جس شخص کی یہ سرگزشت ہے وہ اپنے قصبے کا امیر ترین اور بار سوخ دہقان تھا۔ اس کا نام تھورڈا دراس تھا۔ ایک دن وہ اپنے قصبے کے واحد پادری کے دارالمطالعہ میں گیا۔
”فادر! خدا نے مجھے ایک بیٹے سے نوازا ہے۔”
خوشی اور جوش اس کے سارے بدن سے ہویدا تھا۔
”میں چاہتا ہوں کہ آپ اس کو عیسائیت میں داخل کرنے کی رسم ادا کریں۔”
پادری مسکرایا:”اچھا مبارک ہو۔ اس کا نام کیا سوچا ہے؟”
”اس کا نام ہوگافن۔ میرے والد کے نام پر۔”
”تمہاری ناگہانی موت کی صورت میں اس بچے کی کفالت کے ضامن کون ہوں گے؟”
پادری نے پوچھا:
تھورڈ نے اسی قصبے میں رہنے والے اپنے قریبی رشتہ داروں میں سے چند معتبر نام بتادیے۔ پادری نے تھورڈ کے چہرے کی طرف دیکھا اور پوچھا:”اور کچھ؟”
زمیندار تھوڑا سا ہچکچایا اور بولا:”فادر میںآپ کو تعطیل والے دن تکلیف دینا چاہتا ہوں۔”
”اس کا مطلب ہے اس ویک اینڈ پر؟”
”ہاں! ہفتہ والے دن۔ دوپہر کے بارہ بجے۔”
”اس کے علاوہ کوئی اور بات؟”
”نہیں شکریہ فادر! اب اجازت چاہوں گا۔”تھورڈ نے انگلی پر ٹوپی گھماتے ہوئے کہا۔
”نہیں ایک آخری بات رہ گئی ہے۔”
پادری اپنی جگہ سے اٹھا۔ تھورڈ کے قریب ہو کر اس نے اپنے ہاتھ میں اس کا ہاتھ تھاما اور اس کی آنکھوں میں جھانک کر بردباری سے بولا:”خدا کے فضل سے تمہارا بچہ تمہارے لیے اس کی رحمت و برکت ثابت ہو گا۔”
سولہ سال کے بعد ایک دن پھر تھورڈ پادری کے دارالمطالعہ میں حاضر ہوا۔
”تمہاری صحت اور جوانی تو حیرت انگیز طور پر قائم ہے!”
حیران پادری کو تھورڈ کے جسم میں کوئی خاص تبدیلی دکھائی نہ دی۔
”کیوں کہ مجھے کوئی فکر و غم نہیں ہے اور میرا چھوٹا بیٹا بھی اب خوبصورت نوجوان بن چکا ہے۔”
تھورڈ ہنستے ہوئے بولا۔
پادری مسکرایا اور توقف کے بعد پوچھا:”آج تمہیں کون سی خوشی یہاں لے آئی ہے؟”
”کل گرجا میں نوجوانوں کی دینی تلقین و توثیق کی رسم ادا ہونے والی ہے۔ اس میں میرا بیٹا بھی شامل ہوگا۔”
تھورڈ چہکا:”فادر! میں اس وقت تک آپ کو نذرانہ پیش نہیں کروں گا جب تک آپ مجھے نہیں بتائیں گے کہ کل میرے بیٹے کی باری کون سے نمبر پر آئے گی؟”
”یقینا کل پہلی باری اس کی ہوگی!”
