اٹینڈنس — صباحت رفیق

عصر کا وقت تھا جب وہ دوستوں کے ساتھ کرکٹ کھیلنے کے لیے گھر سے نکلنے لگا ۔اُسے لان میں بیٹھکر تسبیح پڑھتے دادا ابو کی آواز سُنائی دی۔
”اسد بیٹا ! نماز کا وقت ہے پہلے نماز پڑھ لیتے۔پھر کھیلنے چلے جاتے۔”
”دادا ابو میں نماز پڑھتا ہوں تو میرے ذہن میں اتنے خیال آتے ہیں ۔ میرا دھیان ساری نماز میں اُدھر ہی رہتا ہے۔ جب ہمارا دھیان ہی اللہ کی طرف نہیں ہونا تو پھر نماز پڑھنے کا کوئی فائدہ؟ اس لیے اب میں نماز پڑھتا ہی نہیں ۔ ”اسدنے اُن کے قریب آتے ہوئے تفصیلی جواب دیا۔




یہ سُن کر دادا ابو چُپ ہو گئے کیوں کہ وہ جانتے تھے یہ صرف بہانے ہیں ۔ وہ جان چھوٹنے پہ خوشی خوشی کرکٹ کھیلنے گھر سے باہر نکل گیا۔
اب یہ روزانہ کا معمول بنتا گیا۔دادا ابو جب بھی اُسے نماز پڑھنے کے لیے کہتے وہ یہی جواب دیتا۔دن یوں ہی گُزرتے گئے۔ گرمیوں کی چھُٹیاں ختم ہوئیں اور نیا سمسٹر شروع ہوا۔ سر زُبیر نے کلاس کے پہلے دن ہی سب سٹوڈنٹس کو خبردار کیا۔
”میں اٹینڈینس پہ کوئی کمپرومائز نہیں کرنے والا۔پچیس نمبر مفت میں نہیں دے دوں گا۔ کلاس پارٹی سیپشن ، پریزنٹیشنز ، اسائنمنٹس کے ساتھ اٹینڈینس بھی ضروری ہے۔ اگر اٹینڈینس ہی کم ہوئی تو آپ کی باقی تینوں چیزیں کائونٹ نہیں کی جائیں گی۔”
وہ سارے سٹوڈنٹس جو باقی لیکچرز میں غائب رہتے تھے لیکن اب سر زُبیر کی کلاس میں موجود ہوتے۔ایک تو اُن کا سبجیکٹ اکنامکس تھا اور دوسرا اُن کا پڑھا نے کا طریقہ ایسا تھا کہ ایک دو سٹوڈنٹس کے علاوہ کسی کو بھی اُن کی سمجھ نہیں آتی تھی۔ وہ بس خالی ذہن منہ اُٹھا کے بیٹھے رہتے۔
مِڈ ٹرم ہوا تو بہت سارے کلاس فیلوز کے ساتھ اسد کے بھی پاسنگ نمبرز سے بھی کم نمبر آئے۔وہ تھوڑا پریشان ہو گیا لیکن پھر خود کو یہ کہہ کر تسلی دی کہ ابھی پریزنٹیشنز اور فائنل رہتے ہیں، میں اُن میں کور کر لوں گا لیکن یہ بھی محض خام خیالی رہی۔سر زُبیر نے باقی ٹیچرز کی طرح سبجیکٹ کے علاوہ کوئی ٹاپک دینے کی بجائے اپنے سبجیکٹ کے ہی ٹاپک دے دیے۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ سبجیکٹ کی تو اُسے خود سمجھ نہیں آئی تھی تو اب ساری کلاس کو کیا سمجھاتا۔اس میں بھی نمبر کم آئے۔اب اس کی ساری اُمیدیں فائنل سے تھیں، اس لیے وہ اُس کے لیے محنت کرنے لگا۔کرکٹ کھیلنے کی بجائے اب وہ عصر کے وقت اکنامکس پڑھتا نظر آتا۔
ایک دن دادا ابو مسجد سے آئے اور اُسے پڑھتا دیکھ کے اُس کے پاس بیٹھ گئے۔
”خیریت ہے؟ اب کرکٹ کھیلنے نہیں جاتے؟”
”کہاں خیریت ہے دادا ابو۔”اُس نے کتاب بند کرتے اُکتائے ہوئے لہجے میں کہا۔
”کیوں کیا ہوا ہے؟” دادا نے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔




”دادا ابواکنامکس کے سر ایسے پڑھاتے ہیں کہ اُن کی ذرا بھی سمجھ نہیں آتی۔اُن کی کلاس میں ہمارا دماغ ادھر اُدھر ہی بس گھومتا رہتا ہے۔مڈ میں پاسنگ نمبر بھی نہیں آئے۔پریزینٹیشن بھی اچھی نہیں ہوئی۔اب فائنلز میں اگر تھوڑے اچھے نمبر لے لوں تو پاس ہو سکتا ہوں ۔کچھ سمجھ نہیں آرہی لیکن پھر بھی لے کے بیٹھا ہوں کہ اس طرح شاید کچھ پلے پڑ ہی جائے۔”
”چلو کوئی بات نہیں ۔ اللہ تمہیں کام یاب کرے۔”دادا ابو نے اُسے دُعا دی اور وہ آمین کہتے دوبارہ کتاب کھول کے بیٹھ گیا۔
جب فائنل ہوئے وہ رزلٹ کا انتظار کرنے لگااور پھر وہ دن بھی آگیا جب اُس کا رزلٹ آنا تھا۔ڈرتے ڈرتے ماں باپ کی دُعائیں لے کے رزلٹ دیکھنے گیا۔دادا ابو اُس کے واپس آنے کا انتظار کرنے لگے۔ کچھ دیر بعد ہی وہ اُنہیں بہت خوش خوش گھر میں داخل ہوتا دکھائی دیا۔ اُنہوں نے اسے وہیں سے آواز لگا کر پوچھا:
”کیوں بھئی! پھر کیا بنا ہے رزلٹ کا؟”وہ بھاگتے ہوئے اُن کے پاس آتے اُن سے لپٹ کے بولا:
”دادا ابو رزلٹ تو اچھا آیا ہے، خوشی کی بات یہ ہے کہ میں اکنامکس میں پاس ہو گیا ہوں ۔”
”فائنل کی وجہ سے؟’ ‘ اُنہوں نے پوچھا۔وہ اُن سے الگ ہوتے ہوئے بولا۔
”نہیں دادا ابو! فائنل میں سے تو بس پاسنگ مارکس لینے میں کام یاب ہوا ہوں ۔سر نے جب دیکھا کہ میں نے محنت کی ہے اور فائنل میں پاس ہو گیا ہوں تو اُنہوں نے میری اٹینڈینس دیکھتے ہوئے مجھے فُل سیشنل مارکس دے دیے۔”یہ سُن کر دادا ابو بہت نرمی سے اُسے کہنے لگے:
”اسد بیٹا! بالکل ایسے ہی یہ زندگی ہمارے لیے امتحان ہے جس کا نتیجہ آخرت کے دن آئے گا۔امتحان کوئی بھی آسان نہیں ہوتا لیکن کوئی بھی طالب علم اُس کی تیاری کرنا نہیں چھوڑ دیتا۔جیسے تم نے اکنامکس کی سمجھ نہ آنے کے با وجود اُسے پڑھنے کی کوشش کی۔ تو تمہاری وہی محنت دیکھتے ہوئے تمہارے سر نے تمہیں اٹینڈینس کے نمبر دے کے پاس کر دیا۔”
اتنا کہہ کر وہ رُکے اور اسد کی طرف دیکھا جو بہت توجہ سے اُن کی بات سُن رہا تھا۔
وہ پھر کہنے لگے:
”تم ٹھیک کہتے ہو ۔ نماز میں ہمارا دھیان بار بار بھٹکتا ہے۔ دُنیاوی خیالوں میں ذہن اُلجھا رہتا ہے لیکن کیا ہم زندگی کے امتحان میں فیل ہونے کے لیے نماز پڑھنا چھوڑ دیں ؟تم نے اکنامکس پڑھنی تو چھوڑی نہیں۔ پھر نماز پڑھنا کیوں چھوڑ دی؟اصل مقصد پورا نہیں ہوتا،ذہن بھٹکتا ہے لیکن اٹینڈینس تو لگتی رہتی ہے نا؟کل قیامت والے دن جب ہمارے گُناہوں کا پلڑا بھاری ہو جائے گا ہم فیل ہونے کے قریب ہوں گے تو اللہ ہمیں پاس کرنے کے لیے ہماری محنت اور اٹینڈینس کو دیکھے گا،جیسے ایک اُستاد دیکھتا ہے۔اُس کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ اُس کا بچہ پاس ہو جائے۔ اسی طرح اللہ کی بھی یہی کوشش ہوتی ہے کسی طرح بھی اُس کے بندے پاس ہو جائیں ۔”
اسد شرمندہ سا اُن کی بات سُن رہا تھا۔وہ سوچنے لگا دادا ابو صحیح کہہ رہے ہیں۔ جب میں نے ایک دُنیاوی امتحان میںپاس ہونے کے لیے نا سمجھ میں آنے والا سبجیکٹ پڑھنا نہیں چھوڑا تو پھر میں نے زندگی کے امتحان میں نماز پڑھنا کیسے چھوڑ دی؟
”دادا ابو میں شرمندہ ہوں ۔میں نے اس بات کو پہلے سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی لیکن انشا اللہ میں آج سے ہی ساری نمازیں پڑھنے کی کوشش کروں گا، چاہے میرا ذہن بار بار بھٹکے لیکن میں نماز پڑھنا نہیں چھوڑوں گا۔میں زندگی کے امتحان میں پاس ہونے کے لیے اپنی اٹینڈینس ضرور پوری کروں گا۔”
اُسے اس یقین سے کہتے دیکھ کر دادا ابو مُسکرا دئیے کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ اُن کا بیٹا اب زندگی کے امتحان میں پاس ہونے کی ضرور کوشش کرے گا۔

٭…٭…٭




Loading

Read Previous

چلتا جا تُو الف نگر میں!

Read Next

عکس — قسط نمبر ۱۶ (آخری قسط)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!