تبدیلی — ثناء شبیر سندھو

”ہاں ہاں پتر جا۔۔ ”سب ”سے مل کر آنا۔میں تیرے لئے دوسری ہانڈی چڑھاتی ہوں۔”اماں بھی اُٹھ کھڑی ہوئی۔
”نہیں اماں۔۔ دوسری ہانڈی چڑھانے کی ضرورت نہیں،جو تو پکا رہی ہے میں وہی کھالوں گا۔” میں نے محبت سے اماں کا ہاتھ دبا کر کہا۔
”چل ہٹ۔۔۔ تو ٹنڈے کب سے کھانے لگا۔” اماں ہنسی۔
”گل سنو جی۔۔” اماں نے ابا کو آواز دی اور میں گلی میں آگیا ۔ دوسری نکڑ پر چاچا کا گھر تھا۔
ہمیشہ کی طرح ادھ کھلے دروازے پر پردہ ٹنگا تھا ، جسے ہٹاتا میں اندر داخل ہوا ۔ یہاں بھی تبدیلی زوروں پر تھی۔ جو کچا آنگن میں چھوڑ کر گیا تھا وہاں ماربل لگ چکا تھا۔ صحن پر چھت بھی ڈال دی گئی تھی۔ کمروں کے سامنے والے برآمدے میں صوفے اور ساتھ ہی دو پلنگ بچھے تھے ۔ میں تھوڑا آگے بڑھا تو مجھے جھٹکا لگا۔ صوفوں کے سامنے دیوار پر LCDآویزاں تھی۔ میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔
”باجی مجھے تو سمجھ نہیں آرہی۔۔۔” صفیہ ہاتھ میں کوئی میگزین تھامے بولتے ہوئے کمرے سے نکلی اور پھر مجھے سامنے دیکھتے ہی ٹھٹھک کر رہ گئی ۔
”بھایا۔۔۔۔۔۔” اُس نے میگزین دور پھینکا اور بھاگتی ہوئی میرے گلے لگ گئی۔ماں بتاتی کہ بچپن سے ہی وہ مجھے بھائی کی جگہ بھایا بُلاتی تھی ۔
”کیسی ہے تو۔۔۔” میں نے اُس کے سر پر شفقت بھرا ہا تھ پھیرا۔
”میں بالکل ٹھیک۔۔ آپ۔۔آپ کب آئے۔۔ اور بتایا بھی نہیں۔۔یوں اچانک۔۔” اُس کی خوشی دیدنی تھی جس کی وجہ سے وہ ٹھیک سے بول بھی نہیں پارہی تھی۔
”سرپرائز۔۔کیسا لگا۔۔” میں مسکرایا۔
”بہت اچھا۔۔” خوشی اُس کے انگ انگ سے ٹپک رہی تھی ۔
”واہ آتے ہی یہاں آ گئے۔۔ پہلے اماں ابا سے تو مل لیتے نا۔۔” وہ میری متلاشی نظروں کو پہچانتے ہوئے شرارت سے بولی۔
”چل ہٹ گھر سے ہو کر آیا ہوں۔ ابا نے بتایا کہ تو یہاں ہے ،تو یہاں آگیا سوچا چاچا چاچی سے بھی ملاقات ہو جائے گی ۔” میں جھینپ کر بولا۔
”چاچا چاچی تو تھوڑی دیر پہلے ہی شہر کے لئے نکلے ہیں ”۔صفیہ اُسی شرارتی لہجے میں بولی ۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

