تحفۂ محبت — لعل خان

”ابھی تک کچھ سوچا نہیں ہے ،تعلیم مکمل کر کے ہی کچھ سوچوں گی ۔”
اس کا لہجہ کافی بے پروا تھا۔
”اچھی بات ہے۔”
میں نے کہا اور ایک بار پھر خاموشی ہمارے درمیان اپنا بسیرا کر چکی تھی ۔
(اب اور کیا پوچھوں اس سے ؟)
میں دل ہی دل میں خود سے پوچھ رہا تھا۔
وہ دونوں بازو سینے پہ لپیٹ کر اب کھڑکی سے باہر دیکھ رہی تھی ۔
”اب آپ دیکھ رہی ہیں اندھیرے میں۔” (کچھ اور سوجھ بھی تو نہیں رہا تھا مجھے )
”میں اندھیرے میں نہیں دیکھ رہی ۔”
اس نے میری بات کی نفی کرتے ہوئے کہا۔
”تو پھر آپ کیا دیکھ رہی ہیں باہر ؟”
میں نے طنزاً سوال کیا۔
”میں ابتدائے سحر کے خوب صورت وقت کو دیکھ رہی ہوں،کہا جاتا ہے نا ۔۔۔۔ہم ابتدائے سحر میں اللہ کے بہت قریب ہوتے ہیں۔”
اس نے میرے طنز کا جواب بہت سادگی سے دیا تھا۔
”ہم ہر وقت اللہ کے بہت قریب ہوتے ہیں ۔”
میں خوامخوابحث پہ اتر آیا تھا۔شائد میرے اندر اسے لاجواب کرنے کی خواہش پیدا ہو گئی تھی۔
”ہاں مگر اس وقت ہم اس قربت کو زیادہ آسانی سے محسوس کر سکتے ہیں ،جب کہ باقی اوقات میں شاید مشکل سے ہی محسوس کیا جا سکے۔ ”
اس نے بہت پر سکون لہجے میں جواب دیا تھا۔
”اللہ والے ہر وقت محسوس کر سکتے ہیں۔”(لو جی ! اب کیا تک تھی بھلا یہ بات کرنے کی )
”ہر آدمی اللہ والا بھی تو نہیں ہوتا ،اکثر تو دنیا والے ہوتے ہیں ……آپ اللہ والے ہیں کیا؟”
اس نے کھڑکی سے نظریں ہٹا کر میرے چہرے پہ گاڑ دی تھیں۔
(ہاں بھئی ……..اب دو جواب )
”جی میں نے قرآن حفظ کیا ہوا ہے اور جماعت بھی کرواتا ہوں ۔” (اور میں چغد بھی ہوں)
”ماشاء اللہ۔”اس نے تحسین آمیز نظروں سے مجھے دیکھا۔
”تب تو آپ کی نماز ِفجر بالکل قضا نہیں ہوتی ہو گی ؟”
میں ہلکاسا کھانسا اور کھڑکی کی طرف دیکھنے لگا۔( ابتدائے سحر میں ایک اور جھوٹ )
”آپ نماز پڑھتی ہیں ؟”میں نے جواب سے بچنے کے لئے ایک اور سوال کا سہارالیا۔
”کوشش کرتی ہوں کہ پانچوں وقت کی پڑھ سکوں مگر غفلت کر جاتی ہوں۔”
وہ اک ذرا سی خاموش ہوئی ۔
”ہاں مگر نماز فجر تقریباً روز ہی پڑھتی ہوں۔”
میں مسلسل کھڑکی کے باہر دیکھ رہا تھا۔مبادااس کی طرف دیکھوں اور میری آنکھیں اسے سچ بتا دیں کہ جو نماز وہ تقریباً روز ہی پڑھتی ہے وہ میں کبھی کبھار بھی بہت مشکل سے پڑھ پاتا ہوں۔
”حیرت ہے۔”

