امربیل — قسط نمبر ۶

”میں وہ پروفیشن چھوڑ چکی ہوں۔”
”لیکن میں چاہتا ہوں کہ اب تم میرے لیے وہی کرو جو تم پہلے اپنے لیے کرتی تھیں۔ اگر تمہاری وجہ سے مجھے کچھ فائدہ پہنچ جائے تو اس میں برا کیا ہے۔”
وہ اس کا چہرہ دیکھ کر رہ گئی۔
”پھر تم یہ سب کرنے والی اکیلی نہیں ہو، تم سفیر کی بیوی کو دیکھو، مجھے رشک آتا ہے اس بندے کی قسمت پر۔ وہ الو صرف بیوی کی وجہ سے اتنے بڑے ہاتھ مار رہا ہے اور وہ بھی کامیابی کے ساتھ بیورو کریسی میں کامیابی کا آدھا انحصار بیوی پر ہوتا ہے جس کی بیوی جتنی زیادہ خوبصورت اور سوشل ہوگی، وہ اتنی ہی جلدی کامیابی کی سیڑھیاں چڑھتا جائے گا۔”
وہ ناپسندیدگی سے اس کی فلاسفی سن رہی تھی۔
”تم سے شادی کی بنیادی وجہ یہی تھی کہ تم میں ایک غیر معمولی چارم تھا۔ میں تو خیر ہر عورت کو دیکھ کر اس پر فدا ہو جاتا ہوں مگر تمہارے سامنے میں نے ایسے مردوں کو بھی بچھتے ہوئے دیکھا جو عورتوں سے خاصا بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔”
”تو یہ محبت نہیں تھی؟” زارا کو پتا نہیں کیوں اس کی بات سے تکلیف پہنچی۔
”تم اور میں جس عمر میں ہیں، اس میں ٹین ایجرز والی احمقانہ قسم کی محبتیں تو نہیں ہوسکتیں۔ اس عمر میں بندہ بہت سوچ سمجھ کر محبت کرتا ہے وہ دیکھتا ہے کہ محبت کے بدلے میں اسے کیا مل سکتا ہے اور پھر ہی کوئی فیصلہ کرتا ہے۔” وہ اب اسے لیکچر دے رہا تھا۔
”اب دیکھو نا۔ تم نے بھی تو مجھ سے محبت کرتے ہوئے بہت کچھ دیکھا ہوگا۔” وہ اب اسے آئینہ دکھا رہا تھا۔ ”یہ دیکھا ہوگا کہ میرا کیریئر کیا ہے۔ میں کس فیملی سے تعلق رکھتا ہوں۔ دیکھنے میں کیسا ہوں۔ میرا اسٹیٹس کیا ہے۔ میرے ساتھ تمہاری زندگی کیسی گزرے گی۔ میں تمہیں کتنی سکیورٹی دے سکتا ہوں۔ کیسا مستقبل دے سکتا ہوں۔”
زارا کا چہرہ زرد ہوگیا۔
”اسی طرح میں نے بھی کچھ چیزیں دیکھی تھیں۔ تم خوبصورت تھیں مشہور تھیں۔ تمہیں مردوں کو ہینڈل کرنا آتا تھا اور مجھے ایسی ہی بیوی چاہیے تھی کیونکہ جس پروفیشن سے میں تعلق رکھتا ہوں وہاں ایسی ہی بیوی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اب محبت کا جہاں تک تعلق ہے تو ظاہر ہے محبت بھی ہے۔ آخر میں نے شادی کی ہے تم سے ویسے بھی میں جو کچھ حاصل کرنا چاہ رہا ہوں۔ یہ ہم دونوں کیلئے ہی ہے، کیا تم نہیں چاہتیں کہ ہمارے پاس اس جاب سے حاصل ہونے والی مراعات کے علاوہ بھی کچھ ہو۔ آخر اس جاب کے بل بوتے پر تو ہم زندگی کو انجوائے نہیں کرسکتے۔ میرا اور تمہارا جو لائف اسٹائل ہے وہ اس تنخواہ میں تو maintain نہیں کیا جاسکتا۔ تنخواہ تو دو دن میں ختم ہوجائے گی پھر مہینے کے اٹھائیس دن تم اور میں کیا کریں گے۔”
وہ اب اسے حقائق بتارہا تھا۔