”صفیہ تو سمجھنے کی کوشش کرے گی تو سمجھ آجائے گی ۔۔” بالآخر میرا انتظار ختم ہوا اور وہ باورچی خانے سے دوپٹے کے پلو سے ہاتھ صاف کرتی باہر آئی ۔ سادہ سے سوٹ میں دوپٹہ پھیلائے وہ دوپٹے سے ہاتھ صاف کرتی ہوئی باہر آرہی تھی۔اُس نے ہمیشہ کی طرح کس کر چُٹیا کی ہوئی تھی ۔سادہ سا جوڑا اور کانوں میں چھوٹی چھوٹی بالیاں اُس کی سادگی کو پروقار بنا رہی تھیں ۔
آخر کارمیں نے گہرا سانس بھرا۔۔۔۔وہ ویسی ہی تھی جیسی میں چھوڑ کر گیا تھا۔ مجھے لگا میری آنکھیں جیسے چمک اُٹھی ہوں۔
”اوہ ۔۔۔حسین یہ تم ہو۔۔” وہ ٹھٹھک کر رکی اورمنہ پر ہاتھ رکھ کر بے یقینی سے مجھے دیکھا۔
میری مسکراہٹ یک دم غائب ہوئی تھی۔اِس نے میرا نام پکارا؟؟
” جی جناب ،بھایا۔سرپرائز تو دیکھو ان کا۔۔۔” صفیہ اِٹھلا کر بولی۔
”لو ، تو انہیں بھی سرپرائز دینا آ گیا ہے ۔ ایف اے کیے تو مدتیں گزر گئیں ہیں ”۔کوثر نے شرارت آمیز لہجے میں کہا ۔
”باجی۔۔ آرام سے بیٹھو۔۔ ابھی تک تو تمہارا بی اے مکمل نہیں ہوا جو اِترا رہی ہو۔۔” صفیہ نے فوراََ اُسے ٹوکا۔
”ارے پگلی۔ ۔امتحانات میں وقت ہی کتنا رہ گیا ہے۔۔ کچھ دن کی بات ہے پھر میں تیرے بھائی سے پوری دو جماعتیں آگے چلی جاؤں گی ۔” شرارت بہ دستور اس کے لہجے میں نمایاں تھی ۔صفیہ نے مزید بھی کچھ کہا تھا جو میں سن نہیں پایا۔ابھی کچھ دن پہلے ہی میں نے اوپن یونیورسٹی کے ذریعے اپنا ایم اے مکمل کیا تھا لیکن اس بارے ابھی کسی کو پتا نہ تھا ۔
میں تو ابھی تک حیرانی کے اس سمندر سے نہیں اُبھر پایا تھا کہ جس نے کبھی مجھے نظر بھر کر دیکھا نہ تھا آج اُس نے میرا نام لیا ۔جس کی زبان مجھے دیکھتے ہی تالو سے چپک جاتی تھی وہ آج نہ صرف پٹر پٹر بول رہی تھی بلکہ اس کے تیور بھی نئے تھے ۔
”ارے بس کر تیرابھایا تو جیسے پتھر کا ہوگیا ہے۔۔کچھ بول ہی نہیں رہا بس تو ہی بولے جارہی ہے۔۔” وہ میری طرف دیکھ کر ہنسی۔
صفیہ نے مجھے جھنجھوڑا۔ میں دھیمے سے مسکرایا۔
”کیسی ہو کوثر۔۔” میں نے ملائمت سے پوچھا۔
”بہت اچھی۔۔ ” وہ جواب دے کر خود ہی ہنس دی ۔
” آؤ نا بیٹھو۔۔۔” اُس نے صوفوں کی طرف اشارہ کیا۔ ٹانگ پر ٹانگ چڑھا کر وہ میرے سامنے والے پلنگ پر بیٹھ گئی۔
”اچھا بتاوؑ اچانک آنے کا ارادہ کیسے ہوا؟۔۔ ” اُس نے ٹھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھا۔
”بس ایسے ہی۔۔ بہت دنوں سے سوچ رہا تھا کہ اچانک جاوؑں ۔خیر آنا تو مجھے تھا ہی ۔ اسی لئے اچانک آگیا کسی کو بتائے بغیر۔۔” میں نے آہستگی سے جواب دیا۔
”یہ بھی اچھا کیا۔۔ورنہ یہاں سب تمہارے استقبال کے لیے جانے کے شوق میں ہی ہلکان ہوجاتے۔۔” اُ س نے مسکرا کر کہا۔
”اس میں ہلکان ہونے والی کون سی بات ہے۔۔ ہم تو شوق سے جاتے۔۔” صفیہ فوراََ تڑپ کر بولی۔
میری حیرانی اب کم ہونے لگی تھی لیکن اندر جو ایک دھچکا لگا تھا اُس سے سنبھلنا ابھی باقی تھا۔دھیان بٹانے کے لیے میں ادھر ادھر دیکھنے لگا۔
