میں بس اتنا ہی کہ پایا تھا۔
وہ ایک بار پھر سیٹ کی پشت سے ٹیک لگا کر بس کی چھت کو گھورنے لگی تھی۔
کچھ پل بہت خاموشی سے کٹے تھے ….اور یہ خاموشی اب مجھے ڈسنے لگی ۔
”اچھا بتایئے نا…….آپ کو کیسے پتا چلا کہ میں کبوتر پالنے کا شوق رکھتا تھا ۔؟”
میں نے سلسلہ ٔ کلام وہیں سے جوڑنا چاہا جہاں پہ ٹوٹا تھا۔
اس کے چہرے پر وہی مسکان پھر سے لوٹ آئی جسے اس کے قہقہے نے چھپا دیا تھا۔
”تمہاری حرکت سے اندازہ لگایا ہے میں نے۔”
اس نے چھت کو تکتے تکتے ہی جواب دیا تھا۔
”حرکت ……کیسی حرکت؟”
میں نے اچنبھے سے پوچھا۔(لو میاں للو۔۔۔۔کبوتر تو بن ہی گئے ،کچھ اور بھی بننا ہے؟)
”چھوڑو ..جانے دو ..”
اس نے ہوا میں مکھی اڑائی اور ایک دم سے سیدھی ہو کر بیٹھ گئی۔
”یہ بتاؤ …..تم نے کبھی کسی سے محبت کی ہے؟”
وہ سوالیہ نشان بنی مجھے دیکھ رہی تھی۔
میں نے ایک گہرا سانس لیا،ایک ہلکی سی انگڑائی لیتے ہوئے تھوڑا سا اوپر ہو کر بس میں آگے اور پیچھے بیٹھے ہوئے تمام مسافروں پر اک طائرانہ نظر ڈالی ۔
بس میں ہر طرف خاموشی اور سکون تھا،صرف گانے کی ہلکی ہلکی آواز آ رہی تھی……….
”آج لگتا ہے میں ہواؤں میں ہوں ۔۔۔
آج اتنی خوشی ملی ہے۔۔۔۔”
”نہیں ۔”
میں نے اپنی سیٹ کی پشت سے ٹیک لگا کر کہا ۔
”اور کسی کو تم سے ہوئی ۔؟”اس کا ایک اور سوال ۔
”نہیں ۔”میں نے مختصراً کہا تھا۔
”یہ تم کیسے کہہ سکتے ہو۔؟”ایک اور عجیب سوال۔
میں نے حیرت سے اسے دیکھا۔
”کیا مطلب کیسے کہہ سکتا ہوں ؟”
اس نے میری حیران آنکھوں میں جھانکا۔
”مطلب یہ کہ تمہیں کیسے پتا چلاکہ تم کسی کی محبت نہیں ہو۔؟”
میں نے چند لمحوں تک الجھی ہوئی نظروں سے اسے گھورا ۔
”تم کہنا کیا چاہتی ہو۔؟”
میں الجھ کر بولا تھا…اس احساس سے قطعی غافل ،کہ میں بھی آپ سے تم پہ آ چکا تھا۔
”افوہ….
