اگر صنم خدا ہوتا — فہیم اسلم

اندھیروں کے سفر میںدور سے نظر آنے والی روشنی ۔۔۔۔اور گہرا ئیوں میں گرتے ہوئے دل کی بلند دھڑکنیں ، اُداسیوں میں کہیں دور سے آنے والی گونج ۔۔۔۔ اور تنہائی کی وحشت میں آنکھوں میں دبے ہوئے آنسو۔ کس لمحے میں اتنی سکت ہے کہ وہ بے سکت ہو جائے، کس خواہش کو سرِزندگی مرنے کی آرزو ہے۔ کس بند آنکھ میں زہر اگلتے سپنے سہنے کی ہمت ہے اور کھلی آنکھ میں کوئی زہر بھی کیسے بھر دے۔ دل کا سچ افسانہ ہے اور زبان کا سچ آج قتل۔۔۔۔ کچھ باتیں سوچ سے باہر ہو جاتی ہیں اور کچھ سوچیں باتوں کے بس میں نہیں رہتیں بالکل اسی طرح جیسے بارش سے برسنے والی بوند اور سگار کا دھواں یا پھر پھول کی مہکتی خوشبو۔
میری زندگی کے کچھ دن میری زندگی کا حیرت کدہ ہیں اور میری زندگی کے کئی سال کچھ بھی نہیں۔ بہت سی راتیں مجھے یاد نہیں مگر کچھ دن ایسے ہیں کہ اب شاید ان کی شام نہ ہو ۔۔۔۔ میں اپنے انصاف کے ترازو کو کئی سال تک متوازن نہ کر سکا۔۔۔۔ اونچ نیچ تو پلڑوں کی تھی مگر بھٹکنا تو مجھے ہی پڑا۔۔۔۔ یہ صبح شام تو رسمِ کائنات تھی مگر منزل کی تشنگی تو میری بڑھ گئی۔۔۔۔ میں ایک ہی نکتہ کے گرد اتنا گھوما کہ زمانہ مچل گیا۔۔۔۔ کئی سال صدیوں کے اعتبار سے میں نے بہار کی آرزو میں گزارے۔۔۔۔ کئی خوشیاں چاہت کے اعتبار سے میں نے گم کر دیں۔۔۔۔ کئی فیصلے قسمت کے اعتبار سے میں نے منظور کئے۔ صبح ہونے سے پہلے رات کی کڑی آزمائش صبر آزما تھی۔۔۔۔ اب زندگی میرے ساتھ ہے، اب پھولوں کی پتیاں میرے ہاتھوں قتل نہیں ہوتیں۔
میں نے بچپن سے ہی خدا سے اچھے دوستوں کو مانگا، میں صبح ہی سے چاندنی کی تلاش میں تھا، وقت تو تھا مگر زندگی نہیں تھی میرے پاس۔۔۔۔ جیسے خوشیاں تو تھیں مگر مقدر نہیں تھا میرے پاس۔۔یہی تو میری ناکامی تھی۔ میری زندگی نے کئی رخ تبدیل کئے۔مقدر کو میں بالکل اسی طرح الزام دیا کرتا تھا جیسے جلتے پاؤں تپتی دوپہر کو۔ کولہو کے بیل نے اپنے دائرے میں اتنے چکر کاٹے مگر رہا وہ ایک ہی جگہ۔۔۔۔ ساری زندگی ایک ہی مرکز کے گر دگھومنا کیسا ہو گا۔۔۔۔ مگر میں تو اس سے بھی بے بس تھا، وہ تو گھومتا رہا اور میں ایک ہی جگہ کھڑا قسمت کو کوستا رہا۔۔۔۔ کیسا مقدر تھا میرا بھی یا میں نے خود کر لیا تھا؟اس وقت زندگی کی ابتدا میں کس طرح مقدر نے میری پیروی کی۔۔۔ میں نے بہت سوچا بہت کوشش کی مگر کچھ سمجھ نہ پایا اور نتیجہ تھا مقدر کو الزام دیتے ہوئے میرے اشعار۔ دل کا لاوا جب بہ نکلا اور خود کو کھوکھلا محسوس کیا تو پھر جان گیا کہ جلتے پاؤں کا تپتی دوپہر کو کوسنا کتنا غلط ہے۔
تقدیر ہمارے ساتھ اکثر اس طرح نہیں کھیلتی جس طرح ہم سمجھتے ہیں ۔ ہم اپنی ناکامیوں اور مایوس دھڑکنوں کو تقدیر کے سپرد کر کے خود کو ضمیر کی شرمندگی سے بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔۔۔۔اور آخر کار قسمت کا فلسفہ میں نے کچھ اس طرح سے بدل دیا کہ جو خدا کی مدد سے بوئے گا وہ خدا کی مدد سے کاٹے گا۔۔۔۔ بات تو سیدھی تھی مگر تجربہ نیا۔
