تحفۂ محبت — لعل خان

میں نے پست لہجے میں اس سے سوال کیا تھا۔
چند لمحوں تک اس کی آواز سنائی نہیں دی …….
مجھے شدت سے احساس ہو رہا تھا کہ وہ مجھے دیکھنے میں محو ہے ،پتا نہیں میں غلط تھا یا صحیح؟
خاموشی کا دورانیہ بڑھتا جا رہا تھا۔
میرے اندر اتھل پتھل ہونے لگی تھی …
کہیں وہ……
کہیں وہ اٹھ کر چلی تو نہیں گئی تھی ۔؟
کہیں میں آنکھیں کھولوں اور وہ میرے ساتھ موجود نہ ہو ۔۔۔۔؟
وہ پھر سے گم ہو گئی ہو ۔۔۔۔؟
اپنی دنیا میں ……
میرا اور اس کا رشتہ ہی کیا تھا….؟
کیا تھی وہ میری ؟کچھ بھی نہیں ………
صرف ایک لڑکی ………جو اپنا تھوڑا سا فارغ وقت بتانے کے لئے میری دنیا میں طوفان برپا کرنے آ گئی تھی ۔
(کیسا طوفان؟)
بند آنکھوں کے پیچھے میں نے خود سے سوال کیا تھا۔
یہ مجھے کیا ہوتا جا رہا تھا ،میں آنکھیں کھولنا چاہتا تھا ،پر کھول نہیں پا رہا تھا۔
اک انجانے سے خوف نے مجھے اپنے حصار میں قید کر لیا تھا۔
”اگر وہ نہ ہوئی تو ….؟”
(نہ ہو ئی تو کیا ۔۔۔۔؟
پہلے بھی تو نہیں ہوتی تھی ….؟)
”پہلے کی بات اور تھی …..پہلے میں نے اسے دیکھا ہی کب تھا…؟”
(تو اب دیکھ کر کیا کر لو گے ……؟)
”میں اس سے اظہار کر دوں گا۔”
(کیسا اظہار …؟)
”یہی کہ ۔۔۔۔۔۔۔
کہ……….
کہ میں اس سے پیار کرتا ہوں۔”
(پیار ….؟ہا ہاہاہاہاہا….)
میرے اندر کسی نے دل کھول کر قہقہہ لگایا تھا۔
”ہاں میں پیار کرتا ہوں اس سے ،اپنانا چاہتا ہوں اسے ،یہ کوئی غلط تو نہیں ہے ،کیا ہوا ..؟ اگر دو الگ منزلوں کے مسافر ایک ہی منزل کی طرف چل پڑیں۔۔۔۔۔۔یا پھر ….
ایک نئے سفر پہ نکل جائیں …….”
میں نے خود ہی اپنے حق میں دلیلیں دینا شروع کردیں۔
(نئی منزل ۔۔۔۔۔نئے راستے ،اتنی آسانی سے نہیں ملتے ،تم نے اپنا دل اور اسے دیکھا ہے ابھی تک ، اس کے دل اور خود کو بھی دیکھو ،صدیوں کا فاصلہ ملے گا تمیں ،و ہ کہاں اور تم کہاں ……
تم ہو کیا ….؟

