بہاولپور کی کہانی
نواب صاحب
زاہدہ عروج تاج
زاہدہ عروج تاج صاحبہ ساہیوال میں پیدا ہوئیں اور آج کل بہاولپور مقیم ہیں۔ ایف اے تک روایتی تعلیم حاصل کرنے کے بعد مختلف شارٹ کورسز کیے، پھر جی ایچ کیو اسلام آباد میں دفاعی تربیت کے ساتھ دیگر کورسز میں حصہ لیا۔ 1993ء سے لکھنے کا آغاز کیا۔ مختلف رسائل میں بڑوں کے لیے افسانے اور نظمیں لکھیں۔ طویل وقفے کے بعد 2004ء میں بچوں کے لیے لکھنا شروع کیا۔ سینکڑوں کہانیاں لکھ چکی ہیں۔ الدعوة اکیڈمی شعبہ بچوں کا ادب سے پاکستان کی بہترین کہانی کار کا ایوارڈ بھی اپنے نام کرچکی ہیں۔
اس حقیقی کہانی کو کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزرا، لیکن جس ریاست کی یہ کہانی ہے وہاں کے لوگ آج بھی مزے لے لے کر سناتے ہیں۔ برصغیر پاک و ہند میں ایک ریاست، جس کا نام تھا بہاول پور!
نہایت خوش حال ریاست تھی۔ یہاں کے نواب صاحب بڑے جی دار تھے۔ وہ اپنی رعایا کا خوب خیال رکھتے۔ ان کے غم اور خوشیوں میں شریک ہوتے۔ لوگوں کی فلاح اور بہبودکے لیے ہمہ وقت تیار رہتے۔ تعلیم اور صحت کے بہتر معیار کے لیے اقدامات ان کی بہترین ترجیح تھی۔ اسی زمانے کی بات ہے کہ برصغیر میں مسلمانوں کے لیے ایک ا زاد اور خود مختار اسلامی مملکت کی آواز بلند ہوئی اور پھر یہ آواز ہر سو پھیل گئی۔
نواب صاحب کے ملکہ برطانیہ سے بہت اچھے تعلقات تھے۔ ایک دفعہ وہ انگلستان کی سیر کے لیے گئے۔انگلستان اس وقت بھی امیر اور ترقی یافتہ ملک تھا۔ ایک دن وہ لندن میں بون سٹریٹ پر عام شہریوں کی طرح گھوم پھر رہے تھے کہ ا ن کا گزر گاڑیوں کے ایک شو روم کے سامنے سے ہوا۔ وہ مشہور زمانہ رولز رائس گاڑیوں کا شو روم تھا۔ رولز رائس اس وقت کی سب سے مشہور اور مہنگی گاڑی تھی۔ نواب صاحب کی نظر شوروم میں موجود چمچماتی گاڑیوں پر پڑی۔ وہ اندر جانے لگے تو دروازے پر موجود گارڈ نے اُنہیں روکنے کی کوشش کی۔ نواب صاحب کے اصرار پر اس نے بہ غور اُن کا حلیہ دیکھا۔ مطلب یہ تھا کہ ایک عام سے انسان کا رولز رائس کے شو روم میں کیا کام؟ بہرحال نواب صاحب کے اعتما دسے گھورنے پر وہ دروازے سے ہٹ گیا اور وہ اندر چلے گئے۔ انہوں نے گاڑیاں دیکھیں اور ایک گاڑی کا ماڈل انہیں بہت پسند آیا۔ انہوں نے سیلز مین سے اس کی قیمت پوچھی۔ وہ رولز رائس کا نیا اور جدید ماڈل تھا جو کہ سب سے مہنگا تھا۔
”اس گاڑ ی کی کیا قیمت ہے؟” نواب صاحب نے پوچھا، مگر سیلز مین نے انہیں ایک عام ایشیائی آدمی سمجھ کر طنزیہ نظروں سے دیکھا اور کہا: ”تم یہ گاڑی نہیں خرید سکتے کیوں کہ تمہاری حیثیت نہیں ۔” اُس کا جواب سن کر نواب صا حب طیش میں آگئے۔
”میری حیثیت کیا ہے، اس بات سے تمہیں غرض نہیں ہونی چاہیے۔” انہوں نے ملازم کو غصے سے کہا۔ جواب میں ملازم بولا تو کچھ نہیں، مگراس نے عجیب سا منہ بنا کر ہونٹ سکیڑتے ہوئے کندھے اُچکائے۔ نواب صاحب کو کمپنی ملازمین کے رویّے پر پہلے ہی غصہ تھا۔ اب تو وہ اوربھی سیخ پا ہو گئے اور دل ہی دل میںکمپنی کو مزہ چکھانے کا ارادہ لیے ہوٹل واپس آگئے۔ نوابی خون ساری رات کھولتا رہا اور وہ کمپنی کو مزہ چکھانے کا سوچتے اور ٹہلتے رہے۔ آخرکار اُن کے ہونٹوں پر ایک پُراسرار مسکراہٹ اُبھری اور وہ سونے کے ارادے سے بیڈ روم کی جانب بڑھ گئے۔