پادری نے ہنستے ہوئے کہا۔
”شکریہ فادر! یہ دس ڈالر میںآپ کی نذر کرتا ہوں۔”
تھورڈ نے دس ڈالر میز پر رکھ دیے۔
پادری اس کے چہرے کی خوشی دیکھتے ہوئے بولا:”میرے لائق اور کوئی خدمت؟”
”نہیں فادر اور کچھ نہیں۔”
اور تھورڈ پادری سے اجازت لے کر چلا گیا۔
آٹھ سال اور گزر گئے کہ ایک دن اچانک پادری کو اپنے کمرے کے باہر شور سنائی دیا۔ کافی سارے لوگ دارالمطالعہ کی طرف آرہے تھے اور سب سے پہلے داخل ہونے والا شخص تھورڈ تھا۔ پادری نے اوپر دیکھا اور تھورڈ کو فوراً پہچان گیا۔ تھورڈ بہت غصے میں دکھائی دیتا تھا۔
”آج بہت لوگوں کو ساتھ لے آئے ہو تھورڈ کیا بات ہے؟”
پادری نے پوچھا۔
”فادر میں آپ سے درخواست کرنے آیا ہوں کہ آپ میرے بیٹے پر پابندی لگائیں اور پابندی اپنے روزنامچے میں درج کر لیں۔”
تھورڈ تیزی سے بولا۔
”لیکن کیوں؟ وہ تو بہت فرماں بردار لڑکا ہے۔”
پادری حیران ہوا۔
”وہ کیرن سے شادی کرنا چاہتا ہے۔”
تھورڈ پھنکارا۔
”لیکن کیرن تو قصبے کی نفیس ترین لڑکی ہے۔”
”وہ بھی یہی کہتا ہے۔”
تھورڈ نے اپنے بالوں کو انگلیوں سے سنوارا۔
”میں اس رشتے کے لیے راضی نہیں ہوں۔”
پادری کچھ دیر سوچتا رہا۔ پھر اس نے کچھ کہے بغیر اپنے روزنامچے میں دونوں کے نام درج کر لیے اور نیچے تھورڈ اور گواہوں سے دستخط لے لیے۔ تھورڈ نے تین ڈالر میز پر رکھ دیے۔
”فیس تو صرف ایک ڈالر ہے۔”
پادری نے کہا۔
”میں جانتا ہوں، لیکن فادر وہ میرا اکلوتا وارث ہے، میں چاہتا ہوں یہ کام نہایت خوش اسلوبی سے ہو۔”
”بس فادر! ایک دفعہ اور آنا پڑے گا اور وہ آخری دفعہ ہو گی اس کی شادی کے سلسلے میں۔”
تھورڈ نے پادری کو خدا حافظ کہا اور باہر نکل آیا۔ تمام لوگ اس کے پیچھے آگئے۔
٭…٭…٭
کوئی دوہفتوں کے بعد دونوں باپ بیٹا ہنسی خوشی اپنی کشتی میں سوار کیرن کے گھر کی سمت رواں تھے۔ وہ کیرن کے والد سے مل کر شادی کی تاریخ اور تفصیلات طے کرنا چاہتے تھے۔ خوش گوار موسم اور حسین دن تھا۔ جھیل بھی بہت پر سکون تھی۔ باپ بیٹا باتیں کرتے ہوئے دھیرے دھیرے چپو چلا رہے تھے۔
”میری سیٹ کچھ ڈھیلی لگ رہی ہے۔”
بیٹے نے کہا اور اپنی سیٹ کو کسنے کے لیے کشتی کے تختے پر کھڑا ہوا۔ اچانک اسی لمحے تختے سے اس کا پائوں پھسلا۔ وہ توازن برقرار نہ رکھ سکا۔ اس نے سنبھلنے کے لیے ہاتھ اوپر اٹھائے۔ چیخ ماری اور پانی میں گر گیا۔ تھورڈ سپرنگ کی طرح اپنی جگہ سے اچھلا۔ اپنے چپو کو آگے کرتا ہوا چلایا۔
”بیٹا یہ چپو پکڑ لو!”