”زندگی میں بہت کچھ حاصل کرنا چاہتا ہوں اور یقیناً تم بھی بہت کچھ حاصل کرنا چاہتی ہوگی۔”
وہ اس سے کہہ نہیں سکی کہ وہ ایک گھر، شوہر اور بچوں کے علاوہ اور کچھ نہیں چاہتی۔ کم از کم زندگی کے اس حصے میں۔ وہ بولتا جارہا تھا۔
”ان سب چیزوں کو حاصل کرنے کیلئے دولت ضروری ہے۔ اب دولت کیسے حاصل کی جاسکتی ہے یہ ہمیں پلان کرنا ہے۔ انسان کے ہاتھ میں پاور ہو تو پھر دولت کا حصول مشکل نہیں ہوتا اور میں بھی اپنی اسی پاور کو استعمال کرنا چاہتا ہوں۔”
وہ مایوس ہو رہی تھی۔
جہانگیر معاذ کی شخصیت کا ایک اور پہلو اس کے سامنے آرہا تھا۔
”سعید سبحانی سے ملنے والا وہ ہوٹل آئندہ چند سالوں میں کتنی مالیت کا ہوجائے گا اس کا شاید تم اندازہ بھی نہ کرسکو وہ شخص اس ہوٹل کو ایک دوسری جگہ کرنے والی انویسٹمنٹ کی وجہ سے بیچنے پر مجبور ہے اور میں چاہتا ہوں اس شخص کی کمزوری کا فائدہ اٹھاؤں اور تم یہ کام بخوبی کرسکتی ہو۔” وہ اب مسکراتے ہوئے زارا کو دیکھ رہا تھا۔ وہ مسکرا نہیں سکی۔
مگر اس نے وہی کیا تھا جو جہانگیر چاہتا تھا جہانگیر نے سعید سبحانی سے اس کی ملاقات کروا دی تھی اور زارا نے اپنی خوبصورتی کا بھرپور استعمال کیا تھا۔ اگلے کئی ماہ سعید سبحانی کے ساتھ اس کی ملاقاتیں جاری رہیں۔ ملاقاتیں کس کس حد کو پار کرتی رہیں۔ جہانگیر اس سے بے خبر نہیں تھا مگر زارا کو اس اطمینان پر حیرت ہوئی، وہ صرف اس بات پر خوش تھا کہ سعید سبحانی بالآخر یہ ہوٹل جہانگیر کو بیچنے پر تیار ہوگیا بلکہ مارکیٹ پرائس سے کم پرائس پر جہانگیر کے پاس اس ہوٹل کو خریدنے کیلئے روپیہ کہاں سے آیا تھا وہ یہ بھی نہیں جانتی تھی مگر وہ یہ ضرور جانتی تھی کہ یہ روپیہ وہ اپنی تنخواہ میں سے بچا سکتا تھا نہ ہی اس نے کسی سے قرض لیا تھا۔
سعید سبحانی کے ساتھ جس دن اس نے اس ہوٹل کا سودا کیا تھا اور امریکہ میں رہائش پذیر اپنے ایک دوست کے نام پر وہ جائیداد خریدی تھی۔ اس دن اس نے زارا کو ہیروں کا ایک قیمتی ہار تحفہ کے طور پر دیا تھا۔ زارا کو پہلی بار اس کا کوئی تحفہ لے کر خوشی نہیں ہوئی۔ وہ جانتی تھی یہ تحفہ نہیں قیمت ہے اس کام کی جو اس نے جہانگیر کیلئے کیا تھا اور جو اب اسے بار بار کرنا پڑے گا۔
اس کا اندازہ ٹھیک تھا۔ وہ ہوٹل صرف پہلا قدم تھا اور پہلا قدم اٹھانے کے بعد جہانگیر معاذ کو روکنا بہت مشکل تھا زارا لندن کی تقریبات کا ایک بہت مقبول نام بن گئی تھی ایسا نام جس کے بارے میں صرف اچھی باتیں ہی نہیں اور بھی بہت کچھ کہا جاتا تھا۔
جہانگیر کا اس کے بارے میں اندازہ بالکل ٹھیک تھا، وہ واقعی غیرمعمولی کشش رکھتی تھی اور بہت جلد اس نے سفارت خانے کے تمام آفیسرز کی بیویوں کو بہت پیچھے چھوڑ دیا تھا مگر وہ اس سب سے بہت خوش نہیں تھی جہانگیر سے شادی کرتے وقت اس نے ایسی زندگی گزارنے کا خواب نہیں دیکھا تھا۔ وہ اسٹیٹس بھی برقرار رکھنا چاہتی تھی۔ اسے جہانگیر سے دلچسپی بھی اس کے کیریئر اور فیملی کی وجہ سے ہوئی تھی مگر اس کے باوجود ان کی چیزوں کی جو قیمت اسے ادا کرنی پڑ رہی تھی وہ بہت زیادہ تھی۔