اگلے روز نواب صاحب پورے شاہی پروٹوکول اور ملازمین کی فوج کے ساتھ شوروم پہنچے ۔ اس وقت شو روم میں چھے رولز رائس گاڑیاں موجود تھیں ۔نواب صاحب نے چھے کی چھے گاڑیاں خرید لیں۔ قیمت ادا کرنے کے لیے انہوں نے اپنا پاؤں میز پر رکھا اور جوتے میں سے ایک ہیرا نکال کر کمپنی کے نمائندے کو دیا۔ وہ ہیرا ان سب گاڑیوں کی قیمت سے بھی زیادہ مہنگا تھا۔ ایک روز پہلے آنے والے گاہک کو وہ معمولی ایشیائی سمجھے تھے اور آج وہ جس شان سے آیا تھا یہ دیکھ کر کمپنی کے ملازمین ہکا بکا رہ گئے اور ان کے ہاتھوں کے طوطے اُڑ گئے۔
سب گاڑیاں لمحوں میں خرید لینے اور رقم کی ادائیگی کے انوکھے انداز پر سب حیران تھے ۔ نواب صاحب گاڑیاں خرید کر واپس آگئے ۔گو اپنی حیثیت تو انہوں نے جوتے کے ایک ہیرے سے ہی باور کروا دی تھی، مگر آپ سوچ رہے ہوں گے اس سے کمپنی کو کیا مزہ چکھایا گیا؟ کمپنی کو تو فائدہ ہو گیا۔ اب سنیے! اپنی نوعیت کا یہ دل چسپ اور انوکھا انتقام تھا جس میں بچوں جیسی معصومیت بھی ہے۔
تو ہو اکچھ یوں کہ نواب صاحب نے گاڑیاں فوری طور پر اپنی ریاست بہاولپور بھجوائیں اور انہیں میونسپل کمیٹی کے حوالے کر دیا۔
کمیٹی کے عہدیداروں کو حکم دیا کہ ان گاڑیوں سے شہر کی صفائی اور کوڑا کچرا اُٹھانے کا کام لیا جائے۔ ہدایت کے مطابق عہدیداروں نے گاڑیوں کے آگے بڑے بڑے جھاڑو باندھے اور صفائی کا کام شروع کردیا۔
بہت جلد یہ خبر پوری دنیا میں پھیل گئی کہ دنیا کے نقشے پر ابھرنے والے ایک نئے ملک پاکستان میں رولز رائس گاڑیاں کوڑا اٹھانے کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔ اس خبر کے ساتھ ہی رولز رائس گاڑی کی مارکیٹ ڈاؤن ہونے لگی۔ اب ایسی مہنگی گاڑی کون خریدنا پسند کرے اور کون اس میں بیٹھنا چاہے گا جو کچرا گاڑی کے طور پر استعمال کی جاتی ہو بلکہ ہوا یہ کہ اب رولز رائس گاڑی کا نام سنتے ہی لوگ مذاق اُڑانا شروع کر دیتے۔ جو لوگ پہلے ہی سے رولز رائس گاڑی استعما ل کر رہے تھے وہ بھی حیران و پریشان ہوکر وقتی طور پرگاڑی کا استعمال ترک کر بیٹھے کیوں کہ جدھر سے گاڑی گزرتی لوگ اشارے کر کے وہی انوکھی خبر دہراتے اور قہقہے لگاتے۔
اس سے گاڑی کی اہمیت کم ہوئی، تو کمپنی مالک کے ہوش ٹھکانے آگئے۔ فوراً کمپنی کا ایک وفد نواب صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا۔ انہوں نے باضابطہ تحریری معافی مانگی اور درخواست کی کہ گاڑیوں سے یہ گندا کام لینا بند کر دیا جائے تو آپ کی نوازش ہو گی کیوں کہ آپ کے اس اقدام سے کمپنی کو بہت نقصان ہو رہا ہے۔ پھر پرانی گاڑیاں لے کر انہیں چھے نئی گاڑیاں تحفے میں دیں۔
نواب صاحب نے ان کی معذرت قبول کرتے ہوئے میونسپلٹی والوں کو حکم دیا کہ گاڑیوں کو اس کام سے ہٹا لیا جائے ۔ اس کے ساتھ انہوں نے کمپنی کے مالک کو اپنے ان اقدام کی وجہ بھی بتائی۔ نواب صاحب نے ان نئی ملنے والی گاڑیوں میں سے ایک گاڑی قائد اعظم محمد علی جناح کو تحفے میں دی۔ آپ کو بتاتے چلیں ان نواب صاحب کا نام ”نواب محمد خان عباسی ”تھا ۔آج بھی بہاولپور اور چولستان میں نواب صاحب کا یہ قصہ زبانِ زد عام ہے اور لو گ اس قصے کو دہراتے ہوئے مسکرانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