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
ایک تو تمہیں ہر بات سمجھانی پڑتی ہے ۔”
اس نے جھنجھلا کر کہا تھا۔
”یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ کوئی تم سے محبت کرتا ہو ،مگر اظہار نہ کر پاتا ہو ۔”
اس نے مجھے سمجھانے والے انداز میں کہا تھا۔
”محبت کو اظہار کی ضرورت نہیں ہوتی ۔”
بے اختیار میرے منہ سے نکلا تھا۔(اف…..یہ کیا بکواس کر دی میں نے )
اس کا رنگ تیزی سے بدلا تھا۔
پہلی بار مجھے یقین ہو چلا…..میں نے اسے متاثر کر دیا ہے۔
”پہلی بار تمہارے منہ سے کوئی ڈھنگ کی بات نکلی ہے ۔”
اس نے ستائش بھرے لہجے میں کہا۔
”اب تو ماننا پڑے گا…… نہ تم نے کسی سے محبت کی ….اور نہ ہی کسی نے تم سے ۔”
بڑے سادہ سے لہجے میں میرا سچ تسلیم کیا تھا اس نے مگر جانے کیوں۔۔۔؟
ایک عجیب سی ٹیس اٹھتی ہوئی محسوس کی میں نے۔
”تم نے کبھی کسی سے محبت کی ۔؟”
اپنے اندر اٹھتے دھوئیں کو دبانے کے لئے میں نے یونہی اس سے پوچھا تھا۔
”ضروری تو نہیں …….کہ جو میں پوچھوں ……تم بھی وہی پوچھو ۔”
مجھے لگا وہ جان چھڑا رہی ہے۔
”یہ فاؤل ہے بائی دا وے……میں نے تمہارے کسی سوال کے آگے آنا کانی نہیں کی۔”
میں خوامخوا ہی بات سے بات نکال رہا تھا۔
”میرا حال بھی تمہارے جیسا ہی ہے ۔”
اس نے سرسری سے لہجے میں اپنا جواب دے دیا تھا۔
”میں بھی ان لوگوں میں شامل ہوں جو محبت کو سنتے ہیں ،دیکھتے ہیں ،شائد سمجھتے بھی ہیں ،پر
محسوس نہیں کر پاتے ۔”
کچھ تھا اس کے لہجے میں …..
جس نے مجھے اندر سے مزید بے چین کر دیا تھا ۔
”لوگ کہتے ہیں محبت کا احساس بہت دل فریب ہوتا ہے ،یہ ہماری زندگی کو پوری طرح بدل کے رکھ دیتا ہے ۔یہ ہمیں جینا سکھاتا ہے ،دل سے ہنسنا سکھاتا ہے ،ہم جہاں بھی ہوں …..جس حال میں ہوں ….یہ ہمیں اپنے احاطے میں لئے رہتا ہے ،ارد گرد سے غافل ….
بس اپنی ہی دھن میں مگن ہم مسکراتے چلے جاتے ہیں۔”
اس کا لہجہ بتا رہا تھا کہ اسے محبت کے لفظ سے بہت محبت تھی۔
”ہاں ….لیکن یہ احساس تب تک دل فریب رہتا ہے ،جب تک ہم ہجر کی اذیت سے بے نیاز ہوتے ہیں۔”لفظ خود بہ خود ہی میرے منہ سے نکل گئے تھے …..
ورنہ ….مجھے صنفِ مخالف کے سامنے بولنے میں ہمیشہ سے دقت رہی تھی۔
”محبت ہجر کے بغیر کبھی مکمل نہیں ہوتی ،یہ ہجر ہی ہے جو محبت کو کھل کر آپ پہ آشکار کرتا ہے ،اگر ہجر نہ ہوتا تو شائد دنیا سے سچی محبت کا احساس ہمیشہ کے لئے ختم ہو جاتا ،محبت میں وصل کی گھڑیوں کی اہمیت کیوں ہے ؟…کبھی سوچا ہے تم نے ؟….کیوں کہ یہ گھڑیاں ہجر کی اذیت سہنے کے بعد نصیب ہوتی ہیں ……..اگر ہرلمحہ وصل کا لمحہ ہو ……”
اس نے ایک لمحے کے لئے رک کے مجھے دیکھا۔
”تو پھر شب وصل پر شاعری کے دیوان کیوں کر لکھے جاتے ہیں ۔؟”
مجھے دل ہی دل میں معترف ہونا پڑا۔
”تو پھر ….ہجر کے بارے میں ہمیں کس طرح سوچنا چاہیے۔؟”
میں ایسے پوچھ رہا تھا ،جیسے بچہ استاد سے کوئی سوال کرتا ہے۔
”ہمیں دل سے ہجر کا شکریہ ادا کرنا چاہیے ،ہمیں اس کا احسان ماننا چاہیے جو یہ ہمیں محبت کا احساس دلا کر ہم پہ کرتا ہے۔”
وہ مسکراتے لہجے میں بول رہی تھی اور میں اسے تکے جا رہا تھا۔
کچھ لمحے خاموشی سے سرک گئے …..