وہ بنیادی طور پر اس چمک دمک سے بیزار ہوچکی تھی اور عمر کی پیدائش ان چیزوں سے نجات کی ایک کوشش تھی، اس کا خیال تھا کہ بچے کی پیدائش جہانگیر کو بدل دے گی، جہانگیر کی پیسے کیلئے ہوس میں کمی آجائے گی یا کم از کم وہ پیسے کے حصول کیلئے اسے استعمال کرنا چھوڑ دے گا۔
مگر اس کا اندازہ غلط تھا۔ جہانگیر یہ جاننے پر کہ وہ امید سے ہے۔ بہت مشتعل ہوگیا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ وہ اپنے کیریئر کی اس اسٹیج پر بچے جیسی کوئی مصیبت پالنا نہیں چاہتا مگر زارا کم از کم اس معاملے پر اس کے دباؤ میں نہیں آئی تھی۔ جہانگیر کی دھمکیوں کے باوجود اس نے ابارشن نہیں کروایا تھا اور بالآخر جہانگیر اس کی اس ضدکے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوگیا تھا۔
عمر کی پیدائش پر زارا بے حد خوش تھی کیونکہ اس کا خیال تھا کہ اب جہانگیر اسے پہلے کی طرح استعمال نہیں کرے گا اور وہ مطمئن ہو کر اس طرح اپنے بچے کی پرورش کرسکے گی جیسا وہ چاہتی تھی۔ عمر کی پیدائش کے کچھ عرصہ بعد تک وہ واقعی بہت اطمینان اور سکون کے ساتھ تقریبات میں شرکت کیے بغیر زندگی گزارتی رہی مگر جہانگیر آہستہ آہستہ ایک بار پھر اسے وہیں لے آیا تھا اور پہلی بار زارا کو اندازہ ہوا کہ عمر جہانگیر کے پیروں کی زنجیر نہیں بنا خود اس کے پیروں کی زنجیر بن گیا تھا۔
فطری طور پر وہ عمر کے بہت قریب تھی اور جہانگیر کے ساتھ تقریبات میں جاتے ہوئے وہ سارا وقت اس کے بارے میں فکر مند رہتی۔ جہانگیر نے اس کی پیدائش کے فوراً بعد ہی عمر کو گورنس کے سپرد کردیا تھا اور زارا کے لاکھ احتجاج کے باوجود بھی وہ اسے ہٹانے پر تیار نہیں ہوا۔
اگلے کچھ سال زارا نے شدید ڈپریشن میں گزارے تھے۔ وہ مکمل طور پر اس زندگی سے تنگ آچکی تھی جو وہ جہانگیر کے ساتھ گزار رہی تھی۔لاکھ کوشش کے باوجود بھی وہ عمر کے ساتھ وقت گزارنے میں ناکام رہتی تھی اور یہ بات اس کے ڈپریشن میں اور اضافہ کرتی تھی۔
شاید وہ اس سب کے ساتھ کسی نہ کسی طرح سمجھوتا کرتے ہوئے زندگی گزارتی رہتی مگر جس چیز نے اسے مشتعل کردیا تھا وہ جہانگیر کی ایک دوسری عورت میں لی جانے والی دلچسپی تھی۔ زارا کچھ عرصہ تک یہ سب نظر انداز کرتی رہی کہ ساتھ گزارے جانے والے دس سالوں میں اس نے جہانگیر کی زندگی میں بہت سی عورتیں آتی اور جاتی دیکھی تھیں اور وہ ان کے بارے میں فکر مند نہیں ہوتی تھی مگر ثمرین نام کی وہ لڑکی جہانگیر کی زندگی میں کس حد تک شامل ہوچکی تھی، اس کا اندازہ اسے کبھی نہیں ہوا۔ جہانگیر نے اسے مکمل طور پر ثمرین سے بے خبر رکھا تھا۔ وہ ایک ریٹائرڈ بیورو کریٹ کی بیٹی تھی۔ جہانگیر کے ساتھ اس کی ملاقات کب اور کہاں ہوئی۔ زارا نہیں جانتی تھی مگر جب اسے ثمرین کے وجود کا پتا چلا تھا تو زندگی میں پہلی بار وہ اپنی شادی کے اس فیصلے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنے پر مجبور ہوگئی تھی۔
اس کے پاس اب ایک دوسرا راستہ تھا۔ جہانگیر کے ساتھ لڑنے جھگڑنے کے بجائے اس نے اپنے بھائی کے پاس جانے کے بعد جہانگیر سے طلاق کیلئے مقدمہ کردیا تھا۔ جہانگیر کیلئے یہ ایک بہت بڑا جھٹکا تھا اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ زارا کبھی اس سے طلاق مانگ سکتی ہے وہ خود بھی ثمرین کی محبت میں گرفتار ہونے کے باوجود زارا کو طلاق نہیں دینا چاہتا تھا۔زارا دس سالوں میں صحیح معنوں میں سونے کی چڑیا ثابت ہوئی تھی اور شاید اگلے کئی سال وہ اس کیلئے اتنی ہی فائدہ مند ہوتی جبکہ ثمرین خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ کم عمر تھی اور جہانگیر جانتا تھا کہ وہ زارا کی طرح مردوں کو لبھا نہیں سکتی۔
اس نے زارا سے رابطہ کیا تھا مگر وہ کسی بھی صورت واپس آنے پر تیار نہیں تھی۔ ”میں دوسری شادی کرنا چاہتی ہوں۔ تم بھی دوسری شادی کرلو ہم دونوں خوش رہیں گے۔”
وہ اس کے الفاظ پر دنگ رہ گیا تھا۔ اس کے بعد جتنی دفعہ بھی اس نے زاراسے رابطہ کیا تھا اس کی زبان پر یہی سب کچھ تھا۔ وہ عمر کو اپنی کسٹڈی میں لینا چاہتی تھی مگر جہانگیر کے ساتھ کسی سمجھوتے پر تیار نہیں تھی۔ جہانگیر کو اس کی ضد نے مشتعل کردیا تھا۔
”ٹھیک ہے، تم طلاق لے لو مگر عمر کو میں کسی بھی صورت تمہیں نہیں دوں گا۔” اس نے زارا سے کہا تھا۔
طلاق کے بعد زارا نے اپنے بھائی کے ایک بڑی عمر کے ایرانی دوست کے ساتھ شادی کرلی تھی اور یہ شادی بے حد کامیاب رہی تھی۔ اس کے دوسرے شوہر کی پہلی بیوی کا انتقال ہوچکا تھا اور اس کی بیٹی کی شادی ہوچکی تھی۔ زارا سے شادی کے بعد ان کے ہاں دو بیٹے ہوئے۔ وہ اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ لندن میں سیٹلڈ تھی اور بہت پرسکون زندگی گزار رہی تھی مگر اس کے باوجود اس نے کبھی بھی عمر کو فراموش نہیں کیا۔ جہانگیر نے عمر کو ایک بورڈنگ میں داخل کروا دیا اور زارا کوشش کے باوجود عمر سے ملنے یا اسے دیکھنے میں ناکام رہی مگر اس سب کے باوجود وقتاً فوقتاً اسے کچھ نہ کچھ بھجواتی رہتی جو زیادہ تر جہانگیر کے ہاتھ لگتا اور وہ اسے ضائع کردیتا۔
جہانگیر نے اسے طلاق دینے کے کچھ عرصہ بعد ہی ثمرین سے شادی کرلی تھی اور ثمرین کو کوشش کے باوجود وہ زارا کی طرح استعمال نہیں کرسکا وہ صرف ایک اچھی بیوی اور ماں ہی بن سکتی تھی۔ عمر کے ساتھ اس کے تعلقات سرد رہے نہ بہت خوشگوار اس کی وجہ یہ تھی کہ عمر ہمیشہ بورڈنگ میں رہا۔