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

میرا لہجہ بہت دھیما تھا۔
”کچھ کہا آپ نے ؟”اس نے شائد واقعی نہیں سنا تھا ،یا جو سنا تھا ..اسے کنفرم کرنا چاہ رہی تھی۔
”نہیں …کچھ نہیں”….میں نے کچھ بن کر جواب دیا ۔
”آپ کہاں جا رہی ہیں؟”میں نے بات بدلنے کے لئے دوسرا سوال داغ دیا ۔
”راولپنڈی ۔”
اس نے مختصراً جواب دیا۔
”اکیلی۔؟”
میرا سوال سن کر اس نے ایک لمبی جماہی لی ۔
”نہیں ….امی ابو ساتھ ہیں۔”
مجھے اس کی شکل پہ اکتاہٹ نظر آنے لگی تھی ۔
”آپ بور ہو رہی ہیں؟ ”(احمق تم اندھے ہو ؟ اس کے منہ پہ صاف لکھا نظر آ رہا ہے) ۔
”ہو تو رہی ہوں ۔”اس کی صاف گوئی قابل داد تھی۔
”آپ کو کیسے لوگ پسند ہیں۔؟”(کم از کم تمہارے جیسے تو بالکل نہیں )
اکتائے ہوئے چہرے پہ ایک ہلکی سی مسکان ابھری ۔
”اس سوال کی کوئی خاص وجہ ۔؟”
اس نے بھنویں اچکائیں۔
”کوئی وجہ نہیں….اب آپ آئی ہیں تو کچھ نہ کچھ بات تو چلتی رہے گی ۔”
میں نے اپنے تئیں بہت سمجھ داری کی بات کی تھی ۔
”بات تو ایک بھی نہیں کی آپ نے ؟”
اس نے میری طرف دیکھ کر عام سے لہجے میں کہا۔
”تو اب تک ہم کیا کر رہے تھے ۔؟” (جھک مار رہے تھے ….مان جاؤ میاں …بہت پکاؤ ہو تم)
”سوال و جواب …..اب تک ہم صرف سوال و جواب کر رہے تھے …بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ آپ سوال و جواب کر رہے تھے ۔”
اس نے ”آپ” پر زور ڈالتے ہوئے اپنے دائیں ہاتھ کی شہادت والی انگلی میری طرف کرتے ہوئے کہا۔
میں خاموش ہو گیا تھا۔کوئی جواب نہ تھا میرے پاس۔
اب باتیں تو سوال و جواب سے ہی نکلتی ہیں ،بھلا بتاؤ دو اجنبی ایک دوسرے سے سوال کئے بغیر بات کر سکتے ہیں ؟،دیرینہ دوستوں کی طرح …؟
”مجھے وہ لوگ پسند ہیں جن کی آنکھیں ان کی زبان کا …اور زبان ان کے دل کا ساتھ دیتی ہو۔جن کی آنکھیں ،زبان اور دل ایک ساتھ ایک جیسا کام کرتے ہوں ۔”اس نے اپنی چمکتی ہوئی آنکھیں میری آنکھوں میں ڈال کر کہا ۔
اس نے جواب تو کیا ہی دیا تھا ……مجھے آٹھویں کلاس کا الجبرا یاد آ گیا تھا۔
”مگر آنکھیں ،زبان اور دل ہمارے تین مختلف اعضاء ہیں جن کے کام بھی مختلف ہیں ۔یہ ایک جیسا کام کیسے کر سکتے ہیں۔؟”
میں الوؤں کی طرح اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔
اس کی صاف وشفاف پیشانی پہ میری حجت سن کر ایک ہلکی سی شکن پڑ گئی تھی۔
”دل جو سوچتا ہے ،زبان وہ نہیں کہتی…زبان جو کہتی ہے ،آنکھیں وہ نہیں دیکھتیں ،مگر مجھے وہ لوگ پسند ہیں جو دل میں آئی سوچ کو ہی زبان دیں اور جو زبان سے نکلے ،اسے ہی دیکھنا پسند کریں ۔”
اب اس نے مجھے الجبرے سے نکال کر جیومیٹری میں الجھا دیا تھا۔
”کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔؟”میں ہلکا سا بڑبڑایا تھا مگر اس نے سن لیا ،تبھی ہولے سے مسکراتی ہوئی بولی۔
”جانے دیجئے ….کوئی اتنا ضروری بھی نہیں ہے ہر بات کو سمجھنا۔”
”آپ کو مشکل باتیں پسند ہیں۔؟”میں نے قدرے شرمندگی سے کہا۔
”بالکل بھی نہیں ……میں تو بہت سمپل باتیں کرتی ہوں جو آسانی سے ہر کسی کی سمجھ میں آجاتی ہیں ،آپ کو پتا نہیں کیوں مشکل لگ رہی ہیں ،ویسے سچ بتا رہی ہوں ،مجھے پہلی بار کسی نے کہا ہے کہ میں مشکل باتیں کرتی ہوں۔”
اس کے جواب میں حیرت کا عنصر نمایاں تھا۔
”نہیں بس ،بزی رہتا ہوں تو باتیں کچھ کم ہی کرتا ہوں ۔۔۔۔تو سمجھ بھی کم ہی آتی ہیں۔”
(شرم تم کو مگر نہیں آتی ……..او بھائی چپ کر جا اب ……بہت ہو گئی گپ شپ )