میں نے غالب کی طرح ہر تیز رو کو اپنا راہبر سمجھا کیوںکہ مجھے منزل تو نظر آتی تھی مگر میں راستہ نہیں جانتا تھا یا پھر میں راہبر کو جانتا نہ تھا۔ہر شمع مجھے طورِسینا میں جلتی دکھائی دی۔۔۔۔ ہر چراغ کی میں نے سورج سے برابری کی۔۔۔ ہر کنواں مجھے سمندر سے گہرا لگا۔۔۔۔ ہر دل مجھے کعبہ لگا۔۔۔۔ اور پھر ہر شمع بجھ گئی،سمندروں سے میرا ناتا ٹوٹ گیا اور کعبہ کا طواف میرے بس میں نہ رہا۔مندر اور کلیسا میں بھگدڑ مچ گئی۔ گماں پر بنائے مضبوط سہارے خود میرے کندھوں کا بوجھ بن گئے۔ اوپربادلوں کی نظر آنے والی مضبوطی دھواں نکلی۔ معلم طالب نکلے اور ستارے وہم۔۔۔ ۔۔۔۔
آ دھا راستہ میری منزل نہ تھا اور منزل کا راستہ نظر نہ آتا تھا۔ زندگی ارادوں کی اوٹ میں چھپتی جا رہی تھی۔ جب رات صبح کے اعتبار سے طویل ہو گئی۔۔۔ تو میں نے جان لیا کہ جب کسی کے گھر کی چھت اس کے قد سے نیچی رہ جائے تو پھر اسے چاہیے کہ پوری دنیا کو اپنا مسکن بنا لے۔۔۔۔ اب راستہ بدل لینا ہی مجھے سود مند نظر آیا۔ اس راستے کی تلاش شروع کی جس میں منزل دھندلی نہ ہو۔ کئی سال میں نے بھٹکنے کے اعتبار سے تلاش جاری رکھی، گو ایک ہی منزل کو نئے راستے میں تلاش کر نا ایسا لگا جیسے صحرا میں گم مسافر کو صدیوں کے بعد پانی مل گیا ہو۔
میں نے ایک سہارا لیا منزل تک پہنچنے کا۔۔۔ مجاز کا سہارا۔۔۔ محبت کا سہارا۔ اس کی اور اپنی خیالی دنیا میں میں نے کعبہ کے گرد اتنے طواف کئے کہ شاید میں کبھی نہ کر سکتا۔۔۔ اس دنیا میں میں نے آسمان کے رستے کو جان لیا۔۔۔میں یہ نہیں کہتا کہ اس دنیا کا سحر ہی ایسا تھا ہاں مگر حقیقت کو جھٹلانا بھی میرے بس میں نہیں۔۔۔اس دنیا کا ہر لمحہ میرا رہبر بنا اور بالآخر میں نے وہ تمام اصول اس سے ملے توازن کے توسط سے سیکھے، میں بہت مطمئن ہوں ۔۔۔۔ میرا شمار اب ”ہما” کی فہرست میں ہونے لگا ہے۔ میں اس کے نظر کرم کو کیسے بھول جاؤں۔ اس کے احساسات اس کی چاہتیں جو صرف میرے لئے ہیں میں نہیں بھلا پاؤں گا۔۔۔
میں اس تک پہنچنے کے لئے ہر راہ سے گزروں گا۔۔۔۔ چاہے مجھے راہ کی تعریف ہی کیوں نہ بدلنا پڑے۔۔۔۔ اور اس سے پہلے کے میں کوئی نیا دین اکبری پیش کرتا خدائے بلندوبالا کی پاک ذات نے مجھے دین الٰہی کا پابند کر دیا مگر ہجر اور وصل کی کمان نے مجھے تیر بنا رکھا ہے ۔۔۔۔ میرے دل کی گھٹن ۔۔۔۔ میرے سانسوں کی رکتی آہٹ۔۔۔۔ مجھ کو بے بس کر رہی ہے۔
دل و دماغ کی خالی سر زمیںکس با دِ نسیم سے مسرور ہے۔ یہ کس کی عبادت کا موسم آن پڑا ہے کہ اب دشت میں بھٹک جانا آسان ہے کہ اب بحر کی گہرائی میرے آنسو سے کم ہے۔
اور اگر صنم خداہوتا تو آج ساری دنیا خدا سے محروم ہو چکی ہوتی۔ میری آنکھوں کے سوا ہر طرف اندھیرا ہوتا۔۔۔۔ میری محفل کے سوا ہر سو مزار ہوتے۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

تبدیلی — ثناء شبیر سندھو

Read Next

دانہ پانی — قسط نمبر ۵

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!