب گم صم پتھر کے مجسمے کی طرح گاڑی کو گیٹ سے باہر نکلتے اور گیٹ کو بند ہوتا دیکھتی رہی۔ کیا سچ تھا’ کیا جھوٹ۔ صرف چند دنوں میں اس کے سامنے آنے والا تھا۔صرف چنددنوں میں۔
٭٭٭
کمرے میں موجود فون کی گھنٹی مسلسل بج رہی تھی جب ہارون باتھ روم سے جسم کو تولیے سے رگڑتا ہوا باہر نکلا بے حد پر سکون انداز میں اس نے ریسیور اٹھایا۔ فرنٹ ڈیسک پر موجود آدمی نے اس کی کسی خاتون ملاقاتی کے بارے میں اسے بتایا۔ ہارون جیسے ہکا بکا ہو گیا۔ اس کی وہاں موجودگی کے بارے میں دوبئی میں اس کے کسی دوست کو بھی خبر نہیں تھی پھر یہ خاتون ملاقاتی کہاں سے وارد ہو گئی تھی۔ اس نے آدمی سے اس عورت کا نام پوچھنے کے لیے کہا اور اس کا نام سن کر اس کے چودہ طبق روشن ہو گئے تھے۔
”مسز شائستہ کمال ؟۔”اس نے بے یقینی سے فون پر سنا جانے والا تعارف دہرایا۔ شائستہ یہاں اس وقت کیسے آسکتی تھی۔ اس نے دوپہر کے قریب تو اس سے فون پر بات کی تھی اور شائستہ یہاں اس وقت کیسے آسکتی تھی۔ اس نے دوپہر کے قریب تو اس سے فون پر بات کی تھی اور شائستہ کے کسی انداز سے ایسا نہیں لگا تھا کہ وہ رات کے وقت اس پر یوں چھاپہ مارنے والی تھی۔
”آپ انہیں بھجوا دیں ۔”اس نے اپنے اوسان بحال کرتے ہوئے فون پر کہا اور دانت پیستے ہوئے فون رکھ دیا۔
وہ اس عورت سے بچنے کے لیے یہاں آیا تھا اور یہ عورت کسی چڑیل کی طرح اس کے پیچھے وہاں بھی آن موجود ہوئی تھی۔
تولیہ بیڈ پرپھینکتے ہوئے اس نے برق رفتاری سے شب خوابی کے لباس کی شرٹ پہنی اور پھر ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے جا کر اس نے ایک نظر اپنے چہرے ‘کھلے گریبان اور بازوؤں کے کے نظر آنے والے حصے کو دیکھا ۔ سب کچھ ٹھیک نہیں تھا۔ اس نے اسی برق رفتاری سے وہ شرٹ دوبارہ اتار دی اور وارڈ روب کھول کر پوری آستینوں والی ایک دوسری شرٹ نکال لی۔ اس سے پہلے کہ وہ اسے پہن پاتا دروازے پر دستک ہوئی تھی۔ ہارون نے شرٹ اپنے جسم پر چڑھائی اور ہینگر اندر پھینکتے ہوئے وارڈروب کو بند کرتے ہوئے دروازے کی طرف بڑھ گیا۔ اس کا پارہ اسوقت آسمان کو چھورہا تھا۔
دروازہ کھولتے ہی وہ شائستہ سے کچھ کہنا چاہتا تھا مگر اس کے ساتھ بیگ اٹھائے اسٹاف کے ایک آدمی کو دیکھ کر وہ خاموش ہو گیا۔ شائستہ اور ہارون دونوں کے درمیان تیز چھبتی ہوئی نظروں کا تبادلہ ہوا۔ ہارون نے کچھ کہے بغیر ان دونوں کو اندر آنے کے لیے راستہ دیا۔ شائستہ اپنا بیگ ٹٹولتے ہوئے ٹپ کے لیے کچھ رقم تلاش کرنے لگی۔
پورٹر نے شائستہ کے ہاتھ میں پکڑے نوٹ ایک ممنون مسکراہٹ اور شکریہ کے ساتھ تھامے اور کمرے کا دروازہ بند کرتا ہوا باہر نکل گیا۔