مجھے مسلسل اپنی طرف تکتا پا کر اس نے دونوں بازو سینے پر لپیٹتے ہوئے بھنویں اُچکائی تھیں۔
اس کے بالوں کی وہ شرارتی سی لٹ سرک کر اس کے گال پہ آ گئی تھی ۔اب کی بار اس نے اسے گال پہ ہی چھوڑ دیا تھا ۔
”آپ کچھ الگ سی دِکھتی ہیں ۔”
میں نے کھوئے کھوئے سے لہجے میں کہا تھا۔
”کیوں ……؟
میرے سینگ تو نہیں ہیں کہیں۔۔؟”
وہ یک دم سر پہ ہاتھ پھیر کہ بولی۔
میں نے اب تک صرف اس کا چہرہ غور سے دیکھا تھا۔۔
پہلی بار میں نے سرسری سے انداز میں اس کا سر تا پا جائزہ لیا ۔
اس نے گھنے سیاہ بالوں کوجوڑے کی شکل دے کر باندھا ہوا تھا ،بس وہی چند بال آزاد تھے جو اکٹھے ہو کر لٹ کہلاتے ہیں اور جو اس وقت بھی اس کے دودھیا گالوں پہ لہرا کر اٹکھیلیاں کرنے میں مصروف تھے ۔
عام سے شلوار قمیص اور کندھے پہ پڑے ہوئے بلیو رنگ کے دوپٹے میں جانے کون سا چارم تھا جس نے میری نظر میں اس لڑکی کو دنیا کی سب سے خوبصورت لڑکی کا اعزاز دے ڈالا تھا۔
میں جتنا اسے دیکھتا جا رہا تھا ……
اتنا ہی اندر سے بے چین ہوتا جا رہا تھا ….
شائد اسے دیکھتے رہنے کی طلب بڑھتی جا رہی تھی اور…….سفر گھٹتا جا رہا تھا۔
میں نے اس سے نظریں ہٹا کر کھڑکی سے باہر دیکھا۔
اندھیرا اب چھٹنے لگا تھا۔۔۔۔۔
گو کہ منظر ابھی تک صاف نہیں ہوا تھا ،پر کھڑکی سے باہر دیکھنے پر اب اندھیرے کے احساس میں واضح کمی لگتی تھی۔
”تھوڑی دیر میں صبح ہو جائے گی ۔”
وہ دھیمے سے لہجے میں بولی تھی۔
”آں۔۔۔؟میں نے چونک کر اسے دیکھا۔
وہ بھی کھڑکی سے باہر ہی دیکھ رہی تھی۔
”ہاں …….
تھوڑی دیر میں صبح ہو جائے گی۔”
میں نے خوابیدہ سے لہجے میں کہا تھا۔
”مجھے سورج نکلنے کا منظر بہت پسند ہے ۔”
وہ ہنوز کھڑکی کی طرف دیکھ کر بول رہی تھی۔
”مجھے بھی۔”
میں نے مختصراً کہا تھا۔(کیا آج بھی )؟
”سورج کی کرنیں نئی امید جگاتی ہیں نا…..نیا ولولہ ، نیا جوش…..
گزری رات کو بھول کر کچھ کر دکھانے کا جذبہ ۔”
وہ کھڑکی سے نظریں ہٹائے بغیر بول رہی تھی۔
میں نے پل بھر کے لئے اسے دیکھا ،پھر آنکھیں بند کر کے سیٹ کی پشت سے ٹیک لگا کر بولا تو مجھے اپنی آواز ہی اجنبی سی لگی۔
”ضروری تو نہیں ….کہ ہر نئے سورج کی کرن امید جگاتی ہو۔۔۔؟ گزری رات کو بھلا دینے کی طاقت بخشتی ہو ۔؟”
میری آنکھیں بند تھیں …..
مگر مجھے احساس ہوا ……کہ وہ اب کھڑکی کی طرف نہیں بلکہ میری طرف دیکھ رہی تھی۔
”ایسا کیوں کہہ رہے ہو ..؟
سناٹے اور اندھیرے میں اس کی آواز مجھے اور بھی خوب صورت لگ رہی تھی۔
میں نے آنکھیں بند ہی رہنے دیں۔
”بس ایسے ہی …….
تم ہی بتا دو ، کیا میں نے غلط کہا ہے ….؟ کیا ہر نیا سورج امید جگاتا ہے ۔؟
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});