”اوہ۔۔۔۔”میرا جواب سن کر اس کے ہونٹ ایک بار پھر گول ہو کر سکڑ گئے تھے۔
”تو آپ خاموش طبیعت کے مالک ہیں ،ہاں ہوتے ہیں ایسے لوگ بھی …..تنہائی پسند ،جو زیادہ باتیں کرنا پسند نہیں کرتے ،بس اپنی تنہائی انجوائے کرتے ہیں ،جیسے آپ کر رہے تھے …….اور میں نے آ کر آپ کو ڈسٹرب کر دیا….آئی ایم سو سوری ….آپ کو برا لگا ہو گا نا؟”
اس نے خود سے ہی سارے اندازے لگا لئے تھے اور چہرے پہ ندامت لئے مجھے دیکھ رہی تھی ….اور اب کے تب بس اٹھنے ہی والی تھی ۔
”نہ۔۔۔نہیں تو ….میں تو ”(نہیں نہیں نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ )
مجھے سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اب کیا کہوں۔
”اگر آپ کہتے ہیں تو میں اٹھ کر اپنی سیٹ پہ چلی جاتی ہوں ۔”
وہ اٹھنے کے لئے پر تول رہی تھی ۔
(نہیں ….خدا کے لئے ایسا مت کرنا۔۔تھوڑا سا وقت اور رک جاؤ ۔۔جانا تو تم نے ہے ہی )
”نہیں میں بالکل بھی ڈسٹرب نہیں ہو رہا ،آپ کو ایسا کیوں لگا؟”
نا چاہتے ہوئے ہوئے بھی میرے انداز میں تھوڑی سی عجلت آ گئی تھی ۔
”آپ سچ کہ رہے ہیں ؟”
اس نے سر کو ایک ذرا سا قریب لا کر میری آنکھوں میں غور سے دیکھا تھا،اور دوسرے ہی لمحے اس کے شگفتہ چہرے پہ مسکراہٹ پھیل گئی تھی ۔
میرا سانس سینے میں اٹک گیا تھا ،میں کچھ کہنا چاہ رہا تھا مگر اس کی مسکراہٹ مجھے حواس باختہ کر رہی تھی ،یک بارگی مجھے احساس ہوا ………میری آنکھیں پھر سے باغی ہو رہی تھیں ،میں نے گھبرا کر آنکھیں میچ لیں۔
”آپ کو کبوتر پالنے کا شوق بھی رہا ہے؟”
بند آنکھوں کے پیچھے چھائے اندھیرے میں مجھے اپنے دائیں کان کے پاس اس کی ہلکی سی آواز سرگوشی کی مانندمحسوس ہوئی ۔
”کیا۔۔۔؟”
میری آنکھوں کے ساتھ ساتھ میرا منہ بھی اس کی بات سن کر پوری طرح کھل چکا تھا۔
”جج…..جی….جی ہاں مگر ……آپ کو کیسے پتا چلا۔؟”
میں نے بیوقوفوں کی طرح منہ کھول کر اس کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔
اس نے اک ذرا کی ذرا میری کھلی ہوئی آنکھیں ،کھلا ہوا منہ اور ہونق ہوتا چہرہ دل چسپی سے دیکھا اور دوسرے ہی لمحے اس کی مسکراہٹ ،ہنسی اور ہنسی ،قہقہے میں بدل چکی تھی ۔
اگلی سیٹ پہ سوتا ہوا آدمی اچانک ہڑبڑا کر اٹھا اور ماتھے پہ بل ڈال کر پیچھے کی طرف مڑا ۔
میں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اس سے معذرت کی ،اس نے گھور کر ہنستی ہوئی لڑکی کو دیکھا اور دوبارہ اپنی سیٹ پر ترچھا ہو کر لیٹ گیا۔
میں نے اس سے نظریں ہٹا کر اپنی عجیب و غریب مگر خوب صورت اور معصوم چہرے والی ہم سفر کو دیکھا۔جو اب منہ پہ ہاتھ رکھ کے اپنی ہنسی کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہی تھی ۔
”ایسا بھی کیا لطیفہ سنا دیا تھا میں نے۔؟”
میرے لہجے میں حیرت اور ہلکی سی ناراضی تھی۔
اس کی ہنسی اب تھم چکی تھی ،بے اختیار قہقہے کی وجہ سے اس کی آنکھوں میں آنسوجمع ہو چکے تھے ۔
”تم! پلیز ناراض مت ہونا ،مجھے تمہارے اسٹائل پہ ہنسی آ گئی تھی۔”
اس نے انگلی کے پور سے بائیں آنکھ کا آنسو چنتے ہوئے کہا تھا۔
میرا دھیان اس کی بات کی بہ جائے صرف تم اور تمہارے پہ اٹک گیا تھا۔اس نے پہلی بار مجھے تم کہ کر پکارا تھا۔مگر اس بات کا اسے قطعی احساس نہیں ہوا تھا۔
”میں ناراض نہیں ہوں ۔”

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

اجنبی — لبنیٰ طاہر

Read Next

دانہ پانی — قسط نمبر ۷

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!