اپنی تعلیم مکمل کرنے کے دوران اور بعد میں انگلینڈ میں جاب کے دوران بہت دفعہ زارا نے عمر سے رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر عمر نے کبھی بھی اس سے جوابی رابطہ نہیں کیا وہ ماں سے محبت کرنے کے باوجود بچپن سے باپ کے دباؤ پر ماں سے ملنے سے انکار کرتا رہا حتیٰ کہ کورٹ میں کسٹڈی کیس کے دوران بھی اس نے ماں سے ملنے سے انکار کردیا۔ بچپن میں چند بار ماں کی طرف سے ملنے والے کچھ تحائف اور کارڈ وصول کرنے کے بعد جہانگیر کی طرف سے اٹھایا جانے والا ہنگامہ اسے ہمیشہ یاد رہا تھا اور غیر محسوس طریقے سے وہ اس ہنگامہ سے بچنے کی کوشش کرتا رہا۔
***
چند گھنٹوں کے بعد وہ این جی او کے کچھ لوگوں کے ساتھ سیالکوٹ کے ایک قریبی گاؤں میں تھے۔ گاؤں میں وہ سیدھا اس حویلی میں گئے تھے۔ جہاں ان کے رہنے کا انتظام کیا گیا تھا۔ کچھ دیر ان لوگوں نے وہاں آرام کیا اس کے بعد ان لوگوں کو این جی او کے زیرانتظام چلنے والے ایک اسکول میں لے جایا گیا۔
علیزہ کو وہاں موجود بچوں کی تعداد دیکھ کر بہت حیرت ہوئی تھی۔ وہ اسکول گاؤں کے ہی ایک شخص کے گھر میں قائم کیا گیا تھا۔ جہاں اس شخص کی بیٹی دو شفٹوں میں بچوں کو تعلیم دیتی تھی۔
” اس گاؤں میں چند سال پہلے تک گورنمنٹ کی طرف سے قائم شدہ ایک سکول بھی تھا۔ ایک دفعہ سیلاب کے دوران اسکول کی چار کمروں پر مشتمل عمارت بہہ گئی۔ بعد میں گورنمنٹ نے دوبارہ اسکول قائم کرنے کی زحمت نہیں کی۔ بنیادی وجہ یہ تھی کہ اسکول آنے والے بچوں کی تعداد بہت کم تھی۔ گورنمنٹ کا خیال تھا کہ قریبی گاؤں میں موجود اسکول بھی دونوں گاؤں کی ضرورت پوری کرسکتا ہے۔”
ان لوگوں کے گروپ کے ساتھ چلنے والے گائیڈ نے ساتھ چلتے ہوئے انہیں بتانا شروع کیا۔
”گاؤں والوں نے اس لیے اس پر اعتراض نہیں کیا کیونکہ وہ پہلے ہی یہاں اسکول کی موجودگی کو ناپسند کر رہے تھے۔ انہوں نے خس کم جہاں پاک کے مصداق اس اقدام پر شکر ادا کیا۔ یہ صرف اسی گاؤں میں نہیں ہوا آس پاس کے بہت سے علاقوں میں ایسا ہی ہوتا آرہا تھا۔ لڑکوں کو پڑھانے پر تو یہاں کے لوگوں میں پھر بھی کچھ آمادگی پائی جاتی تھی مگر لڑکیوں کے پڑھانے کے بارے میں بات بھی کرنے پر یہ لوگ سر پھاڑنے کیلئے اٹھ کھڑے ہوتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اس طرح نہ صرف ان کے علاقے کی روایات ختم ہوجائیں گی بلکہ عورتیں منہ زور ہوجائیں گی اور گھر کے مردوں کی حکمرانی ختم ہوجائے گی۔”
علیزہ دلچسپی سے گفتگو سن رہی تھی۔