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

ایک معمولی عام آدمی ،جو چند ہزار پانے کے لئے اپنے پیاروں سے ہزاروں میل دور بیٹھا ہے،تم اپنے ان پیاروں کے لئے کیا کر پائے ہو آج تک ۔۔۔؟ جو اس نئے نویلے پیار کے لئے کچھ کر پاؤ گے ،اور وہ بھی اندھی نہیں ہے ،جانتی ہے اچھی طرح تمہیں۔۔۔۔۔اور تمہارے لیول کو بھی ……
میری مان لو ……..
خاموش رہو ….عزت میں رہو گے ،کم از کم ایک خوبصورت یاد تو رہے گی دل میں …..کیوں اس یاد کو تلخ بنانا چاہتے ہو؟
”مگر میں اس یاد کے ساتھ جی نہیں پاؤں گا ۔”
میں نے خود اپنی ہی منت کرنی چاہی تھی ۔(جینا پڑے گا تمہیں ……..اپنے لئے نا سہی ….اپنے سے جڑے باقی رشتوں کے لئے )
میرے اندر چھپا ہوا پتھر دل کسی طور نہ مان رہا تھا۔
خاموشی بہ دستور ہمارے درمیان جاری تھی………..
اس کے آنے کے بعد پہلی بار ہم دونوں کے بیچ اتنی لمبی خاموشی آئی تھی ۔
میں آنکھیں بند کیے ہوئے ابھی تک اس انتظار میں تھا کہ شائد…….
اس کی آواز سننے کو مل جائے ……
شائد ہم ایک بار پھر اک دوسرے کی آنکھوں میں جھانک سکیں ۔
شائد میں اس کی مسکراہٹ کو پھر سے دیکھ سکوں …..
اس کے لفظوں میں چھپی مٹھاس کو محسوس کر سکوں……
میں اس شائد کے آگے کچھ سوچ نہیں پا رہا تھا……
یہ شائد کا لفظ بھی تو امید جگاتا ہے ،نئے سورج کی کرنوں کی طرح …….
تو کیا میں آنکھیں بند کر کے اس شائد کو سوچتا رہوں ۔۔؟
میں الجھ رہا تھا۔
(تم اپنی آنکھیں کھولو اور شائد سے نکل کر سچ کا سامنا کرنے کے لئے تیار ہو جاؤ ،وہ تو کب کی جا چکی ہے ….تم ہی خود سے جھگڑنے میں مصروف ہو……کھولو آنکھیں )
وہ بے رحم پھر مجھے اپنے تلخ لفظوں سے چھلنی کر رہا تھا۔
”میں آنکھیں نہیں کھولوں گا ……..جب تک وہ مجھ سے بات نہیں کرے گی…….مجھے آنکھیں کھولنے کے لئے نہیں کہے گی …..”میں نے ضدی بچے کی طرح خود سے کہا تھا۔
(وہ اب کبھی نہیں کہے گی بے وقوف ……..وہ جا چکی ہے ،اپنے پیاروں کے پاس …….اسے اگر تمہاری ضرورت ہوتی تو اب تک تمہاری آنکھیں بند نہ ہوتیں)
”اسے میرے جذبوں کی صداقت پہ بھروسہ کرنا ہو گا ،اسے ماننا ہو گا کہ میں ……………میں پہلی نظر میں ہی اس پہ مر مٹا ہوں ۔”
وہ میرے وجود کا کوئی گم شدہ حصہ ہے ،جو آج اچانک آکر مجھ سے ملا ہے۔میں اسے یقین دلا کر رہوں گا۔”
یقین دلاؤ گے …….؟
یاد کرو کیا کہا ہے تم نے اسے ؟
یہی نا …؟
کہ محبت کو اظہار کی ضرورت نہیں ہوتی ….
تو پھر تمہیں کیوں پڑ گئی اظہار کی ضرورت…؟
اور جو اس نے یہی سوال تم سے پوچھ لیا تو…؟
”ہاں …….ٹھیک کہا تم نے ،جذبوں کو اظہار کی ضرورت نہیں ہوتی ،مجھے بھی نہیں ہے ،کیوں کہ میری آنکھوں میں تو وہ پہلے سے ہی جھانک چکی تھی ،اب مجھے کو ئی ڈر نہیں ،اس نے میری محبت کو یقینا تسلیم کر لیا ہے ،ورنہ صبح کی پہلی کرن نکلنے سے پہلے ہی وہ چلی جاتی ،میں جانتا ہوں وہ میرے پاس ہے ۔
میرے بہت قریب……..
وہ میرے سنگ صبح کی پہلی کرن دیکھنا چاہتی ہے ……..
اور میں آنکھیں بند کئے بیٹھا ہوں …….
مجھے آنکھیں کھولنا ہوں گی۔”
میں نے ایک جھٹکے سے آنکھیں کھول دیں۔
میرے ساتھ والی سیٹ خالی پڑی تھی …….
وہ جا چکی تھی …..
بس جاتے جاتے کاغذ کا ایک ٹکڑا چھوڑ گئی تھی ……
میں نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے کاغذ کا ٹکڑا تھاما۔
اور میرے لب بے آواز ہلنے لگے…..

سنو ہمدم !
محبت کے ٹھکانوں پر
کبھی دستک نہیں دیتے
بس اک کمزور لمحے میں
ذرا سی آنکھ بند کر کے
دریچے کھول دیتے ہیں
محبت جو ٹھہر جائے
محبت وہ نہیں ہوتی
محبت ساتھ چلتی ہے
یہ بے آواز چلتی ہے
محبت ہجر دیتی ہے
محبت درد دیتی ہے
مگر اس درد میں ہمدم
محبت ساتھ دیتی ہے
محبت خود مسافت ہے
جسے ہم طے نہیں کرتے
یہ خود ہی پار ہوتی ہے
یہ بے اختیار ہوتی ہے

دو آنسو بہت خاموشی کے ساتھ میری آنکھوں کے گوشوں سے نکل کرکاغذ پہ گر گئے…….
اندھیرا چھٹ چکا تھا……
اور سورج کی پہلی کرن کھڑکی سے ٹکرا کر مجھے نئی صبح کی نوید سنا رہی تھی ……..
جانے والی جا چکی تھی ….
مگر جاتے جاتے …….
مجھے تحفہ ء محبت دے گئی تھی…..

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

اجنبی — لبنیٰ طاہر

Read Next

دانہ پانی — قسط نمبر ۷

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!