بی بانہ اور زوئی ڈارلنگ


اور یہ جنگ لڑتے لڑتے ایک وقت آیا، جب مجھے بی بانہ کے خیال سے ہی وحشت ہونے لگی اور جب بھی گھر میں، رشتے داروں یا دوستوں میں سے کوئی میری بہ جائے بی بانہ کا راگ الاپتا مجھ پہ اپنی گم شدگی ایک ہیجان خیز کیفیت طاری کر دیتی۔ اصل قلق تو مجھے پاپا کا تھا۔ پاپا، جو میرے آئیڈیل تھے جن کے دو میٹھے بولوں کے لیے میں ہر وہ کام کرتی جو انہیں پسند تھا۔ انہیں متوجہ کرنے اور ان کی محبت پانے کے لیے کتنے پاپڑ بیلتی مگر جونہی وہ متوجہ ہونے لگتے بی بانہ جانے کیسے چھم سے درمیان میں آکھڑی ہوتی۔ پاپا کی قربت کے لمحے ڈھونڈتے ڈھونڈتے میں تھک سی جاتی۔ میرے اور پاپا کے درمیان اس کی موجودگی مجھ پہ دیوانگی طاری کرنے لگتی۔ مجھے یوں لگنے لگا تھا جیسے میں وہ ننھا سا پودا ہوں جو ہوا اور روشنی ناکافی ہونے کی وجہ سے کسی گھنے درخت کے نیچے اپنی موت آپ مر رہا ہے۔ اور مجھے یوں چپ چاپ مر جانا گوارہ نہیں تھا سو میں اردگرد کی زہریلی جڑی بوٹیوں سے اپنی نموبچانے میں سرگرداں ہو گئی کہ بہرحال مجھے ”عدم“ہونا کسی طور پسند نہ تھا۔ مجھے پتا بھی نہ چلا کہ ان میں سب سے زہریلی بوٹی نفرت کی ہے۔ نفرت کی زہریلی بوٹی کے پتے میرے اندر کی گڑیا کو نیلا کرتے جارہے تھے۔ اس سے پہلے کہ میں نیلو نیل ہوتی میں نے راہِ فرار اختیار کرنے کا رستہ تلاش کرنا شروع کردیا۔

اس شام میں علی کے ساتھ ایم ایم عالم روڈ پہ واقع کافی شاپ میں کافی پی رہی تھی۔ میں فائنل سمسٹر سے اسی روز فارغ ہوئی تھی۔ علی دو روز پہلے ہمارے گھر آیا تھا اور سب گھر والوں نے یہ جان کر کہ وہ مجھے پروپوز کرنے والا ہے اس کو بے حد پسند کیا۔ اورخاص طور پہ پاپا اور بی بانہ۔۔۔۔۔ اور میں جو پاپا سے کبھی دور نہ جانا چاہتی تھی۔ علی ہی اب ایسا بندہ تھا جو مجھے اس تکلیف سے نکال نہ بھی پاتا، کم از کم دور ہی لے جاتا۔ اس لیے میرا اس کی طرف متوجہ ہونا اور یہاں اس سے ملنے آنا اسی راہِ فرار اختیار کرنے کی پہلی کڑی تھی۔

میں اسے یوں دیکھ رہی تھی جیسے کوئی اپنے نجات دہندہ کو دیکھتا ہے۔۔ ”تمہارے گھر والوں سے مل کے مجھے بہت اچھا لگا۔“وہ مسکراتی نظروں سے مجھے دیکھتے ہوئے بولا۔”اور بی بانہ۔۔۔۔“علی نے کرسی کی پشت سے سرٹکایا اور پھر ایک دم بولا ”ارے یار تم بی بانہ جیسی کیوں نہیں ہو۔۔۔۔۔۔“ اور مجھے لگا کسی نے کافی شاپ کی تمام گرم کافی میرے سر پہ انڈیل دی ہو۔ میرے جسم و جاں جھلسنے لگے۔ مجھے لگا میرا پورا جسم گرم پانیوں کی زد میں ہے اور چھا لوں سے اٹ گیا ہے۔ میں کیوں نہیں ہوں؟ میں کہاں ہوں؟ ہر طرف بی بانہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زہریلی بوٹیوں نے اپنا اثر دکھانا شروع کر دیا۔ میں نے گرم کافی کا مگ اٹھایا اور غصے سے اس کی طرف اچھالا اور وہ بھی میری نیت بھانپتے ہوئے مگ کے گرم پانی سے بھی زیادہ تیزی سے اچھلا ”ہے شٹ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ کیا کر رہی ہو تم۔ تم پاگل تو نہیں ہوگئیں۔۔۔۔۔۔ اُف۔۔۔۔ ہاتھ جلا دیا۔۔۔۔ سائیکو۔۔۔۔۔۔“ یہ آخری لفظ تھے جو میں نے سنے اورباہر نکل آئی۔ تب تیز تیز چلتے میں نے بد دعا کی ” یہ بی بانہ مر کیوں نہیں جاتی”۔ گویا سانپ نے کینچلی بدلی اور پرانی کھال وہیں پھینک کے پھنکارتا ہوایہ جا، وہ جا۔