”دیکھ لو میرے ساتھ یہاں کوئی دوسری عورت نہیں ہے۔”پورٹر کے باہر نکلتے ہی ہارون نے تندو ترش لہجے میں کہا۔
”مجھے دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے’میں فرنٹ ڈیسک سے پتہ کر چکی ہوں ۔ تم اس بیڈ روم میں اکیلے ہی ٹھہرے ہو البتہ یہ حیرت کی بات ہے کہ سنگل کے بجائے تم نے ڈبل بیڈ روم لیاہے۔”
شائستہ کہتے ہوئے صوفہ کی طرف بڑھ گئی۔ ہارون کا جسم بے اختیار تن گیا۔
”شاید تمہیں پتہ تھا کہ جلد یا بدیر مجھے بھی یہاں آنا ہے۔”شائستہ اب صوفہ پر بیٹھ کر اپنی ٹانگیں سیدھی کر رہی تھی۔ ”البتہ مجھے تمہیں یہاں اکیلے دیکھ کرخوشی اتنی نہیں ہوئی جتنی حیرت ہوئی ہے۔”
شائستہ اب کمرے میں ایک نظر چاروں طرف دوڑاتے ہوئے بولی۔ ”ہارون کمال اور دوبئی میں اکیلا پھر رہا ہو۔ ”
”تم مجھ سے یہ بکواس کرنے آئی ہو؟”ہارون نے تندوتیز لہجے میں اس کی بات کاٹی۔
”یہ بکواس نہیں تھی ایک مذاق تھا۔ ”شائستہ نے کہا۔
”تم واپس کب جارہی ہو؟”ہارون نے بلا تمہید پوچھا۔
”اس کا انحصار تم پر ہے۔ ویسے میں تمہاری جاسوسی کرنے نہیں آئی۔ تم سے کچھ بات چیت کرنے آئی ہوں”شائستہ نے بھی بات کا موضوع بدلتے ہوئے کہا۔
”اگر بات کا موضوع شہیر ہے تو تم اپنا منہ بند ہی رکھو تو بہترہے۔ ”ہارون نے کاٹ کھانے والے انداز میں کہا۔
اسے شائستہ کی اس وقت وہاں اچانک آمدواقعی بہت بری لگی تھی۔
”تم بیٹھ جاؤ ۔ ہم بیٹھ کر بات کرتے ہیں ۔”شائستہ یک دم سنجیدہ ہو گئی۔
”میں شہیر کے بارے میں کوئی بات نہیں کروں گا۔ ”ہارون نے دوٹوک انداز میں انگلی اٹھاتے ہوئے کہا۔
”تب بھی نہیں اگر میں تمہیں یہ بتاؤں کہ … ”شائستہ بات ادھوری چھوڑتے ہوئے اس کا چہرہ دیکھنے لگی۔
”میں کسی بھی صورت میں اس کے بارے میں بات نہیں …”
ہارون اپنی بات مکمل نہیں کر سکا۔ شائستہ نے اس کی بات کاٹ دی تھی۔
”تب بھی نہیں اگر میں تمہیں یہ بتاؤں کہ نایاب ‘شہیر کے بارے میں جان چکی ہے۔ ”ہارون کو جیسے کرنٹ لگا تھا۔ سارے مینرز کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اس نے بے اختیار شائستہ کو ایک گالی دی۔
”تم …تم جیسی عورت سے میں اس طرح کی نیچ حرکت کی توقع کر سکتا تھا۔ ”وہ دھاڑ رہا تھا”تم اپنا خاندان دکھائے بغیر کیسے رہ سکتی تھیں۔”
”میرا اور تمہارا خاندان ایک ہی ہے۔”شائستہ نے اسے جیسے یاد دلایا۔
”نہیں ‘ ایک نہیں ہے بہت فرق ہے۔ تم مڈل کلاسیئے دوٹکے کے لوگ تھے جو اخلاقیات کے نام پر منافقت کا لبادہ اوڑھے بیٹھے تھے۔ ”
”اور تم اپر کلاسیئے تھے جو اخلاقیات کے نام پر چند دھجیاں لٹکائے پھر رہا تھا۔ ”شائستہ نے تلخی سے کہا۔