”آپ لوگ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ان لوگوں کے گھروں میں جاکر انہیں اپنی بات سننے کیلئے تیار کرنا کتنا مشکل کام تھا اور اس سے بھی مشکل کام اس علاقے میں کوئی تبدیلی لانا تھا۔ ہماری ورکرز نے یہاں شام چھ بجے سے رات نو بجے تک بھی گھر گھر پھر کر کام کیا۔ اب آپ نتیجہ دیکھ سکتے ہیں یہ اسکول اس علاقے میں چلنے والا واحد اسکول نہیں ہے آپ یہاں جس گاؤں میں بھی جائیں گے۔ آپ کو اس طرح کا کوئی نہ کوئی اسکول کام کرتا ضرور ملے گا اور صرف اسکول ہی نہیں ہوگا بلکہ وہاں بچوں کی اچھی خاصی تعداد تعلیم حاصل کرتی بھی پائی جائے گی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اب ان اسکولوں کو قائم کرنے میں بنیادی ہاتھ یہاں کے لوگوں کا ہوگیا ہے۔ وہ خود ہی اس کیلئے عمارت اور دوسری چیزوں کا انتظام کردیتے ہیں۔ یہاں تک کہ بعض دفعہ ہمیں ٹیچر کیلئے بھی بھاگ دوڑ نہیں کرنی پڑتی کچھ گاؤں میں ایسا بھی ہوا کہ ایک اسکول میں جب بچوں کی تعداد زیادہ ہونے لگی تو گاؤں والوں نے خود ہم سے ایک دوسرے اسکول کے قیام میں مدد کی درخواست کی۔”
گروپ میں موجو باقی لوگ بھی اس طرح دم بخود اس شخص کی باتوں کو سن رہے تھے۔
”تو ہم بنیادی طور پر جس چیز کو کرنے میں کامیاب ہوئے وہ لوگوں کی سوچ میں تبدیلی تھی۔ اس وقت 95ء ہے ہمارا اندازہ ہے کہ 2000ء تک ہم اس علاقے میں لٹریسی کا تناسب بہت زیادہ کردیں گے۔ 95ء سے 2000ء تک کے ان پانچ سالوں میں ہم اس علاقے کے لوگوں کی سوچ میں مزید تبدیلیاں لائیں گے اور شاید پانچ سال بعد اس علاقے کو دیکھ کر آپ کو یقین نہیں آئے گا کہ کبھی یہ علاقہ اپنی ناخواندگی کی وجہ سے مشہور تھا۔
تعلیم کے علاوہ یہاں آمدنی کے ذرائع بڑھانے کیلئے ہم نے ان فیکٹریز سے رابطے کیے جو یہاں سے گھروں میں سلے ہوئے فٹ بال منگواتی تھیں۔ یہاں عورتوں کیلئے یہ ممکن نہیں ہوتا تھا کہ وہ ان فیکٹریز میں جا کر وہاں فٹ بال سیئیں اور اس طرح کچھ بہتر معاوضہ حاصل کریں، لیکن ہم نے ان فیکٹریز کو مجبور کیا کہ وہ ان علاقوں میں اپنے سنیٹرز قائم کریں جہاں یہ عورتیں کام کریں اور اس طرح نہ صرف اچھا معاوضہ حاصل کرسکتی ہیں بلکہ انہیں اپنے گھر سے بہت دور بھی نہیں جانا پڑے گا۔ شروع میں اس کام میں بھی ہمیں بہت پرابلم ہوا کیونکہ زیاہ تر علاقے بارڈر ایریاز ہیں اور فیکٹریز یہاں اپنے سنیٹرز قائم کرنے کو تیار نہیں تھیں کیونکہ بارڈرز پر ٹینشن کے زمانے میں نہ صرف یہ علاقے خالی کروا لیے جاتے بلکہ ان سنیٹرز کو بھی بند کرنا پڑتا لیکن پھر آہستہ آہستہ کچھ بڑی فیکٹریز نے ہم لوگوں کے دباؤ کے تحت یہاں سنیٹرز قائم کیے۔”
***




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۵

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۷

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!