ایک بار پھر مایوسیوں نے میرے اندر ڈیرے ڈال لیے اور میں اعلیٰ تعلیم کے لیے بیرون ملک جانے کو بہ ضدہو گئی۔۔ سب سمجھا بجھا کے تھک چکے تھے مگر میں جلد سے جلد اس سرخ دیواروں والی عمارت سے غائب ہونا چاہتی تھی۔ سرخ دیواروں والی عمارت جسے سب ”گھر“ کہہ رہے تھے۔ مجھے کہیں دور گم ہونا تھا اپنا ”ہونا“برقرار رکھنے کے لیے۔

اور تب انہی راتوں میں سے ایک رات بی بانہ شدید بیمار ہو گئی۔ سب کا رخ ہسپتال کی طرف تھا اور میں بے حسی کی بکل مارے سب کو آتا جاتا تکتی رہی۔
وہ تیسرا یا چوتھا روز تھا جب پاپا نے مجھے ہسپتال چلنے کو کہا اور میں زومبی بنی ان کے پیچھے ہو لی۔
پرائیویٹ روم کے بیڈ پہ لیٹی کوئی اور نہیں بی بانہ تھی۔ میں نے چور نگاہوں سے ان سبزی مائل سنہری کانچ جیسی آنکھوں کو دیکھا۔

”زوئی ڈارلنگ۔۔۔۔۔۔“ آواز تھی کہ گھنے جنگلوں میں گم شدہ تنہاغزال۔۔۔۔۔۔۔

میں نے نظر اٹھا کے حیف و نزار وجود کو دیکھا۔ آرٹسٹک مخروطی انگلیوں والا ہاتھ مجھے بلانے لگا۔ میں آہستہ سے چلتی بی بانہ کے قریب آئی اور کسی سنگی مجسمے کی طرح کے اپنے بے حس ہاتھ کو اس کے ہاتھ پہ رکھ دیا۔ سبزی مائل سنہری آنکھیں لبا لب بھر گئیں۔

“تو کیا واقعی بی بانہ مر جائے گی؟ “۔۔۔۔۔۔۔اس خیال کے آتے ہی میرے اندر سنا ٹا پھیلنے لگا۔ لمس کی حرارت بی بانہ کے ہاتھ سے میرے ہاتھ میں منتقل ہوتی میرے وجود میں منتقل ہونے لگی۔۔۔۔۔۔ یہ کیسی حرارت تھی جو کپکپی طاری کر رہی تھی۔ ٹھنڈ میرے ہاتھوں سے شروع ہوئی اور پورے جسم میں پھیل کر زہریلی بوٹیوں کا زہر چوسنے لگی۔

اس قدر سرد ہاتھ کس کے تھے؟ میرے یا بی بانہ کے؟ مجھے پورے ہوش و حواس کے ساتھ اس کی ٹھنڈ محسوس ہو رہی تھی کسی مکمل کہانی جیسی، کسی پرفیکٹ تصویر جیسی۔

اور۔۔۔۔ اور مجھے یاد ہے۔۔۔۔۔ بہت اچھی طرح یاد ہے کہ ہم دونوں میں سے کسی ایک کے ہاتھ ٹھنڈے یخ ہو چکے تھے۔ کوئی ایک ہم میں سے مر گیا تھا۔ جانے کون؟ ہاں۔۔۔۔۔۔۔! مگر کوئی ایک مرگیا تھا۔ میں یعنی زویا عرف زوئی ڈارلنگ مر چکی تھی یا مہربانو عرف بی بانہ۔۔۔۔۔۔ میری مما۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میری سگی ماں۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!!

٭٭٭٭

Loading

Read Previous

بھول

Read Next

دردِ دل

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!