”کیسا لگا گھر۔۔ اور یہ سب سجاوٹ میری ہی محنت ہے۔اُس نے فخریہ انداز سے مجھے بتایا۔
”اچھا !یہ ماربل تم نے لگایا۔۔۔” میں بے دھیانی میں بولا۔
”لو میں کیوں لگانے لگی۔یہ تو مستریوں کا کام ہے ۔ میرا مطلب ہے کہ ساز و سامان کا انتخاب اور یہ ایل سی ڈی ، یہ سب میں نے سجایا ہے ”۔ وہ بُرا مان گئی ۔
”اچھا۔۔ یہ سب تمھارا کارنامہ ہے۔” میں واقعی حیران ہوا۔
”لو اس میں اتنا حیران ہونے والی کیا بات ہے؟۔۔ کہیں تم یہ تو نہیں سوچ رہے کہ گاوؑں کی لڑکی نے یہ سب کیسے سوچا اور کروا لیا ۔۔؟؟ کسی غلط فہمی میں نہ رہنا ۔۔ اب سب کچھ بدل گیا ہے۔۔۔ وقت پہلے جیسا نہیں رہا۔۔ اب گاوؑں کی لڑکیوں میں بھی شعور آگیا ہے۔۔ ” اُس نے ادا سے چٹیا پیچھے پھینکتے ہوئے کہا۔
”ہاں۔۔واقعی ۔۔۔
سب کچھ بدل گیا ہے۔۔” میں نے ”سب کچھ”پر زور دیا۔
کہاں میں گاؤں کے خدو خال بدل جانے پر سوگ وار تھا اور یہاں تو” وہ ”بھی بدل چکی تھی بلکہ سب کچھ بدل چکا تھا۔ وہ کوثر جس کی نرم وملائم آواز میرے اندر ایک عجیب سا سکون اور پیار بھر دیا کرتی تھی اب کہیں نہیں تھی۔ وہ بہت پر اعتماد تھی، اُسے شعور جو آگیا تھا۔جس سے میرے سامنے ایک منٹ کھڑا نہیں ہوا جاتا تھا،اب میرے سامنے ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے بیٹھی تھی۔ میرے اندر توڑ پھوڑ جاری تھی ۔
ایک منٹ۔۔ کہیں آپ یہ تو نہیں سمجھ رہے کہ میں ایک روایتی دیہاتی مرد تھا جسے شرمائی لجائی لڑکیاں پسند تھیں یا جسے خاندان کی لڑکیوں کااپنے سامنے بولنا پسند نہیں تھا ۔
بہ خدا ایسی کوئی بات نہ تھی بلکہ مجھے اس کا تعلیم حاصل کرنا اور پر اعتماد ہونا اچھا لگا تھا ۔لیکن کچھ تھا جس نے میری یادوں کو دھندلا کر دیا تھا۔
شاید یہ تبدیلی مجھے پسند نہیں آئی تھی،یا شاید میں پرانے زمانے کا آدمی بن کر رہ گیا تھا۔ جسے امید تھی کہ جب وہ پانچ سال بعد اپنے گاؤں لوٹے گا تو سب کچھ ویسا ہی ہوگا۔گاؤں اور لوگوں سمیت کہیں کوئی بدلاوؑ نہیں آیاہوگا۔یا شاید میرے اندر تبدیلی قبول کرنے کا ظرف نہ تھا ۔لیکن وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلی ناگزیر عمل ہے ۔ ایک اٹل حقیقت ہے۔ اسے قبول کرنا ہی وقت کا تقاضا اور عقل مندی ہے ۔
کئی دفعہ ہم تبدیلی کو صرف اس لئے ٹھکرا دیتے ہیں کہ ہمیں اسے قبول کرنے کے لیے خود میں بھی تبدیلی لانی پڑتی ہے ۔ گاوؑں میں داخل ہوتے ہی وہاں کی فضا اور ہوا میں جو ایک غیر معمولی سے محسوسات تھے، وہ شاید اسی تبدیلی کے مرہونِ منت تھے جس نے مجھے پوری طرح اپنے حصا ر میں لے لیا۔
میں صفیہ اور ”اُسے ”حیران چھوڑ کر چاچا کے گھر سے نکل آیا لیکن میں نے ٹھان لیا تھا کہ مجھے اس بدلاوؑ کو اپنانا ہی ہوگا اور شاید خود کو بھی بدلنا ہوگاکیوں کہ تبدیلی کا دوسرا نام ہی زندگی ہے ۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

ساگ — عنیقہ محمّد بیگ

Read Next

اگر صنم خدا ہوتا — فہیم اسلم

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!