لڑکے نے چپو پکڑنے کی کوشش کی، لیکن آنکھوں میں پانی بھر جانے کے باعث چپو نظر نہ آیا۔ چند ایک دفعہ چپو پکڑنے کی کوشش کے بعد لڑکے نے ہمت ہار دی۔
”ایک منٹ ٹھہرو۔”
باپ چیخا اور چپو کی مدد سے کشتی کو بیٹے کی طرف دھکیلا۔
لیکن لڑکا کشتی سے کچھ دور آخری دفعہ پانی پر ابھرا، باپ پر آخری نظر ڈالی اور جھیل کی تہ میں بیٹھتا چلا گیا۔ تھورڈ کو یقین نہیں آیا۔ وہ سکتے میں آگیا۔ وہ مسلسل اس جگہ کو گھورتا رہا جہاں اس کا لخت جگر ڈوبا تھا۔ اس امید پر کہ شاید وہ ایک دفعہ پھر سطح آب پر آجائے۔ وہاں کچھ بلبلے پیدا ہوئے اور پھر کچھ اور بلبلے نکلے اور آخر کار ایک آخری بڑا بلبلا۔ جھیل پھر پرسکون اور آئینے کی طرح شفاف ہو گئی۔تین دن اور تین راتیں مسلسل بغیر کچھ کھائے پیے اور سوئے باپ بیٹے کے ڈوبنے کی جگہ کے گرد کشتی گھماتا رہا۔ وہ جھیل سے اپنے بیٹے کی لاش مانگ رہا تھا۔ چوتھے دن صبح کے وقت وہ اپنے بیٹے کی لاش ڈھونڈنے میں کامیاب ہو گیا۔ اس نے بیٹے کی لاش اپنے بازوئوں میں اٹھالی اور پہاڑوں میں اپنی جاگیر کی طرف چلا گیا۔
٭…٭…٭
اس واقعہ کے تقریباً ایک سال بعد کا ذکر ہے۔ ایک خزاں کی شام تھی۔ پادری نے اپنے دارالمطالعہ کی راہ داری میں کسی کی آہٹ سنی۔ پادری نے اٹھ کر دروازہ کھولا۔ ایک لمبا دبلا پتلا شخص اندر داخل ہوا۔ اس کی کمر جھکی ہوئی تھی اور تمام بال سفید تھے۔ پادری نے اس کو خاصی دیر غور سے دیکھا، تو پہچان پایا۔ وہ تھورڈ تھا۔
”خیریت تو ہے۔ اتنی دیر گئے۔ بہت کمزور ہو گئے ہو؟”
”ہاں فادر! کچھ زیادہ ہی دیر ہو گئی ہے۔”
تھورڈ بولا اور ایک کرسی پر بیٹھ گیا۔ پادری نے دوسری کرسی سنبھال لی۔ خاصی دیر دونوں خاموش بیٹھے رہے۔ ایک طویل خاموشی۔ آخر کار تھورڈ بولا:”میرے پاس کچھ رقم ہے جو میں اپنے بیٹے کے نام پر غریبوں کے لیے وقف کرنا چاہتا ہوں۔”
وہ اٹھا اور اس نے میز پر نوٹوں کی گڈیوں کا انبار لگا دیا اور پھر بیٹھ گیا۔
”یہ تو بہت زیادہ رقم ہے۔”
پادری حیرت زدہ رہ گیا۔
”یہ میری جاگیر کی قیمت ہے۔ میں نے آج اسے بیچ دیا ہے۔”
پادری خاصی دیر حیرت زدہ رہا۔ پھر بولا:
”اب تم کیا کرو گے؟”
”کوئی بہتر کام!”
وہ کچھ دیر اور خاموش بیٹھے رہے۔ تھورڈ کی آنکھیں زمین میں گڑی ہوئی تھیں اور پادری کی آنکھیں حیرت سے تھورڈ کو دیکھے جا رہی تھیں۔ پھر پادری نے آہستگی اور نرمی سے تھورڈ کو مخاطب کیا۔
”آخر کار تمہارا بیٹا تمہارے لیے خدا کی سچی رحمت و برکت ثابت ہوا۔”
”ہاں میرا بھی یہی خیال ہے۔”
تھورڈ نے سر اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھا۔ دو موٹے موٹے آنسو ڈھلک کر اس کے گالوں پر رک گئے۔
٭…٭…٭